خود پر دم کرنے کا مسنون طریقہ
تحریر: شفیق الرحمن فرخ حفظہ اللہ (کتاب کا پی ڈی ایف لنک)

اپنے آپ پر دم کیسے کریں؟

◈اول: ہتھیلیوں پر پھونک ماریں:

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :
’’ہر رات جب نبی کریم ﷺ بستر پر تشریف لاتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ملا لیتے؛ پھر ان پر پھونک مارتے اور پھر یہ سورتیں :
[ قل هو الله أحد] اور [قل أعوذ برب الفلق] اور [قل أعوذ برب الناس] کو پڑھ کر دوبارہ ہتھیلیوں میں پھونک مارتے اور دونوں ہاتھوں کو اپنے جسم پر جہاں تک ممکن ہو سکتا پھیر لیتے ، سر، چہرے اور جسم کے سامنے والے حصے سے شروع کرتے۔ اس طرح تین (۳) دفعہ کرتے ۔‘‘
(البخاري ٥٠١٧)

◈ دوم : تکلیف کی جگہ پر دم کریں:

اپنے جسم میں تکلیف کی جگہ پر اپنا دائیاں ہاتھ رکھ کر دم کریں۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
’’جب رسول اللہ ﷺ کے اہل خانہ میں سے کوئی ایک بیمار ہو جاتا تو آپ معوذات پڑھ کر اس پر دم کیا کرتے تھے ۔‘‘
(مسلم ۱۲۹۲)

نیز آپ ﷺ سے یہ بھی روایت ہے:
’’جب آپ ﷺ کو کوئی تکلیف ہوتی تو معوذات پڑھ کر اپنے آپ پر دم کیا کرتے ۔‘‘
(البخاري ۵۰۱٦، مسلم ۱۲۹۲)

’’مریض کو یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ وہ ان کے علاوہ کوئی دوسری سورتیں پڑھ کردم کرے۔ قرآن سارے کا سارا دم کرنے کی چیز ہے۔ اور تمام قرآن میں شفاء ہے۔‘‘
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ
’’آپ کہہ دیجئے یہ تو ایمان والوں کے لیے ہدایت وشفا ہے۔“
(فصلت : ٤٤)

اور اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں:
(وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ)
’’اور ہم اتارتے ہیں قرآن میں سے جس سے روگ دفع ہوں اور جس سے روگ دفع ہوں اور رحمت ایمان والوں کے واسطے ۔“
(اسراء: ۸۲)

◈سوم :پانی پر دم کر کے پئیں اور اس سے نہائیں:

آیات اور احادیث میں ثابت دعا ئیں پانی پر پڑھ کر دم کیا جائے ؛ پھر اس میں سے مریض کو پلایا بھی جائے اور باقی پانی اس کے جسم پر ڈال دیا جائے۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ثابت بن قیس بن شماسؓ پر دم کیا تھا۔
(سنن أبي داود ۳۸۸۵)
اگر دم کرنے کے لیے آب زمزم میسر آ جائے تو یہ زیادہ اکمل ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے زمزم کے متعلق فرمایا ہے:
(إنها مباركة ، إنها طعام طعم ، وشفاء سقم ، و’’ماء زم زم لما شرب له‘‘ ۔۔۔۔۔’’ فإن شربته تستشفى به شفاك الله‘‘ )
’’بیشک زمزم ایک مبارک پانی ہے ۔‘‘
’’یہ کھانے والے کے لیے کھانا ہے۔‘‘
(صحیح مسلم ٢٤٧٣)
’’ بیماری کے لیے شفاء ہے‘‘
(صحيح الترغيب والترهيب للألباني ١١٦١)
’’ زمزم سے وہ مقصد پورا ہوتا ہے جس کے لیے اسے پیا جائے۔‘‘
(صحیح ابن ماجة للألباني ٣٠٦٢)
’’اگر تم زمزم پیتے ہوئے اپنی بیماری سے شفاء کے طلب گار ہو گے تو اللہ تعالی تمہیں شفاء دے گا۔‘‘
(المستدرك للحاكم، وقد صحح هذه الزيادة ٤٧٣/١)

اور آپﷺ سے روایت ہے کہ
’’رسول اللہ ﷺ برتنوں میں اور مشکوں میں زمزم بھر کر اپنے ساتھ لے جاتے تھے ، اسے مریضوں پر ڈالتے اور انہیں پلاتے ۔‘‘
(سلسلة الأحاديث الصحيحة ۸۸۳)

❀علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں:
’’میں نے اور میرے علاوہ دوسرے لوگوں نے زمزم سے شفاء حاصل کرنے میں عجیب امور تجربہ کیے۔ اور مجھے اس کی وجہ سے کئی بیماریوں سے شفاء حاصل ہوئی۔ اور اللہ تعالٰی نے مجھے بالکل تندرست کر دیا ۔‘‘
(زاد المعاد ١٧٨١٣٩٣/٤)

◈ چہارم : تیل پر دم کر کے اس کی مالش کریں:

زیتون کے تیل پر پڑھ کر دم کیا جائے ۔ اور پھر اس کی مالش کی جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
’’زیتون کا تیل کھایا کرو اور اس سے مالش بھی کیا کرو، بیشک یہ ایک با برکت درخت سے حاصل کیا گیا ہے۔‘‘
(صحيح الترمذي للألباني ١٨٥١)

’’اس تیل کی مالش کرنے کے بعد بیت الخلاء جانے میں کوئی حرج والی بات نہیں‘‘
(المجموعة الثانية) (١٠٣/١)

◈پنجم: تکلیف کی جگہ پر ہاتھ رکھ کر دعائیں پڑھیں :

حضرت عثمان بن ابی عاص ثقفیؓ سے روایت ہے :
انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے درد کی شکایت کی یہ درد وہ اپنے جسم میں اسلام لانے کے وقت سے محسوس کر رہے تھے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:
’’اپنا ہاتھ اس جگہ رکھو جہاں تم اپنے جسم سے درد محسوس کرتے ہو اور تین مرتبہ (باسم الله) کہو اور پھر سات مرتبہ یہ دعا پڑھو‘‘:
(أَعُوذُ بِاللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجدُ وَ أَحَاذِرُ .)
’’میں اللہ کی ذات اور قدرت سے ہر اس چیز سے پناہ مانگتا ہوں جسے میں محسوس کرتا ہوں اور جس سے میں خوف کرتا ہوں ۔‘‘
(صحیح مسلم ۲۲۰۲)
اور حضرت انسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جب تمہیں کوئی تکلیف محسوس ہو تو اپنا ہاتھ تکلیف کی جگہ پر رکھو اور کہو‘‘:
(باسْمِ اللَّهِ) وَ (بِاللَّهِ) (أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ مِنْ وَجْعِي هَذَا)
’’(اللہ تعالی کے نام سے ) اور ( اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے ) میں اللہ تعالیٰ کی عزت اور اس کی قدرت سے اپنی اس تکلیف کے شر سے پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
’’اور پھر اپنا ہاتھ اٹھا لو، اور دوبارہ ایسے ہی کرو۔ ایسا وتر تعداد میں ( یعنی تین بار ، پانچ بار یا سات بار ) کرنا چاہیے ۔‘‘
(صحيح الترمذي ٣٥٨٨) (الصحيحة ١٢٥٨).
اور ایک روایت میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اپنا دائیاں ہاتھ تکلیف کی جگہ پر رکھو، اور سات بار یہ دعا پڑھ کر دم کرو! اور اس جگہ پر سات بار ہاتھ پھیرو:
أعُوذُ بِعِزَّةِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ .
میں اللہ تعالی کی عزت اور اس کی قدرت سے اس تکلیف کے شرسے پناہ چاہتا ہوں ۔‘‘
ہر بار دائیاں ہاتھ پھیرتے ہوئے یہ دعا پڑھنا چاہیے۔
(الصحيحة ١٤١٥). (صحيح الجامع ٣٨٩٤)
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:
جب ہم میں سے کسی کو کوئی تکلیف ہوتی تو رسول اللہ ﷺ گھر والوں کی بیمار پرسی کرتے اور اپنا دایاں ہاتھ (مریض کے درد والے حصے پر) پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے :
اذْهِبَ الْبَاسَ رَب النَّاسِ وَاشْفِ انْتَ الشَّافِي لا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاء لَّا يُغَادِرُ سقما
’’تکلیف کو دور فرما دے اے اللہ لوگوں کے رب! تو شفا دے دے تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیری ہی شفاء شفاء ہے ۔ تو ایسی شفا عطا فرما جو کسی قسم کی بیماری نہ چھوڑے۔‘‘
(مسلم ۲۱۹۱)
[ان کے علاوہ نبی کریم ﷺ سے ثابت دیگر دعاؤوں سے بھی دم کیا جا سکتا ہے]۔

◈ششم :اپنے آپ پر دم کرنے کی دعائیں:

اپنے آپ پر دم کرتے وقت یہ دعائیں پڑھیں:
بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ مِنْ شرك كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ اللَّهُ يَشْفِيكَ بِسم الله أرقيك.
’’اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ میں اپنے آپ کو دم کرتا ہوں ہر اس چیز سے جو مجھ کو ایذا پہنچاتی ہے ہر نفس کی شرارت سے یا حسد کرنے والی آنکھ سے اللہ تعالیٰ مجھ کو شفا دے گا ۔‘‘
( رَوَاهُ مُسلم)

أَسْأَلُ اللهَ الْعَظِيمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ أَنْ يُشْفِينِي.
’’میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں بڑی عظمت والے سے جو عرش عظیم کا مالک ہے کہ وہ تمہیں شفاء عطا فرمائے ۔‘‘
(صحيح أبو داود ۳۱۰۹) -( أحمد ۲۱۳۹)

;اللهم ربّ الناس، أذهب البأس، واشفِ أنت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاءً لا يُغادر سقمًا.
’’اے اللہ لوگوں کے رب بیماری دور کرنے والے شفا دیدے تو ہی شفا دینے والا ہے تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ہے ایسی شفا عطا فرما جو کسی قسم کی بیماری نہ چھوڑے۔“
[ان کے علاوہ نبی کریم ﷺ سے ثابت دیگر دعاؤں سے بھی دم کیا جاسکتا ہے۔]

◈ہفتم: لعاب کے ساتھ مٹی ملائیں:

اس کی کیفیت یہ ہے کہ اپنی شہادت کی انگلی پر ایسی پھونک ماریں جس کے ساتھ ہلکا سا لعاب بھی ہو۔ پھر انگلی کومٹی پر رکھ کر اٹھائیں اور مریض کو دم کرتے وقت تکلیف کی جگہ پر لگائیں ۔ اس کیفیت پر بخاری کی روایت دلالت کرتی ہے؛ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
نبی کریم ﷺ مریض کو یہ دعا پڑھ کر دم کیا کرتے تھے:
;بِسمِ اللهِ، تُرْبَةُ أرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا، يُشْفَى بِهِ سَقِيمُنَا، بإذْنِ رَبِّنَا
ترجمہ:
’’اللہ کے نام کے سے، یہ ہمارے زمین کی مٹی ہے، اس کے ساتھ ہم میں سے کسی کا لعاب لگا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے رب کی اجازت سے ہمارا مریض شفایاب ہوگا‘‘۔
(بخاری ٥٧٤٢) (ابو داود ۳۸۹۰)( ترمذی ۹۲۳)
صحیح مسلم کی روایت میں ہے جب کسی آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی؛ پھوڑا پھنسی یا زخم ہو جاتا تو رسول اللہ ﷺ اپنی شہادت کی انگلی زمین پر ایسے رکھ دیتے ؟ یہ کہہ کر سید نا سفیانؓ نے اپنی انگشت شہادت زمین پر رکھ دی؛ پھر اسے اٹھاتے اور کہتے :
;بِسمِ اللهِ، تُرْبَةُ أرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا، يُشْفَى بِهِ سَقِيمُنَا، بإذْنِ رَبِّنَا
ترجمہ:
’’اللہ کے نام کے سے، یہ ہمارے زمین کی مٹی ہے، اس کے ساتھ ہم میں سے کسی کا لعاب لگا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے رب کی اجازت سے ہمارا مریض شفایاب ہوگا‘‘۔
(مسلم ٢١٩٤)۔ (بخاری ٧٥٤٦)

❀امام نوویؒ فرماتے ہیں:
اس کا معنی یا ہے کہ:’’اپنا ہلکا سا لعاب اپنی انگلی پر لیتے ، پھر اسے مٹی پر رکھتے ، اور اس کے ساتھ کچھ تھوڑی سی مٹی ملا دیتے ۔ پھر اسے زخم یا بیماری کی جگہ پر لگا دیتے۔ اور زخم پر لگاتے ہوئے زبان سے مذکورہ بالا دعا پڑھا کرتے‘‘ ۔ واللہ اعلم .
(مسلم ٢١٩٤)

◈ہشتم: دم سے قبل ، پڑھتے وقت اور بعد میں پھونکنے کا جواز :

دم پڑھنے سے قبل ، پڑھنے کے ساتھ اور بعد میں پھونک مارنی چاہیے۔ اس کی دلیل بذیل نصوص سے معلوم ہوتی ہے:
ا۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے ، بے شک رسول اللہ ﷺ روزانہ جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو اپنی دونوں ہتھیلیاں جمع کر کے ان میں پھونک مارتے؛ پھر ان میں سورتیں مذکورہ بالا پڑھ کر دوبارہ پھونک مارتے ۔
(صحيح البخاري ٥٠١٧)
اس حدیث میں سورتیں پڑھنے سے قبل پھونک مارنے کی دلیل ہے۔

۲۔ ایک دوسری روایت میں ہے: رسول اللہ ﷺ روزانہ جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو اپنی دونوں ہتھیلیاں جمع کر کے ان میں پھونک مارتے؛ پھر ان میں [قل هو الله أحد] اور معوذ تین پڑھ کر پھونک مارتے ۔
(صحيح البخاري ٥٧٤٨)

❀حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں۔:
’’مراد یہ ہے کہ یہ سورتیں پڑھتے اور پڑھنے کے دوران پھونک مارتے ۔ ‘‘
(فتح الباري لابن حجر ۲۱۰/۱۰)

۳۔ جیسا کہ اس پاگل کے قصہ میں بھی آیا ہے جس پر ایک صحابی نے دم کیا تھا۔
راوی کہتا ہے :
’’آپ ﷺ نے سورت فاتحہ پڑھ پڑھ کر تین دن تک صبح و شام اسے دم کیا ۔ جب سورت فاتحہ ختم ہوتی تو آپ اپنا لعاب جمع کر کے اس پر تھوک دیتے۔‘‘
اس حدیث میں قرآت کے بعد پھونک مارنے کی دلیل ہے۔

◈نہم … پھونک مارنے کے بغیر دم:

پھونک مارنے اور لعاب ڈالنے کے بغیر بھی دم کرنا جائز ہے۔ نبی کریم ﷺ سے ایسا کرنا ثابت ہے۔ کیونکہ جب آپ مریض کی عیادت کرتے تو یوں دعا کیا کرتے تھے:
;اللهم رب الناس، أذهب البأس، واشف، أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك، شفاءً لا يغادر سقماً
’’اے اللہ لوگوں کے رب ! بیماری دور کرنے والے شفا دے دے تو ہی شفا دینے والا ہے تیرے سوا کوئی شفا دینے والا نہیں ہے ایسی شفا عطا فر ما جو کسی قسم کی بیماری نہ چھوڑے۔‘‘
(صحيح البخاري ٥٦٧٥)۔ (صحیح مسلم ۲۱۹۱)۔
ایسے ہی جبرائیل امینؑ نے جب نبی کریم ﷺ کو دم کیا تو اس میں ثابت نہیں کہ جبرائیلؑ نے پھونک ماری ہو۔

❀حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں:
جبرائیل امینؑ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے ، اور عرض گزار ہوئے : اے محمد ﷺ ! کیا آپ تکلیف محسوس کر رہے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :
’’ ہاں۔‘‘ تو انہوں نے یہ کلمات کہے:
;باسم الله أرقيك من كل شيء يؤذيك، من شر كل نفس، أو عين حاسد، الله يشفيك باسم الله أرقيك
’’اللہ تعالی کے نام کیساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں اللہ تعالی آپ کو ہر اس چیز سے شفا دے گا جو آپ کو ایذا پہنچاتی ہے ہر نفس کی شرارت سے یا حسد کرنے والی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کے نام کیساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں ۔‘‘
(صحیح مسلم ۲۱۸۶)
یہ دونوں احادیث مبارکہ بغیر لعاب اور بغیر پھونک مارنے کے دم کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔

◈دہم: ….. چند لازمی تنبیهات:

ا۔ مشروع جھاڑ پھونک وہ ہے جس میں باتفاق علماء تین شرائط پائی جائیں:
◈۔۔۔۔۔اللہ تعالی کا کلام ہو، یا اس کے اسماء و صفات پر مشتمل اذکار ودعا ئیں ہوں۔
◈۔۔۔۔۔واضح عربی زبان میں ہو، اور اس کا معنی سمجھا جا سکتا ہو۔
◈۔۔۔۔۔۔یہ کہ اس جھاڑ پھونک پر کلی اعتماد نہ کیا جائے، بلکہ یہ اعتقاد رکھا جائے کہ یہ جھاڑ پھونک بذات خود مؤثر نہیں ، بلکہ اس کی تاثیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کردہ ہوتی ہے۔

۲۔ ممنوع جھاڑ پھونک وہ ہے جس میں شرکیہ باتیں پائی جائیں۔ جیسے غیر اللہ کو پکارنا ، اس سے مدد طلب کرنا، جنات اور شیاطین سے مدد طلب کرنا یا مجہول قسم کے نام گننا (ص ۸۰-۹۲-۹۱)
یا پھر ایسے کلام سے دم کرنا جس کا معنی سمجھ میں نہ آتا ہو۔
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء (٢٦١/١)

۳۔ دم کرنے والے اور دم کیے جانے والے کی نیت خالص ہو۔ اور ان دونوں میں سے ہر ایک کا اعتقاد ہو کہ شفاء اللہ تعالی کی جانب سے ہوگی ۔ اور دم اور جھاڑ پھونک کرنا نفع بخش اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ اور شفاء اللہ کے حکم سے ہوگی۔

4۔ مسلمان کے لیے کسی صورت میں بھی جائز نہیں کہ وہ جادو گروں اور کاہنوں کے پاس جائیں ، نہ ہی کسی چیز کے متعلق سوال کرنے کے لیے اور نہ ہی ان سے علاج کروانے کے لیے۔ اور انسان پر واجب ہوتا ہے کہ ان کی باتوں کی تصدیق نہ کرے۔ اور نہ ہی ان کے پاس جائے ۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے جادو گروں ، کاہنوں ، اور پیشین گوئی کرنے والوں کے پاس جانے سے منع فرمایا ہے ؟
آپ ﷺ کا فرمان ہے:
;(من أتى عرافا فسأله عن شيء فصدقه لم تقبل له صلاة أربعين لیلۃ) .
’’جو فال نکالنے والے کے پاس آیا اور اس سے کوئی چیز پوچھی ، اس کی چالیس دن تک کی نماز قبول نہیں ہوگی۔‘‘
(صحیح مسلم ۲۲۳۰)۔

نیز نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے:
;من أتى كاهنا فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد ﷺ .
’’جو نجومی ، کاہن اور فال گر کے پاس آیا اور اس کی بات کی تصدیق کی، یقیناً اس نے [محمدﷺ پر نازل کیے جانے والے] قرآن کا کفر کیا ۔ ‘‘
(صحيح ابن ماجة ٦٣٩).

۵۔ مسلمان کے لیے کسی صورت میں بھی جائز نہیں کہ وہ جادو کو جادو کے ذریعہ سے ختم کرائے۔ اس لیے کہ جادو شیاطین کی عبادت بجالائے بغیر ؛ اور غیر اللہ سے مدد طلب کیے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اس میں شیاطین کی عبادت کر کے ان کی قربت حاصل کی جاتی ہے۔
(لسماحة الشيخ ابن باز ان ۳۱۸/۳)

۶۔ کسی مسلمان کے لیے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ علاج کی معرفت حاصل کرنے کے لیے جنات سے مدد حاصل کرے۔ یا پھر ان سے کسی قسم کی خدمات حاصل کرے۔
اس لیے کہ جنات سے مدد حاصل کرنا شرک کا کام ہے۔
(فتاوى اللجنة الدائمة، برئاسة شيخنا ابن باز با المجموعة الثانية ٩١/١)
جیسا کہ غائب سے مدد حاصل کرنا جائز نہیں خواہ وہ غائب جنات میں سے ہو یا کوئی دوسری مخلوق ۔ اور خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ۔ بلا ریب مدد صرف اس حاضر سے طلب کی جاسکتی ہے جو اس پر قدرت رکھتا ہو ۔
(السحر والشعودة للفوزات ص ٨٦)
اور وہ جھاڑ پھونک کرنے والا جو جنات سے مدد طلب کرتا ہو، اس کے اوپر (ایمان کے عدم سلیم ہونے کی)تہمت ہو ، تو اس کے پاس علاج کروانا جائز نہیں۔ یہ انسان بھی کاہنوں اور اس طرح کے دوسرے لوگوں کی جنس میں سے ایک ہے۔

۷۔ جادو کے فضائی چینلز (ٹی وی ) دیکھنا بھی جائز نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو معاشرہ میں باطل چیزوں کو رواج دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رہ گیا ان چینلز والوں کو فون کر کے سوال پوچھنا اور پھر اس کی تصدیق کرنا ؛ تو یہ بھی اس وعید میں شامل ہے کہ نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے :
;من أتى كاهنا فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد ﷺ .
’’جو نجومی ، کاہن اور فال گر کے پاس آیا اور اس کی بات کی تصدیق کی، یقیناً اس نے [محمدﷺ پر نازل کیے جانے والے] قرآن کا کفر کیا ۔ ‘‘
(صحيح ابن ماجة ٦٣٩).

۸- صحیحین میں حضرت عائشہ ؓ سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
’’رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا۔ جس کی وجہ سے آپ کو خیالات آتے تھے کہ آپ نے کوئی کام کر لیا ہے ، حالانکہ آپ نے کچھ بھی نہیں کیا ہوتا تھا۔ ‘‘
[یہ جادو لبید بن اعصم یہودی نے کیا تھا۔]

❀علامہ قاضی عیاض ؒ فرماتے ہیں:
جادو بھی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے۔ اور ایک ایسی پیش آنے والی علت ہے جو رسول اللہ ﷺ کے اوپر پیش آنا بھی ممکن ہے۔ جیسا کہ دوسری مختلف قسم کی بیماریاں ہیں جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ ہی اس سے شان نبوت پر کچھ قدح وارد ہوتی ہے ؛
(زاد المعاد لابن قیم ١٢٤/٤)
اس لیے کہ یہ جادو نبی کریم ﷺ کے امور وحی اور امور عبادات کو متاثر نہیں کر سکا تھا۔
(الم جموع لفتاوى ابن ۱۳۹/۲)
جس نے اس کے وقوع کا انکار کیا ہے ، اس نے یقیناً ثابت شدہ دلائل اور اجماع صحابہ وسلف امت کا انکار کیا ۔ جو کہ کسی شبہ اور وہم میں پھنسا ہوا ہے اس کی کوئی صحیح بنیاد ہی نہیں۔ اور نہ ہی اس کی بات پر توجہ دی جائے گی۔
(تاوى اللجنة الدائمة برئاسة شيخنا ابن باز پالت ۳۸۰/۱)

۹۔ جب کبھی دم کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو کوئی حرج والی بات نہیں۔ اس بنا پر انسان اُن ستر ہزار سے باہر نہیں ہوگا؛ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو حکم دیا تھا کہ وہ دم کر والیا کریں۔
اور حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کے یتیم بچوں کی ماں کو حکم دیا تھا کہ وہ انہیں دم کروایا کریں ۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں ثابت ہے۔
(مجموع الفتاوى ومقالات متنوعة لابن باز ؒ ۱۱/۲۸)

۱۰۔ ستر ہزار کے جنت میں داخل ہونے والی روایت میں یہ الفاظ ’’وہ جھاڑ پھونک‘‘ نہیں کرتے زیادہ ہیں جو کہ ضعیف اور شاذ ہیں۔
(یہ بات علامہ ابن باز ؒ نے کہی ہے جو کہ کیسٹ میں موجود ہے۔)

❀ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:
حدیث میں یہ زیادہ الفاظ راوی کا وہم ہیں۔
( فتاوى اللجنة الدائمة المجوعة الثانية ۸۳/۱)

۱۱۔ جو لوگ غیب جاننے کا دعوی کرتے ہیں؟ ان کے پاس قمیص یا کوئی دیگر کپڑا بھیجنا جائز نہیں۔ اور ایسے ہی ان کی باتوں کی تصدیق کرنا بھی حرام ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت صحیح احادیث میں ایسا کرنے کی ممانعت آئی ہے۔
(فتاوى اللجنة الدائمة المجوعة الثانية ٦١٧/١)

۱۲۔ بعض جادوگر اور شعبہ باز ایسے بھی ہوتے ہیں جو کچھ نہ کچھ قرآن اور دوسری دعا ئیں بھی پڑھتے ہیں لیکن پھر اس میں شرکیہ کلام کی ملاوٹ کر دیتے ہیں۔ اور جنات اور شیاطین سے مدد طلب کرتے ہیں۔ یہ ایک دھوکہ بازی ہے ؛ اس پر چوکنا ہونا اور بچ کر رہنا ضروری ہے۔
(كتاب السحر والشعودة ص ٩٢)

۱۳۔ کفار کے پاس صرف میڈیکل کے امور میں علاج کروانا جائز ہے، جیسا کہ آپریشن ؛ یا مباح ادویات کی تشخیص وغیرہ۔ جب کہ دعا اور جھاڑ پھونک سے علاج صرف مسلمان اور صحیح العقیدہ ڈاکٹر یا حکیم سے کروایا جا سکتا ہے۔
(فتاوى اللجنة الدائمة المجموعة الثانية ١٠٤/١)

۱۴۔ مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ قرآن پڑھ کر دم کر کے کسی غیر مسلم کا علاج کر سکتا ہے ، شرط یہ ہے کہ یہ کا فر جنگی نہ ہو۔ اس لیے کہ علاج کرنا احسان کا کام ہے جو کہ اللہ تعالی کو پسند ہے۔ فرمان الہی ہے:
وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
[البقرة : ١٩٥]
’’اور احسان کرو بیشک اللہ تعالی احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“
اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے دم کرنے سے شفایاب ہوتا اس کے اسلام لانے کا سبب بن جائے۔
(فتاوى اللجنة الدائمة ١٠٥/١)

۱۵۔ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے شوہر یا بیٹے یا بھائی یا دیگر کسی محرم رشتہ دار کو دم کرے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کے عمل سے ثابت ہے آپ رسول اللہ ﷺ کی مرض موت میں آپ کو دم کیا کرتی تھیں۔
(صحیح البخاری ٥۰۱۸)(صحیح مسلم ۲۱۹۲)

۱۶۔ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ بوقت ضرورت کسی اجنبی مرد پر دم کر کے پھونکے ۔ اس ضرورت کو شرعی ضوابط کی روشنی میں مقرر کیا جائے گا۔
(فتح الباري ١٣٦/١)

۱۷۔ دم کرنے والے مرد کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ جس عورت کو دم کر رہا ہے اس کے جسم کے کسی حصہ کو ہاتھ لگائے۔ ایسا کرنے میں فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ ہاں عورت کو چھوئے بغیر اس پر پڑھ کر پھونک ماردے۔
(فتاوى اللجنة الدائمة ٩٠/١)
ہاں اگر عورت اس کی محرم رشتہ داروں میں سے ہو تو پھر اسے چھونے میں کوئی حرج والی بات نہیں۔

۱۸۔ اگر ایک مرد کے پاس دم کروانے والی کئی خواتین موجود ہوں اور سب پر دم کیا جا رہا ہو تو پھر اسے خلوت شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ خلوت ممنوع اور حرام ہے اور ایسا اس وقت ہوگا جب اکیلی عورت کسی نامحرم مرد کے ساتھ ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’جب کوئی بھی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہو تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔‘‘
(صحيح الترمذي ۱۱۷۱)

◈عورتوں کے ایک گروہ کی موجودگی کی صورت میں خواہ یہ دو عورتیں ہوں یا اس سے زیادہ ؛ جو کسی ایسے قابل اعتماد انسان کے پاس بیٹھی ہوں جو کہ آسیب زدگی اور نظر بد اور مرگی وغیرہ کا علاج کرتا ہو تو پھر اس صورت میں یہ بیٹھنا ممنوع نہیں ہوگا۔
(الفتاوى الذهبية في الرقية الشرعية ص ٢٦-٢٧)
خلوت کی یہ حرمت صرف سفر کے لیے ہے۔ .
(فتاوى نور على الدرب لا بن بازؒ ٣٣٦/١)

۱۹۔ حیض اور نفاس والی عورت پر ان دعاؤوں کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔

۲۰۔ علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق حیض و نفاس والی عورت کے لیے قرآن کریم کو چھوئے بغیر تلاوت کرنا جائز ہے۔
( مجموع فتاوی و مقالات متنوعة ٣٤٥/٢٤)

۲۱۔ جنابت والے مرد کے لیے قرآن کی تلاوت کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں یہاں تک کہ غسل کرلے۔
(مجموع فتاوى ومقالات متنوعة ٣٤٥/٢٤)

۲۲۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ حیض و نفاس والی عورتیں اپنے آپ پر دم کریں،
(جوى مكتوبة للشيخ ابن جبرينؒ ٢٤ شعبان سنة ١٤١٨هـ)
یا کسی دوسرے پر دم کریں یا پھر دم کیا ہوا پانی استعمال کریں ۔
( الفتاوى الذهبية ؛ ص ٣٤)

۲۳۔ جنابت والے کے لیے ہرگز جائز نہیں ہے کہ وہ قرآن پڑھ کر کسی پر دم ۔ کرے یہاں تک کہ وہ غسل کرلے۔
(الكنز الثمين لفتاوی این خیرین ۱۹۵۱) (الكنز الثمين لفتاوی ابن جبرين ۱۹٥/١)

۲۴۔اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی ’’دم کرنے والا‘‘ کسی ایسی عورت پر دم کرے جو بیوگی کی عدت گزار رہی ہو، یا جو حیض و نفاس کی حالت میں ہو، یا جو کوئی حالت جنابت میں ہو۔ اگر جنابت سے غسل کر لیا جائے تو یہ اس کے حق میں افضل ہے۔
(الفتاوى الذهبية ص ٣٤) (الكنز الثمين لفتاوى ابن جبرين ١٩٥/١).

۲۵۔ ’’دم کرنے والے‘‘ کو چاہیے کہ وہ دم کرتے ہوئے جو آیات اور دعائیں پڑھ رہا ہے مریض کو سنا کر پڑھے ، تاکہ وہ اس سے کچھ سیکھ بھی لے اور اس پر مریض کا دل بھی مطمئن ہو کہ یہ اصل میں شرعی دم ہی کیا جارہا ہے۔

۲۶۔ بعض معالج کی طرف سے کچھ سورتوں اور تسبیحات کو بطور خاص متعین کرنا جنہیں دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد پڑھا جائے تاکہ سحر زدہ انسان کو خواب میں کچھ نظر آجائے ، یہ بدعت ہے؛ اس کی کوئی اصل نہیں ۔ اور نہ ہی اس پر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے کوئی دلیل موجود ہے۔
(فتاوى اللجنة الدائمة ٩٦/١)

۲۷۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ آیت الکرسی یا دوسری قرآنی آیات یا احادیث مبارکہ میں وارد شرعی دعا ئیں لکھ کر اپنے گلے میں لٹکائے۔ تا کہ شیاطین سے حفاظت ممکن ہو یا پھر کسی بیماری سے شفاء حاصل کی جاسکے۔ علماء کے ہاں صحیح ترین قول یہی ہے۔
(المنتقى من فتاوى الشيخ صالح الفوزان ٢٤٤/١)

۲۸۔ اہل خرافات اور شعبدہ بازوں کے پاس جانا اور شفاء حاصل کرنے کے لیے ان سے اوراق وغیرہ لے کر جلانا اور انہیں سونگھنا، اور اس طرح کے دیگر کام کرنا جائز نہیں۔ یہ ایسی خرافات باتیں ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ۔
(السحرة والمشعوذين ص ۸۷-۸۸)

۲۹۔ شیطان کو بھگانے کے لیے قرآن مجید کو مریض کے چہرہ پر رکھنا جائز نہیں۔ ایسا کرنے میں قرآن کی اہانت اور شیطان کو راضی کرنا ہے۔
(فتاوى اللجنة الدائمة ۱۸۸/۱-۱۸۹)

۳۰۔ وہ عورت جو بچے کو جب اکیلا چھوڑتی ہے تو شیطان وغیرہ سے حفاظت کے لیے قرآن مجید بچے کے سینہ پر یا اس کے قریب رکھ دیتی ہے ؛ اور خود کام کاج میں لگ جاتی ہے۔ یہ عمل بھی جائز نہیں کیونکہ اس میں قرآن کی بے ادبی کا اندیشہ ہے اور بذات خود یہ عمل غیر شرعی ہے۔
( المنتقى ٢ ١٥٠)

۳۱۔ ایسے ہی شفاء حاصل کرنے کے لیے گیلی یا خشک مٹی پر پھونک مار کر اس پر لعاب ڈالنا ، اور پھر اس میں پانی ملا کر پی لینا؟ اس کی بھی کوئی دلیل نہیں ۔
(فتوی این باز برضه ، کیسٹ ریکارڈ ؛ ۱۸ شعبان ۱۳۱۹ھ )

۳۲۔ دم و تعویذ کرنے والے کا انگوٹھیوں پر آیات اور شرعی دعائیں لکھ کر انہیں زعفران کے پانی میں ڈبونا، اور پھر ان انگوٹھیوں کو کاغذ پر رکھنا تا کہ یہ نقش لکھائی کا قائم مقام ہو جائے : پھر ان اوراق کو دھو کر پی لینا؛ یہ تمام باتیں ناجائز ہیں۔ اس لیے کہ شرعی دم کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ دم کرنے والے اور دم کروانے والے کی نیت قرآن مجید کی آیات کے لکھنے سے شفاء حاصل کرنے کی ہونی چاہیے۔
(فتاوى اللجنة الدائمة ؛٩١/١)

۳۳۔ زہریلی چیزوں کا منتر بھی ثابت نہیں ہے۔ یہ وہ منتر ہے جسے’’ بچھو منتر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایک منتر ہے جسے پڑھ کر پانی پر پھو نکتے ہیں ، پھر وہ پانی پی لیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ : اس منتر کے پڑھنے کے بعد سانپ اور بچھو کو مارنا نہیں چاہیے؛
نبی ﷺ نے فرمايا:
’’ قتلوا الحية والعقرب، وان كنتم فی الصلاة‘‘

’’سانپ اور بچھو کو مار دو چاہے تم نماز میں ہی کیوں نہ ہو‘‘ صحیح ابو دائود ح:۸۰۴
اور نہ جس جگہ سانپ اور بچھو رہتے ہیں اس کے بارے میں کسی کو خبر دینی ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ قتلوا الحيات كلهن ، فمن خاف تار من فليس ما ‘‘ ’’ہر تم کے سانپوں کو ماردو، جو ان کے اثر سے ڈرا وہ ہم میں سے نہیں‘‘ ۔ رواہ ابو دائود انسانی ؛صحيح الجامع حدیث نمبر ١١٤٩
اور وہ خود ساختہ دعا یہ ہے:
’’اللهم إنها عزيمة العقرب مرت على اليهود والنصارى ومرت على سليمان بن داؤد وقالت: وما يبكيك يا نبي الله؟ قال: دابة من دواب النار صفراء كالزهر، سوداء كالدهر أم صديد كالدينار أم ذنيب كالمنشار نزل جبريل على دمها وإسرافيل على سمها شهق الله ثلاث شهقات قال اسكني في عزة الله وكتبك في لوح محفوظ .‘‘
’’اے اللہ یہ بچھو کا منتر ہے جو یہود و نصاری اور سلیمان بن داؤد کے پاس آکر پوچھنے لگا کہ اے اللہ کے نبی ! آپ کو کس چیز نے رلا دیا ہے؟ آپ نے جواب دیا: مجھے ایک آگ کے جانور نے رلایا ہے جو پھول کی طرح پیلا ، زمانے کی طرح کالا، پچھلے ہوئے دینار کی طرح اور تیز آری کی طرح تھا۔ اس جانور کے خون میں جبرئیل نازل ہوئے اور اس کے زہر میں اسرافیل نازل ہوئے ؛ اللہ تعالی نے چنگھاڑ ماری تین چنگھاڑیں۔ اور کہا: اللہ تعالی نے مجھے اپنی عزت اور قدرت سے آرام دے دیا ہے ۔ اور تجھے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے۔‘‘
اس منتر کی کئی ایک شکلیں ہیں جن میں سے کوئی بھی شکل شرک سے خالی نہیں۔
(مجموع فتاوی ابن بازؒ ۲۱٤/۱)

میرے علم کے مطابق اس دعا کی کوئی دلیل نہیں(الفتاوى الشرعية في المسائل الطبية للشيخ ابن جبرينؒ ص ٤٨)اور نہ ہی اس کا استعمال کرنا جائز ہے؛ بلکہ اس سے بچ کر رہنا اور اس کا ترک کر دینا واجب ہوتا ہے۔
(فتاوى اللجنة الدائمة ٢٥٥/١-٢٦٦)

۳۴۔ بعض معالج خیال کرتے ہیں کہ جب کہ آسیب زدہ انسان پر بے ہوشی کے عالم میں اس آیت کی تلاوت جنات کو حاضر کروانے کے لیے کی جائے تو جنات حاضر ہو جاتے ہیں۔ وہ آیت یہ ہے:
وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا ۚ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ
[الصافات: ١٥٨]
’’اور انہوں نے اللہ تعالیٰ اور جنات کے مابین رشتہ مقرر کیا ہے حالانکہ جنات جانتے ہیں کہ وہ (اللہ کے سامنے)حاضر کیے جائیں گے۔‘‘
یہ تفسیر انتہائی کوتاہی پر مبنی ہے۔ علمائے امت اس آیت کی اس تفسیر کے خلاف ہیں ۔ جیسا کہ ابن کثیر ؒ اور دوسرے علماء نے لکھا ہے ۔

❀ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
’’اس سے مراد یہ ہے کہ: انہوں نے یہ بات کہی ہے کہ جنات یوم حساب میں عذاب دینے کے لیے حاضر کیے جائیں گے اس لیے وہ اس دن کو جھٹلاتے تھے۔ اور اس کے متعلق اپنی طرف سے من گھڑت باتیں کیا کرتے تھے؛ اور بلا علم کے فتوے ٹھونکا کرتے تھے۔
(تفسير ابن كثير ؛٢٤/٤)

۳۵۔ ایسے ہی پیالے پڑھنا؛ ہتھیلیاں پڑھنا، اور علم البروج وغیرہ سے مدد حاصل کرنا جیسا کہ آج کل میگزین اور اخبارات پیش کر رہے ہیں، یہ تمام جادو کی اقسام، علم غیب کا دعوی اور کہانت کی اقسام ہیں۔ کہانت جادو کی ہی ایک قسم ہے اور یہ تمام اعمال باطل ہیں۔
(السحر لصالح الفوزان ؒ ؛ص ۸۰)

۳۶۔ اگر کسی انسان کے ساتھ جنات ہوں تو ان جنات کو آگ سے جلانا مطلقاً حرام ہے۔ (الفتاوى الذهبية؛ ص ٧٢) اس لیے کہ آگ سے عذاب دینے کا اختیار صرف آگ کے رب یعنی اللہ تعالیٰ کو ہے۔ البتہ آسیب زدہ کے علاج کے لیے برقی شاک استعمال کرنے کے بارے میں ہمیں کسی اصل کا علم نہیں ۔
( مهلا أيها الرقاة ؛ص ۷۹)

۳۷۔ بخورات اور دھونی دینا، جس میں لبان ، یا دوسری چیزیں استعمال کی جاتی ہیں ؟ تا کہ اس دھویں سے شیطان بھاگ جائے۔ اس کی کسی شرعی دلیل کا ہمیں علم نہیں ہو سکا۔ اس کا ترک کرنا واجب ہے۔ اس لیے کہ یہ ایسی خرافات میں جن کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ شیطانوں کو تو بکثرت ذکر الہی، تلاوت قرآن مجید کر کے، اور اللہ تعالیٰ کے کلمات سے اس کی پناہ میں آ کر بھگایا جاسکتا ہے۔ اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس دھونی سے مقصود شیاطین اور جنات کو راضی کرنا ہو، یا مرض سے شفاء حاصل کرنے کے لیے ان سے مدد حاصل کرنا ہو۔
(مجموع فتاوى و مقالات متنوعة ۱۷۱/۲٦)، (وفتاوى نور على الدرب٣٩٦/١)، (الفتاوى الذهبية ص ۱۲۷)

۳۸۔ تعویذ کرنے والے کا بھیڑیے کی چمڑی استعمال کرنا اور اسے مریض کو سونگھانا ؛ تاکہ پتہ چل سکے کہ کیا مریض کو پاگل پن ہے یا کوئی دیگر مرض؟۔ یہ ایک ناجائز عمل ہے۔ ایسے اس چمڑے کا یا اس کے ایک ٹکڑے کا گھریا دکان میں رکھنا تا کہ شیطان بھاگ جائیں بالکل بے دلیل بات ہے۔ ایسا کرنا جائز نہیں ۔ لوگوں کا یہ کہنا کہ جنات بھیڑے سے ڈرتے ہیں ایک خرافات و من گھڑت حکایت ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔
(فتاوى اللجنة الدائمة ٩١/١-١٢٤)

۳۹۔ ایسے ہی جادو توڑنے کے لیے مریض کے سر پر سیسہ گرانا ؛ جائز نہیں۔ اس لیے کہ ایسا کرنا بھی کہانت کی ہی ایک قسم ہے۔ اور مریض کا اس پر راضی رہنا ، جنات سے مدد حاصل کرنے اور اس شیطانی عمل میں ان کی مدد ہے۔
(مجلة البحوث الإسلامية ٥٩٣/١)

۴۰۔ مقناطیسی عمل کے ذریعہ علاج کروانا یہ بھی کہانت کے اعمال میں سے ہی ایک عمل ہے۔ اس کو ایک طریقہ بنا لینا تاکہ اس سے چوری شدہ مال کی جگہ ؛ یا گمشدہ چیز، یا مریض کے علاج یا دیگر کسی بھی عمل کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکیں ناجائز بلکہ شرک ہے۔
( المصدر السابق ٥٩٣/١)

۴۱۔ بعض قرآنی آیات کو نقش کی صورت میں لکھنا یا بعض برتنوں پر کندہ کروانا تا کہ ان سے علاج کیا جاسکے، ایسا کرنا بھی حرام ہے۔ اس میں کوئی شک والی بات نہیں ۔ جس کسی کے پاس اس قسم کے برتن ہوں تو اس پر واجب ہے کہ ان آیات کو مٹا دے۔ اور اگر ایسا نہ کر سکے تو پھر کسی پاک جگہ پر گڑھا کھود کر ان برتنوں کو دفن کر دے۔
(المجموع الثمين للفتاوی ابن عثمین ۲۳/۲)

۴۲۔ پانی کی ٹنکی پر پڑھ کر دم کرنا اور پھر اس سے پانی لوگوں میں تقسیم کرنا ، ایک بے بنیاد عمل ہے۔ مشروع طریقہ یہ کہ : یا تو مریض پر دم کیا جائے ، یا پھر اتنے ہی پانی پر دم کیا جائے جو مریض کو دیا جائے (یا اسے پلایا جائے)۔
(فتاوى اللجنة الدائمة ۸۹/۱)

۴۳۔ دم کرنے والے کی لعاب سے تبرک حاصل کرنا حرام ہے؛ اس کا شمار شرک کے وسائل میں سے ہوتا ہے۔ اس لیے کہ انسانی لعاب برکت اور شفاء کے لیے نہیں ۔ اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی کے لعاب سے تبرک حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ ہاں قرآن پڑھ کر یا مشروع دعائیں پڑھ کر پھونک مارنے کے ساتھ لعاب کے قطرہ کے چلے جانے میں کوئی حرج والی بات نہیں۔
(المصدر السابق ؛٧٥/١-٧٦)

۴۴۔ دم شدہ پانی کا لوگوں پر بیچنا یہ بھی ایک بے بنیاد چیز(اور کاروباری دھندہ)ہے۔
(فتاوى نور على الدرب ٣١٥/١)

۴۵۔ ہاں اگر تکلیف مریض کے ہاتھ یا سر میں ہو تو دم کرتے ہوئے تکلیف کی جگہ پر پھونک ماری جائے ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے محمد بن حاطب ؓ پر دم تھا۔ جب آپ کو ہانڈی پکڑائی گئی تو وہ آپ کے ہاتھ پر گر گئی اور ہاتھ جل گیا۔ تو رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے۔ تو رسول اللہ ﷺ آپ کے ہاتھ پر لعاب لگاتے اور یہ دعا پڑھتے :
أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءٌ لَا يُغَادِرُ سَقَمًا
’’ تکلیف کو دور فرما دے اے اللہ لوگوں کے رب! تو شفا دیدے تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیری ہی شفاء اصل شفاء ہے ۔ تو ایسی شفا عطا فرما جو کسی قسم کی بیماری نہ چھوڑے۔‘‘
(رواہ احمد ؛ ١٥٤٥٢)
تو آپ کا ہاتھ بالکل ٹھیک ہو گیا ۔

۴۶۔ اگر تکلیف سارے بدن میں ہو ، یا تکلیف کی جگہ ظاہری نہ ہو، جیسا کہ جنون، مرگی اور دل کی تنگی اور نظر بد میں ہوتا ہے تو پھر ایسی حالت میں مریض کو سامنے بیٹھا کر اس پر دم کیا جائے ۔ اس کی دلیل وہ واقعہ ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے ایک آسیب زدہ پر دم کیا تھا۔

۴۷۔ ٹیپ ریکارڈ یا لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ یا ٹیلیفون کے ذریعہ دم کرنا: ایک جدید دور میں پیش آنے والا معاملہ ہے۔ شرعاً ایسا کرنا جائز نہیں۔ دم تو براہ راست آمنے سامنے مریض پر کیا جاتا ہے۔ یا تو اس پر قرآنی آیات پڑھ کر دم کیا جائے یا پھر دوسری دعائیں پڑھ کر پھونک ماری جائے ۔
(رواہ احمد ۱۲۸/۰)

۴۸۔شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ جنات کی پٹائی لگاتے ، ان کا گلا دباتے ، اور ان سے بات چیت بھی کرتے تا کہ جنات نکل جائیں۔ لیکن آج کے اس دور میں جو کچھ مبالغہ دیکھنے اور سنے میں آ رہا ہے؛ اس کی کوئی دلیل نہیں۔
(مجموع الفتاوى ومقالات متنوعة ۲۷۸/۲۸)

۴۹۔ کعبہ کے غسل سے بچا ہوا پانی تبرک اور شفاء کی نیت سے استعمال کرنا جائز نہیں۔ بلکہ کعبہ کے حق میں مشروع اسکی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا ، اور اس کا طواف کرنا اور بغیر مبالغہ آمیزی اور بدعات ایجاد کیے اس کا ہر طرح سے احترام کرنا ہے۔
(فتاوى اللجنة الدائمة المجموعة الثانية ؛٢١٤/٢)

۵۰۔ شادی کے وقت میاں اور بیوی بدنظری، حسد اور جادو کے خوف سے پانی پر قرآن پڑھ کر دم کرتے ہیں، اور پھر اس پر کوئی خوشبو یا کافور وغیرہ بھی ڈالتے اور پھر اس پانی سے نہا لیتے ہیں۔ اس کی کوئی دلیل نہیں ۔ بلکہ ایسا کرنا بدعت ہے۔
(المصدر السابق ؛٣٠٥/٢)

۵۱۔ شہد یا دودھ یا اس طرح کی چیزوں پر پڑھ کر دم کرنا، اور مشک سے جسم کی مالش کرنا، اور عرق گلاب پر قرآنی آیات پڑھ کر پھونکنا اور پھر اسے استعمال کرنا : اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ۔ سلف صالحین سے ایسا کرنا ثابت ہے۔
(فتاوى اللجنة الدائمة ۹۷/۱)

۵۲۔ غروب آفتاب سے کچھ منٹ پہلے کا وقت نہانے کے لیے مقرر کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔
(المصدر السابق ۹۸/۱)

۵۳۔ ’’پانی بھر کر انجکشن پر دم کر کے پھر آسیب زدہ کی رگوں میں انجکشن لگا دینا ؛ اور اس پر یہ دلیل پیش کرنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’شیطان بنی آدم میں ایسے دوڑتا ہے جیسے اس کا خون دوڑتا ہے‘‘
(البخاری ۲۰۳۸) ،(مسلم ٢١٧٤)
یہ ایک غیر شرعی طریقہ ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ مریض کی رگوں میں پانی کا ٹیکہ لگانے سے اسے تکلیف پہنچے ۔
(الفتاوى اللجنة الدائمة ۲۹۸/۱)

۵۴۔ کتاب ’’الحصن الحصين‘‘ اور ”حرز الجوشن “ اور ” سبعہ عقود ‘‘ کو بطور حرز جان(اپنی حفاظت کے لیے)اپنے پاس رکھنا جائز نہیں۔
(فتاوى اللجنة الدائمة ؛ ۲۶۸/۱)

۵۵ ۔ اگر دم کرنے والا اپنے پاس تمام موجود مریضوں پر دم کی نیت سے پڑھ کر پانی پر دم کر دے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔
(من فتوی شیخا ابن بازؒ ؛کیسٹ ریکارڈ )

۵۶۔ اگر ضرورت پڑ جائے تو دم کردہ پانی یا تیل کو گرم کیا جاسکتا ہے۔

۵۷۔ لوگوں نے جو کچھ سورت زلزال کے متعلق بنا رکھا ہے ، کہ اس سے یا تو مریض کو شفاء حاصل ہوتی ہے یا پھر موت آجاتی ہے؛ اور اس سے بچہ گر جاتا ہے۔ یہ عوام الناس کی خرافات میں سے ایک ہے ، اس کی کوئی دلیل نہیں۔
(مجموع فتاوی و مقالات متنوعة ؛١٧٥/٢٦)

۵۸۔ جس جانور یا گاڑی کو نظر بد لگ جائے؛ انہیں دم کرنا جائز ہے؛ اور ایسے ہی پانی پر دم کر کے ان چیزوں پر پانی چھڑکنا بھی جائز ہے۔ اور اگر یہ معلوم ہو جائے کہ نظر کس کی لگی ہے تو نظر بد لگانے والے کو حکم دیا جائے کہ وہ وضو کرے یا نہائے، یا پھر اپنے کسی عضور کو دھوئے۔ اب اس پانی کو نظر لگی ہوئی چیز پر چھڑکا جائے۔ خواہ وہ گاڑی ہو یا کوئی دوسری چیز ۔
(القناوى الذهبية ؛ص ۱۱۱)

۵۹۔ نظر بد لگانے والے کے لیے جائز نہیں ہے کہ جب اسے وضو کرنے یا غسل کرنے کا کہا جائے تو وہ اس سے انکار کرے۔ بھلے اس پر کسی بات کے کہنے کی وجہ سے نظر بد لگانے کی تہمت ہو، یا پھر یقین ہو کہ اس کی نظر لگی ہے۔
(الفتاوى الذهبية ؛ ص۱۱۲)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
’’جب تم سے نہانے کے لیے کہا جائے تو نہا لیا کرو۔‘‘
(صحیح مسلم ؛ ۲۱۸۸)

۶۰۔ نظر بد بھی بلا ارادہ بھی لگ سکتی ہے ؛ اس کی وجہ اس کی اولاد، بیوی ، یا مال مویشی بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ جب انسان کو کوئی چیز بھلی لگے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے اور یوں کہے:
مَا شَاءَ اللهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ.
اور انسان کو چاہیے کہ اپنے جسم کے کسی حصہ کو دھوکر یہ پانی اس چیز پر بہا دے۔
( الفتاوى الذهبية ؛ ١١٤)

۶۱ ۔ عوام الناس میں مشہور ہے کہ جس انسان کے متعلق پتہ چل جائے کہ اس کی نظر لگتی ہے؛ اس پر چار تکبیر نماز جنازہ پڑھ لیتے ہیں خواہ اس پر وہ راضی ہویا نہ ہو یا پھر وہ سویا ہوا ہو، اور اس پر یہ نماز پڑھ لیں اور پھر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے نظر کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔ خواہ ماضی میں ہو یا مستقبل میں۔ لیکن اس پر کوئی شرعی دلیل نہیں ہے؛ اور نہ ہی میرا خیال ہے کہ اس سے کچھ فائدہ ہوتا ہوگا۔
( فتوی الشیخ ابن جبرینؒ ؛ ۲۳ شعبان ۱۳۱۸ )
یہ بعض علماء کے تجربہ سے ثابت ہے مگر جس کی نظر بد لگتی ہو، اس کے حق میں یہ بہت ہی نقصان دہ عمل ہے، اس سے موت تک واقع ہو سکتی ۔ لہٰذا ایسی حرکت کر کے کسی کے قتل کے ذمہ دار نہ بنیں ( مترجم : الدراوي)

۶۲ ۔ روٹی کا ایک ٹکڑا زمین پر ڈال کر دیکھا جاتا ہے؛ کہ کون ہے جو نظر بد کی وجہ سے خوف سے اس کو دیکھ رہا ہو؛ یہ ایک فاسد عقیدہ اور نبی کریم ﷺ کی حدیث کے مخالف امر ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب کسی انسان سے لقمہ گر جائے تو اسے چاہیے کہ اس کو جو کچھ لگا ہو ! اسے صاف کر کے لقمہ کھا لے.‘‘
(صحیح مسلم ؛ ۲۰۳۳)

۶۳ ۔ نئی گاڑی یا نئے مکان میں اس لیے ذبح کرنا تاکہ نظر بد اور حسد سے بچا جاسکے! ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے زمرہ میں آتا ہے۔ اس لیے کہ ذبح کرنے والا یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ وہ اس عمل سے جنات اور شیطان کو راضی اور قریب کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ اس پر مسلط نہ ہوں ۔
(المنتقى للشيخ العلامة صالح الفوزات ؛ ١٣٥/٢)

۲۴۔ نظر بد لگے ہوئے انسان کے لیے قبر کھودنا، یا بیماری سے شفاء حاصل کرنے کے لیے قبر کھودنا؛ شریعت مطہرہ میں اس کی کوئی دلیل نہیں ۔ بلکہ یہ ایسی خرافات ہیں جن کا ترک کرنا اور لوگوں کو اس سے خبر دار کرنا واجب ہے۔
(فتاوى اللجنة الدائمة ؛١١٢/١)

۶۵۔ نظر بد لگے ہوئے مریضوں پر بعض حامل یہ کلمات پڑھ کر دم کرتے ہیں:
( حبس حابس ، حجر يابس، وشهاب قابس ، وردت عين الحاسد إليه وعلى أحب الناس الیہ)
یہ مذکورہ کلام نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہے ، صحابہ کرام ؓ میں سے بھی کسی ایک نے ایسے نہیں کہا۔ نہ ہی اس کی کوئی اصل ہے۔اس کے الفاظ بھی عجیب وغریب قسم کے ہیں۔ نیز اس میں لوگوں پر ناحق سرکشی بھی ہے۔ نظر بد کا علاج قرآنی آیات اور مسنون دعاؤوں اور رسول اللہ ﷺ سے ثابت غسل والے طریقہ سے کیا جاسکتا ہے۔
(فتاوى اللجنة الدائمة ؛١١١/١)

۶۶۔ لکڑی پکڑ کر نظر بد اور حسد کا علاج کرنا نہ ہی شرعی دلیل سے ثابت ہے اور نہ ہی تجربہ سے۔ شرعی دلیل نہ ہونے کی وجہ سے اس پر اعتماد کرنا جائز نہیں۔
(فتوى ابن جبرين الله مكتوبة ٢٤ شعبان ١٤١٨هـ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: