◈ امامت کا حق دار کون ہے؟
❀ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’لوگوں کا امام وہ ہونا چاہیے جو ان میں سب سے زیادہ قرآن اچھی طرح جانتا ہو اور اگر قراءت میں سب برابر ہوں تو پھر وہ امامت کرائے جو سنت کو سب سے زیادہ جانتا ہو۔ پھر اگر سنت کے علم میں سب برابر ہوں تو امام وہ ہوگا جس نے ہجرت پہلے کی ، اگر اس میں بھی وہ سب یکساں ہوں تو پھر جو اسلام پہلے لایا۔ اور بلا اجازت کوئی شخص کسی کی جگہ امامت نہ کرائے اور نہ کسی کے گھر میں صاحب خانہ کی مسند پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھے ۔‘‘
صحيح مسلم، کتاب المساجد ، رقم: ٩٧٣۔
◈ بچے کا امامت کرانا:
مندرجہ بالا شرائط چھوٹے سمجھ دار بچے میں پوری ہوں تو اسے امام بنایا جا سکتا ہے۔ سید نا عمرو بن سلمہؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے قبیلے میں سب سے زیادہ قرآن مجھے یاد تھا، پس مجھے امام بنایا گیا حالانکہ میری عمر سات سال تھی ۔
صحیح بخاری ، کتاب المغازي ، رقم: ٤٣٠٢۔
◈ نابینے کی امامت:
مذکورہ بالا شرائط کسی معذور آدمی میں ہوں تو اسے امام بنانا چاہیے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے سید نا عبد اللہ بن اُم مکتومؓ کو امام مقرر کیا تھا۔ حالانکہ وہ نابینا تھے۔
سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة ، رقم : ٥٩٥ صحيح ابن حبان، رقم : ۳۷۰۔ ابن حبان نے اسے ’’صحیح‘‘اور شیخ البانی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔
◈ غلام کی امامت:
غلام ابھی امامت کرا سکتا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب مہاجرین کی ایک جماعت قبا میں اکٹھی ہوگئی اور رسول اللہ ﷺ ابھی مدینہ تشریف نہیں لائے تھے ، تو ابو حذیفہؓ کا غلام سالم ان کی امامت کراتا تھا۔
صحیح بخاری، كتاب الأذان، رقم : ٦٩٢.
◈ افضل کی مفضول کے پیچھے نماز :
افضل کا مفضول کے پیچھے یعنی بڑے عالم کا اپنے سے چھوٹے عالم کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ فرماتے ہیں:
’’ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نماز فجر سے پہلے قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے ، میں بھی پانی کا برتن اٹھائے ہوئے آپ ﷺ کی معیت میں تھا ، جب رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لائے تو ہم نے دیکھا کہ لوگ عبد الرحمٰن بن عوفؓ کی امامت میں نماز پڑھ رہے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت لوگوں کے ساتھ ادا کی ، پھر جب عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے سلام پھیرا تو آپ ﷺ نے دوسری رکعت کھڑے ہو کر ادا کی ۔‘‘
صحیح مسلم، كتاب الصلاة، رقم : ٢٧٤- بعد الحديث : ٤٢١ –
◈ مقرر امام کی جگہ جماعت کروانا:
کسی مقرر امام کی جگہ اس کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر جماعت کروانا جائز نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
﴿لا يومن الرجل الرجل فى سلطانه إلا بإذنه .﴾
صحيح مسلم، کتاب المساجد، رقم : ٦٧٣۔
’’کوئی شخص کسی کی مقرر کردہ جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر ہرگز امامت نہ کرائے ۔‘‘
◈ امام کے فرائض اور ذمہ داریاں:
➊ امام کمزوروں اور ضرورت مندوں کا خیال رکھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص لوگوں کی جماعت کرائے ، تو اسے مختصر جماعت کرانی چاہیے ، کیوں کہ اس کے پیچھے کمزور ، بوڑھے اور ضرورت مند ہوتے ہیں۔‘‘
صحیح بخاری ، کتاب الأذان، رقم: ٧٠٤- مسلم، رقم: ٤٦٦۔
کوئی مسئلہ در پیش ہو تو نماز مختصر کر دینی چاہیے ۔ رسول اللہ ﷺ بچے کے رونے کی وجہ سے بھی نماز مختصر کر دیتے تھے۔
صحيح بخاري، كتاب الأذان ، رقم: ۷۰۸- صحيح مسلم، رقم: ٤٧٠/١٩٢.
اعتدال و اطمینان کے ساتھ نماز پڑھانی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارکان میں اطمینان نہ کرنے والے شخص سے کہا تھا:
’’تیری نماز شمار نہیں ہوئی ۔‘‘
صحیح بخارى، كتاب الأذان ، رقم: ۳۹۴۔
امام نماز سے قبل صفیں درست کرائے اور مقتدیوں کو ترتیب دے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نماز سے پہلے کیا کرتے تھے۔
صحیح مسلم، رقم: ۳۹۷.صحيح بخارى، كتاب الأذان، رقم : ٨٦٠ صحیح مسلم، کتاب المساجد،م رقم: ٦٥٨.
◈ مردوں کی امامت مرد ہی کرائے :
مردوں کی امامت مرد ہی کروائے۔ چنانچہ انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک دن ان کی نانی ملیکہؓ نے رسول اللہ ﷺ کو کھانے پر بلایا جو انہوں نے آپ کے لیے تیار کیا تھا۔ آپ نے ان کی ضیافت کا کھانا تناول فرمایا، پھر کہا:
﴿قوموا فلا صلى لكم .﴾
’’اُٹھو تا کہ میں تمہیں نماز پڑھاؤں۔‘‘
سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ میں ایک چٹائی لے آیا جو زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے سیاہ ہو چکی تھی ۔ میں نے اس پر پانی چھڑ کا، تو آپ ﷺ اس پر کھڑے ہو گئے ۔ میں اور ایک یتیم نے آپ کے پیچھے اور میری بوڑھی نانی نے ہمارے پیچھے صف بنائی۔ آپ نے ہمیں دور کعتیں پڑھا ئیں ، پھر آپ تشریف لے گئے ۔
◈ عورت مردوں کی امامت نہیں کروا سکتی :
عورت مردوں کی جماعت نہیں کروا سکتی ۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
’’جب کوئی عورت مردوں، عورتوں اور لڑکوں کو نماز پڑھائے تو عورتوں کی نماز تو کفایت کرے گی لیکن ، مردوں اور لڑکوں کی نماز کفایت نہیں کرے گی ۔ اس لیے کہ اللہ عزوجل نے مردوں کو عورتوں پر قوام و حاکم بنایا ہے اور عورتیں ولی وغیرہ بننے سے معذور ہیں اور کسی بھی حال میں عورت نماز میں مرد کی امام نہیں بن سکتی ۔‘‘
كتاب الأم، إمامة المرأة للرجال: ۱۹۱/۱۔
علامہ ابو بکر محمد بن احمد الشاشیؒ فرماتے ہیں:
﴿ولا تصح إمامة المرأة للرجال .﴾
حلية العلماء في معرفة مذاهب الفقهاء: ۱۹۹/۲.
’’عورتوں کے لیے مردوں کی امامت کروانا صحیح نہیں ہے ۔‘‘
◈ کیا عورت ، عورتوں کی جماعت کروا سکتی ہے؟
عورت، عورتوں کی جماعت کروا سکتی ہے۔ چنانچہ سیدہ اُم ورقہ بنت عبداللہ بن الحارثؓ کی حدیث میں ہے:
’’رسول اللہ ﷺ اس کے گھر میں زیارت کے لیے جاتے تھے اور آپ نے اس کے لیے ایک مؤذن مقرر کر دیا جو اس کے لیے اذان کہتا۔ اور آپ نے ام ورقہؓ کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کرائے۔ عبدالرحمن بن خلاد انصاری کہتے ہیں: میں نے اس کے مؤذن کو دیکھا وہ بوڑھا آدمی تھا۔‘‘
سنن أبو داود، باب إمامة النساء رقم : ٥٩٢ صحیح ابن خزیمه : ۸۹/۳، رقم: ١٦٧٦ – منتفی ابن الجاردو، رقم: ۳۳۳۔ ابن خزیمہ اور ابن الجارود نے اسے ’’صحیح‘‘ اور شیخ البانی نے اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔
عورت کی امامت کے حوالے سے یہ بھی یادر ہے کہ سیدہ عائشہؓ گھر کی خواتین کو ان کے درمیان کھڑے ہو کر فرض نماز کی امامت کرواتی تھیں۔
مصنف عبدالرزاق، رقم: ٥٠٨٦ السنن الكبرىٰ للبيهقي : ۱۳۱/۳، رقم: ٥٣٥٥. مصنف ابن ابی شیبه: ۸۹/۲- آثار السنن: ٥١٤ – ظفر احمد تھانوی نے اعلاء السنن: ۲۴۳٫۴۔ میں اس کی سند کو ’’حسن صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
◈ نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض اور فرض والے کے پیچھے نفل پڑھنا:
نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض اور فرض پڑھنے والے کے پیچھے نفل پڑھنا صحیح ہے۔ سید نا جابرؓ سے روایت ہے کہ جناب معاذؓ عشاء کی نماز نبی کریم ﷺ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے، پھر اپنی قوم میں واپس جا کر انہیں وہی نماز پڑھایا کرتے تھے ۔
صحيح بخاري، كتاب الأذان، رقم: ۷۱۱- صحيح مسلم، كتاب الصلاة، رقم: ٤٦٥.
مذکورہ حدیث میں سید نا معاذؓ نفل پڑھا کرتے اور آپ کے قبیلے والے اپنی فرض نماز پڑھتے تھے ، معلوم ہوا نفل پڑھنے والے کی اقتدا میں فرض ادا کرنا درست ہے۔
اور نفل پڑھنے والے امام کے پیچھے نفل پڑھنے کی دلیل رسول اللہ ﷺ کا عمل مبارک ہے، یعنی آپ نے رات کو نماز شروع کی تو سید نا ابن عباسؓ نے بھی آپ کے ساتھ نماز شروع کر دی۔
صحیح بخاری ، کتاب الوضوء، رقم: ۱۳۸.
جناب یزید بن اسودؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ یزید ان دنوں نوجوان تھے ، جب آپ نماز پڑھ چکے تو مسجد میں ایک طرف دو آدمیوں کو دیکھا جنہوں نے نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ نے انہیں بلوایا۔ انہیں لایا گیا تو ان کے پٹھے لرز رہے تھے ۔ آپ نے دریافت فرمایا:
تمہیں کس چیز نے ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے روکا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے نماز اپنے پڑاؤ میں پڑھ لی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
اس طرح مت کیا کرو، جب تم میں سے کوئی اپنی منزل میں نماز پڑھ چکا ہو ، پھر امام کو پائے کہ اس نے ابھی نماز نہیں پڑھی تو اس کے ساتھ مل کر پھر نماز پڑھ لے، یہ نماز اس کے لیے نفل ہو جائے گی ۔
سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة ، رقم : ٥٧٥۔ محدث البانیؒ نے اسے صحیح کہا ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں یہ بات پتا چلتی ہے کہ فرض پڑھنے والے کے پیچھے نفل پڑھنے والے کی اقتداء بھی صحیح ہے۔
❀ شیخ ابن بازؒ فرماتے ہیں:
’’اس بارے میں حکم یہ ہے کہ یہ نماز صحیح ہوئی۔ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض سفروں میں نبی کریم ﷺ نے حضرات صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کے ساتھ نماز خوف کی دو رکعات پڑھیں اور پھر آپ نے دوسری جماعت کو دو رکعات پڑھائیں تو آپ کی یہ دوسری مرتبہ کی دو رکعات نماز نفل تھیں ۔
سنن ابوداؤد، کتاب صلاة السفر، رقم: ١٢٤٤.
اسی طرح سیدنا معاذؓ سے روایت ہے کہ وہ اپنی نماز عشاء کے فرض نبی کریم ﷺ کی اقتدا میں ادا کرتے تھے اور پھر اپنے محلہ میں جا کر اہل محلہ کو عشاء کی نماز پڑھاتے اور سیدنا معاذؓ کی یہ نماز نفل اور اہل محلہ کی فرض ہوتی تھی ۔
صحيح بخاري، كتاب الأذان، رقم: ٦١٠٦٠٧١١٠٧٠٥١٠٧٠١٠٧٠٠- فتاوی اسلامیه:۳۳۹/۱۔
◈ امام کو لقمہ دینا:
سید نا مسور بن یزید مالکیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بار نماز پڑھائی تو آیت چھوڑ گئے ۔ نماز کے بعد ایک آدمی نے کہا:
اللہ کے رسول ! آیت تو اس طرح ہے۔
❀ آپ نے ارشاد فرمایا:
﴿هلا أذكرتنيها .﴾
سنن أبو داؤد، کتاب الصلاة ، رقم: ۹۰۷۔ محدث البانیؒ نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔
’’تو نے مجھے یاد کیوں نہ کروائی۔‘‘
سید نا ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ ایک بار نبی کریم ﷺ نے نماز پڑھائی اور آپ نے اس میں قراءت فرمائی مگر آپ کو کچھ مغالطہ ہو گیا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابیؓ سے کہنے لگے:
﴿أصليت معنا؟ قال: نعم ، قال: فما منعك؟﴾
سنن أبو داؤد، کتاب الصلاة ، رقم : ٩٠٧ – محدث البانیؒ نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔
کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی؟ اس نے عرض کیا:
جی ہاں۔
❀ آپ نے فرمایا:
تجھے کس چیز نے روکا تھا ؟ یعنی مجھے آیت کیوں نہیں بتلائی ؟
◈ کسی کو متنبہ کرنے کے لیے مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں تصفیق کریں:
سید نا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
﴿التسبيح للرجال والتصفيق للنساء .﴾
’’سبحان اللہ کہنا مردوں کے لیے اور تصفیق عورتوں کے لیے ہے۔‘‘
اور مسلم کی روایت میں ((في الصلاة)) ’’نماز کے دوران میں‘‘ کی صراحت ہے۔
↰ نوٹ:
ہتھیلی کو ہتھیلی پر یا ہاتھ کی پشت پر مارنے کو ’’تصفیق‘‘ کہتے ہیں ۔
معجم لغة الفقهاء۔
◈ ایک مسجد میں دو جماعتیں :
ایک مسجد میں جماعت ہو چکی ، اور کچھ لوگ بعد میں آئیں تو وہ دوسری جماعت کروا سکتے ہیں۔ چنانچہ سید نا ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں:
ایک شخص آیا ، اور رسول اللہ ﷺ نماز پڑھا چکے تھے ، آپ نے فرمایا:
اس شخص پر کون صدقہ کرتا ہے؟ تو لوگوں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے اس کے ساتھ باجماعت نماز پڑھی۔
ترمذي ، كتاب الصلاة ، رقم: ۲۲۰ – سنن ابو داؤد، رقم : ٥٧٤۔ امام ترمذی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ اور علامہ البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
❀ امام ترمذی فرماتے ہیں:
اور اکثر صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد تابعین کا یہی قول ہے کہ ایک مسجد میں دوسری جماعت کروانے میں کوئی حرج نہیں ۔ امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے ۔ (حوالہ ایضا)
❀ ابن قدامہؒ فرماتے ہیں:
’’جب محلے کے امام نے نماز پڑھ لی اور دوسری جماعت حاضر ہوگئی تو ان کے لیے مستحب ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں۔ یہ قول عبد اللہ بن مسعودؓ عطا نخعی ، قتادہ اور اسحاق بن راھو یہؒ کا ہے۔‘‘
المعنى : ١٠/٣۔