مالدار شخص کا قرض ادائیگی پر ٹال مٹول کرنا ظلم ہے
ماخوذ: اردو شرح عمدۃ الاحکام من کلام خیر الانام، ترجمہ: حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ الثَّانِي: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: { أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ . فَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيءٍ فَلْيَتْبَعْ } .
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالدار شخص کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے، لہٰذا جب تم میں سے کسی کو کسی مالدار شخص کے حوالے کیا جائے تو اسے بات مان لینی چاہیے۔
شرح المفردات:
ملي: ایسا شخص جو دافر مال و دولت کا حامل ہو اور قرض ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔
شرح الحديث:
کسی مالدار شخص کے حوالے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مقروض شخص اگر قرض خواہ کو کسی شخص کے پاس بھیجتا ہے یا اس کے ذمہ لگا دیتا ہے کہ جو میں نے تمھارا قرض دینا ہے وہ فلاں شخص تمھیں دے دے گا ، یا کہے کہ تم اس سے جا کر وصول کر لو، تو ایسی صورت میں قرض خواہ کو اس کی بات مان لینی چاہیے، یعنی بار بار قرضدار ہی سے مطالبہ نہیں کرتے رہنا چاہیے۔ لیکن اگر قرض خواہ کو محسوس ہو کہ وہ اس سے فقط اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے ایسا کر رہا ہے یا جس کے پاس وہ بھیج رہا ہو وہ اس قرض کی رقم ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو، تو اس صورت میں وہ اس کی بات ماننے سے انکار کر سکتا ہے۔
(281) صحيح البخاري، كتاب الحوالات ، باب الحوالة وهل يرجع فى الحوالة ، ح: 2287. صحيح مسلم،

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے