نکاح کیا ، خلوت اختیار نہیں کی ، فوت ہو گیا ، کیا بیوی وارث بنے گی؟
شماررہ السنہ جہلم

جواب: نکاح کیا ، خلوت اختیار نہیں کی ، فوت ہو گیا ، تو بیوی وارث بنے گی ، نیز خاوند کی وفات پر عدت بھی گزارے گی ۔
علقمہ بن قیس رضی اللہ عنہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں:
إِنَّهُ أَتَاهُ قَوْمٌ فَقَالُوا: إِنَّ رَجُلًا مِّنَّا تَزَوَّجَ امْرَأَةَ وَلَمْ يُفْرِضٌ لَهَا صَدَاقًا ، وَلَمْ يَجْمَعْهَا إِلَيْهِ حَتَّى مَاتَ ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: مَاسُئِلْتُ مُنْذُ فَارَقْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ عَلَى مِنْ هَذِهِ ، فَأْتُوا غَيْرِي ، فَاخْتَلَفُوا إِلَيْهِ فِيهَا شَهْرًا ، ثُمَّ قَالُوا لَهُ فِي آخِرِ ذَالِكَ: مَنْ نَسْأَلُ إِنْ لَمْ نَسْأَلُكَ ، وَأَنْتَ مِنْ جلَّةِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهذَا الْبَلَدِ وَلَانَجِدُ غَيْرَكَ؟ قَالَ: سَأَقُولُ فِيهَا بِجَهْدِ رَأْبِي ، فَإِنْ كَانَ صَوَابًا فَمِنَ اللَّهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ ، وَإِنْ كَانَ خَطَأَ فَمِنِّي وَمِنَ الشَّيْطَان وَالله وَرَسُولُهُ مِنْهُ بُرَآءُ ، أَرى أَنْ أَجْعَلَ لَهَا صَدَاق نِسَائِهَا ، لَا وَكَسَ وَلَا شَطَطَ ، وَلَهَا الْمِيرَاثُ ، وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ، قَالَ: وَذَالِكَ بِسَمْعِ أُنَاسٍ مِّنْ أَشْجَعَ ، فَقَامُوا فَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَضَيْتَ بِمَا قَضى بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَةٍ مِنَّا يُقَالُ لَهَا بَرْوَعُ بِنْتُ وَاشِي ، قَالَ: فَمَا رُنِي عَبْدُ اللهِ فَرحَ فَرْحَةٌ يَوْمَئِذٍ إِلَّا بِإِسْلَامِه .
”کچھ لوگوں نے ان سے مسئلہ پوچھا: ہمارے قبیلہ کے ایک شخص نے شادی کی ، حق مہر مقرر نہیں کیا اور خلوت سے پہلے ہی فوت ہو گیا ہے ۔ (عورت کیا کرے گی؟ ) فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے لے کر آج تک اس سے پیچیدہ مسئلہ نہیں پوچھا: گیا ، کسی اور سے پوچھ لیں ۔ ایک مہینے تک بات چلتی رہی ۔ پھر آکر کہنے لگے: آپ سے نہ پوچھیں ، تو کس سے پوچھیں ، اس علاقے میں جلیل القدر صحابی آپ ہی ہیں ، ویسے بھی ہمیں آپ سے بہتر ملتا ہی نہیں ! فرمانے لگے: میں اجتہاد کرتا ہوں ، درست ہوا تو اللہ وحدہ لاشریک لہ کی طرف سے، غلطی کر بیٹھا ، تو میرے اور شیطان کی طرف سے ہے ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہیں ۔ میرے مطابق وہ بغیر کسی کمی و زیادتی کے مہر مثل اور وراثت کی حق دار ہو گی ، چار مہینے دس دن عدت گزارے گی ۔ یہ فتویٰ بنو امجمع قبیلے کے کچھ لوگ سن رہے تھے فوراً کہنے لگے: واللہ ! آپ نے نبوی فیصلہ کیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بروع بنت واشق نامی ہماری عورت کی بابت یہی فیصلہ سنایا تھا ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس دن اور قبول اسلام کے دن کے علاوہ بھی اس قدر خوش و خرم دکھائی نہیں دیے ۔
[سنن النسائي: ٣٣٥٨ ، السنن الكبرى للبيهقي: ٢٤٥/٧ ، وسنده صحيح]
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (4101) نے صحیح اور امام حاکم رحمہ اللہ (110) نے امام مسلم کی شرط پر صیح کہا ہے ۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
فائدہ:
امیر صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَالْحَدِيثُ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ تَسْتَحِقُّقُ كَمَالَ الْمَهْرِ بِالْمَوْتِ ، وَإِنْ لَمْ يُسَمِّ لَهَا الزَّوْجُ ، وَلَا دَخَلَ بِهَا ، وَتَسْتَحِقُّ مَهْرَ مِثْلِهَا .
”یہ حدیث دلیل ہے کہ خاوند کے فوت ہو جانے پر عورت مہر کی حق دار ہو گی ، اگر خاوند نے مہر مقرر نہیں کیا اور دخول بھی نہیں کیا ، تو مہر مثل کی حق دار ہو گی ۔“
[سبل السلام شرح بلوغ المرام: 289/3]

——————
سوال: مہر مقرر ہوا ، نکاح ہوا ، خلوت صحیحہ اختیار نہیں کی ، طلاق دے دی ، تو عورت کو کتنا مہر دیا جائے گا؟
جواب:
مہر مقرر ہوا ، نکاح کے بعد جماع نہیں کیا ، طلاق دے دی ، تو نصف مہر ادا کرے گا ، فرمان باری تعالیٰ ہے ۔
﴿وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْل أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِم عُقْدَةُ النِّكَاحِ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ
بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ .﴾
[البقرة: 337]
”آپ نے بیوی کو دخول سے پہلے ہی طلاق دے دی ، حق مہر مقرر ہو چکا تھا ، تو بیوی کے لئے نصف مہر ہے ، بیوی البتہ اپنے حصہ سے دستبردار ہو جائے یا شوہر بقیہ نصف بھی دے دے تو اور بات ہے ۔ اگر آپ بقیہ بھی دے دیں تو شان تقویٰ اس سے ظاہر ہوتی ہے ۔ آپس میں احسان کو مت بھلائیں ۔ آپ کے اعمال اللہ دیکھ رہا ہے ۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل