اسلام میں اولاد کے حقوق
تحریر: حافظ شیر محمد

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس (رضی اللہ عنہ) نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم(اپنے نواسے)حسن(بن علی رضی اللہ عنہما) کا بوسہ لے رہے تھے تو اقرع (رضی اللہ عنہ) نے کہا: میرے دس لڑکے ہیں مگر میں کسی کا بھی بوسہ نہیں لیتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من لا یرحم لا یرحم جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں ہو گا۔(صحیح البخاری: ۵۹۹۷و صحیح مسلم:۶۵؍۲۳۱۸)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے بیٹے) ابراہیم کو (گود میں ) لیا اور اس کا بوسہ لیا(اور پیار سے ) اس کی خوشبو لی(صحیح البخاری:۳۰۳او صحیح مسلم : ۲۳۱۵)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی (دیہاتی) آیا اور کہا: کیا آپ بچوں کا بوسہ لیتے ہیں؟ ہم تو بچوں کا بوسہ نہیں لیتے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحمت نکال دی ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں؟(صحیح البخاری: ۵۹۹۸و صحیح مسلم: ۲۳۱۷)

سیدنا یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ کھانے کی ایک دعوت پر جا رہے تھے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ (راستے میں) ایک گلی میں (سیدنا) حسین رضی اللہ عنہ کھیل رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے درمیان سے آگے بڑھ کر اپنے دونوں بازو پھیلا لیے۔ (سیدنا) حسین رضی اللہ عنہ اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنستے ہنساتے ہوئے انہیں(سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو) پکڑ لیا۔ آپ نے اپنا ایک ہاتھ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا ان کے سر پر رکھا۔ آپ نے (معانقہ کرتے ہوئے) اُن کا بوسہ لیا اور فرمایا:
‘‘حسین منی وان من حسین، احب اللہ من احب حسینا، حسین سبط من الاسباط’’
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس شخص سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین نواسوں میں سے ایک (جلیل القدر ) نواسا ہے۔(سنن ابن ماجہ:۱۴۴اوإسنادہ حسن و حسنہ الترمذی: ۳۷۷۵و صححہ ابن حبان، موارد الظمآن:۲۲۴۰و الحاکم۳؍۲۷۷والذھبی وقال البوصیری:‘‘ھذا إسناد حسن رجالہ ثقات’’ ؍تسھیل الحاجۃ فی التعلیق علی سنن ابن ماجہ لشخینا حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ ص ۱۰، وحسنہ الشیخ الالبانی رحمہ اللہ)

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی بیٹی) فاطمہ رضی اللہ عنہا جب رسول اللہ صلی  کے پاس آتیں تو آپ اٹھ کر اس کے پاس جاتے اور اُن (فاطمہ رضی اللہ عنہا)کا ہاتھ پکڑ لیتے پھر ان کا بوسہ لیتے اور اپنی جگہ بٹھاتے(سنن ابی داؤد:۵۲۱۷وإسنادہ حسن و حسنہ الترمذی: ۳۸۷۲)

ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے ، ہمارے چھوٹوں (یعنی بچوں) پر رحم نہ کرے اور ہمارے (اہل حق) عالم کا حق نہ پہچانے، وہ ہم میں (یعنی اہلِ حق میں) سے نہیں ہے۔(مشکل الآثار۲؍۱۳۳ح۱۸۵، الحدیث:۴ص۴۵)

ان احادیث اور دیگر دلائل سے ثابت ہے کہ والدین کو اپنی اولاد سے محبت کرنی چاہیئے۔ یاد رہے کہ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ دنیاوی سہولتیں مہیا کرنے کے ٓساتھ ساتھ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنی چاہیئے۔ انہیں قرآن و حدیث اور تمام بہترین اخلاق سکھانے چاہیئں۔ توحید و سنت کی دعوت اور سنتِ مطہرہ کے مطابق نماز پڑھنے کا حکم دینا چاہیئے۔

 ارشاد باری تعالی ہے کہ :          یا یھالذین آمنو اقوا انفسکم و اھلیکم نارا
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو (جہنم کی ) آگ سے بچا لو(سورۃ التحریم:۶)

کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ تم میں سے ہر آدمی نگران ہے اور اس کی زیر نگرانی لوگوں کے بارے میں (قیامت کے دن) پوچھا جائے گا(البخاری:۸۹۳و مسلم:۱۸۲۹) کی رو سے ہر آدمی سے اس کی اھل و اولاد کے بارے میں سوال ہو گا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ والدین اور ان کی اولاد دونوں کو کتاب و سنت کا متبع اور نیک بنا دے ۔ آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے