کیا ایک تہائی مال سے زیادہ وصیت کرنا جائز ہے ؟

تحریر: حافظ مطیع اللہ

وَعَنْ أبى إِسْحَاقَ سعْدِ بْنِ أبى وَقَّاصٍ مَالك بنِ أُهَيْبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ زُهرةَ بْنِ كِلابِ بْنِ مُرَّةَ بْنِ كعْبِ بنِ لُؤىٍّ الْقُرشِيِّ الزُّهَرِيِّ رضِي اللَّهُ عَنْهُ، أَحدِ الْعَشرة الْمَشْهودِ لَهمْ بِالْجَنَّة، رضِي اللَّهُ عَنْهُم قَالَ: "جَاءَنِي رسولُ اللهِ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم يَعُودُنِي عَامَ حَجَّة الْوَداعِ مِنْ وَجعٍ اشْتدَّ بِي فَقُلْتُ: يَا رسُول اللَّهِ إِنِّي قَدْ بلغَ بِي مِن الْوجعِ مَا تَرى، وَأَنَا ذُو مَالٍ وَلاَ يَرثُنِي إِلاَّ ابْنةٌ لِي، أَفأَتصَدَّق بثُلُثَىْ مالِي؟ قَالَ: لا، قُلْتُ: فالشَّطُر يَارسوُلَ اللهِ؟ فقالَ: لا، قُلْتُ فالثُّلُثُ يَا رَسُولَ اللَّه؟ قَالَ: الثُّلثُ والثُّلُثُ كثِيرٌ -أَوْ كَبِيرٌ – إِنَّكَ إِنْ تَذرَ وَرثتك أغنِياءَ خَيْرٌ مِن أَنْ تذرهُمْ عالَةً يَتكفَّفُونَ النَّاس، وَإِنَّكَ لَنْ تُنفِق نَفَقةً تبْتغِي بِهَا وجْهَ اللهِ إِلاَّ أُجرْتَ عَلَيْهَا حَتَّى ما تَجْعلُ فِيِّ امْرَأَتكَ قَال: فَقلْت: يَا رَسُولَ اللهِ أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي؟ قَال: إِنَّك لَنْ تُخَلَّفَ فتعْمَل عَمَلاً تَبْتغِي بِهِ وَجْهَ اللهِ إلاَّ ازْددْتَ بِهِ دَرجةً ورِفعةً ولعَلَّك أَنْ تُخلَّف حَتَى ينْتفعَ بكَ أَقَوامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخرُونَ. اللَّهُمَّ أَمْضِ لأِصْحابي هجْرتَهُم، وَلاَ ترُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهم، لَكن الْبائسُ سعْدُ بْنُ خوْلَةَ”يرْثى لَهُ رسولُ اللهِ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم”أَن مَاتَ بمكَّةَ” متفقٌ عليهِ.
ابو اسحق سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مالک بن اہیب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی القرشی الزہری، جو ان دس
صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک ہیں جنہیں دنیا میں جنت کی خوشخبری دے دی گئی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حجتہ الوداع کے سال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور مجھے اس وقت شدید درد تھا۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ دیکھ رہے ہیں کہ مجھے کس قدر شدید درد ہے، اور میں مالدار آدمی ہوں لیکن میری وارث صرف میری ایک ہی بیٹی ہے، کیا میں اپنے مال کا دو تہائی حصہ صدقہ کردوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! آدھا مال؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ پھر میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک تہائی؟ آپ نے فرمایا: تیسرا حصہ صدقہ کرلو، لیکن تیسرا حصہ بھی کثیر یا بڑا ہے کیونکہ اگر تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ کر جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ کیونکہ تم اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جو بھی خرچ کرو گے تو اس پر تمہیں اجر ملے گا، حتی کہ تم جو لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے (اس پر بھی ثواب ملے گا ۔“ راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا میں اپنے ساتھیوں کے (مکے سے) چلے جانے کے بعد پیچھے ( مکہ میں) چھوڑ دیا جاؤں گا ( میں ہجرت نہیں کروں گا )؟ آپ نے فرمایا: ” پیچھے چھوڑ دیے جانے کی صورت میں تم اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر جو بھی عمل کرو گے اس سے تمہارے درجات بلند ہوں گے نیز ممکن ہے کہ تمہیں پیچھے رہنے کی مہلت مل جائے اور کچھ لوگ تم سے فائدہ حاصل کریں اور کچھ دوسرے لوگوں ( کافروں) کو تم سے نقصان پہنچے۔ اے اللہ ! میرے صحابہ کی ہجرت کو پورا فرما اور انہیں ان کی ایڑیوں پر نہ لوٹا لیکن قابل رحم سعد بن خوله رضی اللہ عنہ ( یہ سعد بن ابی وقاص کے علاوہ) ہیں۔“ ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت کی دعا فرماتے تھے، اس لیے کہ وہ سکے میں فوت ہوئے تھے۔ [متفق عليه]
توثيق الحديث :
[لا أخرجه البخارى 165/3 – فتح ، ومسلم 1628]
غريب الحدیث:
يعودني : ” آپ (میری بیماری میں ) میری عیادت فرماتے ۔ “
الشطر: ” نصف ۔“
تذر : ” تو چھوڑ دے۔“
عالة : واحد عائل، معنی فقیر –
تكففون الناس : ” لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔“
اخلف بعد اصحابي : ” کیا مجھے مکہ میں پیچھے چھوڑ دیا جائے گا ؟“ یعنی جب وہ سب مکہ سے چلے جائیں گے تو کیا میں یہاں رہ جاؤں گا؟
لعلك أن تخلف : ” شاید کہ تم ان سے پیچھے رہ جاؤ “
یعنی ممکن ہے کہ اللہ تعالی تمہاری عمر دراز فرمائے ۔ لفظ لعل اگر امید کے معنی میں ہو اور اللہ تعالی کے متعلق ہو تو وہ امر واقع کے معنی میں ہوتا ہے اور اسی طرح غالب طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں بھی ہوتا ہے۔
فينتفع بك ناس و يضربك آخرون : ” مسلمان لوگ تم سے فائدہ حاصل کریں اور کافروں کو تم سے نقصان پہنچے۔“ یہ آپ کے معجزات یعنی سچی پیشین گوئیوں میں سے ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں عراق فتح کرایا جس سے بہت سے لوگوں نے ہدایت حاصل کی اور مسلمانوں نے بہت سا مال غنیمت حاصل کیا اور ان کے ہاتھوں بہت سے کفار ہلاک ہوئے اور انھوں نے نقصان اٹھایا۔ امض : ” پورا فرمایا“ ۔
البانس : ”جس کی حاجت اورحزن شدید ہو۔“
سعد بن خوله رضی اللہ عنہ مہاجرین سابقین میں سے ہیں، غزوہ بدر میں شریک ہوئے، وہ سبیعہ اسلمیہ کے شوہر تھے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر فوت ہوئے۔ ان کی وفات کے چند ایام بعد سمیعہ کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ تمہاری عدت ختم ہو گئی، تم شادی کرنا چاہو تو کرسکتی ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کی حالت زار پر غم و دکھ کا اظہار فرمایا کیونکہ ان کی وفات مکہ میں ہوئی جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس شہر میں اقامت پذیر ہونا پسند نہیں کرتے تھے، جس سے انھوں نے اس کی محبت کے باوجود محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہجرت کی تھی ۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس سعد بن خولہ کا ذکر اس لیے کیا تا کہ ان کا دل مطمئن ہو جائے کہ ان کی ہجرت قبول اور مکمل ہے۔
يرثي له : ” اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے تھے ۔“ آپ ان کے لیے غم اور افسوس اس لیے کرتے تھے کہ وہ مکہ میں فوت ہوئے تھے، میت کے محاسن بیان کر کے غم و افسوس نہیں کرتے تھے کیونکہ اس سے تو منع کیا گیا ہے۔
فقه الحدیث :
➊ کسی صحیح غرض کی خاطر اپنی بیماری وغیرہ کا اظہار کرنا جائز ہے مثلاً دوائی حاصل کرنے کے لیے یا کسی نیک آدمی سے دعا کرانے کے لیے، لیکن مرض کے اظہار میں اللہ تعالی کا شکوہ یا عدم رضا نہ ہو نیز یہ صبر جمیل کے منافی نہ ہو۔
➋ مریض کی پیشانی پر ہاتھ رکھنا اس کے چہرے اور تکلیف والے عضو پر ہاتھ پھیرنا اور اس مریض کی درازی عمر کے لیے دعا کرنا جائز ہے۔
➌ صدقہ و خیرات کرنے کے لیے نیت کا درست ہونا ضروری ہے، یعنی اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔
➍ مال جمع کرنا مباح ہے اور جب تک صاحب مال اس کا حق ادا کرتا رہے گا اس جمع شدہ مال کو کنز نہیں کہیں گے۔
➎ ایک تہائی مال سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں۔
➏ اہل و عیال پر مال خرچ کرنے سے بھی اجر ملتا ہے۔ بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے خرچ کیا جائے۔
➐ صلہ رحمی کرنے اور قریبی رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آنے کی ترغیب ہے نیز قریبی رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنا، دور کے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنے سے افضل ہے۔
➑ آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! انہیں ان کی ایڑیوں پر نہ لوٹا۔“ آپ نے یہ فرما کر مرض کے وقت نا امیدی کے تمام ذرائع بند فرمادیے نیز کوئی شخص وطن اور گھر کی محبت کی وجہ سے ہجرت سے لوٹنے کی امید نہ کرے۔
➒ حدیث اور سنت کے ذریعے سے قرآن کے مطلق کو مقید کرنا کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:
مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْدَيْنِ [النساء: 11]
”اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو یا قرض کی ادائیگی کے بعد۔“
لیکن سنت نے اس وصیت کو ایک تہائی سے مقید کر دیا۔
➓ وارثوں کے مصالح اور ان کے درمیان عدل کا خیال رکھنا واجب ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء