مسئلہ تراویح کے ایک اشتہار پر نظر
تحریر: حافظ زبیر علی زئی

حال ہی میں حنفی تقلیدیوں کی جانب سے ایک اشتہار شائع کیا گیا جس میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ مسنون تراویح بیس ہیں اس گمراہ کن اشتہار کا مختصر جواب انصاف پسند قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ بیس رکعات کی سنت کا دعویٰ کرنے والے کی بات قولہ سے شروع کر کے اس کا جواب لکھا گیا ہے۔
قولہ :

حدیث نمبر ➊ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعات (تراویح) اور وتر پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه : 393/2]

جواب : یہ حدیث موضوع من گھڑت ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ [394/2] میں یہ روایت ابراهيم بن عثمان عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس کی سند کے ساتھ ہے، اس کے راوی ابراہیم کے بارے میں :
◈ علامہ زیلعی حنفی (متوفی 762؁ھ) فرماتے ہیں :
قال أحمد منكر الحديث ”امام احمد نے کہا : یہ منکر احادیث بیان کرتا تھا“ [نصب الرايه : 53/1]
● علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے [نصب الرايه : 66/2] پر اس کی ایک حدیث کو ضعیف کہا۔
● اور [ص 67] پر بیہقی سے یہ قول کہ وهو ضعيف ”وہ ضعیف ہے“ نقل کیا ہے۔
● اور [ج 2 ص 153] پر ابوالفتح سلیم بن ایوب الرازی الفقیہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ وهو متفق على ضعفه ”اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔“
◈ امام عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كذبه شعبة و ضعفه أحمد وابن معين و البخاري و النسائي وغيرهم وأوردله ابن عدي هذا الحديث فى الكامل فى مناكيره
”اسے (ابراہیم بن عثمان) شعبہ نے كاذب (جھوٹا) کہا ہے اور احمد، ابن معین، بخاری اور نسائی وغیرہ نے ضعیف کہا ہے اور ابن عدی نے اپنی کتاب الکامل میں اس حدیث کو اس شخص کی منکر روایات میں ذکر کیا ہے۔“ [عمدة القاري : 128/1]
◈ ابن ہمام حنفی نے [فتح القدير 333/1] ،
◈ اور عبدالحئی لکھنوی نے اپنے [فتاوي 354/1] میں اس حدیث پر جرح کی ہے۔
◈ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
وأما عشرون ركعه فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف وعلي ضعفه اتفاق
”اور جو بیس رکعات ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضعیف سند کے ساتھ (مروی) ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔“ [العرف الشذي : 166/1]
↰ ان کے علاوہ اور بھی دیوبندی علماء نے اس حدیث اور اس کے راوی پر جرحیں کی ہیں، مثلا دیکھئے : جناب محمد زکریا کاندھلوی دیوبندی تبلیغی کی [اوجز المسالک 397/1] وغیرہ
↰ ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان پر محدثین کی شدید جروح کے لئے دیکھئے : [میزان الاعتدال 47، 48/1] [تہذیب التہذیب 144، 145/1] وغیرہما۔
◈ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے راوی پر شدید جرح کی اور کہا :
هذا حديث ضعيف جدا لا تقوم بن حجة ”یعنی یہ حدیث بہت زیادہ ضعیف ہے اس سے حجت قائم نہیں ہوتی۔ [الحاوي : 347/1]
↰ لہذا اسے کوئی تلقی بالقبول حاصل نہیں ہے بلکہ بڑے بڑے علماء مثلا حافظ ذہبی، علامہ زیلعی، علامہ عینی، علامہ ابن ہمام رحمہم اللہ وغیرہم نے تو رد کر دیا ہے یعنی اس روایت کو تلقی بالرد حاصل ہے، لہذا ان پڑھ لوگوں کو دھوکا دینا انتہائی قابل مذمت ہے۔
——————
قولہ :

حدیث ➋ یحیی بن سعید فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعات۔۔۔

جواب : یہ سند منقطع ہے۔
جناب نیموی (متوفی 1322؁ھ) کھتے ہیں :
قلت رجاله ثقات لكن يحي بن سعيد الأنصاري لم يدرك عمر
”میں کہتا ہوں کہ اس کے راوی سچے ہیں لیکن یحیی بن سعید الانصاری نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں پایا۔“ [حاشيه آثار السنن ص 253 ح 780]
↰ ایسی منقطع اور بے سند روایات کو انتہائی اہم مسئلہ میں پیش کرنا آخر کون سے دین کی خدمت ہے ؟
——————
قولہ :

حدیث ➌ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو۔۔۔ وہ انہیں بیس رکعات پڑھاتے تھے۔ [نسخه ابوداؤد]

جواب : یہ بات سفید جھوٹ ہے،
ہمارے پاس سنن ابی داود کا جو نسخہ ہے اس میں یہ روایت بالکل نہیں ہے، ہمارے نسخے [136/2] پر جو روایت ہے اس میں
فكان يصلي لهم عشرين ليلة ”یعنی : وہ انہیں بیس راتیں پڑھاتے تھے۔“ الخ کے الفاظ ہیں۔
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ نے یہی حدیث امام داود سے نقل کی ہے اس میں بھی بیس راتیں کا لفظ ہے۔ [السنن الكبري 498/2]
اسی طرح مشکوۃ المصابیح، تحفہ الاشراف وغیرہما میں بھی یہی حدیث ابوداود سے بیس راتیں کے لفظ کے ساتھ منقول ہے۔
◈ حافظ زیلعی حنفی نے [ نصب الرایہ 126/2] میں ابوداود سے یہی حدیث عشرين ليلة ”یعنی بیس راتیں“ کے لفظ کے ساتھ نقل کی ہے،
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے حوالے ہیں، انصاف پسند کے لئے یہی کافی ہے، اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے۔
——————
قولہ :

حدیث ➍ یزید بن رومان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں رمضان میں 23 رکعات پڑھتے تھے۔

جواب : یہ روایت منقطع ہے جیسا کہ :
◈ علامہ عینی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری [127/11 طبع دار الفكر] میں تصریح کی ہے۔
◈ جناب نیموی رحمہ اللہ نے کہا :
يزيد بن رومان لم يدرك عمر بن الخطاب رضي الله عنه
”یزید بن رومان نے عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں پایا۔“ [آثار السنن، حاشيه : ص 253]
——————
قولہ :

حدیث ➎ سیدنا سائب بن یزید صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ رمضان میں [20] رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے۔

جواب : بیہقی [496/2] میں یہ الفاظ قطعا نہیں ہے کہ لوگ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں بیس [20] رکعات پڑھتے تھے، لہذا یہ کاتب اشتہار کا عثمان رضی اللہ عنہ پر سفید جھوٹ ہے۔
دوسرے یہ کہ اس روایت کا ایک راوی علی بن الجعد تشیع کے ساتھ مجروح ہے، سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی تنقیص کرتا تھا۔ [ديكهئے تهذيب التهذيب وغيره] اس کی روایات صحیح بخاری میں متابعات میں ہیں، اور جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہے لیکن ایسے مختلف فیہ راوی کی شاذ روایت مؤطا امام مالک کی صحیح روایت کے خلاف کیونکر پیش کی جا سکتی ہے ؟
——————
قولہ :

حدیث ➏ سیدنا ابوعبدالرحمٰن اسلمی سے روایت ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں۔۔۔ الخ

جواب : یہ روایت سخت ضعیف ہے۔
➊ بیہقی [496/2] پر اس کا ایک راوی حماد بن شعیب ہے، جسے :
◈ امام ابن معین، امام نسائی، امام ابوزعہ وغیرہم نے ضعیف کہا۔
امام بخاری نے منكر الحديث۔۔ تركوا حديثه کہا دیکھئے : [لسان المیزان 348/2]
◈ اس پر نیموی دیوبندی کی جرح کے لئے دیکھئے: [حاشیہ آثار السنن ص 254]
➋ اس کا دوسرا راوی عطاء بن السائب مختلط ہے۔
◈ زیلعی حنفی نے کہا :
لكنه اختلط بآخره و جميع من روي عنه فى الاختلاط إلا شعبة وسفيان۔۔۔۔۔
”لیکن وہ آخر میں اختلاط کا شکار ہو گیا تھا، اور تمام جنہوں نے اس سے روایت کی ہے اختلاط کے بعد کی ہے سوائے شعبہ اور سفیان کے۔“ [نصب الرايه : 58/3]
لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ضعیف، منکر اور موضوع روایات چن چن کر اشتہار چھاپنا بہت ہی بری بات ہے، آخر ایک دن ہم سب نے مرنا بھی تو ہے ؟ تو اس دن کے لئے کیا جواب سوچ رکھا ہے ؟
——————
قولہ :

حدیث ➐ ابوالحسناء فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا کہ۔۔۔

جواب : یہ سند بھی ضعیف ہے،
ابوالحسنا ء مجہول ہے۔ [تقريب التهذيب : 8053، ص 401 للحافظ ابن حجر]
◈ حافظ ذہبی نے کہا : لايعرف ، یعنی ”وہ معروف نہیں ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 515/4]
◈ نیموی دیوبندی نے بھی کہا : وهو لا يعرف [حاشيه آثار السنن : 255]
——————
قولہ :

حدیث ➑ امام حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا بیس رکعات پڑھاؤ۔۔۔۔ [مسند زيد ص 139]

جواب : کاتب اشتہار کا زیدی شیعوں کی من گھڑت مسند زید سے حوالہ پیش کرنا انتہائی تعجب خیز ہے،
① اس مسند کے راوی عمرو بن خالد الواسطی کو محدثین نے بالاتفاق کذاب اور جھوٹا قرار دیا ہے،
امام احمد، امام ابن معین وغیرہم نے کہا : كذاب [تهذيب التهذيب وغيره]
وہ زید بن علی سے موضوع روایات بیان کرتا ہے۔ [تهذيب، ميزان الاعتدال 257/3]
② اس کا دوسرا راوی عبدالعزیز بن اسحاق بن البقال بھی غالی شیعہ اور ضعیف تھا [ديكهئے لسان الميزان : 25/4 تاريخ بغداد : 458/1]
اس کتاب میں بہت سی موضوع روایات ہیں مثلا دیکھئے مسند زید ص 405 وغیرہ۔
——————
قولہ :

حدیث ➒ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیس تراویح پڑھاتے تھے۔ [قيام الليل ص 91]

جواب : یہ سند منقطع ہے۔
قیام اللیل للمروزی کے ہمارے نسخے میں صفحہ [200] پر یہ روایت :
بلاسند ”اعمش“ سے منقول ہے۔
عمدۃ القاری : [127/11] پر ”حفص بن غیاث عن الاعمش“ کے ساتھ اس کی سند مذکور ہے،
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ 32؁ھ یا 33؁ھ میں مدینہ میں فوت ہوئے، جناب اعمش رحمہ اللہ 61؁ھ میں پیدا ہوئے اور مشہور ثقہ مدلس تھے، ابن مسعود رضی اللہ عنہ ان کی پیدائش سے بہت عرصہ پہلے فوت ہو گئے تھے،
لہٰذا اس قسم کی منقطع روایت ڈوبتے والے تنکوں کا سہارا لینے کے مترادف ہے، اس کی سند میں حفص بن غیاث بھی مدلس ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں۔
——————
قولہ :

حدیث ➓ عطاء فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو بیس رکعات تراویح اور تین وتر پڑھتے پایا۔ [ابن ابي شيبه : 393/2]

جواب :
① یہ نہ قرآن ہے اور نہ حدیث اور نہ اجماع اور نہ عمل خلفائے راشدین اور نہ عمل صحابہ،
② دوسرے یہ کہ اس کا ترجمہ میں ”ہی“ کا لفظ غلط ہے،
③ تیسرے یہ کہ نامعلوم لوگوں کا عمل کوئی شرعی حجت نہیں ہے،
④ چوتھے یہ کہ نامعلوم لوگوں کا عمل خلیفہ راشد کے حکم کے خلاف ہے،
⑤ پانچویں یہ کہ اہل مدینہ اکتالیس 41 رکعات پڑھتے تھے۔ [سنن ترمذي : 166/1] کیا ان کا یہ عمل شرعی حجت ہے۔
↰ اشتہار پر مختصرتبصرہ ختم ہوا،
وما علينا إلا البلاغ

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے