ائمہ اربعہ اور دیگر علماء سے تقلید کا رد
تحریر: شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ(پی ڈی ایف لنک)

ائمہ اربعہ ( اور دیگر علماء) نے تقلید سے منع فرمایا ہے

❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’وأما أقوال بعض الأئمة كالفقهاء الأربعة وغيرهم فليس حجة لازمة ولا اجماعًا باتفاق المسلمين، بل قد ثبت عنهم – رضي الله عنهم – أنهم نهوا الناس عن تقليدهم … ‘‘

رہے بعض اماموں کے اقوال مثلاً فقہائے اربعہ وغیر ہم تو مسلمانوں کے اتفاق سے یہ نہ لازمی دلیل ہیں اور نہ اجماع بلکہ ان (اماموں) سے اللہ راضی ہو، یہ ثابت ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اپنی تقلید سے منع فرمایا تھا۔

(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ج ۲۰ ص۱۰)

شیخ الاسلام کے اس قول کا مفہوم راقم الحروف نے ۲۰۰۰ ء میں درج ذیل الفاظ میں بیان کیا تھا:
” یہ چاروں مجہتدین و دیگر علماء تمام مسلمانوں کو تقلید سے منع کرتے ہیں کما تقدم، ( ص ۲۹ و فتاویٰ ابن تیمیہ ۱۰/۲۰، ۲۱۱) لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ دیوبندی حضرات ان چاروں مجتہدین کے مخالف ہیں ۔ “

( امین اوکاڑوی کا تعاقب ، مطبوعہ مئی ۲۰۰۵ء ص ۳۸)

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی مقلدین کے اماموں سے تقلید کا منع کرنا نقل کیا ہے۔ دیکھئے اعلام الموقعین ( ج ۲ ص ۲۰۰،۲۲۸، ۲۱۱،۲۰۷) بلکہ حافظ ابن القیم نے فرمایا:
و إنــمـــا حدثت هذه البدعة في القرن الرابع المذموم على لسان رسول الله ﷺ‘‘
اور ( تقلید کی ) یہ بدعت تو چوتھی صدی میں پیدا ہوئی ہے، جس کی ممانعت رسول اللہ ﷺ نے اپنی مبارک زبان سے فرمائی ہے۔

(اعلام الموقعین ج ۲ ص ۲۰۸ مطبوعہ دارالجیل بیروت)

اگر کوئی کہے کہ حافظ ابن تیمیہ وغیرہ نے جھوٹ بولا ہے (!) تو عرض ہے کہ سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا ہے:
’’اکثر اہل بدعت حافظ ابن تیمیہؒ اور حافظ ابن القیمؒ کی رفیع شان میں بہت ہی گستاخی کیا کرتے ہیں مگر حضرت ملاعلی القاری الحنفیؒ ان کی تعریف ان الفاظ سے کرتے ہیں:

كانامن اكابر اهل السنة والجماعة ومن اولياء هذه الامة

کہ حافظ ابن تیمیہؒ اور حافظ ابن القیم دونوں اہل سنت والجماعت کے اکابر میں اور اس اُمت کے اولیاء میں تھے۔

(جمع الوسائل ج ۱ص ۲۰۸ طبع مصر)

اور حافظ ابن القیم کی تعریف کرتے کرتے ہوئے امام جلال الدین سیوطی المتوفی 911ھ پھولے نہیں سماتے۔

(بقیة الوعاة)

(المنہاج الواضح یعنی راہ سنت ص ۱۸۷)

اگر کوئی کہے کہ فلاں امام مثلاً خطیب بغدادی وغیرہ نے تقلید کو جائز قرار دیا ہے۔ !
تو اس کا جواب یہ ہے کہ انھوں نے لغوی تقلید ( مثلاً جاہل کا عالم سے مسئلہ پوچھنا) جو کہ در حقیقت اصطلاحی تقلید نہیں ہے، کو جائز قرار دیا ہے جبکہ ائمہ اربعہ اور دیگر اماموں نے اصطلاحی تقلید ( مثلاً آنکھیں بند کر کے، بغیر سوچے سمجھے اور بغیر دلیل کے ائمہ اربعہ میں سے صرف ایک امام کی تقلید ) سے منع فرمایا ہے لہٰذا ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔

❀ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک دن قاضی ابو یوسف کو فرمایا:

’’ويحك يــا يـعـقـوب إلا تكتب كل ما تسمع مني فإني قد أرى الرأي اليوم وأتركه غدا و أرى الرأي غدًا وأتركه بعد غدٍ

اے یعقوب (ابو یوسف ) تیری خرابی ہو، میری ہر بات نہ لکھا کر ‘ میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے تو پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔

(تاریخ یحییٰ بن معین ج ۲ ص ۶۰۷ ت ۲۴۶۱وسنده صحیح، تاریخ بغداد۴۲۴/۱۳)

❀ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’كل ماقلت – وكان عن النبي ( ﷺ ) خلاف قولي مما يصح فحديث النبي (ﷺ) أولىٰ، ولا تقلدوني

میری ہر بات جو نبی ﷺ کی صحیح حدیث کے خلاف ہو ( چھوڑ دو ) پس نبی (ﷺ ) کی حدیث سب سے زیادہ بہتر ہے اور میری تقلید نہ کرو ۔

( آداب الشافعی ومناقبہ لابن ابی حاتم ص ۵۱ وسندہ حسن )

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’لا تقلد دينك أحدا من هؤ لاء “

إلخ اپنے دين میں ، ان میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہ کر … الخ

(مسائل ابی داود ص ۲۷۷)

(۲۴/ اکتوبر ۲۰۰۸ء)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے