عذابِ قبر اور برزخی زندگی
تحریر: فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی

سوالات:
۱۔ عذابِ قبر سےکیا مراد ہے ؟ اس کا تعلق روح سے ہوتا ہے یا بدن بھی ملوث ہوتا ہے؟
۲۔ اگر قبر میں جسم کو بھی عذاب ہوتاہے تو پھر اُخروی عذاب کے کیا معنی ہیں؟
۳۔ازروئے قرآن زندگیاں دو ہیں، دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی۔ پھر برزخی زندگی کیا ہے ؟ موت کو زندگی کا نام دینا میرے فہم سے بالا تر ہے۔
۴۔ مُردہ تو سننے سے قاصر ہوتا ہے۔ پھر انہ یسمع قرع نعا لھم کا کیا مطلب ہے۔ آخر قرآن ہی تو کہتا ہے ﴿اَمْ لَھُمْ اذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَا﴾ ؟
۵۔ روح اور جسم کا باہمی ملاپ کا نام زندگی ہے۔ پھر فیعاد روحہ فی جسدہ سے کیا مراد ہے؟ کئی لوگوں کی نعشیں (جیسے لندن میں فرعون کی اور چین میں ماوزسے تنگ کی) باہر سامنے پڑی ہیں لیکن ان میں اعادہ روح کے کوئی آثا ر نظر نہیں آتے مزید یہ کہ جب مردے زندہ ہونگے تو وہ قبروں سے باہر نکل پڑینگے؟
۶۔ حدیث میں ہے : مستحق عذاب (کافر یا مشرک ) کو فرشتے مارتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی چیخ سوائے جن و انس کے تمام مخلوق سنتی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خچر تو بدک گیا مگر ہمارے ریوڑ کے ریوڑ قبرستانوں میں چرتے ہیں اور کبھی ان کے ڈرنے کا واقعہ نہیں سناگیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کا بدکنا تو خرقِ عادت تھا اور اس کو معجزہ کہیں گے۔
۷۔ عالمِ خواب میں فوت شدگان کی روحیں اپنے لواحقین سے آکر ملتی ہیں یا یہ محض تخیل ہوتا ہے؟
(حافظ محمد عمران فاروقی ضلع و تحصیل میانوالی محلّہ یاروخیل مسجد اہلحدیث)

الجواب:
محترمی جناب ! حافظ رضوان احمد فاروقی صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ !
آپ کا خط ملا جو آپ نے استاد محترم حافظ زبیر علی زئی صاحب کو ارسال کیا تھا۔ آپ کے سوالات کے مختصر جوابات پیشِ خدمت ہیں۔

۱۔ عذابِ قبر سے مراد وہ عذاب ہے جو میت کو قبر میں دیا جاتاہے ۔ اور قرآن و حدیث کی واضح نصوص سے ثابت ہے کہ قبر زمین میں ہوتی ہے اور قیامت کے دن انسانوں کو اسی ارضی قبر سے زندہ کر کے اٹحایا جائے گا ۔ ارضی قبر کے علاوہ کسی دوسری فرضی قبر کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور اس عذاب کا تعلق جسد یعنی میت سے ہوتاہے اور روح جنت یا جہنم میں ہوتی ہے ۔ [ديكهئے سورة نوح آيت: ۲۵ التحريم: ۱۰] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عذابِ قبر اور عذابِ جہنم دونوں سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ حدیث میں ہے :
الميت يعذب فى قبره بمانيح عليها [ بخاري : ۱۲۹۲ و مسلم : ۹۲۷ ]
”میت کو اس کی قبر میں عذاب دیا جاتا ہے اس پر نوحہ کے سبب سے ۔“
یہ حدیث قبر میں میت (بدن) کے عذاب پر بالکل واضح ہے۔
لہذا ثابت ہوا کہ عذاب کا تعلق جسم سے بھی ہے اور روح کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ موت روح اور جسم کی جدائی کا نام ہے اور قیامت ہی کے دن روح اور جسم آپس میں دوبارہ ملیں گے۔

۲۔ قبر میں جسم کو عذاب ہوتاہے اور قیامت کے دن بھی عذاب ہوگا۔ آپ کایہ اعتراض کہ پھر اخروی عذاب کا کیا مطلب ہے ؟ تو قرآنِ کریم سے ثابت ہے کہ قبض روح کے وقت کافروں کو عذاب دیا جاتا ہے ۔ [ديكهئے سورة الانعام ۹۳، الانفال آيت ۵] آپ سے بھی یہی سوال ہے کہ جب قبضِ روح کے وقت کافروں کو عذاب دیا جاتا ہے تو پھر اُخروی عذاب کے کیا معنی ہیں؟ اَب جوجواب آپ کا ہوگا، وہی ہمار ا بھی ہے ۔

۳۔ دو زندگیوں کا مطلب یہ ہے کہ آج دنیا میں جیسی زندگی ہمیں حاصل ہے اسی طرح کی محسوس اور ظاہری زندگی قیامت کے دن بھی حاصل ہوگی اور مرنے کے بعد حالتِ موت میں بھی عذاب اور راحت کو میت اور روح محسوس کرتی ہیں۔ قرآن نے ضِعْفَ الْمَمَاتِ کے ساتھ حالتِ موت میں عذاب کا ذکر کیا ہے ۔ [ديكهئے بني اسرائيل آيت ۷۵] علمائے اسلام نے موت کے بعد ثواب اور عذاب کی کیفیت کو سمجھانے کے لئے برزخی زندگی کا نام دیا ہے بہرحال نام چھوڑیں اصل حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

۴۔ آپ کہتے ہیں کہ مردہ سننے سے قاصر ہوتا ہے، قرآن کی کونسی آیت ہے یا کسی حدیث میں ایسا کوئی مضمون آیاہے کہ مردہ سننے سے قاصر ہے ؟ البتہ قرآن کریم میں یہ الفاظ آئے ہیں:
﴿وَمَا يَسۡتَوِي الۡاَحۡيَآءُ وَ لَا الۡاَمۡوَاتُ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُسۡمِعُ مَنۡ يَّشَآءُ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِي الۡقُبُوۡرِ﴾ [فاطر: ۲۲ ]
”اللہ تعالیٰ جسے چاہے سنادے اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ ان لوگوں کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے ۔“

اِس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے سنا سکتاہے۔ البتہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کوئی دوسرا مردوں کو نہیں سنا سکتا۔ یعنی نبی کے اختیار میں مردوں کوسنانا نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ جب سنانا چاہتا ہے تو قلیب بدر والوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا دیا ۔ [بخاري: ۱۳۷۱، ۱۳۷۲ مسلم : ۹۳۲ ]
میت واپس جانے والوں کی جوتیوں کی چاپ سنتی ہے [بخار ي: ۱۳۳۸] میت سے قبر میں سوالات کئے جاتے ہیں: مَنْ رَبُّکَ، تیرا رب کون ہے ؟ ما تقول فى هٰذا الرجل تُو اس شخص کے بارے میں کیا جانتاہے ؟ یہ تمام باتیں میت کو اللہ تعالیٰ سنا تا ہے۔ آپ نے جو آیت نقل کی ہے وہ بے موقع ہے ۔ آپ اس سلسلہ میں تحقیق کریں۔

۵۔ فَتُعَادُ رُوْحُہٗ فِیْ جَسَدِہٖکا کیا مطلب ہے کہ سوال و جواب کے وقت روح کو میت میں لوٹایا جاتا ہے اور یہ آخرت کا معاملہ ہے اور آخرت کے معاملات کو عقل کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جاسکتا۔ پھر یہ غیب کا معاملہ ہے ۔ ﴿الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ﴾ ایمان والے اِن اَن دیکھی حقیقتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور ایسی حقیقتیں کہ جو پردہ غیب میں ہیں، ان کے متعلق یہ کہنا کہ وہ نظر کیوں نہیں آتیں تو یہ طرزِ عمل کفارو مشرکین کا تھا۔ اور اگر آپ اِن حقیقتوں کو دیکھنے کے متمنی ہیں تو پھر کچھ انتظار کرلیں موت کے وقت یہ تمام حقائق آپ کو معلوم ہوجائیں گے۔

۶۔ جب میت کو عذاب دیا جاتا ہے تو جنوں اور انسانوں کے علاوہ تمام مخلوق اِن کے چیخنے چلانے کی آواز سُنتی ہے۔ ایک حدیث میں يعذبون حتي تسمع البهائم كلها [بخاري : ۶۳۶۶ ومسلم : ۵۸۶]
”تمام چوپائے میت کی آواز کو سنتے ہیں“
ایک حدیث میں يسمع من يليه [بخاري : ۱۳۳۸]
”قریب کی ہر چیز میت کی آواز کو سنتی ہے ۔“
میت کے چیخنے چلانے کی آواز ہر چیز سنتی ہے ، سوائے انسان کے اور اگر انسان ان کو سن لے تو بے ہوش ہوجاتا ہے۔ [بخاري: ۱۳۷۴ ]

اِن احادیث سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ میت کے چیخنے چلانے کی آواز ہر چیز اور تمام جانور سنتے ہیں لیکن انسان اور جنات اسے نہیں سن سکتے ۔ جہاں تک بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کے بدکنے کا معاملہ ہے تو یقیناً وہ بھی اس اچانک آواز سے بدک گیا تھا۔ دنیا میں جانور بھی دو قسم کے ہیں ایک وہ شہری جانور جو سڑک پر سائرن کی زبردست آواز سے بھی متحرک نہیں ہوتے۔ دوسرے تھر پاکر کے علاقے کے جانور جو دُور کسی کار کی آواز سن کر ہی ایسے بدحواس ہو کر اور گھبرا کر بھاگتے ہیں کہ انسان حیران ہوجاتا ہے ۔ لہذا قبر کی آواز سے بھی ڈھیٹ قسم کے جانور نہیں بدکتے بلکہ یہ آوازیں اِس کی روزمرہ کا معمول اور فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہیں جبکہ حساس قسم کے جانور اس سے بدکتے ہیں۔
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عذابِ قبر کو سننا آپ کے نبی ہونے کی وجہ سے تھا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کا عذاب کی آواز سے بدکنا تو اِسے معجزہ کا نام دینا غلط بلکہ جہالت ہے کیونکہ تمام ہی جانور عذابِ قبر کی آواز کو سنتے ہیں۔ لہذا عثمانی فلسفہ کے بجائے قرآن و حدیث پر سچے دل سے ایمان لے آئیں۔

۷: خواب میں بعض دفعہ مرنے والے سے ملاقات ہوجاتی ہے جس سے اس کی حالت کا پتہ چل جاتا ہے ۔ جس طرح طفیل بن عمرو ؓنے اپنے ساتھ ہجرت کرنے والے ساتھی کو خودکشی کے بعد خواب میں دیکھا جس نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کرنے کی وجہ سے بخش دیا ہے لیکن فرمایا کہ جس چیز کو یعنی ہاتھ کی انگلیوں کو تو نے خود خراب کیاہے میں انہیں ٹھیک نہیں کروں گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر دعا فرمائی کہ اللہ اس کی انگلیوں کو بھی معاف فرما دے ۔ [ مسلم: ۱۱۶ ]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جعفر الطیار ؓ کو خواب میں دیکھا تھا، ان کے دو پر تھے جن پر خون لگا ہوا تھا ۔ [ ديكهئے المستدرك للحاكم ۲۱۲/۳ ح ۴۹۴۳ وسنده حسن] ابو الصبھاء صلہ بن اشیم العدوی (ثقہ تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے (سیدنا ) ابو رفاعہ العدوی ؓ کو ان کی شہادت کے بعد (خواب میں) دیکھا، وہ ایک تیز اونٹنی پر جا رہے تھے۔ إلخ [مصنف ابن ابي شيبه: ۸۴/۱۱ ،۸۵ ح ۳۰۵۲۳ وسنده صحيح]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے