قبر پرستی
شرک کا ایک چور دروازہ ’’قبر پرستی‘‘ اور ’’آثار پرستی‘‘ ہے۔ قوم نوح کے پنجتن پاک جب فوت ہوئے تو قوم اُن کی قبروں پر جھک پڑی، پھر ان کے بت بنائے اور پرستش شروع کر دی۔ قوم ابراہیمؑ کے پاس بھی کچھ ایسے ہی تمثال تھے جن پر نذریں نیازیں چڑھاتے اور ان کے پاس چلہ کشی کرتے تھے۔ قرآن مجید میں ہے:
إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ ﴿٥٢﴾
”جب (ابراہیمؑ) نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا، یہ مورتیاں کیا ہیں جن کی تم پوجا کر رہے ہو۔“
(الأنبياء: ٥٢)
سیدنا موسیٰؑ کے وقت بھی ایک قوم تھی، جس نے اپنے اصنام پر تکیے بنا رکھے تھے، اور وہاں مختلف ہوتے تھے:
وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَىٰ قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ
’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر عبور کرایا، تو ان کا گذر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جو اپنے بتوں کی عبادت کر رہے تھے، وہاں معتکف تھے۔ انہوں نے کہا: اے موسیٰ! جس طرح ان کے کچھ معبود ہیں، آپ ہمارے لیے بھی معبود بنا دیجیے۔
(الأعراف: ۱۳۸)
نبی اکرم ﷺ کے وقت انبیاء کی تصویروں، بزرگوں کی قبروں اور درختوں تک کی پرستش ہوتی تھی۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ”لات ایک صالح آدمی تھا جو حاجیوں کو ستو پلایا کرتا تھا۔‘‘
صحيح بخاري، كتاب التفسير ، رقم : ٤٨٥٩
مزید برآں حافظ ابن کثیر تفسیر القرآن(۲۶۷٫۴) میں لکھتے ہیں :
’’لات ایک سفید رنگ کا پتھر تھا، جس پر مکان بنا ہوا تھا، پردے لٹکے ہوئے تھے، اور وہاں مجاور رہتے تھے اور اس کے گرد حد مقرر کی ہوئی تھی۔“
ابن جریر نے تفسیر طبری(۲۶۷/۴) میں لکھا ہے کہ :
’’عزیٗ مکہ اور طائف کے درمیان ایک درخت تھا، جس پر عظیم الشان عمارت بنی ہوئی تھی، اور اس میں پردے لٹکے ہوئے تھے۔ فتح مکہ کے بعد ان سب قبوں اور تکیوں کو گرا دیا گیا اور ایسے درختوں کو کٹوا دیا گیا۔‘‘
سیدہ عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ :
’’قبیلہ انصار کے کچھ لوگ منات کے نام کا احرام باندھتے تھے۔ منات ایک بت تھا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان رکھا ہوا تھا (اسلام لانے کے بعد) ان لوگوں نے کہا کہ، یا رسول اللہ ﷺ! ہم منات کی تعظیم کے لیے صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کیا کرتے تھے۔“
صحیح بخاری، کتاب التفسير ، رقم : ٤٨٦١
’’ذات انواط‘‘ ایک بیری کا درخت تھا جس کے پاس مشرک اعتکاف کرتے تھے، اور تبرک کے لیے اس پر اسلحہ لٹکاتے تھے۔ بعض جدید العہد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب اپنے لیے ذات انواط کا مطالبہ کیا تو نبی اکرم نے ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی تقدیس بیان کی، اور فرمایا :
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ قُلْتُمُ كَمَا قَالَتْ بَنُوا إِسْرَائِيلَ لِمُؤسَى اجْعَلُ لَّنَا إِلَهَا كَمَا لَهُمُ الِهَةٌ. قَالَ: "إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ لَتَرْكَبُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ.
’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم نے تو (آج) وہی بات کہہ ڈالی جو بنی اسرائیل نے موسیٰؑ سے کہی تھی کہ اے موسیٰ ! ہمارے لیے بھی ان لوگوں کے معبود جیسا معبود بنا دے، تو موسیٰ نے جوابا کہا : یقینا تم جاہل قوم ہو، تم ضرور ہی پہلے لوگوں کے طریقوں پر چلو گے۔“
سنن ترمذی، باب ما جاء التركين على من كان قبلكم، رقم: ۲۱۸۰ – مسند أحمد، رقم: ۲۱۸۹۷
حتی کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبَ تَبَعْتُمُوهُمْ
’’اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ (بل) میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کی اتباع کرو گے۔“
صحابہ نے تعجب کی بناء پر کہا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا ہم یہود و نصاری کی پیروی کریں گے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : فَمَنُ اور کس کی کرو گے؟.
صحیح بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب والنسة، رقم: ٧٣٢٠- صحيح مسلم، کتاب العلم، رقم:۶۷۸۱
علامہ داؤد راز رقم طراز ہیں :
’’گوہ کے بل میں گھسنے کا مطلب یہ ہے کہ انہی کی سی چال ڈھال اختیار کرو گے۔ اچھی ہو یا بُری ہر حال میں ان کی چال چلنا پسند کرو گے۔ ہمارے زمانہ میں بعینہ یہی حال ہے۔ مسلمانوں سے قوت اجتہادی اور اختراعی کا مادہ بالکل سلب ہو گیا ہے۔ پس جیسے انگریزوں کو کرتے دیکھا، وہی کام خود بھی کرنے لگتے ہیں، کچھ سوچتے ہی نہیں کہ آیا یہ کام ہمارے ملک اور ہماری آب و ہوا کے لحاظ سے مناسب اور قرین عقل بھی ہے یا نہیں اللہ تعالی رحم کرے۔
قارئین کرام! رسول اللہ ﷺ نے جو پیشگوئی کی ہے، وہ حرف بحرف پوری ہو رہی ہے۔ موجودہ دور میں انسانوں کے علاوہ حیوانات کی بھی پرستش ہوتی ہے۔ لاہور میں، گھوڑے شاہ کی خانقاہ مشہور ہے۔ مسلمان جوق در جوق وہاں جاتے ہیں، اور گوجرانوالہ میں گھوڑے شاہ کی قبر بھی اس کا واضح ثبوت ہے۔
قبروں پر قبے اور تکیے بنائے جاتے ہیں، جھنڈے نصب کیے جاتے ہیں، غلاف چڑھائے جاتے ہیں، اقطار عالم سے قبروں کی طرف شد رحال (ثواب کی نیت سے سفر) کیا جاتا ہے ، قبروں پر جمع ہونے کو حج کا نام دیتے ہیں۔ طواف کرتے ہیں، سجدہ ریز ہوتے ہیں، زندہ مردوں کے پاس جاتے ہیں ، التجائیں کرتے ہیں: اے شیخ فلاں، اے پیر فلاں میری مشکل حل کیجیے، میری مراد دیجیے، میرے لیے سفارش کیجیے، کئی ایسے بھی ہیں جو لاکھوں میل دور ہی سے مُردوں کو خطاب کرتے ہیں: یا شیخ عبد القادر جیلانیؒ۔
حالانکہ نبی کریم ﷺ نے ان باتوں سے بڑی شدت کے ساتھ منع فرمایا ہے، سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی مرض الموت میں فرمایا :
لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ.
’’اللہ یہود و نصاری پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا۔‘‘
صحیح بخاری کتاب الجنائز، المسجد، القبور رقم : ١٣٣٠.صحيح رقم: ١١٨٤
’’مزید فرماتی ہیں کہ محض اس خیال سے کہ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے اسے کھلا نہیں رکھا گیا، بلکہ حجرہ میں رکھا گیا ہے۔“
حواله ايضاً
سید نا جندب بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ آنحضور ﷺ نے وفات سے پانچ دن قبل فرمایا :
أَلَا وَإِن كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِدُونَ قُبُورَ أَنْبِيَاءِ هِم وَصَالِحِيهِمُ مَسَاجِدَ أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ فَإِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ.
’’خبردار تم سے پہلے لوگوں (یہود و نصاری) نے انبیاء و بزرگان دین کی قبروں پر مسجد میں تعمیر کیں (ان کو سجدہ گاہ بنایا) دیکھو! میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں ۔“
مسلم، كتاب المساجد، باب النهي عن بناء المس على القبور، رقم: ٥٣٢
پھر بار گاہ اللہ رب العزت میں دعاء کی :
اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلُ قَبْرِى وَثْنَا.
یا اللہ! میری قبر کو وثن(بت) بنے سے بچائیو (کہ اس کی پرستش کی جائے)۔
مسند أحمد : ٢٤٤/٢- مسند حمیدی، رقم: ۱۰۲۵
کیوں؟ اس لیے کہ:
لَعَنَ اللهُ قَوْمًا اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ.
’’اس قوم یہودی و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا ڈالا۔‘‘
حواله مذکوره
نبی ﷺ کا ایک اور ارشاد گرامی ہے :
إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ ، فَمَاتَ بَنَوا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا ، وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ ، فَأُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِندَ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
’’یقیناً جب ان میں کوئی نیک آدمی مر جاتا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں تصویریں لٹکا دیتے۔ یہ لوگ قیامت والے دن اللہ کے ہاں بدترین مخلوق شمار ہوں گے۔“
صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاة، رقم: ٥٢٨
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا :
إِنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ مَنْ تُدْرِكُهُ السَّاعَةُ وَهُمْ أَحْيَاءٌ وَمَن يَتَّخِذُ الْقُبُورَ مَسَاجِدَ.
’’بے شک لوگوں میں سے شریر ترین وہ ہیں جن پر قیامت قائم ہوگی اور وہ زندہ ہوں گے ، اور ایسے لوگ ہوں گے جو قبروں کو مسجدیں بنائیں گے۔“
صحيح بخاري تعليقاً ، كتاب الفتن، باب ظهور الفتن مسند أحمد: ٤٣٥٤٠٥/١
اسی طرح تین مقدس مقامات کے علاوہ کسی اور مقام کی جانب شد رحال کرنے سے منع کر دیا۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا تَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى
’’تین مسجدوں کے علاوہ اور کسی مقام کی طرف اہتمام کے ساتھ سفر نہ کرو (ایک) مسجد الحرام (دوسری)مسجد نبوی ﷺ اور (تیسری)مسجد اقصی۔‘‘
صحيح بخاری، کتاب فضل الصلاة في مكة والمدينة، رقم: ۱۱۸۹۔ صحیح مسلم، کتاب الحج ، باب فضل المساجد الثلاثة، رقم : ١٣٩٧.
کہاں یہ کہ قبور کی طرف شد رحال کیا جائے؟ پھر مردوں کی نسبت عورتوں کا شرک میں واقع ہو جانا زیادہ ممکن تھا۔ اس لیے ان کو قبروں کی بکثرت زیارت سے منع فرمایا دیا۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ :
لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ القُبُورِ وَالْمُتَّخِذِينَ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ.
’’ان عورتوں کو رسول اللہ نے ﷺ نے ملعون قرار دیا ہے جو قبروں کی زیارت کے لیے بکثرت جاتی ہیں، اور ان کو مسجد بناتی ہیں اور ان پر چراغ جلاتی ہیں۔‘‘
سنن ترمذي، كتاب الصلاة، رقم: ١٠٥٦ مسند أحمد، رقم: ٢٦٠٣.