الْحَدِيثُ السَّادِسُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ { نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُتَلَقَّى الرُّكْبَانُ ، وَأَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ قَالَ: فَقُلْتُ لَابْنِ عَبَّاسٍ : مَا قَوْلُهُ حَاضِرٌ لِبَادٍ؟ قَالَ: لَا يَكُونُ لَهُ سِمْسَارًا } وَقَدْ تَقَدَّمَ الْكَلَامُ
سیدنا عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بيان كرتے ہيں كه رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ (تجارتی قافلوں کے ) سواروں سے ملا جائے اور یہ کہ شہری دیہاتی کے لیے تجارت کرے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: شہری دیہاتی کے لیے (تجارت نہ کرے ) کا کیا مطلب ہے؟ تو انھوں نے فرمایا: وہ اس کا ایجنٹ اور دلال نہ بنے۔
شرح المفردات:
سمسارا: ایجنٹ اور دلال ، جس کا بائع اور مشتری دونوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، لیکن وہ صرف اپنے کمیشن کے لیے ان کے درمیان دلالی کر کے سودا بکاتا ہے ۔
شرح الحدیث:
شہر یا منڈی میں آنے سے پہلے ہی تجارتی قافلے کو باہر جا کر ملنا اور ان سے سودا کر لینا اس لیے منع کیا گیا ہے کہ اس سے عام خریداروں پر بوجھ بڑھ جاتا ہے، کیونکہ وہ اس قافلے سے خرید کے منڈی میں لا کر اس کی اصل قیمت سے بڑھا کر بیچتے ہیں، جس سے لوگوں پر مالی بوجھ پڑتا ہے۔ اور شہری کا دیہاتی کے لیے دلالی کرنا اس لیے ممنوع قرار دیا گیا کہ وہ جو درمیان میں اپنا کمیشن رکھتا ہے اس کی زد بھی لوگوں پر ہی پڑتی ہے، یعنی اتنی ہی اس کی قیمت گراں ہو جاتی ہے۔ اس لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا يبيع حاضر لباد ، دعوا الناس يرزق الله بعضهم من بعض ”کوئی شہری کسی دیہاتی کے لیے تجارت نہیں کر سکتا، لوگوں کو چھوڑ دو، اللہ تعالیٰ ان کے ایک کو دوسرے کی وجہ سے رزق دیتا ہے ۔“ [مسند احمد: 307/3، صحيح مسلم: 1522، سنن ابي داؤد: 3442 ، سنن النسائى: 4495 ، جامع الترمذي: 1223، سنن ابن ماجه: 2176]
(260) صحيح البخاري، كتاب البيوع ، باب هل يبيع حاضر لباد بغير أجر ، ح: 2158 – صحيح مسلم ، كتاب البيوع ، باب تحريم بيع الحاضر للبادي ، ح: 1521