ماہ محرم سے متعلق صحیح احادیث
تحریر: حافظ ندیم ظہیر

المحرم الحرام (فضائل و مسائل)

محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ اور حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔ اسے شهر الله یعنی ’’اللہ کا مہینہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، یوں تو سارے دن اور مہینے اللہ ہی کے ہیں لیکن بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے اور ان میں خصوصیت کے ساتھ اعمال بجا لانے کی ترغیب بھی ہے۔ زیر نظر مضمون میں اختصار کے ساتھ فضائل و مسائل بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے:

فضائل :

سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
رمضان کے بعد افضل روزہ اللہ کے مہینے محرم کا روزہ ہے۔
(صحیح مسلم : ۱۱۱۳ ترقیم دارالسلام:۲۷۵۵)

یوم عاشوراء :

جمہور کے نزدیک ( یوم عاشوراء سے مراد ) اللہ کے مہینے المحرم کا دسواں دن ہے۔
(دیکھئے شرح صحیح مسلم للنووی ۱۲/۸)

سیدنا ابو قتادہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے یوم عاشوراء کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
يكفر السنة الماضية .
’’یہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔‘‘
(صحیح مسلم :۱۱۶۲،ترقیم دارالسلام: ۲۷۴۷)

سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں ۔ آپ نے ان سے وجہ دریافت کی تو انھوں نے کہا:
’’یہ ایک اچھا دن ہے، اس دن اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دلائی تھی ، موسیٰ علیہ السلام نے اس (دن) کا روزہ رکھا تھا۔‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا:
’’موسیٰ کے ساتھ (مناسبت کے اعتبار سے) میں زیادہ حق رکھتا ہوں تو آپ نے روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی دیا۔‘‘
(صحیح بخاری : ۲۰۰۴ صحیح مسلم: ۱۱۳۰)

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو عاشوراء اور رمضان کے سوا کسی دوسرے دن قصداً ( اہتمام کے ساتھ ) روزے رکھتے نہیں دیکھا۔
(صحیح بخاری:۲۰۰۲)

مسائل :

یوم عاشوراء کا روزہ کس دن رکھنا چاہیئے ؟ اس سلسلے میں مختلف آراء ہیں جنھیں درج کرنے کے بعد ہم نے راجح مسلک کی طرف اشارہ کر دیا ہے:

➊ بعض کے نزدیک ۰ا محرم کو روزہ رکھنا چاہئے لیکن ساتھ ۹ یا ۱۰ محرم کا بھی ملانا چاہئے اور ان کی دلیل درج ذیل ہے :
یوم عاشوراء کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو (لہذا) ایک دن پہلے یا بعد کا (بھی) روزہ رکھو۔
(مسند احمدا ۲۴۱ ۲۱۵۴ صحیح ابن خزیمہ: ۲۰۹۵)

لیکن یہ روایت سنداً ضعیف ہے کیونکہ داود بن علی ضعیف راوی ہے لہذا اس روایت سے استدلال درست نہیں ہے کیونکہ ضعیف روایت حجت نہیں ہوتی۔
یادر ہے کہ ۹ محرم کو روزہ رکھنے والی حدیث کے راوی سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا:
خالفوا اليهود وصوموا التاسع والعاشر
یہودیوں کی مخالفت کرو اور ۹ اور۱۰محرم کا روزہ رکھو۔
(مصنف عبدالرزاق ۲۸۷٫۴ ۷۸۳۹ وسنده هیچ ، اسن الکبری الی بیتی ۲۸۷٫۴)

➋ بعض کے نزدیک صرف ۹ محرم کا روزہ رکھنا چاہئے اور وہ بطور دلیل یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول ! یہ یہود ونصاری کی تعظیم وتکریم کا دن ہے۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
فإذا كان العام المقبل_ إن شاء الله_ صمنا اليوم التاسع
پس آئندہ سال ہم ان شاء اللہ ۹ محرم کا روزہ رکھیں گے۔
(صحیح مسلم :۱۱۳۴)

یہ حدیث اگرچہ صحیح ہے لیکن اس سے صرف ۹ محرم کے روزے کا استنباط کرنا اور ۰ا محرم کے روزے کو کلی طور پر چھوڑ دینا صحیح نہیں ہے کیونکہ بہت سے علماء کرام نے اسے خطا قرار دیا ہے۔
مثلاً ایک عربی عالم الشیخ احمد بن عبد اللہ لکھتے ہیں :
و مـن الأخــطــاء صـيــام يـوم التاسع فقط۔
صرف ۹ محرم کا روزہ رکھنا خطا ہے۔
(بدع واخطاء تعلق بالا یام والشھو رص۲۲۴)

➌ تیسرا اور اجح مسلک یہی ہے کہ ۹ اور ۱۰محرم کا روزہ رکھا جائے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کا فتویٰ اور دیگر احادیث اسی کی مؤید ہیں ۔
(وما علينا إلا البلاغ )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے