وَفِي رِوَايَةِ أَبِي سَعِيدٍ: أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسَلَمَ يُقَالُ لَهُ: مَا عِزُ بْنُ مَالِكٍ، أَتَى رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ: إِنِّي أَصَبْتُ فَاحِشَةً فَأَقِمُهُ عَلَى يَارَسُولَ اللَّهِ – فَرَدَّهُ النَّبِيُّ مَا مِرَارًا قَالَ ثُمَّ سَأَلَ قَوْمَهُ، فَقَالُوا: مَا نَعْلَمُ بِهِ بِأَسًا إِلَّا أَنَّهُ قَدْ أَصَابَ شَيْئًا يَرَى أَنَّهُ لَا يُخْرِجُهُ إِلَّا أَنْ يُقَامَ فِيهِ الْحَدُّ، قَالَ: فَرَجَعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ عَلَى فَأَمَرَنَا (أَنْ) نَرْجُمَهُ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا بِهِ إِلَى بَقِيعِ الْغَرْقَدِ، قَالَ: فَمَا أَوْ ثَقْنَاهُ وَلَا حَفَرُنَا لَهُ، قَالَ: فَرَمَيْنَاهُ بِالْعَظْمِ وَالْمَدْرِ وَالخَذَفِ، قَالَ: فَاشْتَدَّ وَاشْتَدَدْنَا خَلْفَهُ حَتَّى أَتَى عَرُضَ الْحَرَّةِ، فَانْتَصَبَ لَنَا، فَرَمَيْنَاهُ بِحَلَامِيدِ الْحَرَّةِ، حَتَّى سَكَتَ الْحَدِيثَ
ابوسعید سے مروی ہے کہ ایک قبیلہ بنو اسلم کا شخص جس کا نام ماعز بن مالک تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا میں نے بے حیائی کا ارتکاب کیا ہے یا رسول صلى الله عليه وسلم مجھ پر حد قائم کر دیجیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی دفعہ اسے لوٹا یا پھر آپ نے اس کی قوم سے پوچھا، انہوں نے کہا ہم کوئی حرج نہیں سمجھتے مگر آنکہ اس سے کچھ ہوا ہے اس کا خیال ہے کہ وہ صورت حال سے باہر اسی صورت میں آ سکتا ہے کہ اس پر حد قائم کر دی جائے کہا، وہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس واپس آیا آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اسے رجم کر دیں ہم اسے بقیع الغرقد کی طرف لے کر گئے ہم نے اسے باندھا اور نہ ہی اس کے لیے کوئی گڑھا کھودا ہم نے اس پر ہڈیاں ڈھیلے اور کنکر پھینکے راوی نے کہا: کہ وہ دوڑا ہم بھی اس کے پیچھے دوڑے یہاں تک کہ وہ حرہ مقام کے سامنے کھڑا ہو گیا، ہم نے اس پر حرہ کے پتھر پھینکے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گیا۔
تحقيق و تخریج:
[مسلم: 1694]
فوائد:
➊ حد لگانا یا لگوانے کا مطالبہ کرنا دونوں طرح درست ہے۔ ایسے ہی کسی قاضی کا زانی سے بار بار اعتراف کروانا اور مزید تصدیق کر لینا بھی درست ہے۔
➋ رجم کرنے کے لیے زانی کو کسی جماعت کے سپرد کر دیا جائے اور عام مسلمانوں کے سامنے اس کو رجم کیا جائے۔
➌ زانی کو مارنے کے لیے چیز متعین نہیں ہے جو چیز جس جس کے ہاتھ لگے وہ ماری جاسکتی ہے۔
➍ ایسا زانی جو دوڑ جائے اس کا پیچھا کرنا درست ہے۔
ابوسعید سے مروی ہے کہ ایک قبیلہ بنو اسلم کا شخص جس کا نام ماعز بن مالک تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا میں نے بے حیائی کا ارتکاب کیا ہے یا رسول صلى الله عليه وسلم مجھ پر حد قائم کر دیجیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی دفعہ اسے لوٹا یا پھر آپ نے اس کی قوم سے پوچھا، انہوں نے کہا ہم کوئی حرج نہیں سمجھتے مگر آنکہ اس سے کچھ ہوا ہے اس کا خیال ہے کہ وہ صورت حال سے باہر اسی صورت میں آ سکتا ہے کہ اس پر حد قائم کر دی جائے کہا، وہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس واپس آیا آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اسے رجم کر دیں ہم اسے بقیع الغرقد کی طرف لے کر گئے ہم نے اسے باندھا اور نہ ہی اس کے لیے کوئی گڑھا کھودا ہم نے اس پر ہڈیاں ڈھیلے اور کنکر پھینکے راوی نے کہا: کہ وہ دوڑا ہم بھی اس کے پیچھے دوڑے یہاں تک کہ وہ حرہ مقام کے سامنے کھڑا ہو گیا، ہم نے اس پر حرہ کے پتھر پھینکے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گیا۔
تحقيق و تخریج:
[مسلم: 1694]
فوائد:
➊ حد لگانا یا لگوانے کا مطالبہ کرنا دونوں طرح درست ہے۔ ایسے ہی کسی قاضی کا زانی سے بار بار اعتراف کروانا اور مزید تصدیق کر لینا بھی درست ہے۔
➋ رجم کرنے کے لیے زانی کو کسی جماعت کے سپرد کر دیا جائے اور عام مسلمانوں کے سامنے اس کو رجم کیا جائے۔
➌ زانی کو مارنے کے لیے چیز متعین نہیں ہے جو چیز جس جس کے ہاتھ لگے وہ ماری جاسکتی ہے۔
➍ ایسا زانی جو دوڑ جائے اس کا پیچھا کرنا درست ہے۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]