آیت (اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُونِ اللَّهِ) کی تفسیر
سوال
سوال یوں ہے کہ ترمذی کی روایت ۳۰۹۵ جس کی سند کچھ اس طرح ہے:
حدثنا الحسين بن يزيد الكوفي : حدثنا عبد السلام بن حرب عن غطيف بن أعين عن مصعب بن سعد عن عدي بن حاتم قال : أتيت النبي علة و في عنقي صليب من ذهب فقال : يا عدي! اطرح عنك هذالوثن
شیخ صاحب ! سوال یہ ہے کہ بعض احباب اس روایت کو صحیح حسن بتلاتے ہیں۔ کیا شیخ البانی نے اس کو صحیح ترمذی ۳۰۹۵ میں ذکر کیا ہے؟ جبکہ انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعيفة من السنن الاربعہ صفحہ ۲۸۰ روایت نمبر ۳۰۹۵ میں غطلیف کو ضعیف لکھا ہوا دیکھا ہے۔ اس کے ضعف کی کیا وجوہات ہیں؟ اور کیا اس روایت کے کوئی صحیح یا حسن شاہد ہیں؟
اس سلسلے میں ابو البختری کا قول جو حسن درجے کا ہے جامع بیان علم وفضلہ میں اس بارے میں کیا لکھا ہے۔(میں نے سنا ہے کہ روایت حسن ہے، واللہ اعلم) اور اس کی جلد نمبر اور رقم (شمار) نمبر بھی بتائیے اور کیا واقعی وہ سند حسن ہے؟ اس بارے میں تفصیلاً جوابی لفافے میں جواب دیجئے ، ان شاء اللہ۔ جزاک اللہ خیراً
(سائل: زعیم پیشاور)
الجواب
آیت (اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُونِ اللَّهِ) کی تشریح میں دو روایات ہیں:
➊ مرفوع
سیدنا عدی بن حاتم الطائیؓ سے روایت ہے کہ میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور میں نے سونے کی ایک صلیب گردن میں لٹکا رکھی تھی ، تو آپ نے فرمایا: اے عدی! اس بت کو اتار پھینکو۔ اور میں نے آپ کو سورۃ التوبہ کی آیت:
(اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُونِ اللَّهِ) پڑھتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: انھوں نے ان کی عبادت نہیں کی لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو یہ اسے حلال سمجھتے اور جسے حرام قرار دیتے تو یہ اسے حرام سمجھتے تھے۔
(سنن ترمذی: ۳۰۹۵، سنن الکبری تاريخ الكبيرلار / نجم الاب الطبرانی ۹۲/۱۷ ح ۲۱۸ ۲۱۹ تفسیر ابن جریر ۸۶۴/۵ ح ۱۶۶۴۰۔۱۶۶۴۱، اور السلسلہ الصحیحہ ۳۲۹۳۸۶۱/۷)
اس روایت کی سند میں خطیف بن امین ضعیف راوی ہے۔
◈ دارقطنی نے اسے الضعفاء والمتروکین (۴۳۰) میں ذکر کیا۔
◈ ابن الجوزی نے اسے الضعفاء والمتروکین (۲ / ۲۴۷ ت ۲۶۸۶) میں ذکر کیا۔
◈ ذہبی نے اسے دیوان الضعفاء والمتروکین (۲۳۰/۲ت ۳۳۳۳) میں درج کیا۔
◈ ابن حجر نے فرمایا : ”ضعیف“ (تقریب التہذیب: ۵۳۶۴)
ان کے مقابلے میں ابن حبان نے اسے کتاب الثقات (۳۱۱/۷) میں ذکر کیا اور امام ترمذی کا قول مختلف فیہ ہے۔ کئی نسخوں میں صرف غریب کا لفظ ہے۔
(دیکھئے تحفتہ الاشراف ا:۲۸۴۷ت ۹۸۷۷، الاحکام الکبر کی لعبد الحق الاشبیلی ۴/ ۱۱۷، اور تہذیب الکمال ۱۳/۶، وغیرہ)
بعض نسخوں میں حسن غریب کا لفظ ہے۔ اگر اسے ثابت مانا جائے تو یہ دو توثیقیں ہیں جو جمہور کی جرح کے مقابلے میں مرجوح ہیں، لہذا یہ راوی ضعیف ہی ہے۔
حافظ ابن حجر نے اس روایت کے دو شواہد ذکر کئے ہیں:
◈عامر بن سعد عن عدی بن حاتم (الکافی الشاف ۲۶۴/۲)
اس کی سند میں واقدی کذاب ہے اور واقدی تک سند نا معلوم ہے۔
◈عطاء بن یسار عن عدی بن حاتم اس کی سند نا معلوم ہے۔
بے سند روایتیں مردود ہوتی ہیں، لہذا شیخ البانی کا دوسری سند کے ساتھ ملا کر اسے حسن ان شاء اللہ قرار دینا عجوبہ ہے۔
➋ موقوف
سیدنا حذیفہؓ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ان لوگوں نے ان احبار و رہبان کی عبادت کی تھی ؟ تو انھوں نے فرمایا: نہیں! جب وہ کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو یہ اُسے حلال سمجھتے تھے اور جب وہ کسی چیز کو اُن پر حرام قرار دیتے تو یہ اُسے حرام سمجھتے تھے۔
تفسیر عبد الرزاق (۱۰۷۳) تفسیر ابن جریر الطبری (۸۶۵/۵ ح ۱۶۶۴۳) السنن الکبری للبیہقی (۱۱۶/۱۰، شعب الایمان : ۹۳۹۴ بلون آخر ، دوسرا نسخه : ۸۹۴۸) جامع بیان العلم وفضله لا بن عبد البر ( ۲/ ۲۱۹ ح ۹۴۹) اور السلسلۃ الصحیحۃ (۸۶۵/۷)
یہ سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔
ابو البختری سعید بن فیروز الطائی کی سیدنا حذیفہؓ سے ملاقات ثابت نہیں۔
حافظ علائی نے لکھا ہے:
سعيد بن فيروز أبو البختري الـطـائـي كثير الإرسال عن عمر و علي و ابن مسعود و حذيفة وغيـرهـم رضي الله عنهم.
(جامع التحصيل ص ۱۸۳)
شیخ البانی نے بھی اس سند کا مرسل (یعنی منقطع) ہونا تسلیم کیا ہے۔
(حوالہ مذکورہ ص۸۶۵)
اور یہ معلوم ہے کہ مرسل و منقطع روایت مردود کی ایک قسم ہے۔
تفسیر سعید بن منصور میں لکھا ہوا ہے:
حدثنا سعيد :قال ناهشیم ، قال: نا العوام بن حوشب ، عن حبيب بن أبي ثابت، قال حدثني أبو البختري الطائي ، قال: قال لي حذيفة: أرأيت قول الله عز وجل اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله؟ فقال حذيفة: أما إنهم لم يصلوا لهم، ولكنهم كانوا ما أحلوا لهم من حرام استحلوه ، وما حرموا عليهم من الحرام حرموه فتلك ربوبيتهم
(۳/ ۳۱۳ شاملة)
اس روایت کی سند ابو البختری الطائی تک صحیح ہے، لیکن سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ ”لي“ کا لفظ کا تب یا ناسخ کی خطا ہے۔ اس کے علاوہ باقی تمام کتابوں میں یہ روایت سماع کی تصریح کے بغیر ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ سعید بن منصور رحمہ اللہ نے یہ روایت اسی طرح ’’ قال لي “ کے ساتھ بیان کی تھی تو پھر موقوف سند صحیح ہے ۔واللہ اعلم
تنبیه
جامع بیان العلم وفضلہ میں اس مفہوم کی ایک روایت (صحیح سند کے ساتھ) ابو الاحوص سلام بن سلیم الحنفی الکوفی سے عن عطاء بن السائب عن ابی البختری کی سند کے ساتھ مروی ہے، یعنی یہ صرف ابو البختری کا اپنا قول ہے۔
ابو الاحوص کا شمار عطاء بن السائب کے قدیم شاگردوں میں نہیں۔
(دیکھئے اختصار علوم الحدیث تحقیقی ص ۱۶۶)
لہذا یہ مقطوع سند بھی ضعیف ہے ۔ واللہ اعلم
آپ نے اس تحقیق سے دیکھ لیا کہ یہ روایت اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف و مردود ہی ہے اور اسی بات کو انوار الصحیفہ میں اختصار پیش نظر رکھتے ہوئے درج ذیل الفاظ کے ساتھ لکھا گیا ہے:
غطیف : ضعیف (تق: ٥٣٦٤) و للحديث شاهد موقوف عند الطبري في تفسيرہ (ت ۱۱۰/۹) و سنده ضعیف منقطع (ص۲۸۱)
اگر کوئی کہے کہ اس آیت کا مطلب کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ یہود و نصاری نے اپنے احبار و رہبان کو اس طرح سے رب بنالیا کہ اللہ کی نافرمانی میں ان کی اطاعت کی، جسے احبار و رہبان نے حلال قرار دیا تو اسے حلال سمجھا اور جسے انھوں نے حرام قرار دیا تو اسے حرام سمجھا ، چاہے یہ تحلیل و تحریم وحی الہی اور آثار انبیاء کے سراسر خلاف تھی۔
(دیکھئے تفسیر ابن جریر ۸۶۳/۵، اورتفسیر بغوی ۲/ ۲۸۵)
ضعیف روایات کو خوامخواہ جمع تفریق کر کے حسن لغیرہ قرار دینا متقدمین محدثین سے ہرگز ثابت نہیں اور نہ متاخرین کا اس (ضعیف + ضعیف) پر کلیتا عمل ہے۔
اپنی مرضی کی روایات کو حسن لغیرہ بنا دینا اور مخالفین کی کئی سندوں والی روایات کو ضعیف، شاذ اور منکر قرار دے کر رد کر دینا دوغلی پالیسی کے سوا کچھ نہیں۔
وما علينا إلا البلاغ
(۱۶/ مئی ۲۰۱۳ء)