دعا (پکارنا، مانگنا) عبادت ہے، جو صرف اللہ کا حق ہے
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

میرے مسلمان بھائیو شیطانی وسوسوں کے باوجود اپنی موت سے پہلے پہلے صرف ایک مرتبہ اس تحریر کو اول تا آخر لازمی، لازمی ،لازمی پڑھ لیں۔

واحد .ناقابل معافی جرم کی نشاندھی

اللہ تعالیٰ اور اس کےمحبوب ،ھمارے نہایت ھی شفیق آقا، امام اعظم ،امام کائنات ،سید الاولین ،والاخرین،امام الانبیاء ،والمرسلین ،شفیع المذنبین ،رحمۃ للعالمین ،سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات یعنی قرآن اور صحیح احادیث کے مطابق ہر حال میں دعا صرف اور صرف ایک اللہ تعالیٰ ھی سے کی جا سکتی ھے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی بھی دوسری ہستی سے دعا مانگنا خالصتاً شرک ھے اور اس گناہ میں ملوث انسان اگر بغیر توبہ کے مرگیا تو بروز قیامت خود اللہ تعالیٰ بھی اس گناہ کو ھرگز معاف نہیں فرمائے گا ،اس ناقابل معافی جرم کے خطرے کا انداز ہ لگانے کے لئے درج ذیل 4رقت انگیز قرآنی آیات اور چار صحیح احادیث ملاحظہ کیجیے:

چار قرآنی آیات

قرآن میں 18 انبیاءکرام علیہ السّلام کا ذکر خیر ناموں کے ساتھ کرلینے کے بعد اللہ سبحان و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(1) وَوَهَبْنَا لَـهٝٓ اِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوْحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ ۖ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ دَاوُوْدَ وَسُلَيْمَانَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰى وَهَارُوْنَ ۚ وَكَذٰلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِيْنَ (84)
ترجمہ
اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب بخشا، ہم نے سب کو ہدایت دی، اور اس سے پہلے ہم نے نوح کو ہدایت دی، اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون ہیں، اور اسی طرح ہم نیکو کاروں کو بدلہ دیتے ہیں۔
وَزَكَرِيَّا وَيَحْيٰى وَعِيْسٰى وَاِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِيْنَ (85)
ترجمہ
اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس، سب نیکوکاروں میں سے ہیں۔
وَاِسْـمَاعِيْلَ وَالْيَسَعَ وَيُوْنُسَ وَلُوْطًا ۚ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِيْنَ (86)
ترجمہ
اور اسماعیل اور یسع اور یونس اور لوط، اور ہم نے سب کو سارے جہان والوں پر بزرگی دی۔
ترجمہ
وَمِنْ اٰبَآئِـهِـمْ وَذُرِّيَّاتِـهِـمْ وَاِخْوَانِـهِـمْ ۖ وَاجْتَبَيْنَاهُـمْ وَهَدَيْنَاهُـمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْـمٍ (87)
ترجمہ
اور ان کے باپ دادوں اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بعضوں کو، ہم نے پسند کیا اور ہم نے انہیں ہدایت دی سیدھی راہ پر کی طرف۔
ترجمہ
ذٰلِكَ هُدَى اللّـٰهِ يَـهْدِىْ بِهٖ مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۚ وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْـهُـمْ مَّا كَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ (سورۃ الانعام آیت 88)
ترجمہ
یہ اللہ کی ہدایت ہے اپنے بندوں میں جسے چاہے اس پر چلاتا ہے، اور اگر یہ لوگ بھی شرک کرتے تو البتہ سب کچھ ضائع ہو جاتا جو کچھ انہوں نے کیا تھا۔

(2) وَلَقَدْ اُوْحِىَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَۚ لَئِنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُـوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ (سورہ الزمر آیت 65)

ترجمہ
اور بے شک آپ کی طرف اور ان کی طرف وحی کیا جا چکا ہے جو آپ سے پہلے ہو گزرے ہیں، کہ اگر تم نے شرک کیا تو ضرور تمہارے عمل برباد ہو جائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گے۔

(3) اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْـرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ ۚ وَمَنْ يُّشْـرِكْ بِاللّـٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيْدًا (سورۃ النساء آیت 116)
ترجمہ
بے شک اللہ اس کو نہیں بخشتا جو کسی کو اس کا شریک بنائے اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے، اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا تو وہ بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔

(4) لَقَدْ كَفَرَ الَّـذِيْنَ قَالُـوٓا اِنَّ اللّـٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَـمَ ۖ وَقَالَ الْمَسِيْحُ يَا بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ اعْبُدُوا اللّـٰهَ رَبِّىْ وَرَبَّكُمْ ۖ اِنَّهٝ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّـٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّـٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّـةَ وَمَاْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ سورۃ المائدہ آیت (72)
ترجمہ
البتہ تحقیق وہ لوگ کافر ہوئے جنہوں نے کہا کہ بے شک اللہ وہی مریم کا بیٹا مسیح ہی ہے، اور (حالانکہ) مسیح نے کہا کہ اے بنی اسرائیل! اس اللہ کی بندگی کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے، بے شک جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا سو اللہ نے اس پر جنت حرام کی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا

چار صحیح احادیث

(1) حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بُكَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ ثَلَاثًا الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَشَهَادَةُ الزُّورِ أَوْ قَوْلُ الزُّورِ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى رواه مسلم، .

ترجمہ
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے تو آپ نے فرمایا: ” کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں؟ (آپ نے یہ تین بار کہا) پھر فرمایا: ” اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا (یافرمایا: جھوٹ بولنا)“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (پہلے) ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، پھر آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور اس بات کو دہراتے رہے حتی کہ ہم نے (دل میں) کہا: کاش! آپ مزید نہ دہرائیں۔
صحیح بخاری کتاب الشہادات حدیث(2654) صحیح مسلم حدیث (259)

(2) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ يَدْعُو بِهَا، وَأُرِيدُ أَنْ أَخْتَبِئَ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي فِي الآخِرَة

ترجمہ
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر نبی کے لیے ایک دعا مقبول تھی جو اس نے دنیا میں کرلی لیکن میں چاہتا ہوں کہ اپنی دعا کو آخرت میں اپنی امت کی سفارش کے لیے محفوظ رکھوں۔“
صحیح بخاری حدیث (6304) صحیح مسلم کتاب الایمان (491)

(3) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْحَقَ الْجَوْهَرِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ فَائِدٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ قَال سَمِعْتُ بَكْرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيَّ يَقُولُ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ مَا دَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ عَلَى مَا كَانَ فِيكَ وَلَا أُبَالِي يَا ابْنَ آدَمَ لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوبُكَ عَنَانَ السَّمَاءِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ وَلَا أُبَالِي يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ لَوْ أَتَيْتَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا ثُمَّ لَقِيتَنِي لَا تُشْرِكُ بِي شَيْئًا لَأَتَيْتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ

ترجمہ
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’اللہ کہتا ہے: اے آدم کے بیٹے! جب تک تو مجھ سے دعائیں کرتا رہے گا اور مجھ سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ رکھے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا ، چاہے تیرے گناہ کسی بھی درجے پر پہنچے ہوئے ہوں، مجھے کسی بات کی پرواہ و ڈر نہیں ہے، اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمان کو چھونے لگیں پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرنے لگے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کسی بات کی پرواہ نہ ہو گی۔ اے آدم کے بیٹے! اگر تو زمین برابر بھی گناہ کر بیٹھے اور پھرمجھ سے (مغفرت طلب کرنے کے لیے) ملے لیکن میرے ساتھ کسی طرح کا شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس اس کے برابر مغفرت لے کر آؤں گا (اور تجھے بخش دوں گا)‘‘۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
سنن الترمذی حدیث (3540)
الصحيحة حدیث
(127 – 128) ، الروض النضير حدیث (432) ، المشكاة حدیث (4336 )
(4) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، ح وحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا رَاشِدٌ أَبُو مُحَمَّدٍ الْحِمَّانِيُّ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ: «لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا، وَإِنْ قُطِّعْتَ وَحُرِّقْتَ، وَلَا تَتْرُكْ صَلَاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا، فَمَنْ تَرَكَهَا مُتَعَمِّدًا، فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ، وَلَا تَشْرَبِ الْخَمْرَ، فَإِنَّهَا مِفْتَاحُ كُلِّ شَرٍّ»

ترجمہ
حضرت ابو درداء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے میرے جگری دوست (جانی محبوب)ﷺ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرنا، خواہ تجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے يا تجھے جلا دیا جائے۔ اور فرض نماز جان بوجھ کر ترک نہ کرنا۔ جس نے اسے عمداً ترک کیا، اس سے (اللہ کی حفاظت کا) ذمہ جاتا رہا۔ اور شراب نہ پینا کیونکہ وہ ہر برائی کی چابی ہے۔
سنن ابن ماجہ حدیث (4034)مسند احمد حدیث (726)—(22)

نوٹ مندرجہ بالا آیات اور احادیث کو پڑھ لینے کے بعد کل تین ۔اھم ترین نتائج نکلتے ھیں جن کو موت سے پہلے پہلے جاننا کسی بھی انسان کی زندگی میں سب سے (اھم ترین معلومات) ھیں۔

(1) شرک ھی وہ سنگین ‌،خطرناک ،بھیانک ،اور ناقابل معافی جرم ھے جو انسان کو ھمیشہ کےلئے جنت سے محروم کرواکر ھمیشہ ھمیشہ کیلئے دوزخ کا ایندھن بنادے گا۔

(2) شرک کرنے والے کا بروز قیامت کوئی بھی مددگار نہیں ھوگا حتی کہ امام الانبیاء،والمرسلین ،شفیع المذنبین سیدنا محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسکے کچھ کام نہ آسکیں گے۔

(3) جو بھی انسان اپنے آپ کو ہر حال میں شرک سے محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوگیا تواسکے باقی گناہ معاف ہونے کی امید اس کائنات کے اکیلے مالک اللہ رب العزت نے خود دلا دی ھے۔
(4) عربی زبان اور…اسلام ،، میں . دعاء ۔کی تعریف:عربی ڈکشنری (اَلْقَامُوْس) کےمطابق (دُعَاء )کا مطلب ہے :پُکارنا ،بُلانا،اِلتجاکرنا،،سوال کرنا،مانگنا اور شَرِیعتِ مُحَمَّدِیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصطلاح میں (دُعا) کا مطلب ھے: ہر حال میں خواہ مُشْکل ومصیبت ہو یاراحت واَسانی تو غائب میں صرف ایک آللَّـهُ جَلَّ جَلَا لُہٗ ہی کو پُکارا جائے اور اس ہی سے مدد مانگی جائے اور اللہ ہی سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کا سوال کیا جائے چنانچہ اللہ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یوں کہلوایا:
وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ ﴿۱۸۶﴾
اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہئے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں تاکہ وہ کامیابی پاسکیں سورۃ بقرہ آیت (١٨٦)
(5) دعا دراصل عبادت ہی ہے۔
وَعَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ‏-رَضِيَ اَللَّهُ عَنْهُمَا‏- عَنِ النَّبِيِّ ‏- صلى الله عليه وسلم ‏-قَالَ: { إِنَّ اَلدُّعَاءَ هُوَ اَلْعِبَادَةُ } رَوَاهُ اَلْأَرْبَعَةُ, وَصَحَّحَهُ اَلتِّرْمِذِيُّ .‏

ترجمہ
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ» ”اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے اعراض کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے“ (غافر: ۶۰)‏، کی تفسیر میں فرمایا کہ دعا ہی عبادت ہے۔ پھر آپ نے سورۃ مومن کی آیت «۔وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ» سے» تک پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسے منصور نے روایت کیا ہے۔
صحيح.‏ رواه أبو داود (1479)‏، والنسائي في” الكبرى” (6 / 450)‏.‏ والترمذي (3247)‏، وابن ماجه (3828)

وزادوا ثم قرأ:”وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَغافر: 60 ، وقال الترمذي:” هذا حديث حسن صحيح

نوٹ مندرجہ بالا صحیح حدیث اوراُس سے متعلقہ آیت پڑھنے کے بعد (غائب میں مدد کیلئے پُکارنے )یعنی دعا کرنے سے متعلق ھے۔
دو اھم ترین نتائج نکلتے ھیں:
(1) دعا (عبادت) ہونےکی وجہ سے صرف اللہ کے ساتھ ہی خاص ھے۔
(2)اللہ کے علاوہ کسی اور سے دعاء کرنے والا ذلیل وخوار ہو کر دوزخ میں ڈال۔ دیا جائے گا۔

(3)  دُعَاء، صرف معبود ،،سے کی جاتی ھے:آللَّـهُ جَلَّ جَلَالُہٗ کو دعا اس قدر محبوب عمل ھے کہ 5،وقت کی نمازوں کی ہر رکعت میں اس کا وعدہ لیا جاتا ھے چناچہ :
(عبادت اور بالخصوص دعا صرف اللہ تعالیٰ ہی سے کرنے سے متعلق وعدہ کے الفاظ یوں ھیں )
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ
ترجمہ
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں
سورہ فاتحہ آیت .(4)

نوٹ
(نَعْبُدُ)اور( نَسْتَعِينُ) فعل مُضَارع کے صیغےہیں جو عربی زبان میں حال اور مستقبل دونوں کے معنی دیتے ھیں اس لئے بیک وقت دونوں معنی درست ہیں ۔
اللہ نے انسانوں کو جھنجھوڑ تے ہوئے قرآن پاک میں سوالیہ انداز میں سمجھایا ہے کہ دعا صرف اور صرف معبود حقیقی یعنی اللہ کے ساتھ ہی خاص ھے چنانچہ ارشادِ ہوتا ھے :

اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوٓءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ ۗ ءَاِلٰـهٌ مَّعَ اللّـٰهِ ۚ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ
بھلا کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے اور برائی کو دور کرتا ہے اور تمہیں زمین میں نائب بناتا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے، تم بہت ہی کم سمجھتے ہو۔
سورة نمل أیت—(62)

تنبیہ
سختیوں اور مصیبتوں کے وقت پکارے جانے کے قابل اسی کی ذات ہے۔ بےکس، بےبس لوگوں کا سہارا وہی ہے گرے پڑے بھولے بھٹکے مصیبت زدہ اسی کو پکارتے ہیں۔ اسی کی طرف لو لگاتے ہیں جیسے فرمایا کہ تمہیں جب سمندر کے طوفان زندگی سے مایوس کر دیتے ہیں تو تم اسی کو پکارتے ہو اس کی طرف گریہ وزاری کرتے ہو اور سب کو بھول جاتے ہو۔ اسی کی ذات ایسی ہے کہ ہر ایک بیقرار وہاں پناہ لے سکتا ہے مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبت اس کے سوا کوئی بھی دور نہیں کر سکتا۔

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کس چیز کی طرف ہمیں بلا رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا اللہ کی طرف جو اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں جو اس وقت تیرے کام آتا ہے جب تو کسی بھنور میں پھنسا ہوا ہو۔ وہی ہے کہ جب تو جنگلوں میں راہ بھول کر اسے پکارے تو وہ تیری رہنمائی کر دے تیرا کوئی کھو گیا ہو اور تو اس سے التجا کرے تو وہ اسے تجھ کو ملادے۔ قحط سالی ہو گئی ہو اور تو اس سے دعائیں کرے تو وہ موسلا دھار مینہ تجھ پر برسادے۔ اس شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے کچھ نصیحت کیجئے۔
وہب رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے اگلی آسمانی کتاب میں پڑھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم! جو شخص مجھ پر اعتماد کرے اور مجھے تھام لے تو میں اسے اس کے مخالفین سے بچالوں گا اور ضرور بچالوں گا چاہے آسمان و زمین وکل مخلوق اس کی مخالفت اور ایذاء دینے پر تلے ہوں۔

اور جو مجھ پر اعتماد نہ کرے میری پناہ میں نہ آئے تو میں اسے مان وامان سے چلتا پھرتا ہونے کے باوجود اگر چاہوں گا تو زمین میں دھنسادوں گا۔ اور اس کی کوئی مدد نہ کروں گا۔ ایک بہت ہی عجیب واقعہ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔

ایک صاحب فرماتے ہیں کہ میں ایک خچر پر لوگوں کو دمشق سے زیدانی لے جایاکرتا تھا اور اسی کرایہ پر میری گذر بسر تھی۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے خچر مجھ سے کرایہ پرلیا۔ میں نے اسے سوار کیا اور چلا ایک جگہ جہاں دو راستے تھے جب وہاں پہنچے تو اس نے کہا اس راہ پر چلو۔ میں نے کہا میں اس سے واقف نہیں ہوں۔ سیدھی راہ یہی ہے۔ اس نے کہا نہیں میں پوری طرح واقف ہوں، یہ بہت نزدیک راستہ ہے۔
میں اس کے کہنے پر اسی راہ پر چلا تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک لق ودق بیابان میں ہم پہنچ گئے ہیں جہاں کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ نہایت خطرناک جنگل ہے ہر طرف لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔ میں سہم گیا۔ وہ مجھ سے کہنے لگا ذرا لگام تھام لو مجھے یہاں اترنا ہے میں نے لگام تھام لی وہ اترا اور اپنا تہبند اونچا کر کے کپڑے ٹھیک کر کے چھری نکال کر مجھ پر حملہ کیا۔
میں وہاں سے سرپٹ بھاگا لیکن اس نے میرا تعاقب کیا اور مجھے پکڑ لیا میں اسے قسمیں دینے لگا لیکن اس نے خیال بھی نہ کیا۔ میں نے کہا اچھا یہ خچر اور کل سامان جو میرے پاس ہے تو لے لے اور مجھے چھوڑ دے اس نے کہا یہ تو میرا ہو ہی چکا لیکن میں تجھے زندہ نہیں چھوڑنا چاہتا میں نے اسے اللہ کا خوف دلایا آخرت کے عذابوں کا ذکر کیا لیکن اس چیز نے بھی اس پر کوئی اثر نہ کیا اور وہ میرے قتل پر تلا رہا۔ اب میں مایوس ہو گیا اور مرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ اور اس سے منت سماجت کی کہ تم مجھے دو رکعت نماز ادا کر لینے دو۔ اس نے کہا اچھا جلدی پڑھ لے۔ میں نے نماز شروع کی لیکن اللہ کی قسم میری زبان سے قرآن کا ایک حرف نہیں نکلتا تھا۔ یونہی ہاتھ باندھے دہشت زدہ کھڑا تھا اور وہ جلدی مچا رہا تھا اسی وقت اتفاق سے یہ آیت میری زبان پر آ گئی آیت «اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ» ‏‏‏‏ [27-النمل:62] ‏‏‏‏ ” یعنی اللہ ہی ہے جو بیقرار کی بیقراری کے وقت کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے اور بےبسی بےکسی کو سختی اور مصیبت کو دور کر دیتا ہے

پس اس آیت کا زبان سے جاری ہونا تھا جو میں نے دیکھا کہ بیچوں بیچ جنگل میں سے ایک گھڑ سوار تیزی سے اپنا گھوڑا بھگائے نیزہ تانے ہماری طرف چلا آ رہا ہے اور بغیر کچھ کہے اس ڈاکو کے پیٹ میں اس نے اپنا نیزہ گھونپ دیا جو اس کے جگر کے آرپار ہو گیا اور وہ اسی وقت بےجان ہو کر گر پڑا۔ سوار نے باگ موڑی اور جانا چاہا لیکن میں اس کے قدموں سے لپٹ گیا اور بہ الحاح کہنے لگا اللہ کے لیے یہ بتاؤ تم کون ہو؟ اس نے کہا میں اس کا بھیجا ہوا ہوں جو مجبوروں بےکسوں اور بےبسوں کی دعا قبول فرماتا ہے اور مصیبت اور آفت کوٹال دیتا ہے میں نے اللہ کا شکر کیا اور اپنا سامان اور خچر لے کر صحیح سالم واپس لوٹا۔ [تاریخ دمشق:489/19] ‏‏‏‏
اس قسم کا ایک واقعہ اور بھی ہے کہ مسلمانوں کے ایک لشکر نے ایک جنگ میں کافروں سے شکست اٹھائی اور واپس لوٹے۔ ان میں ایک مسلمان جو بڑے سخی اور نیک تھے ان کا گھوڑا جو بہت تیز رفتا تھا راستے میں اڑگیا۔ اس ولی اللہ نے بہت کوشش کی لیکن جانور نے قدم ہی نہ اٹھایا۔ آخر عاجز آ کر اس نے کہا کیا بات ہے جو اڑ گیا۔ ایسے ہی موقعہ کے لیے تو میں نے تیری خدمت کی تھی اور تجھے پیار سے پالا تھا۔

گھوڑے کو اللہ نے زبان دی اس نے جواب دیا کہ وجہ یہ ہے کہ آپ میرا گھاس دانہ سائیس کو سونپ دیتے تھے اور وہ اس میں سے چرا لیتا تھا مجھے بہت کم کھانے کو ملتا تھا اور مجھ پر ظلم کرتا تھا۔ اللہ کے نیک بندے نے کہا اب سے میں تجھے اپنی گود ہی میں کھلایا کروں گا جانور یہ سنتے ہی تیزی سے لپکا اور انہیں جائے امن تک پہنچا دیا۔
حسب وعدہ اب سے یہ بزرگ اپنے اس جانور کو اپنی گود میں ہی کھلایا کرتا تھا۔ لوگوں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی انہوں نے کسی سے واقعہ کہہ دیا جس کی عام شہرت ہو گئی اور لوگ ان سے یہ واقعہ سننے کے لیے دور دور سے آنے لگے۔ شاہ روم کو جب اس کی خبر ملی تو انہوں نے چاہا کسی طرح ان کو اپنے شہر میں بلالے۔ بہت کوشش کی مگر بےسود رہیں۔
آخر میں انہوں نے ایک شخص بھیجا کہ کسی طرح حیلے بہانے کر کے ان کو بادشاہ تک پہنچا دے۔ یہ شخص پہلے مسلمان تھا پھر مرتد ہو گیا تھا بادشاہ کے پاس سے یہاں آیا ان سے ملا اپنا اسلام ظاہر کیا توبہ کی اور نہایت نیک بن کر رہنے لگا یہاں تک کہ اس ولی کو اس پر پورا اعتماد ہو گیا اور اسے صالح اور دیندار سمجھ کر اس سے دوستی کر لی اور ساتھ ساتھ لے کر پھرنے لگے۔

اس نے اپنا پورا رسوخ جماکر اپنی ظاہری دینداری کے فریب میں انہیں پھنسا کر بادشاہ کو اطلاع دی کہ فلاں وقت دریا کے کنارے ایک مضبوط جری شخص کو بھیجو میں انہیں وہاں لے کر آ جاؤں گا اور اس شخص کی مدد سے اس کو گرفتار کر لوں گا۔
یہاں سے انہیں فریب دے کر چلا اور وہاں پہنچ آیا دفعتا ایک شخص نمودار ہوا اور اس نے بزرگ پر حملہ کیا ادھر سے اس مرتد نے حملہ کیا اس نیک دل شخص نے اس وقت آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں اور دعا کی کہ اے اللہ! اس شخص نے تیرے نام سے مجھے دھوکا دیا ہے میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تو جس طرح چاہے مجھے ان دونوں سے بچالے۔ وہیں جنگل سے دو درندے دھاڑتے ہوئے آتے دکھائی دئیے اور ان دونوں شخصوں کو انہوں نے دبوچ لیا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے چل دئیے اور یہ اللہ کا بندہ امن و امان سے وہاں سے صحیح وسالم واپس تشریف لے آیا رحمہ اللہ۔
اپنی اس شان رحمت کو بیان فرما کر پھر جناب باری کی طرف ارشاد ہوتا ہے کہ وہی تمہیں زمین کا جانشیں بناتا ہے۔ ایک ایک کے پیچھے آ رہا ہے اور مسلسل سلسلہ چلا جا رہا ہے۔
جیسے فرمان ہے :
«وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ ۚ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِن بَعْدِكُم مَّا يَشَاءُ كَمَا أَنشَأَكُم مِّن ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ آخَرِينَ» ‏‏‏‏ [6-الأنعام:133] ‏‏‏‏
” اگر وہ چاہے تو تم سب کو تو یہاں سے فنا کر دے اور کسی اور ہی کو تمہارا جانشین بنا دے جیسے کہ خو تمہیں دوسروں کا خلیفہ بنا دیا ہے۔
اور آیت میں ہے:
«وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ» [6-الأنعام:165] ‏‏‏‏
” اس اللہ نے تمہیں زمینوں کا جانشین بنایا ہے اور تم میں سے ایک کو ایک پر درجوں میں بڑھا دیا ہے۔ “

آدم علیہ السلام کو بھی خلیفہ کہا گیا وہ اس اعتبار سے کہ ان کی اولاد ایک دوسرے کی جانشین ہو گی جیسے کہ آیت «وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً» [2-البقرة:30] ‏‏‏‏ کی تفسیر اور بیان گذر چکا ہے۔

اس آیت کے اس جملے سے بھی یہی مراد ہے کہ ایک کے بعد ایک، ایک زمانہ کے بعد دوسرا زمانہ ایک قوم کے بعد دوسری قوم پس یہ اللہ کی قدرت ہے اس نے یہ کیا کہ ایک مرے ایک پیدا ہو۔
آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ان سے ان کی نسل پھیلائی اور دنیا میں ایک ایسا طریقہ رکھا کہ دنیا والوں کی روزیاں اور ان کی زندگیاں تنگ نہ ہوں ورنہ سارے انسان ایک ساتھ شاید زمین میں بہت تنگی سے گزارہ کرتے اور ایک سے ایک کو نقصانات پہنچتے۔ پس موجودہ نظام الٰہی اس کی حکمت کا ثبوت ہے سب کی پیدائش کا، موت کا آنے جانے کا وقت اس کے نزدیک مقرر ہے۔

ایک ایک اس کے علم میں ہے اس کی نگاہ سے کوئی اوجھل نہیں۔ وہ ایک دن ایسا بھی لانے والا ہے کہ ان سب کو ایک ہی میدان میں جمع کرے اور ان کے فیصلے کرے نیکی بدی کا بدلہ دے۔ اپنی قدرتوں کو بیان فرما کر فرماتا ہے کوئی ہے جو ان کاموں کو کر سکتا ہو؟ اور جب نہیں کر سکتا تو عبادت کے لائق بھی نہیں ہوسکتا ایسی صاف دلیلیں بھی بہت کم سوچی جاتی ہیں اور ان سے نصیحت بہت کم ہی لوگ حاصل کرتے ھیں

جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

قُلِ ادۡعُوا الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ فَلَا یَمۡلِکُوۡنَ کَشۡفَ الضُّرِّ عَنۡکُمۡ وَ لَا تَحۡوِیۡلًا
ترجمہ
فرما دیجئے: تم ان سب کو بلا لو جنہیں تم اللہ کے سوا (معبود) گمان کرتے ہو وہ تم سے تکلیف دور کرنے پر قادر نہیں ہیں اور نہ (اسے دوسروں کی طرف) پھیر دینے کا (اختیار رکھتے ہیں)

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الۡوَسِیۡلَۃَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ وَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَہٗ وَ یَخَافُوۡنَ عَذَابَہٗ ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحۡذُوۡرًا
ترجمہ
یہ لوگ جن کی عبادت کرتے ہیں (یعنی ملائکہ، جنّات، عیسٰی اور عزیر علیہما السلام وغیرھم کے بت اور تصویریں بنا کر انہیں پوجتے ہیں) وہ (تو خود ہی) اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں سے (بارگاہِ الٰہی میں) زیادہ مقرّب کون ہے اور (وہ خود) اس کی رحمت کے امیدوار ہیں اور (وہ خود ہی) اس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں، (اب تم ہی بتاؤ کہ وہ معبود کیسے ہو سکتے ہیں وہ تو خود معبودِ برحق کے سامنے جھک رہے ہیں)، بیشک آپ کے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے
سورۃ بنی اسرائیل ایت (57)
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ سورة الإسراء آية 57، قَالَ:” كَانَ نَاسٌ مِنَ الْإِنْسِ يَعْبُدُونَ نَاسًا مِنَ الْجِنِّ، فَأَسْلَمَ الْجِنُّ، وَتَمَسَّكَ هَؤُلَاءِ بِدِينِهِمْ”. زَادَ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ سورة الإسراء آية 56
ترجمہ
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے درج ذیل ارشاد باری تعالٰی کے متعلق فرمایا: ﴿إِلَىٰ رَبِّهِمُ ٱلْوَسِيلَةَ﴾ ”(وہ تو خود) اپنے رب کی طرف وسیلہ (تلاش کرتے ہیں)۔“ لوگوں کا ایک گروہ جنوں کے ایک گروہ کی عبادت کرتا تھا۔ جن تو مسلمان ہو گئے لیکن ان آدمیوں نے ان کے دین کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ اشجعی (عبیداللہ) نے اس حدیث کو سفیان ثوری سے روایت کیا ہے اور انہیں اعمش نے بیان کیا ہے، اس میں یوں ہے: ﴿قُلِ ٱدْعُوا۟ ٱلَّذِينَ زَعَمْتُم﴾ کا شان نزول یہ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث :4714] صحیح مسلم حدیث( 7555)
نوٹ مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف نیک بندوں (جنوں وغير ة)کو (مِن دُونِہ ) فرمایا بلکہ انکے مشکل کشا اور حاجت روا ہونے کی بھی سو فیصد نفی فرما دی ہے

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: