عقیدہ ختم نبوت اورنزول مسیح علیہ السلام
’’اگر قرب قیامت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کو تسلیم کیا جائے تو لازم آتا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین نہیں ہیں۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام بحیثیت نبی نہیں آئیں گے تو اس سے ایک نبی کو نبوت سے محروم تسلیم کرنا پڑے گا۔‘‘
قرآن و حدیث کو اپنے خود ساختہ اصولوں پر پرکھنے والے ’’دانشور‘‘ بڑی شدومد کے ساتھ یہ اعتراض اچھالتے رہتے ہیں اس اعتراض کا مقصد یہ ہے کہ نزول مسیح کے اقرار سے عقیدہ ختم نبوت کی نفی ہوتی ہے۔ لہذا ان ’’دانشوروں‘‘ کے نزدیک اس ’’تضاد‘‘ کا حل یہ ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق صحیح اور ثابت شدہ احادیث کا انکار کیا جائے جو صحیح البخاری اور صحیح المسلم جیسی کتابوں میں منقول ہیں جنہیں امت مسلمہ کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہے۔
جس طرح عقیدہ ختم نبوت قرآن اور بے شمار صحیح احادیث سے ثابت ہے اسی طرح قرب قیامت سید نا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ثابت ہے۔
(1) نتیجہ یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے لیکن چونکہ محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت قیامت تک رہنی ہے لہذا آپ علیہ السلام شریعت محمدی کے تابع ہو کر آئیں گے۔ اپنے نظریات کو قرآن و حدیث کے تابع بنانے والوں کیلئے یہ ایک آسان حل ہے۔ پریشانی ان لوگوں کو ضرور ہو گی جو اپنے مصنوعی نظریات کے سانچوں میں آسمانی قواعد کو ڈھالنے کی تگ ودو میں مصروف عمل ہیں۔ ان لوگوں کے اس ذہنی خلجان کو ختم کرنے کیلئے اس اعتراض کے دونوں پہلوؤں پر کچھ بحث پیش خدمت ہے۔ تفصیلی دلائل کیلئے اس رسالہ میں موجود اہل علم کے مضامین کا مطالعہ کریں۔
نزول مسیح عقیدہ ختم نبوت کے منافی نہیں:
محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت قیامت تک برقرار رہے گی۔ نزول مسیح علیہ السلام سے آپ ﷺ کی شریعت میں کوئی تغیر واقع نہ ہو گا۔ اسکی وضاحت کیلئے فتح الباری سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا ایک مدلل اقتباس ملاحظہ ہو جو کہ نزول مسیح والی احادیث کے ان الفاظ پر تجزیہ ہے:
وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ
(عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے جبکہ نماز کیلئے امام تمہیں میں سے ہوگا)۔
صحیح البخاری رقم الحدیث ۳۲۴۸ اور ۳۳۴۹
کے ان مذکورہ الفاظ کے تحت ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ابوذرہروی کہتے ہیں کہ بعض متقدمین سے ہمارے شیخ ’’الجوزقی‘‘ نے ’’وإمامکم منکم‘‘ کا یہ مطلب نقل کیا ہے کہ سید نا عیسی علیہ السلام احکام قرآن نافذ کریں گے نہ کہ انجیل کو ۔ علامہ ’’ابن تین‘‘ ان الفاظ کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ( بوقت نزول عیسیٰ علیہ السلام کا امت محمدیہ کے ایک فرد کے پیچھے نماز پڑھنے میں یہ اعلامیہ ہے کہ) شریعت محمدی قیامت تک چلتی رہے گی۔ علامہ ابن الجوزی کہتے ہیں کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام اس موقع پر امامت کروائیں تو یہ اشکال پیدا ہو تا کہ آیا آپ علیہ السلام محمد رسول اللہ ﷺ کے نائب کی حیثیت سے آگے ہوئے ہیں یا کوئی اور شریعت نافذ کرنے کیلئے امام بنے ہیں۔ اس اشتباہ سے بچنے کیلئے آپ علیہ السلام امت محمدیہ کے ایک فرد کے پیچھے نماز پڑھیں گے تا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان پر کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے :
لانبی بعدی (انتهى ملخصاً)
اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کا جزیہ کو ختم کرنے کی اطلاع محمود نبی اکرم ﷺ نے دی ہے۔ لہذا یہ اشکال نہیں آسکتا کہ عیسیٰ علیہ السلام جزیہ ختم کر کے شریعت محمدی ﷺ کے ایک مستقل حکم کو بدل ڈالیں گے۔ گویا کہ قرب قیامت جزیہ کا ختم ہونا آپ ﷺ کے حکم ہی سے ہو گا۔
شریعت محمدی کی اتباع میں عیسیٰ علیہ السلام نبوت سے محروم نہیں ہوں گے :
کیا کسی نبی کی شریعت منسوخ ہونے سے اسکی نبوت چھن جاتی ہے ؟اگر اس سوال کا جواب – نفی میں ہے تو مسئلہ حل ہو چکا ہے لیکن اگر آپ اسکا جواب اثبات میں دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ شریعت محمدی نے سابقہ تمام شرائع کو منسوخ کر دیا ہے لہذا سابقہ تمام انبیاء اپنی نبوت سے محروم ہو چکے ہیں ؟؟ حالانکہ کوئی بھی مومن اسطرح کا نظریہ اپنا کر اپنے عقیدہ کو داغدار نہیں بنا سکتا۔ کیونکہ تمام انبیاء کی نبوت پر ایمان لانا عقیدہ کا ایک لازمی جزء ہے۔ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین تسلیم کرتے ہوئے آدم علیہ السلام سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کی نبوت پر ایمان لاتے ہیں۔ ہاں ! خاتم النبیین کی شریعت نے سابقہ تمام انبیاء کی شریعت کو منسوخ کر دیا ہے جن میں شریعت عیسوی بھی شامل ہے۔
اسی طرح قرآن نے توراۃ اور انجیل کو منسوخ کر دیا ہے لیکن آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ توراۃ اور انجیل آسمانی کتب نہیں ہیں۔
ہو سکتا ہے آپکے دل میں یہ سوال ابھرے کہ سابقہ انبیاء کی شریعت انکے فوت ہونے کے بعد منسوخ ہوئی جبکہ عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو انکی زندگی میں ہی منسوخ کیا جارہا ہے؟
عرض ہے کہ سید نا عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کا دوسرا حصہ قانون فطرت سے ہٹ کر ایک معجزہ ہے لہذا زندگی کے اس دوسرے حصہ کو ہم عام فطری زندگی پر قیاس نہیں کر سکتے۔ آپکی زندگی کا پہلا حصہ عام فطری قانون کے مطابق تھا جو اس وقت ختم ہوا جب آپ آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ اس بنا پر آپکا آسمان پر اٹھایا جانا آپکی زندگی کے پہلے حصہ کیلئے موت کے قائم مقام ہے۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت آپکی فطری زندگی کے اختتام کے بعد منسوخ ہوئی ہے۔ سورہ الصف آیت 4 میں سید نا عیسیٰ علیہ السلام کی پیشین گوئی: ’’یاتی من بعدی‘‘ میں لفظ ’’بعدی‘‘ پر غور کریں تو یہ بات سمجھنا مشکل نہیں۔ اگر آپ ہماری اس توجیہ کو قبول نہیں کرتے تو ہم آپ سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ آپکے پاس اس بات کی کیا دلیل ہے کہ کسی نبی کی زندگی میں کوئی اور نبی آکر اسکی شریعت منسوخ نہیں کر سکتا؟ جبکہ قرآن اسکے بر عکس موقف کی تائید کر رہا ہے:
وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ (آل عمران: 81)
’’جب اللہ تعالی نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اسکی مدد کرنا ضروری ہے۔ فرمایا کہ تم اسکے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو ؟ سب نے کہا ہمیں اقرار ہے۔ فرمایا تواب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔‘‘ (ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی رحمتہ اللہ علیہ)
اس آیت کی تفسیر میں مسلک اہل حدیث کے عظیم اسکالر حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’ یعنی ہر نبی سے یہ وعدہ لیا گیا کہ اسکی زندگی اور دور نبوت میں اگر دوسرا نبی آئے گا تو اس پر ایمان لانا اور اسکی مدد کرنا ضروری ہو گا۔ جب نبی کی موجودگی میں آنے والے نئے نبی پر خود اس نبی کو ایمان لانا ضروری ہے تو ان کی امتوں کیلئے اس نئے نبی پر ایمان لانا بطریق اولیٰ ضروری ہے۔ بعض مفسرین نے ’’ رسول مصداقی ‘‘ سے مراد ’’الرسول‘‘ (ایک متعین رسول ) کا مفہوم مراد لیا ہے۔ یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق تمام نبیوں سے عہد لیا گیا کہ اگر انکے دور میں وہ آجائیں تو اپنی نبوت ختم کر کے ان پر ایمان لانا ہو گا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ پہلے معنی میں یہ دوسرا مفہوم از خود آجاتا ہے۔“
(تفسیر احسن البيان)
اسی طرح سید نا موسیٰ علیہ السلام نے اپنی زندگی میں ہی نبوت کی بعض ذمہ داری اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کی طرف منتقل کرنے کی درخواست کی جو کہ پوری ہوئی:
وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْ(29)هٰرُوْنَ اَخِی(30)اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْ(31)وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْ(32)كَیْ نُسَبِّحَكَ كَثِیْرًا(33)وَّ نَذْكُرَكَ كَثِیْرًاﭤ(34)اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِیْرًا(35) قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰى(36) (سورة طه)
اور سورۃ یٰس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَةِۘ-اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ(13)اِذْ اَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهِمُ اثْنَیْنِ فَكَذَّبُوْهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوْۤا اِنَّاۤ اِلَیْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ(14)
اس میں صراحت ہے کہ جب ایک بستی والوں کی طرف بیک وقت دو رسول بھیجے گئے اور بستی والوں نے انہیں جھٹلایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تائید کیلئے انکی زندگی میں ہی تیسرے رسول کو مبعوث فرمایا۔
بتائیے کیا نبوت کی ذمہ داری ان تین انبیاء میں تقسیم نہیں ہوئی ؟ اگر ایک نبی کی زندگی میں جزوی طور پر اسکی نبوت کی ذمہ داری کسی اور نبی کی طرف منتقل یا تقسیم ہو سکتی ہے تو کلی طور پر کسی نئے نبی کے آنے سے منسوخ کیوں نہیں ہو سکتی؟ جبکہ سورۃ آل عمران کی ذکر کردہ آیت بھی اس موقف کی واضح تائید کر رہی ہے۔
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ (البقره: 253)
رسولوں کی اس جماعت میں سے اللہ تعالی نے بعض بعض پر فضیلت بخشی ہے۔ اللہ تعالی کے اس فعل پر اعتراض کرنا بہت بڑی جرآت ہے۔
ہماری اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ سید نا عیسیٰ علیہ السلام نبی کی حیثیت میں آکر شریعت محمدی کی پیروی کریں گے۔ لہٰذا عقیدہ ختم نبوت اور عقیدہ نزول عیسیٰ علیہ السلام میں کوئی تضاد نہیں۔ اگر ہم قرآن و حدیث کو اپنے ذاتی اور موروثی نظریات پر مقدم رکھیں تو ہمارے اندر اسطرح کے اعتراضات جنم نہیں لے سکیں گے۔