وَعِندَ التَّرْمَذِي مِنْ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: جَاءَ مَا عِرُ بنُ مَالِكِ الْأَسْلَمِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ عَلَ الْحَدِيثَ وَفِيهِ: فَلَمَّا وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ فَرَيَشْتَدُّ، حَتَّى مَرْبِهِ رَجُلٌ مَعَهُ لَحْنُ حَمَلٍ فَضَرَبَهُ (بِهِ) وَضَرَبَهُ النَّاسُ، حَتَّى مَاتَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ مَن أَنَّهُ فَرَّحِيْنَ وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ وَمَسَّ الْمَوْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ: ( (هَلا تَرَكْتُمُوهُ )) – وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَمُحَمَّدُ بنُ عَمْرٍ [و] ، أَخْرَجَ لَهُ فِي الصَّحِيحِ
ترمذی میں محمد بن عمرو کے حوالے سے مروی ہے ہمیں ابو سلمہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حوالے سے روایت کیا کہتے ہیں کہ ماعز بن مالک اسلمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جب اس نے پتھروں کا لگنا ٹھوکر محسوس کیا تو وہ تیزی سے دوڑا یہاں تک کہ وہ ایک شخص کے پاس سے گزرا اس نے اونٹ کی ہڈی اسے دے ماری اس نے بھی مارا اور لوگوں نے بھی اس کی پٹائی کی یہاں تک کہ وہ فوت ہو گیا، انہوں نے اس کا تذکرہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہ جب اس نے پتھروں کا لگنا اور فوت کا اندیشہ محسوس کیا تو وہ دوڑ پڑا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا۔ اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے اور محمد بن عمرو کی روایت صحیح میں نکالی ہے۔
تحقيق وتخريج:
حدیث حسن ہے۔
[الامام احمد: 2/ 450، ترمذي: 1428، ابن ماجة: 2554، حاكم: 363/4]
فوائد:
➊ رجم ہوتے ہوئے زانی دوڑ جائے تو اس کو چھوڑ دینا بھی درست ہے۔
➋ موت کی ایک دہشت ہوتی ہے جو صرف موت کے وقت دکھائی دیتی ہے۔ اس کا تجزیہ قبل از وقت نہیں کیا جاسکتا۔
➌ رجم سر عام ہو۔ ایک مسلمانوں کی جماعت کی موجودگی میں ہوتا کہ دیگر احباب کے لیے بھی عبرت بن سکے۔
ترمذی میں محمد بن عمرو کے حوالے سے مروی ہے ہمیں ابو سلمہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حوالے سے روایت کیا کہتے ہیں کہ ماعز بن مالک اسلمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جب اس نے پتھروں کا لگنا ٹھوکر محسوس کیا تو وہ تیزی سے دوڑا یہاں تک کہ وہ ایک شخص کے پاس سے گزرا اس نے اونٹ کی ہڈی اسے دے ماری اس نے بھی مارا اور لوگوں نے بھی اس کی پٹائی کی یہاں تک کہ وہ فوت ہو گیا، انہوں نے اس کا تذکرہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہ جب اس نے پتھروں کا لگنا اور فوت کا اندیشہ محسوس کیا تو وہ دوڑ پڑا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا۔ اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے اور محمد بن عمرو کی روایت صحیح میں نکالی ہے۔
تحقيق وتخريج:
حدیث حسن ہے۔
[الامام احمد: 2/ 450، ترمذي: 1428، ابن ماجة: 2554، حاكم: 363/4]
فوائد:
➊ رجم ہوتے ہوئے زانی دوڑ جائے تو اس کو چھوڑ دینا بھی درست ہے۔
➋ موت کی ایک دہشت ہوتی ہے جو صرف موت کے وقت دکھائی دیتی ہے۔ اس کا تجزیہ قبل از وقت نہیں کیا جاسکتا۔
➌ رجم سر عام ہو۔ ایک مسلمانوں کی جماعت کی موجودگی میں ہوتا کہ دیگر احباب کے لیے بھی عبرت بن سکے۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]