الذيل المحمود على نصر المعبود
دیوبندی اور بریلوی حضرات اس کا بزعم خویش دعوی کرتے ہیں کہ وہ قرآن مجید، حدیث وسنت، اجماع اور اجتہاد پر عمل کرتے ہیں، حالانکہ ان کا عمل ان چاروں کے خلاف ہے۔ وہ صرف اور صرف اپنے خود ساختہ اکابر = مولویوں اور پیروں کی تقلید کرتے ہیں اور بس!
اس مختصر مضمون میں ان حضرات کے وہ چند اقوال وافعال جمع کئے گئے ہیں جن میں انھوں نے ’’ادلہ اربعہ‘‘ ( قرآن، حدیث، اجماع اور اجتہاد ) کی مخالفت کی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے غیر مسلم ذمی ( مثلاً یہودی، نصرانی، ہندو وغیرہ) کے بارے میں شریعت اسلامیہ کا یہ فیصلہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ دیکھئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ الشامی کی شہرہ آفاق کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسول، وغیرہ جبکہ فقہ اہل الرائے (فقہ حنفیہ) کا یہ فیصلہ ہے کہ ایسے شخص کے بنیادی حقوق محفوظ رہیں گے، اس کا ذمہ نہیں ٹوٹے گا۔ دیکھئے المختصر القدوری مع حلہ اسمی التوضیح الضروری (ص۲۳۲ کتاب السیر ( البدايه مع الدرایہ (ج ص ۵۹۸ کتاب السیر باب الجزيتہ) الہدایہ شرح بداية المبتدی ( ج ۲ ص ۱۶۳) البدايه مع شرح فتح القدير لا بن همام ( ج ۵ ص ۳۰۲ ،۳۰۳) بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع للکا سانی (ج 2 ص ۱۱۳) شرح الوقائية مع حاشية عمدة الرعاية ( ج ۲ ص ۳۷۳) قدوری اردو ( ص ۲۸۳ ( الدر المختار الحصکفى مع كشف الاستار (ج ۱ ص ۳۵۴/۳۵۳) البنایہ فی شرح الہدایہ للعینی ( ج ۶ ص ۶۸۹ ط دار الفکر بیروت ) ردالمختار لابن عابدین الشامی ( ج ۳ ص ۳۰۴) الفتاوی العالمگیریہ ( ج ۲ ص ۲۵۲ ) الجہاد فی الاسلام للمودودی (ص۲۸۹) و غیره
اگر چہ بعض حنفی ’’علماء‘‘ نے بطور سیاست ایسے ذمی کے قتل کا تعزیری فتوی دیا ہے جو علانیہ سب و شتم کرتا ہو۔ جیسا کہ بعض مصادر مذکورہ بالا میں موجود ہے۔ لیکن ایسے ”فقہاء‘‘ بھی گزرے ہیں جو قتل کے علاوہ دوسری سزا دینے کے قائل تھے۔ شیخ محمد اکرم نے ”رود کوثر‘‘ میں ایک شاتم رسول کا واقعہ لکھا ہے کہ ’’اس پر علماء میں اختلاف پیدا ہو گیا، بعض کہتے تھے کہ اہانت نبوی کی شرعی سزا موت ہے۔ دوسرے کہتے تھے کہ قتل کے علاوہ کوئی دوسری سزا بھی دی جاسکتی ہے اور امام اعظم کا فتویٰ سناتے تھے کہ اگر ایک ذمی پیغمبر کی شان میں بے ادبی کرے تو عہد شکنی اور ابراء ذمہ جائز نہیں ہوتا‘‘ (ص ۱۰۱)
اس انتہائی نازک مسئلہ پر ایک حنفی فقیہ ابن نجیم لکھتا ہے کہ
’’نعم، نفس المؤمن تميل إلى قول المخالف في مسئلة السبّ لكن اتباعنا للمذهب واجب‘‘
جی ہاں ! مومن کا دل مسئلہ سب وشتم میں (ہمارے) مخالف ( شافعی ، اہل الحدیث وغیرہ) کی طرف مائل ہے لیکن ہم پر اپنے (تقلیدی) مذہب کی اتباع (تقلید) واجب ہے۔
(البحر الرائق شرح کنز الدقائق ج ۵ ص ۱۱۵)
ہم پوچھتے ہیں کہ کتاب وسنت کے مقابلے میں کس نے آپ پر اس تقلیدی مذہب کی اندھا دھند پیروی فرض کی ہے؟ جس کی وجہ سے آپ نے مومنین کے راستے کو بھی چھوڑ دیا ہے؟؟
هاتوا برهانكم ان كنتم صادقين ! :
محمود حسن دیوبندی کی املاء شدہ ” التقرير للترمذی“ میں مسئلہ بیج خیار کے سلسلہ میں لکھا ہوا ہے کہ
’’ الحق والإنصاف أن الترجيح للشافعي في هذه المسئلة و نحن مقلدون يجب علينا تقليد إمامنا أبي حنيفة ، والله أعلم “
حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلہ میں (امام) شافعی کو ترجیح حاصل ہے اور ہم مقلد لوگ ہیں، ہم پر ہمارے امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔
واللہ اعلم
(ص ۲۵۰ و فی نسخه ص ۲۰۱، والمطبوع مع العرف الشذى ص ۳۶)
ان شاء اللہ قیامت کے دن امام ابو حنیفہ ایسے غالی مقلدین سے اعلان براءت کریں گے جنھوں نے خود بخود بغیر کسی دلیل کے اُن کی اندھادھند تقلید کو فرض و واجب بنالیا ہے۔
ياليت قومى يعلمون
شیخ احمد سرہندی بغیر کسی لگی لپٹی کے صاف صاف لکھتے ہیں کہ ’’
ومقلد را نمیرسد کہ خلاف رائے مجتہد از کتاب و سنت احکام اخذ کند و بران عامل باشد‘‘
(مکتوبات مکتوب نمبر ۶ ۲۸ ص۵۴۶)
اور مقلد کو اس امر کی اجازت نہیں کہ مجتہد کی رائے کے خلاف از خود ہی کتاب وسنت سے احکام اخذ کرتا پھرے اور ان پر عمل کرے۔
(اردوترجمه دفتر اول حصہ پانیم ج ۲ ص ۷۷۰ مکتوب نمبر ۶ ۲۸)
ایک دوسرے نسخہ میں یہ عبارت اس طرح ہے : ” مقلد کولائق نہیں کہ مجتہد کی رائے کے برخلاف کتاب وسنت سے احکام اخذ کرے اور ان پر عمل کرے“
(مکتوبات ج اص ۲۰۱ ترجمه عالم الدین نقشبندی مجددی ط مکتبہ مدنی لاھور )
رفع سبابہ کے مسئلہ پر یہی مقلد سرہندی صاحب لکھتے ہیں کہ ”جب روایات معتبرہ میں اشارہ کی حرمت واقع ہوئی ہو ۔ اور اس کی کراہت پر فتویٰ دیا ہو اور اشارہ وعقد سے منع کرتے ہوں اور اس کو اصحاب کا ظاہر اصول کہتے ہیں تو پھر ہم مقلدوں کو مناسب نہیں کہ احادیث کے موافق عمل کر کے اشارہ کرنے میں جرات کریں۔ اور اس قدر علمائے مجتہدین کے فتویٰ کے ہوتے ہوئے امر محرم اور مکروہ اور منہی کے مرتکب ہوں‘‘
( مکتوبات ج ص ۷۱۸ مکتوب نمبر ۳۱۲)
روایات معتبرہ سے مراد تقلید پرست فقہاء کے نام نہا دفتاوی ہیں ۔ یہ شیخ سرہندی صاحب وہی صوفی ہیں جن کے بارے میں شاہ ہند جہا نگیر اپنی تو زک جہانگیری میں لکھتا ہے کہ اُن ہی دنوں مجھ سے عرض کیا گیا کہ شیخ احمد نامی ایک مکارسر ہند میں مکروفریب کا جال بچھا کر کئی نادان اور بے سمجھ لوگوں کو اپنے قریب میں پھانسے ہوئے ہے … مزخرفات اور واہیات قسم کے خطوط اپنے مریدوں اور معتقدوں کے نام لکھ کر مکتوبات کے نام سے ایک مجموعہ کیا ہے ۔ اس لئے اس مجموعہ میں اکثر ایسی فضول اور بیہودہ باتیں لکھی ہیں جو کفر اور زندیقیت تک پہنچی ہیں… بے وقوف اور کم عقل ہونے کے ساتھ نہایت مغرور اور خود پسند معلوم ہوتا ہے میں نے اس کی اصلاح کے لئے یہی مناسب سمجھا کہ اسے چند دن قید رکھا جائے
(توزک جہانگیری فارسی ص ۱۳۱۲ لکھنو بحوالہ ” قیام دارالعلوم‘‘ دیو بند ص ۲۷، ۲۸)
عامر عثمانی دیوبندی مدیر تجلی دیو بند سے کسی نے سوال کیا کہ ’’حدیث رسول سے جواب دیں‘‘ تو ان دیوبندی صاحب نے علانیہ لکھا کہ ’’اس نوع کا مطالبہ اکثر سائلین کرتے رہتے ہیں یہ دراصل اس قاعدے سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ مقلدین کے لئے حدیث و قرآن کے حوالوں کی ضرورت نہیں بلکہ ائمہ فقہاء کے فیصلوں اور فتووں کی ضرورت ہے“الخ
(ماہنامہ تجلی دیوبند ج ۱۹ ص ۴۶، ۴۷ شمارہ نمبر ۱۱ ۱۲، بابت جنوری فروری ۱۹۶۸ء)
مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی صاحب لکھتے ہیں کہ
’’کیونکہ حنفیوں کے دلائل یہ روایتیں نہیں ان کی دلیل صرف قول امام ہے، قول امام کی تائید سی روایتیں ہیں‘‘
(جاء الحق ج ۲ ص ۹، ہمارے نزدیک اس کتاب کا صحیح نام جاء الباطل ہے )
نیز لکھتے ہیں کہ ’’ کہ ہمارے دلائل یہ روایات نہیں ۔ ہماری اصل دلیل تو امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے۔ ہم یہ آیت واحادیث مسائل کی تائید کے لئے پیش کرتے ہیں۔ احادیث یا آیات امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی دلیلیں ہیں …‘‘ الخ
(جاء الباطل ج ۲ ص ۹۱)
قاضی محمد زاہد الحسینی حیاتی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں کہ
’’حالانکہ ہر مقلد کے لئے آخری دلیل مجتہد کا قول ہے …. اب اگر ایک شخص امام ابو حنیفہ کا مقلد ہونے کا مدعی ہو اور ساتھ ہی وہ امام ابو حنیفہ کے قول کے ساتھ یا علیحدہ قرآن وسنت کا بطور دلیل مطالبہ کرتا ہے تو وہ بالفاظ دیگر اپنے امام اور رہنما کے استدلال پر یقین نہیں رکھتا“
( مقدمۂ دفاع امام ابی حنیفہ ص ۲۶ ط اکوڑہ خٹک ، سرحد پاکستان )
حسین احمد ٹانڈوی دیوبندی صاحب ’’فرماتے ہیں‘‘ :
” اور سوائے امام صاحب کے کوئی مقلد نہیں ۔ مقلد وہ ہوتا ہے جس کے قول کو بلا دلیل مانا جائے‘‘
( تقر برترمذی اردوص ۷۱)
اسی کتاب میں ٹانڈوی صاحب نے ایک مالکی کا واقعہ لکھا ہے کہ ’’ایک مرتبہ تین عالم (حنفی، شافعی اور حنبلی ) مل کر ایک مالکی کے پاس گئے اور پوچھا کہ تم ارسال کیوں کرتے ہو۔ اس نے جواب دیا کہ میں امام مالک کا مقلد ہوں دلیل ان سے جا کر پوچھو اگر مجھے دلائل معلوم ہوتے تو تقلید کیوں کرتا۔ تو وہ لوگ ساکت ہو گئے“ (ص۳۹۹)
ارسال کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی جائے۔
یہ چند حوالے بطور نمونہ مشتے از خروارے پیش کئے ہیں تا کہ یہ ثابت کیا جائے کہ مقلدین حضرات قرآن و حدیث کو اصل دلیل نہیں مانتے بلکہ صرف اپنے مزعوم امام کی ہی تقلید کے دعویدار ہیں ۔ یہ دوسری بات ہے کہ جب انکی خواہشات نفسانیہ کے خلاف قول امام ہو مثلا أجرت تعلیم القرآن کا مسئلہ تو ایسی صورت میں قول امام کو چھوڑ کر نام نہاد متاخرین کے قول پر عمل کر لیا جاتا ہے۔!
یہاں یہ بھی یادر ہے کہ بریلوی اور دیو بندی حضرات دعوی تقلید تو کرتے ہیں مگر وہ امام ابوحنیفہ کے مقلد نہیں ہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے خود ساختہ اکابر (احبار، رہبان، پیر، مولوی حضرات ) کے مقلد ہیں اور بس!
اب حسب وعدہ دیوبندیوں و بریلویوں وغیرہم کی قرآن وسنت و اجماع اور اجتہاد کی مخالفتیں پیش خدمت ہیں تا کہ عام مسلمان ان لوگوں کو پہچان کر ان کے شر سے محفوظ رہیں:
قرآن مجید اور تقلید پرست حضرات
قرآن مجید میں ہے کہ
(اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَاۚ)
بے شک مشرکین نجس (پلید) ہیں۔ اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ آئیں۔
(التوبہ آیت: ۲۸)
اس آیت کریمہ سے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز وغیرہ نے استدلال کیا کہ کفار مسجد حرام وغیرہ میں داخل نہیں ہو سکتے ۔
( تفسیر قرطبی ج ۸ ص ۱۰۴، تفسیر ابن جریر طبری ج ۱۰ص۷۴) وغیرہ
جبکہ حنفیہ کے نزدیک کفار (اہل الذمہ ) کا مسجد حرام میں داخل ہونا جائز ہے۔
دیکھئے نصر المعبود مسئلہ۴
قرآن کریم میں ہے کہ
(وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ)
اور ہم نے اس (تورات) میں اُن پر فرض کیا کہ نفس کے بدلے میں نفس کو قتل کیا جائے ۔
(المائدة آیت: ۴۵)
اس کے برخلاف حنفیہ کا فتویٰ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی نابالغ بچے وغیرہ کو پانی میں ڈبوکر قتل کر دے تو اس قاتل پر کوئی قصاص نہیں ہے۔
(دیکھئے نصر المعبود مسلہ)
اسی طرح ان کے نزدیک اگر کوئی شخص اپنے غلام کو قتل کر دے تو اس کے بدلے میں اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔
(دیکھئے نصر المعبود مسئلہ ۵)
قرآن مجید میں ہے کہ
(لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ)
اسے ( یعنی قرآن کو ) صرف پاک ہی چھوتے ہیں۔
(سورۃ الواقعہ آیت: ۷۹)
اس آیت کے برخلاف تقلید پرستوں کا فتویٰ ہے کہ پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنا جائز ہے۔
(دیکھئے نصر المعبود مسئلہ)
قرآن مجید میں ہے کہ (غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کو سو کوڑے حد لگانی چاہئے
(سورۃ النور آیت ۲)
جبکہ فقہ حنفی میں ہے کہ کرایہ پر لائی ہوئی عورت سے زنا کرنے پر کوئی حد نہیں ہے۔
(دیکھئے نصرالمعبود مسئلہ ۱۰)
قرآن مجید سے ثابت ہے کہ مشکل کشا صرف اللہ ہی ہے۔ مثلاً ارشاد ہے:
(اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ یَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَ یَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِؕ-ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِؕ-قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ)
کیا کوئی ہے جو مجبور کی پکار سنتا ہے اور مشکل کو دور کر دیتا ہے اور تمھیں زمین کا خلیفہ بنا دیتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الہ بھی ہے؟ تم بہت کم نصیحت پکڑتے ہو۔
(سورۃ النمل آیت:۶۲)
اس آیت کے خلاف دیوبندیوں اور بریلویوں کا عقیدہ ہے کہ فلاں مخلوق بھی مشکل کشا ہے۔ بریلویوں کے مشرکانہ عقائد تو عام لوگوں کو معلوم ہیں۔ دیو بندیوں کے عقائد بھی با حوالہ سن لیں : حاجی امداداللہ مکی صاحب ، نبی ﷺ سے مخاطب ہو کر ’’نالہ امداد غریب“ میں لکھتے ہیں کہ
یا رسول کبریا فریاد ہے یا محمد مصطفیٰﷺ فریاد ہے
آپ کی امداد ہو میرا یا نبیﷺ حال ابتر ہوا فریاد ہے
سخت مشکل میں پھنسا ہوں آجکل
اے میرے مشکل کشا فریاد ہے
(کلیات امداد به س ۹۰ ،۹۱)
یہی صاحب کلیات امدادیہ (ص۱۰۳ میں ) اور اشر فعلی تھانوی صاحب تعلیم الدین (ص ۱۷۱) میں لکھتے ہیں
’’کہ ہادی عالم علی مشکل کشا کے واسطے“
اس سلسلہ میں ٹانڈوی صاحب کی تاویلات کی علمی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں ہے، فليتنبه صوفی عبدالحمید سواتی حیاتی دیوبندی لکھتے ہیں :
” الہٰی بحرمت حضرت خواجہ مشکل کشا سید الاولیاء پیر دستگیر حضرت مولانا محمد عثمان‘‘
(فیوضات حسینی ص ۶۸ بحوالہ فوائد عثمانی ص ۱۷)
’’فضائل درود‘‘ (از زکریا صاحب) کی حکایت ۴۳ کے آخر میں لکھا ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”میں محمد بن عبد اللہ صاحب قرآن ہوں (ﷺ) یہ تیرا باپ بڑا گناہگار تھا لیکن مجھ پر کثرت سے درود بھیجتا تھا۔ جب اس پر یہ مصیبت نازل ہوئی تو اس کی فریاد کو پہنچا اور میں ہر اس شخص کی فریاد کو پہنچتا ہوں جو مجھ پر کثرت سے درود بھیجے‘‘
(ص ۱۱۳ تبلیغی نصاب ص ۷۹۱ را عتیق اکیڈمی ملتان)
یہ مختصر مضمون تفصیل کا متحمل نہیں ہے ۔ شائقین حضرات القول البلیغ وغیرہ کتب کا مطالعہ کرلیں۔ قرآن کریم میں ہے کہ
(وَ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ فِیْمَاۤ اَخْطَاْتُمْ بِهٖۙ-وَ لٰـكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْؕ)
اور تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ گناہ وہ ہے جس کا تم قصد اور ارادہ دل سے کرو۔
(سورۃ الاحزاب آیت ۵ ، ترجمه احسن البیان ص ۵۴۷ ط دار السلام لاہور )
اسی طرح ارشاد ہے کہ جو مجبور ہو جائے اس پر کوئی گناہ نہیں ( قرآن مجید [البقرۃ:۱۷۳]) اس کے برعکس حنفیہ کہتے ہیں کہ جبری طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ دیکھئے نصر المعبود مسئلہ قرآن کریم میں سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
(سورۃ البقرۃ آیت: ۲۷۵)
جبکہ فقہ حنفی کا مسئلہ ہے کہ دارالحرب میں سود کھانا جائز ہے۔
(دیکھئے نصرالمعبود مسئلہ۳)
قرآن کریم میں ہے کہ
(فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِیْمَانًا)
پس جو لوگ ایمان والے ہیں ان کا ایمان زیادہ ہو جاتا ہے۔
(التوبہ آیت ۱۲۴، دیگر آیات کیلئے دیکھئے صحیح بخاری کتاب الایمان)
اس کے برعکس فقہ حنفی کا فیصلہ ہے کہ ایمان زیادہ یا کم نہیں ہوتا۔
(دیکھئے الفقہ الاکبر المنسوب الى الامام ابی حنیفہ ص ۸۷ ، شرح العقائد النسفية ص ۹۲ و غیره )
قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ
﴿فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِؕ ﴾
پس قرآن میں سے جو میسر ہو وہ پڑھو۔
(سورۃ المزمل:۲۰)
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ نماز میں قرآن ( یعنی سوره فاتحه بدلیل احادیث متواترہ ) پڑھنا فرض ہے۔ نیز دیکھئے الہدایہ ( ج ا ص ۹۸ باب صفة الصلوة ) وغيره
اس کے برعکس حنفیہ وغیرہ کا فتویٰ ہے کہ اگر کوئی شخص (امام یا منفرد) فرض نماز کی آخری دورکعتوں میں جان بوجھ کرسورہ فاتحہ نہ پڑھے بلکہ چپ کھڑا ہے یا تسبیح پڑھتار ہے تو اس کی نماز بالکل صحیح اور کامل ہے۔
دیکھئے قدوری (ص۲۲ ۲۳ ۱۳۱۱ھ ) ہدایہ ( ج ص ۱۴۸) فتح القدیر (ج اص ۳۹۵) اور دیو بندیوں کی کتاب بہشتی زیور (ص ۱۶۳ حصہ دوم ص ۱۹ باب هفتم مسئله ۱۷) و غیره
تفصیلی بحث کے لئے راقم الحروف کی کتاب ’’الکواکب الدریہ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام في الجهرية‘‘ ( طبع اول ص ۵۷ ) وغیرہ کا مطالعہ کریں۔
قرآن کریم میں ہے کہ
(فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبَا)
پس اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تمیم کرلو۔
(سورۃ النساء آیت:۴۳، سورۃ المائدة آیت:۲)
اس کے مقابلے میں ہدایہ میں لکھا ہوا ہے کہ کھجور کے شربت ( نبیذ ) سے وضو کرنا چاہئے اگر پانی نہ ملے ۔
(ج اس سے ہم قبل باب التیمم)
تمیم کے سلسلہ میں حنفیہ کے مضحکہ خیز فتاویٰ کیلئے شہرہ آفاق کتاب ’’حقیقۃ الفقہ“ (ص۱۵۶) کا مطالعہ کریں۔ حقیقۃ الفقہ کے سلسلہ میں بریلوی اور دیو بندی پرو پیگنڈے کے رد کے لئے جامعہ سلفیہ بنارس کے استاد اور … مولا نا محمد رئیس ندوی کی کتاب ’’ضمیر کا بحران‘‘ (صفحات ۱ تا ۴۶۹) کا مطالعہ کریں۔
قرآن کریم نے:
(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ)
اور اپنے کپڑے پاک رکھ کا حکم دیا ہے۔
( سورة المدثر: ۴)
جبکہ ہدایہ (ج ۱ص۷۴) و شرح وقایہ ( ج اص ۱۳۹) وغیرہ میں لکھا ہوا ہے کہ اگر ایک درہم کے برابر گندگی لگی ہوئی ہو تو نماز جائز ہے۔ نیز دیکھئے شیخ ابومحمدامین اللہ البشاوری کی ’’ التحقیق السديد في مسئله التقليد ‘‘ دَتقليدد تورو تيارو نه نجات ص۹۰ شیخ امین اللہ حفظہ اللہ جماعت اہل الحدیث کے قابل اعتماد عالم اور محقق ہیں ۔ جزاہ اللہ خیراً انکی یہ کتاب پشتو زبان میں انتہائی لاجواب کتاب ہے ۔ میرے پاس تو وقت نہیں ، کاش کوئی اسے اردو زبان میں ترجمہ کر کے شائع کر دے۔
[یہ کتاب : ” تقلید کی حقیقت“ کے نام سے حیدر فاروقی کے قلم سے اردوزبان میں ترجمہ ہوکر شائع ہو چکی ہے۔ والحمد للہ ]
قرآن مجید میں شراب کے بارے میں حکم ہے کہ
(فاجتنبوه)
پس اس سے اجتناب کرو۔
(سورۃ المائدہ آیت: ۹۰)
( لہٰذا ثابت ہوا کہ کسی حالت میں بھی شراب کا پینا جائز نہیں ہے ) اس کے مقابلے میں فقہ حنفی کا مفتی یہ فتویٰ ہے کہ پیاسے کے لئے شراب پینی جائز ہے۔
(الدر المختار مع ردالمختار ج ص ۱۵۴ و غیره)
قرآن کا فیصلہ ہے کہ
(لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُؕ)
آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔
(سورۃ النمل آیت: ۶۵)
اس کے برعکس بریلویوں اور دیوبندیوں کا فیصلہ ہے کہ فلاں فلاں مخلوق بھی غیب جانتی ہے۔ بریلویوں کا عقیدہ تو عام مسلمانوں کو بھی معلوم ہے ۔ دیو بندیوں کے عقائد کیلئے القول البلیغ وغیرہ کا مطالعہ مفید ہے ۔ اشرف علی تھانوی صاحب نے ”عبداللہ خان‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ان کی یہ حالت تھی کہ اگر کسی کے گھر میں حمل ہوتا اور وہ تعویذ لینے آتا تو آپ فرمادیا کرتے تھے کہ تیرے گھر میں لڑکی ہوگی یا لڑکا ۔ اور جو آپ بتلا دیتے تھے وہی ہوتا تھا“
(حکایات اولیاء ص ۱۸۵، حکایت: ۱۴۷)
غرض ان تقلید پرست دیو بندیوں اور بریلویوں نے قرآن مجید کی صریح آیات کی بے شمار مقامات پر مخالفت کی ہے۔
حدیث صحیح اور تقلید پرست حضرات
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ
’’من السنة إذا تزوج الرجل البكر على الثيب أقام عندها سبعًا وقسم وإذا تزوّج الثيب أقام عندها ثلاثا ثم قسم ‘‘
سنت یہ ہے کہ کوئی شخص بیوی والا جب اپنا دوسرا نکاح کسی کنواری سے کرے تو سات راتیں اس کے پاس گزارے پھر باریاں تقسیم کرے اور اگر کسی ایسی عورت سے شادی کرے جس کی پہلے شادی ہوئی تھی ( خاوند مر گیا یا طلاق مل گئی وغیرہ ) تو اس کے پاس تین را تیں گزارے اور پھر باریاں تقسیم کرے۔
(صحیح بخاری ج ۲ ص ۷۵ ۵۲۱۳ واللفظ له صحیح مسلم ج ۱ص ۴۷۲)
جبکہ ملا مرغینانی حنفی نے کہا:
” والقديمة والجديدة سواء “
یعنی پرانی بیوی اور نئی ( شادی شدہ ) بیوی (باریوں میں ) دونوں برابر کی حقدار ) ہیں۔
(البداییس ۳۲۹ كتاب النكاح باب القسم)
ام المومنین عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( من مات وعليه صيام، صام عنه ولیه ))
جوشخص مر جائے اور اس پر ( نذر وغیرہ کے ) روزے باقی ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی یہ روزے رکھے۔
جبکہ ہدایہ میں ہے کہ ” ولا يصوم عنه الولى “
(صحیح بخاری ج ۱ص ۲۶۲ ، وصحیح مسلم ج ۱ص ۳۶۲)
میت کی طرف سے اس کا ولی روزہ نہ رکھے۔
(کتاب الصوم ص ۲۰۳)
سید نا عبداللہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ
’’ خرج النبي لا يستسقى فتوجه إلى القبلة يدعو وحوّل ردائه ثم صلى ركعتين يجهر فيهما بالقراءة‘‘
نبی ﷺ استسقاء کے لئے نکلے، پس آپ نے قبلہ کی طرف رُخ کیا دعا کرتے ہوئے اور آپ نے اپنی چادر پلٹائی پھر آپ نے دور کعتیں پڑھیں۔ ان میں آپ جہر کے ساتھ قراءت کر رہے تھے۔
(صحیح بخاری ج اص ۱۳۹ ح ۱۰۲۴، واللفظ له، صحیح مسلم ج ص ۲۹۳)
صحیح بخاری وغیرہ کی دوسری روایت میں ہے کہ
” ثم صلّی لنا رکعتین “
پھر آپ نے ہمیں دور کعتیں پڑھائیں۔ اس کے برعکس ہدایہ میں لکھا ہوا ہے کہ
’’ لیس فی الاستسقاء صلوة مسنونة في جماعة “
(امام ابوحنیفہ نے کہا:) استقاء کے موقعہ پر نماز با جماعت مسنون نہیں ہے۔
( ج اص ۱۷۶، باب الاستسقاء )
عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ
’’ان الشمس خسفت على عهد رسول الله ﷺ فبعث مناديا : الصلوة جامعة، فتقدم فصلّى أربع ركعات في ركعتين وأربع سجدات “
رسول الله ﷺ کے (مبارک) عہد میں سورج گرہن کے موقعہ پر آپ نے منادی کے ذریعے سے اعلان کرایا کہ نماز کے لئے جمع ہو جاؤ۔ پھر آپ نے آگے بڑھ کر دور کعتیں پڑھیں اور چارسجدے کئے ، آپ نے ہر رکعت میں دور کوع کئے ۔
(صحیح بخاری ج اص ۱۴۵، واللفظ لہ بھی مسلم ج اص ۲۹۹)
اس کے برخلاف ہدایہ میں لکھا ہوا ہے کہ
”إذا انكسفت الشمس صلى الإمام بالناس ركعتين كهيئاة النافلة في كل ركعة ركوع واحد‘‘
سورج گرہن کی نماز امام دورکعت پڑھائے جیسے نفل نماز کی ہیئت ( حالت ) ہے ۔ ہر رکعت میں ایک رکوع کرے۔
(جاس۱۵۵، باب صلوة الكسوف)
سیدنا عمرو بن امیہ الضمریؓ سے روایت ہے کہ
’’رایت النبيء يمسح على عمامته وخفيه‘‘
میں نے نبی ﷺ کو عامہ اور موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
(صحیح البخاری ج ۱ص۳۳)
جبکہ ہدایہ میں ہے کہ
’’ ولا يجوز المسح على العمامة “
اور عمامہ پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔
(ج ۱ص۴۴ کتاب الطهارة)
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ
’’ ان النبي ﷺ سئل عن الخمر : تتخذ خلا ؟ فقال : لا‘‘
بے شک نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا شراب (خمر) کا سرکہ بنالیا جائے؟ تو آپ نے فرمایا: نہیں۔
(صحیح مسلم ج ۲ ص ۱۶۳)
جبکہ ہدایہ میں ہے کہ جب شراب کا سرکہ بن گیا تو وہ حلال ہو گیا خواہ خود بخود بن جائے۔ خواہ کوئی اور چیز ڈال کر اس کا سرکہ بنایا جائے ۔
’’ولا یکرہ تخلیلھا“
اور شراب (خمر) کا سرکہ بنانا مکروہ نہیں ہے۔
(ص۴۸۳ کتاب الأشربة)
امیر المومنین علیؓ سے روایت ہے کہ ان کے صحیفہ میں یہ بات موجود تھی کہ
” لا يقتل مسلم بكافر ‘‘
مسلم کو کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے گا۔
( صحیح بخاری ج ۲ ص ۱۰۲۱ اکتاب الديات باب ۳۱ لا يقتل المسلم بالكافر )
سنن ابوداود وغیرہ میں یہ حدیث صریحا نبی ﷺ سے منسوب ہے اور اسکی سند صحیح ہے ۔ اس کے مقابلے میں ہدایہ میں لکھا ہوا ہے کہ
’’ والمسلم بالذمي ‘‘
اور کا فرذمی کے بدلے میں مسلم کو قتل کر دیا جائے گا۔
( ج ۲ ص ۵۴۷، باب ما يوجب القصاص )
سیدنا ابومسعودؓ سے روایت ہے کہ
’’ان رسول اللہ ﷺ نھی عن ثمن الكلب “
بے شک رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔
( صحیح بخاری ج ا ص ۲۹۸ کتاب البیوع و صیح مسلم ج ۲ ص ۱۹)
بلکہ حدیث میں کتے کی قیمت کو خبیث کہا گیا ہے ۔
(صحیح مسلم ج ۲ ص ۱۹)
اسکے برخلاف ہدایہ میں لکھا ہوا ہے کہ
’’يجوز بيع الكلب والفهد والسباع‘‘
کتے ، چیتے اور درندوں کی فروخت جائز ہے۔
(ج۲ص۵۵ کتاب البیوع)
بلکہ فقہ حنفی کے مطابق اگر کوئی شخص اپنا کتا ذبح کر کے اس کا گوشت بیچے تو جائز ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری عربی ج ۳ ص ۱۱۵)
سیدنا ابو محذورہؓ کی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے آپ کو تر جمیع والی اذان سکھائی تھی ۔
(صحیح مسلم ج ص ۱۶۵، وغیرہ)
ترجیع کا مطلب یہ ہے کہ چار دفعہ اللہ اکبر، چار دفعہ کلمہ شہادت، الخ اس کے خلاف ہدایہ میں لکھا ہوا ہے کہ
” ولا ترجیع فیه “
یعنی: اذان میں ترجیع نہیں ہے۔
(جا ۱ص ۸۷)
سیدنا عبادہ بن الصامتؓ سے روایت ہے کہ
’’سمعت رسول الله ﷺ ينهى عن بيع الذهب بالذهب والتمر بالتمر إلا سواء بسواء عيناً بعين، فمن زاد أو ازداد فقد أربى “
میں نے رسول اللہ ﷺ کو سونے کے بدلے سونا اور کھجور کے بدلے کھجور بیچنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے الا یہ کہ دونوں چیزیں برابر برابر ، نقد کے بدلے نقد ہوں، پس جس نے زیادہ کیا یا زیادہ مانگا تو اس نے سودی کاروبار کیا۔
(صحیح مسلم ج ۲ ص ۲۴، ۲۵ کتاب المساقاة باب الربا)
سیدنا ابوسعیدؓ کی روایت میں ہے کہ
” الآخذو المعطي فيه سواء‘‘
لینے والا اور دینے والا دونوں برابر ہیں۔
جبکہ ہدایہ میں لکھا ہوا ہے کہ
” یجوز التمرة بالتمرتين “
(محمد بن الحسن الشیبانی نے کہا:)
ایک کھجور کو دو کھجوروں کے بدلے میں بیچنا جائز ہے۔
( ج ۲ ص ۸۱ كتاب البيوع باب الربا )
صحیح حدیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ یا دو سجدوں کے درمیان ’’”رب اغفر لي“ دو دفعہ پڑھتے تھے۔
دیکھئے سنن ابی داود ( ج ۱ص۱۳۴ ح ۸۷۴ باب ما يقول الرجل في ركوعه ومجوده ) وغیرہ
اس کے خلاف ظاہر روایت کی مشہور کتاب ’’”الجامع الصغیر‘‘ میں امام ابو حنیفہ سے منقول ہے كه و كذلك بين السجدتين يسكت اور اسی طرح دونوں سجدوں کے درمیان خاموش رہے گا ۔ ( دعا نہیں پڑھے گا )
(ص ۸۸)
اس قول کے بارے میں عبدالحئی لکھنوی (حنفی) صاحب النافع الکبیر میں لکھتے ہیں:
’’هذا مخالف لما جاء فى الأخبار الصحاح من زيادة الأدعية في القومة وبين السجدتين “
یہ قول أن صحیح احادیث کا مخالف ہے جن میں قومہ اور دوسجدوں کے در میان دعائیں پڑھنے کا ثبوت ہے۔ (ایضاً)
متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ مدینہ منورہ ’’حرم‘‘ ہے۔
دیکھئے نظم المتناثر من الحدیث المتواتر (ص۲۱۲) اس کے خلاف فقہ حنفی کا فیصلہ ہے کہ مدینہ حرم نہیں ہے :
’’ لا حرم للمدينة عندنا “
ہمارے ( یعنی حنفیوں کے ) نزدیک مدینہ حرم نہیں ہے۔
(الدر المختار ج ص ۱۸۴، آخر کتاب الحج ، ردالمحتا ج ۲ ص ۲۷۸ حاشیة الطحطاوی ج اص۵۶۱)
غرض اس طرح کی بے شمار مثالیں کتب فقہ حنفیہ اور کتب احادیث کے مطالعہ و مقارنہ سے واضح وظاہر ہیں۔ تفصیل کیلئے اعلام الموقعین وغیرہ کتب کا مطالعہ کریں۔
اجماع اور مقلدین حضرات
اس بات پر اجماع ہے کہ تقلید بے علمی کو کہتے ہیں اور مقلد عالم نہیں ہوتا ( یعنی جاہل ہوتا ہے۔)
دیکھئے جامع بیان العلم وفضلہ لا بن عبدالبر ( ج ۲ ص ۱۱۷) اعلام الموقعین لا بن القیم ( ج اص ۷ و ج ۲ ص ۱۸۸)
زیلعی حنفی! نے لکھا ہے کہ ’’فالمقلد ذهل والمقلد جهل‘‘
پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کا مرتکب ہوتا ہے۔
(نصب الرامین اص ۲۱۹)
عینی حنفی! نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ’’ فالمقلد ذهل والمقلد جهل وآفة كل شيء من التقلید‘‘
پس مقلد غلطی کرتا ہے اور جاہل ہوتا ہے اور تمام مصیبتیں تقلید کی وجہ سے ہیں۔
(البناية في شرح البدايج اص ۲۲۲ ، ملتان، ص ۳۱۷ ط بیروت)
ان دونوں عبارتوں سے دو باتیں معلوم ہوئیں:
➊ مقلد جاہل ہوتا ہے۔
➋ جن علماء کے ساتھ منفی وغیرہ کا دُم چھلالگا ہوا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ وہ مقلد تھے ۔ بلکہ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ اُن کا طریقہ استدلال اور اصول اسی طرح کے ہیں جس طرح کے امام ابوحنیفہ وغیرہ کے اصول تھے ۔ شاہ ولی اللہ الدھلوی الحنفی! کی الانصاف وغیرہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ اس اجماع کے برعکس دعوی تقلید کرنے والے دیو بندی اور بریلوی حضرات اپنے آپ کو علماء میں سمجھے بیٹھے ہیں ۔ کہاں جاہل اور کہاں عالم؟ اور بعض یہ کہتے ہیں کہ ہم آپ لوگوں کے مقابلے میں عالم ہیں !!
اس پر صحابہ کا اجماع ہے کہ جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے۔
(دیکھئے معنی ابن قدامہ ج ص ۱۸۱ مسئله ۴۲۶)
جرابوں پر سیدنا علی بن ابی طالب، ابو مسعود (ابن مسعود ) براء بن عازب، انس بن مالک، ابوامامتہ سہل بن سعد اور عمرو بن حریثؓ وغیر ہم نے مسح کیا ہے اور یہی مروی ہے عمر بن الخطاب اور ابن عباس سے۔
(سنن ابی داود ج ا ص ۲۴ تحت ح ۱۵۹)
امام اسحاق بن راہویہ نے کہا کہ اس مسئلہ میں ان (صحابہ) کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
( الاوسط لا بن المنذرج اص ۴۶۵ )
نیز دیکھیے منجنیق الغرب حافظ ابومحمد بن حزم کی شہرہ آفاق کتاب المحلیٰ وغیرہ
امام ابو حنیفہ اپنی زندگی کے شروع میں خفین ( موزوں ) جور بین متعلمین ( جوتیوں والی جرابوں ) اور جور بین مجلد ین ( وہ جرابیں جن کا نچلا حصہ چمڑے کا ہوتا ہے ) پرمسح کے جواز کے قائل تھے اور جرابوں پر مسح کے منکر تھے ۔ آخری عمر میں آپ اپنی بات سے رجوع ( تو بہ ) کر کے جرابوں پر مسح کے قائل ہو گئے اور جواز کا یہی قول مفتی بہ ہے۔
(دیکھئے الہدایہ ج ا ص ۶۱ وغیرہ)
صحابہ کے اجماع ، قول امام ابی حنیفہ اور مفتی بہ قول کے برخلاف آج کل کے دیو بندی اور بریلوی حضرات جرابوں پر مسح کے جواز کے سخت منکر ہیں۔
صحابہ میں سے کوئی بھی حنفی ، شافعی ، دیو بندی و بریلوی نہیں تھا۔
(دیکھئے جاء الباطل ج ص ۲۲۲)
اس کے برعکس آج کل کے لوگ حنفی ، شافعی ، دیوبندی، بریلوی وغیرہ بنے ہوتے ہیں۔
سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ اور ان کے مقتدی اس طرح آمین بالجبر کہتے تھے کہ مسجد میں شور مچ جاتا تھا۔ دیکھئے صحیح بخاری ومصنف عبدالرزاق وغیر ہما
کسی صحابی نے عبداللہؓ پر انکار یا تنقید نہیں کی لہٰذا ثابت ہوا کہ آمین بالجہر کے جواز پر اجماع صحابہ ہے۔ اس کے برعکس مقلدین دیو بندیت و بریلویت آمین بالجہر سے سخت دشمنی، حسد اور نفرت رکھتے ہیں۔
کسی صحابی سے بھی تقلید شخصی کا صراحتا یا اشارہ ثبوت نہیں ہے، بلکہ سیدنا معاذ بن جبل وغیرہ نے مطلق تقلید سے بھی منع فرمایا ہے۔
(جامع ابن عبدالبر ج ۲ ص ۱۳۶، وسنده حسن و غیره)
اس کے سراسر برخلاف دیوبندی اور بریلوی حضرات تقلید شخصی کے وجوب کے قائل ہیں۔
امیر المومنین عمرؓ وغیرہ (صحابہؓ) سے مروی ہے کہ نماز کی ساری رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ (دیکھئے فقہ عمر وغیرہ)
اس کے برعکس دیو بندی و بریلوی حضرات کا فتویٰ ہے کہ آخری دورکعتوں میں اگر جان بوجھ کر سورہ فاتحہ بلکہ قرآن کا کوئی حصہ بھی نہ پڑھا جائے ۔ بالکل چپ سادھ لی جائے تو نماز بالکل صحیح اور جائز ہے۔!
امیر المومنین سیدنا عثمان ، سعد بن ابی وقاص اور معاویہ وغیر ہم سے صرف ایک رکعت وتر کا جواز ثابت ہے۔ (دیکھئے صیح بخاری وغیرہ ) ایک وتر کے جواز کا صحابہ میں کوئی مخالف نہیں ہے۔
اس کے برعکس دیو بندی و بریلوی حضرات ایک رکعت وتر کے سخت منکر ہیں۔
تمام صحابہ توحید وسنت کا عقیدہ رکھتے تھے ۔ حجر اسود کو سیدنا عمرؓ اس وجہ سے چومتے تھے کہ نبی ﷺ نے چوما تھا۔ کسی صحابی کا بھی یہ عقیدہ نہیں تھا کہ رسول اللہ (ﷺ) اور علیؓ وغیر ہما مشکل کشا ہیں۔ اس کے برعکس بریلوی اور دیوبندی حضرات سیدنا علیؓ وغیرہ کو مشکل کشا سمجھتے ہیں۔
دیکھئے یہی مضمون (قرآن مجید اور تقلید پرست حضرات ، فقرہ:۵)
اس پر صحابہ کا اجماع ہے کہ قوم لوط کا عمل کرنے والے کو قتل کر دینا چاہئے۔
(المغنی لابن قدامه ج و ص ۵۸ مسئله ۷۱۶۸)
اس کے سراسر بر عکس فقہ حنفیہ کا فتویٰ ہے کہ قوم لوط کا عمل کرنے والے شخص پر کوئی حد نہیں ہے۔
دیکھئے نصر المعبود (مسئلہ نمبر۲)
یہ علیحدہ بات ہے کہ حنفی امام کسی شخص کو بطور سیاست کوئی سزا دے دے۔
متعدد صحابہ سے یہ ثابت ہے کہ ایمان زیادہ بھی ہوتا ہے اور کم بھی۔
دیکھئے السنتہ عبداللہ بن احمد بن حنبل ( ج ۱ص۳۱۴، ۳۱۵ ) سنن ابن ماجه ( ح ۷۵ ) الایمان لابن ابی شیبہ وغیرہ
صحابہ وسلف صالحین کا اس مسئلہ میں کوئی مخالف نہیں ہے۔ اس کے برعکس اہل التقلید کا عقیدہ ہے کہ ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم۔
(دیکھئے قرآن مجید اور تقلید پرست حضرات، فقرہ:۸)
إنا لله وإنا إليه راجعون
غرض اس قسم کی بے شمار مثالیں ہیں۔
اہل التقلید اور اجتہاد کی مخالفت
شامی حنفی نے لکھا ہے کہ ’’چوتھی صدی ہجری کے بعد اجتہاد کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ ۵۵۱/۱‘‘
(بحوالہ کتاب: "اجتہاد اور اوصاف مجتہد مصنفہ : گوہر رحمن ص۵۰)
صاحب در مختار لکھتے ہیں کہ
’’و قد ذكروا أن المجتهد المطلق قد فقد ‘‘
اور انھوں نے ذکر کیا ہے کہ مجتہد مطلق مفقود ہو گیا ہے۔ (ج اس ۱۵) تقلید پرستوں نے اجتہاد کا دروازہ بزعم خود بند کر دیا اور کہنے لگے :
”ہماری مثال ایسی ہے، جیسے ایک اندھا ہے اُس کا مدار ہی عصا پر ہے اگر وہ عصا لیکر نہ چلے تو وہ خندق ہی میں گرے، وہ ہم ہیں‘‘
(الافاضات الیومیہ من الافادات القو میرج اص ۶۹ ملفو ظ ۳ ۷ ، از اشرفعلی تھانوی)
اس کے بعد آنے والے باب اور بعد والے ابواب میں ان تقلید پرستوں اور خلفائے راشدین کے فتاویٰ کا ذکر ہے جنکی یہ لوگ مخالف کرتے ہیں ۔ یہ اظہر من الشمس ہے کہ چاروں خلفائے راشدین زبر دست مجتہدین بھی تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین
خلیفہ اول ابو بکرؓ اور تقلید پرست حضرات
امیر المومنین خلیفہ راشد ابو بکر الصدیقؓ سے ثابت ہے کہ آپ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔
(السنن الكبرى للبیہقی ج ۲ ص ۷۳ وقال: رواتہ ثقات ، واقرہ الذہبی وابن حجر)
نیز دیکھئے فقہ ابی بکر (ص ۱۹۵)
اس کے خلاف ابو بکرؓ سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے ، رسول اللہ ﷺ سے بھی متواتر احادیث کے ساتھ رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین ثابت ہے۔
دیکھئے نظم المتناثر من الحدیث المتواتر ( ص ۹۶، ۹۷) لقط الآلى المتناثرة في الاحاديث المتواترہ ( ص ۲۰۷) الازهار المتناثرة للسیوطی و غیره
ان احادیث متواترہ اور عمل صدیقی کے بر عکس دیو بندی و بریلوی حضرات رفع یدین کے سخت منکر ہیں۔ بلکہ ان میں سے بعض غالیوں نے رفع یدین کرنے والوں کی تکفیر بھی کی ہے۔ دیکھئے محمد عاشق الہیٰ میرٹھی دیو بندی کی ‘ تذکرۃ الخلیل (ص۱۳۳۱۳۲)
یہاں بطور تشکر عرض ہے کہ میرٹھی صاحب نے ایسے (نام نہاد ) حنفیوں کے بارے میں لکھا ہے کہ ” اور یہ سخت ترین غلطی تھی ، بڑی گمراہی تھی“ (ایضا)
صدیق اکبرؓ کا فتویٰ ہے کہ قوم لوط کے مرتکب کو قتل کر دیا جائے۔
(دیکھئے اسنن الکبریٰ للبیہقی ج ۸ ص ۲۳۲ دفقه ابی بکرص ۳۵ ۲۳۵۰)
تنبیہ:
اس مضمون میں فقہ ابی بکر، فقہ عمر فقہ عثمان اور فقہ علی رضی اللہ عنہم اجمعین سے مراد وہ اردو تراجم ہیں جو ادارہ معارف اسلامی لاہور نے شائع کئے ہیں۔
اس کے برعکس حنفیہ قوم لوط کا عمل کرنے والے پر حد کے قائل نہیں ہیں۔
دیکھئے نصر المعبود (مسئلہ :۲)
ابو بکرؓ کے نزدیک قربانی کرنا سنت ہے، واجب نہیں ہے۔
(دیکھئے المغنی ج ۸ ص ۶۱۸ و غیره بحواله فقه ابی بکر ص ۵۶)
جبکہ حنفیہ قربانی کو واجب کہتے ہیں۔ دیکھئے الہدایہ ( ج ۲ ص ۴۴۳ کتاب الأضحية )
کہا جاتا ہے کہ امام برحق ابو بکرؓ عیدین میں بارہ تکبیرات کے قائل و فاعل تھے، سات پہلی رکعت میں اور پانچ دوسری رکعت میں ۔
دیکھئے المجموع ( ج ۵ ص ۱۷ بحوالہ فقہ ابی بکرص ۲۰۱)
جبکہ حنفیہ صرف چھ تکبیرات کے قائل و فاعل ہیں۔ دیکھئے الہدایہ (ج ۱ص۷۳ اباب العیدین)
سیدنا ابو بکرؓ ایک رکعت وتر کے قائل تھے۔
دیکھئے مصنف ابن ابی شیبه ( ج ص ۹۸ و غیره بحواله فقه ابی بکرص ۱۹۷)
جبکہ فرقه دیو بند بی وفرقه بریلویہ دونوں ایک رکعت وتر کے منکر ہیں۔
دیکھئے الہدایہ ( ج اص ۴۴ باب صلاة الوتر) وغیره
یہاں پر بطور لطیفہ عرض ہے کہ خلیل احمد سہارنپوری انبیٹھوی دیوبندی نے انوار ساطعہ کے بدعتی مولوی کے رد میں لکھا ہے کہ ’’اقول: وتر کی ایک رکعت احادیث صحاح میں موجود ہے اور عبد اللہ بن عمر اور ابن عباس و غیر هما صحابہ اس کے مقر اور مالک و شافعی واحمد کا وہ مذہب پھر اس پر طعن کرنا مولف کا ان سب پر طعن ہے۔ کہواب ایمان کا کیا ٹھکانا‘‘ الخ
( براہین قاطعہ ص ۷ )
صدیقؓ عمامہ پر مسح کے قائل تھے دیکھئے ابن ابی شیبہ ( ج اص ۳۰۵ وغیرہ بحوالہ فقہ ابی بکرص ۲۷۰) اس کے برعکس اہل تقلید مسح علی العمامہ کے منکر ہیں۔
دیکھئے الہدایہ ( ج ص ۶۱ باب المسح على الخفين )
ابو بکرؓ کا فتویٰ ہے کہ غیر شادی شدہ زانی کو کوڑے لگا کر ایک سال کے لئے جلا وطن کر دیا جائے گا۔ دیکھئے سنن ترمذی (کتاب الحدود باب ما جاء فی النفی ، وغیرہ بحوالہ فقہ ابی بکر ص ۱۶۱،۱۶۰)
جبکہ اس کے بالکل بر عکس حنفی حضرات جلاوطنی کے قائل نہیں ہیں۔
دیکھئے الہدایہ ( ج ۱ص ۵۱۲ کتاب الحدود)
جناب ابوبکرؓ اس ذمی کافر کے ذمہ کے ٹوٹنے کے قائل تھے جو کہ رحمۃ للعالمین کی شان اقدس میں گستاخی کرے۔ دیکھئے المحلیٰ
(ج ۱ ص ۲۰۹ و غیره بحوالہ فقہ ابی بکرص ۱۳۵)
جبکہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایسے شخص کا نہ ذمہ ٹوتا ہے اور نہ وہ قتل کیا جائے گا۔ دیکھئے یہی مضمون (الذيل المحمود کا پہلا صفحہ )
فتاویٰ شامی میں منقول ہے کہ
’’واما أبو حنيفة وأصحابه فقالوا لا ينتقض العهد بالسب ولا يقتل الذمى بذلك لكن يعزر على اظهار ذلك “
اور ابو حنیفہ اور ان کے شاگرد اس کے قائل ہیں کہ سب و شتم سے عہد نہیں ٹو ٹتا اور نہ ذمی کو اس وجہ سے قتل کیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ سب وشتم کا علانیہ اظہار کرے تو تعزیر لگے گی۔ (ردالستار علی الدر المختار ج ۳ ص ۳۰۵) ۹: جو مچھلی پانی میں خود بخود یا بغیر شکار کے مرجائے ، اسے الطافیہ کہا جاتا ہے۔ ابوبکرؓ الطافیہ کے حلال ہونے کے قائل تھے۔
( دیکھئے مصنف عبدالرزاق ج ۲ ص ۵۰۳ ۵۰۳۴۶ وفقه ابی بکر ص ۲۰۷ )
جبکہ فقہ حنفی میں طافیہ کھانا مکروہ ہے۔
(دیکھئے الہدایہ ج ۲ص۴۴۲ آخر کتاب الذبا لخ)
یہاں بطور تنبیہ عرض ہے کہ صاحب ہدایہ نے اپنے تقلیدی مذہب کو بچانے کے لئے جو حدیث و آثار کی طرف اشارہ کیا ہے ان میں سے کچھ بھی عند التحقیق ثابت نہیں ہے۔ صدیقی فتویٰ کے مقابلے میں کسی دوسرے اثر کا پیش کرنا ہر لحاظ سے غلط ہے۔
جناب سیدنا صاحب الرسولﷺ وخلیفہ اول ابو بکرؓ کا فتویٰ ہے کہ مرتدہ (مرتد ہونے والی عورت) کو قتل کر دیا جائے۔
دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی ( ج ۸ ص ۲۰۴ و غیره بحواله فقه ابی بکرص ۱۴۳ ۱۴۴)
جبکہ اس کے سراسر مخالف حنفی حضرات کا فتویٰ ہے کہ مردہ کو قتل نہیں کیا جائے گا۔
(دیکھئے الہدایہ اص ۲۰۰ باب احکام المرتدين)
اس قسم کی اور مثالیں بھی ہیں۔
مثلاً دیکھئے فقہ ابی بکر ص ۲۶( خلیفہ پر حد(ص ۷۴ (اطاعت فی المعروف) ص ۱۳۱ وفقہ عثمان ص ۲۲۸ (زکوة النخيل) ص ۲۴۹ ( مزارعت ) ص ۱۸۹( صبح کی نماز ) وغیرہ
خلیفہ ثانی سیدنا عمرؓ اور تقلید پرست حضرات
شہید محراب جناب سیدنا عمرؓ کا فتویٰ ہے کہ مفقودالخبر کی بیوی چار سال انتظار کرے۔ دیکھئے فقہ عمر (ص ۶۱۵) موطا امام مالک، مسند شافعی و غیره
جبکہ حنفی فتویٰ اس کے برعکس ہے۔
(دیکھئے نصر المعبود، امام ابوحنیفہ کے وہ مسائل جن پر حنفیہ کا عمل نہیں ہے۔ مسئلہ ۴)
بہشتی زیور میں لکھا ہوا ہے کہ ’’تو وہ عورت اپنا دوسرا نکاح نہیں کر سکتی ۔ بلکہ انتظار کرتی رہے کہ شاید آجائے ، جب انتظار کرتے کرتے اتنی مدت گزر جائے کہ شوہر کی عمر نوے برس کی ہو جائے تو اب حکم لگا دیں گے کہ وہ مرگیا ہوگا۔“
(حصہ چہارم ص ۲۸، ۲۹ صفر مسلسل ص ۳۵۵،۳۵۴)
جب اس فتویٰ میں حنفی حضرات پھنس گئے تو انھوں نے امام مالک کے قول پر فتویٰ دینا شروع کر دیا۔ حیلہ ناجزہ کا چکر چلانے لگے۔ ایک کی تقلید سے نکل کر دوسرے کی تقلید میں داخل ہو کر تلفیق و خواہش پرستی کے مرتکب بن گئے اور جناب سید نا عمرؓ کا نام تک نہ لیا تا کہ کہیں تقلید کا مسئلہ ہی ختم نہ ہو جائے۔
سیدنا عمرؓ مروجہ حلالہ کے سخت خلاف تھے بلکہ وہ سزادینے کے قائل تھے۔
( فقه عمرص ۴۹۷ )
جبکہ حنفیہ حلالہ کے قائل و فاعل ہیں۔
سیدنا جناب عمرؓ بغیر ولی والے نکاح کو باطل و مردود سمجھتے تھے اور ایسا کرنے والوں کو کوڑے لگاتے تھے۔
(فقہ عمرص ۶۵۸،۶۵۷)
جبکہ حنفیہ کے نزدیک ’’باکرہ بالغہ‘‘ کے نکاح کے جواز کے لئے ولی کا ہونا شرط نہیں ہے اور عقد صحیح ہو جائے گا۔
(دیکھئے فتاویٰ دار العلوم دیوبند ۳ ۳۹ ۴۰ و غیره)
سیدنا جناب عمرؓ حالت احرام میں کئے گئے نکاح کو مردود قرار دیتے تھے۔
(فقه عمرص ۲۵۴)
جبکہ حنفیہ کے نزدیک حالت احرام میں نکاح جائز ہے۔
(دیکھئے الفقه الاسلامی وادلته ج ۳ ص ۲۴۳ و غیره)
سیدنا جناب عمرؓ رضاعت میں دو سال کی مدت کے قائل تھے۔ (فقہ عرض ۳۴۱) جبکہ حنفیہ ودیو بندیہ کے نزدیک اسکی مدت اڑھائی سال ہے۔
(دیکھئے تفسیر عثمانی ص ۵۴۸ سورة لقمان آیت ۱۴ حاشیه ۱۰)
فائدہ:
تفسیر عثمانی کے مصنف شبیر احمد عثمانی دیو بندی صاحب اپنی اس تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اور رسول اللہ ﷺ جو اپنے امتیوں کے حالات سے پورے واقف ہیں ان کی صداقت و عدالت پر گواہ ہوں گئے“۔
(ص ۲۷ سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۱۴۳ف ۳)
جناب سیدنا عمرؓ زبردستی کی دی ہوئی طلاق کے قائل نہیں تھے ۔ ( فقہ عمرص ۴۸۷) حنفیہ کے نزدیک یہ طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
(الفقه الاسلامی وادلته ج ۲ ص ۲۱۵ بدائع الصنائع ج ۷ ص ۱۸۶،۱۸۲)
جناب سیدنا عمرؓ وقف میں نہ فروخت کے قائل تھے اور نہ ھبہ کے۔
جبکہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک وقف کو بیچنا اور اس میں رجوع کرنا جائز ہے۔
(فقه عمر ص ۶۸۴)
(دیکھئے الفقه الاسلامی وادلتہ ج ۸ ص ۱۵۳)
جناب سیدنا عمرؓ ضب :
”سانڈھا‘‘ ( جسے پشتو میں سمسارہ کہتے ہیں ) کھانا جائز سمجھتے تھے۔ یہ ایک قسم کا زمینی جانور ہے۔
(فقہ عرض ۴۷۸)
جبکہ حنفیہ اسے مکروہ سمجھتے ہیں بلکہ ایک قول حرمت کا بھی ہے۔
(الفقه الاسلامی وادلته ج ۳ ص ۵۰۹)
جناب سیدنا عمرؓ رباعی ( چار رکعت والی ) نماز کی آخری دو رکعات میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔
(فقہ عمر ۴۳۷)
جبکہ دیو بندی ” بہشتی زیور‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’اگر پچھلی دورکعت میں الحمد نہ پڑھے بلکہ تین دفعہ سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ لے تو بھی درست ہے لیکن الحمد پڑھ لینا بہتر ہے اور اگر کچھ نہ پڑھے چپکی کھڑی رہے تو بھی کچھ حرج نہیں نماز درست ہے“۔
(ص ۶۳ حصہ دوم ص ۱۹ باب فرض نماز پڑھنے کے طریقہ کا بیان مسئلہ نمبر ۱۷)
جناب سیدنا عمرؓ اس بات کے قائل تھے کہ اگر ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو جائے تو عصر کا وقت ہو جاتا ہے۔
(فقہ عمرص ۴۲۶)
لیکن ہمارے علاقے کے تمام دیو بندی و بریلوی حضرات دومثل کے ہی بعد عصر کی نماز پڑھتے ہیں۔ نیز دیکھئے البوارق المرسله (ص۱۵،۱۴) وغیرہ
جناب سیدنا عمرؓ کے دیگر بہت سے فتاویٰ کے بھی اہل التقلید مخالف ہیں۔
خلیفہ ثالث سیدنا عثمانؓ اور اہل تقلید حضرات
جناب خلیفه را شد شهید مظلوم سیدنا عثمانؓ کا فتویٰ ہے کہ مدینہ حرم ہے۔
(دیکھئے فقہ عثمان ص ۱۷۶)
حفی مخالفت کیلئے دیکھئے (حدیث صحیح اور تقلید پرست حضرات ، فقرہ:۱۲)
جناب سیدنا عثمانؓ کے نزدیک حالت احرام میں نہ اپنا نکاح کرنا چاہیے اور نہ کسی دوسرے کا۔
(فقہ عثمان ص ۲۹،۲۸)
حنفی مخالفت کیلئے دیکھئے (خلیفہ ثانی سیدناعمرؓ اور تقلید پرست حضرات ، فقره:۴)
مفقود الخبیر کے بارے میں عثمانی فتویٰ یہ ہے کہ اس کی بیوی چار سال انتظار کرے، اس کے بعد وہ دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔
(دیکھئے فقہ عثمان ص ۳۸۱) وغیرہ
حنفی مخالفت کیلئے دیکھئے (خلیفہ ثانی سید نا عمرؓ اور تقلید پرست حضرات، فقرہ:۱)
جناب سیدنا عثمانؓ عیدین میں بارہ تکبیروں کے قائل و فاعل تھے۔
دیکھئے فقہ عثمان (ص ۲۸۷ ) وغیرہ
حنفی مخالفت کیلئے دیکھئے یہی مضمون (خلیفہ سیدنا ابوبکرؓ اور تقلید پرست حضرات فقره:۴)
جناب سیدنا عثمانؓ سفر میں دو نمازوں (ظہر + عصر اور مغرب + عشاء ) کی جمع کے قائل تھے۔
(دیکھئے فقہ عثمان ص ۲۴۸ و غیره)
جبکہ دیو بندی و بریلوی حضرات اس کے سخت منکر ہیں۔ مرتدہ کے بارے میں عثمانی فتویٰ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔
جبکہ حنفی حضرات اس فتویٰ کے خلاف ہیں۔
( دیکھئے فقہ عثمان ص ۲۱۱ وغیرہ )
دیکھئے (خلیفہ سیدنا ابوبکرؓ اور تقلید پرست حضرات، فقره:۱۰)
جناب سیدنا عثمانؓ ایک رکعت وتر کے قائل و فاعل تھے۔
(دیکھئے فقہ عثمان ص۲۸۰ و غیره)
جبکہ آل دیو بند و آلِ بریلوی بالعموم منکر ہیں۔
دیکھئے (خلیفہ سیدنا ابوبکرؓ اور تقلید پرست حضرات، فقرہ:۵)
قربانی کے بارے میں عثمانی فقہ یہ ہے کہ سنت ہے، واجب نہیں ہے۔
جبکہ مخالفین فقہ عثمان اسے واجب کہتے ہیں۔
( دیکھئے فقہ عثمان ص ۷۶ )
دیکھئے یہی مضمون (خلیفہ سیدنا ابوبکرؓ اور تقلید پرست حضرات، فقرہ :۱۲)
جناب سیدنا عثمانؓ طافیہ کی حلت ( حلال ہونے ) کے قائل تھے۔
جبکہ آل تقلید اس کے مخالف ہیں۔
(دیکھئے فقہ عثمان ص ۳۰۳)
دیکھئے (خلیفہ سیدنا ابوبکرؓ اور تقلید پرست حضرات ، فقرہ:9)
قوم لوط کا عمل کرنے والے شخص پر خلیفہ راشد امیر المومنین عثمانؓ کی یہ حد ہے اسے قتل کر دیا جائے ۔ دیکھئے فقہ عثمان ص۳۷۴ وغیرہ ، اور اسی پر صحابہ کا اجماع ہے۔ (ایضاً)
حنفی مخالفت کیلئے دیکھئے نصر المعبود (مسئلہ :۲)
اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ مثلاً دیکھئے فقہ عثمان (ص۷۴ ) طلاق السکران (ص۲۷۴) وقت الجمعه (ص ۱۴۱) سربراہ پر حد (ص ۷۱ ) شراب کا مسئلہ وغیرہ
خلیفہ چہارم سیدنا علیؓ اور تقلید پرست فرقہ
نصر المعبود کے آخر میں امیر المومنین خلیفہ راشد جناب سیدنا علیؓ ان کا قول گزر چکا ہے کہ چاروں تقلیدی مذاہب اور سلاسل اربعہ میں سے کوئی بھی ان کے مذہب کے مطابق نہیں ہے ۔ اب چند علوی فتاویٰ اور ان کی تقلیدی مخالفتیں پیش خدمت ہیں۔
جناب سید نا علیؓ جرابوں پر مسح کے قائل و فاعل تھے۔
(دیکھئے فقہ علی ص۷۹۳ وغیرہ)
جبکہ آل دیو بند وآل بریلوی اس کے سراسر منکر ہیں۔
دیکھئے یہی مضمون :
اجماع اور مقلدین حضرات ( فقرہ :۲)
جناب سید نا علیؓ مدینہ کے حرم ہونے کے قائل تھے۔
(دیکھئے فقہ علی ص ۶۹۴)
جبکہ آل تقلید حرم مدینہ کے خلاف ہیں۔
دیکھئے یہی مضمون :
حدیث صحیح اور تقلید پرست حضرات ( فقرہ:۱۲)
جناب سیدنا علیؓ سجدوں کے درمیان دعا کے قائل تھے۔
(فقہ علی ص۲۸۰)
جبکہ ظاہر روایت کی الجامع الصغیر میں اسکے خلاف فتویٰ ہے۔ دیکھئے یہی مضمون حدیث صحیح اور تقلید پرست حضرات (فقرہ:۱۱)
جناب سیدنا علیؓ وتر کے سنت ہونے کے قائل تھے دیکھئے۔ (فقہ علی ص۴۸۲)
جبکہ حنفیہ وتر کو واجب گردانتے ہیں۔
دیکھئے الہدایہ (ج ۱ص۴۴ باب صلوة الوتر )
جناب سیدنا علیؓ بارہ تکبیرات عیدین کے قائل تھے۔ دیکھئے فقہ علی (ص ۵۰۱) جبکہ فرقہ تقلید یہ اس کے مخالف ہے۔
دیکھئے یہی مضمون :
خلیفہ ابو بکرؓ اور تقلید پرست حضرات ( فقره:۴)
یہاں بطور تنبیہ عرض ہے کہ شیعوں کی کتاب مسند زید میں اس کے خلاف جو کچھ منقول ہے کئی لحاظ سے مردود ہے:
اس مسند کا بنیادی راوی عمرو بن خالد الواسطی بالا جماع کذاب ہے دیکھئے تہذیب التہذیب وغیرہ اور راقم الحروف کی کتاب ” تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ‘‘
(طبع اول ص ۲۹)
دوسرا راوی عبد العزیز بن اسحاق غالی شیعہ اور ضعیف تھا۔
(لسان المیزان ج ۲ ص ۲۵ و غیره )
زیدی شیعوں کی من گھڑت کتاب کو اہل السنتہ کے خلاف پیش کرنا مردود ہے۔ وغیرہ
جناب سیدنا علیؓ نے دوبارہ جنازہ کے جواز کے قائل تھے۔
(دیکھئے فقہ علی ص۵۰۶)
جبکہ دیو بندی و بریلوی حضرات بعض فقہی جزئیوں وغیرہ کی بنیاد پر دوبارہ جنازہ کے سخت منکر ومخالف ہیں۔
جناب سید نا علیؓ کا فتویٰ ہے کہ شاتم الرسول کا ذمہ ٹوٹ جاتا ہے۔
(دیکھئے فقہ علی ص ۳۳۶)
جبکہ اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ واصحابہ کا مسلک اس کے سراسر خلاف ہے۔
دیکھئے یہی مضمون:
الذيل المحمود( پہلا صفحہ )
جناب سیدنا علیؓ سفر میں جمع بین الصلاتین کے قائل و فاعل تھے۔
( دیکھئے فقہ علی ص ۴۲۷ )
جبکہ بریلویہ ودیو بند یہ اس کے مخالف ہیں۔
جناب سید نا علیؓ کا فتویٰ ہے کہ حرم مکہ میں کفار داخل نہیں ہو سکتے ۔
(دیکھئے فقہ علی ص ۶۹۹، ۷۰۷ )
جبکہ حنفیہ اس حیدری فتویٰ کے خلاف ہیں۔
دیکھئے یہی مضمون :
قرآن مجید اور تقلید پرست حضرات ( فقرہ:۱)
جناب [سیدنا] علیؓ اس بات کے قائل تھے کہ عید گاہ کی طرف عید کے دن ، نماز پڑھنے کے لئے جانے والا راستہ میں تکبیریں کہتا رہے۔
(دیکھئے فقہ علی ص ۶۰۴)
جبکہ امام ابو حنیفہ کا فتویٰ اس کے برعکس ہے۔ دیکھئے نصر المعبود ( مسئلہ: ۴)
مختصر یہ کہ اس قسم کے اور بھی بہت سے فتاوی ہیں جنکی دیو بند یہ و بریلوی دونوں مخالفت کرتے ہیں ، مثلا دیکھئے فقہ علی (ص۱۰۶) شراب کی تجارت ( ص ۲۲۷) سلطان پر حد ( ص ۳۹۵) حلاله (ص ۴۱۵) سجده شکر (ص ۴۱۵ ) سجدہ تلاوت (ص ۴۹۳،۴۶۶) ظہر و جمعہ میں تجھیل (ص ۴۷۶) دوسورتیں ایک ہی رکعت میں ( ص ۲۸۷) اقامت صفوف (ص ۴۸۶) دوسری جماعت (۴۹۵) مسنون قراءت در جمعه (ص۵۰۶) نماز استقاء (ص۵۹۹) عقیقہ، وانظر قول الامام فیها ( ص ۷۱۲ ) شوہر کا بیوی کو غسل دینا ( ص ۷۵۱) لا نکاح الا بولی، وغیرہ
یہاں بطور تنبیہ عرض ہے کہ فقہ علی وغیرہ میں بعض اقوال غیر ثابت شدہ ہیں مثلا مسند زید وغیرہ کے حوالے۔ میں نے خلفائے راشدین کے صرف وہی اقوال لکھے ہیں جو ( عام طور پر ) کتاب وسنت کے موافق ہیں یا ان سے ثابت و مشہور ہیں ۔ ضعیف و مردو دالاسانید اقوال کو راقم الحروف نے ترک کر دیا ہے۔
مثلاً فقہ علی ص۲۹۰ پر لکھا ہوا ہے کہ ” آپ سے کنویں میں چوہا گر جانے سے متعلق ایک روایت میں ہے کہ ایسی صورت میں کنویں سے چالیس ڈول نکالے جائیں‘‘ مجھے یہ روایت نہیں ملی ۔
[نیز دیکھئے آثار السفن تحقیقی :۱۱]
یہ الگ بات ہے کہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب الہدایہ میں لکھا ہوا ہے کہ اگر کنویں میں چوہا گر جائے تو بیس سے تیس تک ڈول نکالے جائیں۔ (ص۴۲) اور اگر کبوتر گر جائے تو چالیس سے ساٹھ تک ڈول نکالے جائیں۔
(ص۴۳ باب الماء الذى يجوز به الوضوء وما لا يجوز به)
نیز دیکھئے تھانوی بہشتی زیور حصہ اول (۹۸/۵۳) کنویں کا بیان مسئلہ (۶ و ۸) بہار شریعت ( ج ۲ ص ۲۷) کنویں کا بیان، وغیرہ
اس ’’فقہ شریف‘‘ کی حکمت دیو بندی یا بریلوی حضرات ہی سمجھ سکتے ہیں کہ چوہا گرے تو ہیں ڈول اور حلال پرندہ کبوتر گرے تو چالیس !؟
خلفائے راشدین کی یہ چند مثالیں اس لئے پیش کی ہیں تا کہ تمام مسلمانوں کو معلوم ہو جائے کہ بریلوی ودیوبندی حضرات قرآن و حدیث و اجماع کی مخالفت کے ساتھ ساتھ مجہتدین صحابہ وغیر ہم و خاص کر خلفائے راشدین کے بھی سراسر مخالف ہیں۔
وما علينا إلا البلاغ
(۷/ شوال ۱۴۱۸ھ بمطابق ۵/ فروری ۱۹۹۸ء)