محمد رسول الله ﷺ خاتم النبیین ہیں ۔ یہ عقیدہ قرآن و حدیث کی نصوص سے صراحتاً ثابت ہے۔ ایک مسلمان کے نزدیک ثبوت دین کیلئے قرآن و حدیث کی نصوص کافی ہیں۔ لیکن یہ اللہ تعالٰی کی کمال شفقت ہے کہ ذات باری تعالٰی نے اصولیات دین کو نصوص شرعیہ کے علاوہ واقعاتی شواہد سے بھی ثابت کیا ہے تاکہ مخلوق پر اتمام حجت ہو اور
لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ (انفال ۴۲)
’’تا کہ ہلاک ہونے والا اتمام حجت کے بعد ہلاک ہو اور زندہ رہنے والا بھی اتمام حجت کے بعد ہی جی سکے ۔‘‘
اسی طرح جب ہم محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک سے آج کے اس دور تک کی تاریخ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں ایسے واقعاتی شوار ضرور ملتے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ ہمارے اس مضمون کا مقصد انہی شواہد کا تذ کرہ ہے۔ان شواہد کی نشاندہی مطلوب ہے، تفصیل میں جانا مطلوب نہیں ۔ محمدی
سید نا آدم علیہ السلام سے سید نا عیسی بن مریم علیہما السلام تک تمام انبیاء نے فوت ہوتے وقت تنفیذ شریعت کی ذمہ داری اپنی امت کو سونپی لیکن مرورایام کے ساتھ جب بعد والی نسلیں آتی گئیں تو تدریجاً شریعت میں بگاڑ پید اہوتارہا اور چونکہ انبیاء کا سلسلہ جاری تھا اسلئے اللہ تعالی نے ان انبیاء کی شریعت کی دائمی حفاظت کا وعدہ نہیں فرمایا بلکہ اس امت کے شرعی قوانین کی حفاظت کی ذمہ داری علماء کے حوالے تھی۔ لہذا جب یہ بگاڑ اتنا ہو جاتا کہ شریعت کا اصل چہرہ مسخ ہو جاتا اور انسانیت ایک بار پھر شرک اور گمراہی کی آخری حدود کو چھونے لگتی تو ان حالات میں اللہ تعالی پھر کسی نبی یا رسول کو چنتا جو انسانیت کو اپنی اصل فطرت یعنی توحید اور معرفت الٰی کا درس دینا شروع کر دیتا۔
لیکن چونکہ محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت ہمیشہ کیلئے نازل ہوئی تھی اس لئے اللہ تعالٰی نے قیامت تک اسکی حفاظت کا وعدہ فرمایا:
إنَّا نَحْنُ نَزَلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر – ٩)
’’یہ شریعت ہم نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں‘‘
ہمارے سامنے اس وعدے کی حقیقت موجود ہے۔ چودہ صدیاں بیت چکی ہیں لیکن قرآن بغیر کسی ایک حرف کی تبدیلی کے اطراف عالم میں پڑھا جارہا ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ سے آج تک اہل دنیا مستفید ہو رہے ہیں۔ شریعت کی اسطرح مکمل حفاظت کیلئے اللہ تعالی نے کیا کیا اسباب پیدا فرمائے ان پر غور کریں:
خلفائے راشدین:
تمام انبیاء کو اللہ تعالی نے حواری ( مددگار) عطا کئے تھے۔ لیکن حفاظت دین کیلئے جو کردار محمد رسول اللہ نام کے حواریوں بالخصوص خلفائے راشدین نے ادا کیا وہ سابقہ انبیاء کے حواری ادا نہیں کر سکے تھے۔
آپ ﷺ اپنی زندگی میں اپنے بعد سلسلہ خلافت کی صراحت فرمادی تھی۔ اب ہم جب ان خلفائے راشدین کے عہد خلافت پر غور کرتے ہیں، تو خوب واضح ہوتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اسلام کو اس وقت کی تمام بڑی طاقتور اقوام پر غالب کر دیا اور یہ ہستیاں دنیا کے چاروں طرف شریعت محمدی کو نافذ کرتی چلی گئیں۔
پھر دوران خلافت دینی مسائل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی کو تاہی برداشت نہیں کی اور کسی شرعی حکم کے ثبوت کیلئے تحقیق اور تنقید کے ساتھ مشاورت کے تمام مراحل موجود تھے۔
خلافت صدیقی میں قرآن کے متفرق اجزاء ایک صحیفہ میں جمع ہوئے۔ اور بعد میں سید نا عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ہی لغت یعنی لغت قریش کے مطابق صحیفوں کو نافذ کرنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالٰی نے خلیفہ ثالث کے اس حکم کو پوری دنیا کے مسلمانوں کے اندر مکمل شرف قبولیت بخشا جو کہ حفاظت قرآن کا ایک واضح قرینہ ہے۔
فریضہ زکوٰۃ کے اسرار اور حکمتیں سمجھنے والے جانتے ہیں کہ اسلامی معاشرے کے امن واستحکام اور اعتدال کیلئے یہ فریضہ ایک بنیادی عنصر ہے۔ نبی ﷺ کی وفات کے بعد جلد ہی کچھ لوگوں نے اس فریضہ کا انکار کر کے ملت میں ایک زبر دست فتنہ بپا کر دیا۔ آپ انداز ولگائیں کہ اگر بر وقت تلوار صدیقی اس فتنہ کا قلع قمع نہ کرتی تو اسلام کی مضبوط عمارت میں کتنی موٹی دراڑ پڑ چکی ہوتی۔ اسی طرح مسلیمہ کذاب کی تحریک کو کچلنے کیلئے خلیفہ اول ہی کا عزم مصمم تھا۔
اس کے ساتھ حفاظت حدیث کیلئے بالخصوص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی سختیوں پر نظر دوڑائیں او ربا لعموم صحابہ کے اہتمام کو صحیح تاریخ کے آئینہ میں دیکھیں۔ آپ ضرور کہیں گے کہ یہ وہ ابتدائی اسباب یا واقعاتی شواہد ہیں جنکی بنا پر شریعت محمدی آج تک اسی طرح محفوظ ہے۔
مجددین ملت :
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس طرح عہد نبوی سے ہم دور ہوتے جارہے ہیں امت کی ایمانی کیفیت میں انحطاط بڑھتا جارہا ہے اور یہ ایک بدیہی امر ہے۔ ظاہر ہے زمانہ نزول وحی میں ایمان و اعتقاد میں جو پختگی تھی وہ معیار بعد والے ادوار میں نہیں تھا بلکہ وقت کی رفتار کے ساتھ تنزل بڑھتا رہا ہے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالٰی نے اس امت کے شرائع کو انتہائے دنیا تک زندہ رکھنا ہے اسلئے اللہ تعالی وقاً فوقاً ایسے افراد پیدا فرماتا رہا ہے جنہوں نے اپنے علم اور عمل سے امت کے روح ایمانی کو زندہ کئے رکھا ہے جس بنا پر اہل اسلام میں کبھی مجموعی سقوط کی نوبت نہیں آسکی۔ محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان مبارک ہے:
ان الله يبحث لهذه الامة على رأس كل مائة من يحددلها دينها –
’’اللہ تعالٰی اس امت کے اندر ہر صدی کے آخر میں ایسی شخصیات پیدا فرماتا رہے گا جو اکٹھے دین کی تجدید کرتے رہیں گے‘‘
(سنن ابی داؤد ۴۲۸۴، قال الالبانی رحمہ اللہ تعالٰی صحیح ، سلسلة الصحيحتہ ۵۹۹، صحیح الجامع الصغير ۱۸۷۴ اخرجہ الحاکم فی المستدرک ۴-۵۲۲ من حدیث عبد الله بن وھب – مکتبہ دار السلام)
اس حدیث کے تحت صاحب عون المعبود کی شرح کا خلاصہ :
’’رأس المائتہ‘‘ سے مراد صدی کا اول نہیں بلکہ آخر ہے۔ اسکی واضح دلیل یہ ہے کہ امام زہری ، احمد بن حنبل اور دیگر مقتدمین اور متاخرین ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ پہلی صدی کے آخر میں عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ مجدد دین تھے جبکہ دوسری صدی کے آخر میں آنے والے مجدد امام شافعی رحمہ اللہ تھے۔ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ۱۰۱ھ میں جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ ۲۰۴ھ میں فوت ہوئے۔
تجدید دین سے مراد ہے کتاب وسنت کے جو اعمال مدھم ہو چکے ہوں انہیں زندہ کرنا اور انکو نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ جو بدعات اور خرافات ظاہر ہو چکی ہوں انہیں جڑ سے اکھیڑ دینا۔
یہ ضروری نہیں کہ ہر صدی کے آخر میں کوئی ایک ہی مجدد ہو بلکہ ایک سے زائد بھی ہو سکتے ہیں۔
امام سیوطی مرقاة الصعود میں لکھتے ہیں :
اس حدیث کی صحت پر حفاظ کا اتفاق ہے جن میں حاکم، بہیقی، اور ابن حجر رحمہم اللہ شامل ہیں۔ یہی بات امام علقمی نے شرح الجامع الصغیر میں اپنے شیخ سے نقل کی ہے۔
امام سیوطی نے اپنے ایک منظومہ ’’تحفتہ المهتدین باخبار المحد دین‘‘ میں اپنے وقت تک آنے والے مجددین کے نام گنوائے ہیں۔
خود صاحب عون المعبود علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ نے اپنے علم کے مطابق تیر ہوئیں صدی تک آنے والے مجددین کا ذکر کیا ہے۔ (انتہیٰ ملخضاً)
تاریخ کے گذرے ہوئے شب وروز میں ان مجددین کا وجود ایک مشاہداتی ثبوت ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت قیامت تک افق عالم پر منور رہے گی۔ واللہ الحمد
طائفہ منصوره:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: لايزال من امتى امة قائز : بامر الله لا يضرُهم من كذبهم ولا من خذلهم حتى یاتی امر الله وهم على كذالك۔ ( صحیح بخاری: ۷۳۲۰ صحیح المسلم : ۱۹۲۰)
’’میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ کے دین پر قائم رہے گی۔ انہیں جھٹلانے والے اور انکی معاونت ترک کرنے والے نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ اللہ کا امر (قیامت) آنے تک یہ لوگ اسی طرح ( دین حق پر) قائم رہیں گے۔‘‘
امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ حدیث ( صداقت نبوت کا) ایک کھلا معجزہ ہے۔ اس لئے کہ اس صفت سے متصف ایک جماعت اللہ کے فضل سے نبی ﷺ کے زمانہ سے آج تک موجود رہی ہے اور حدیث میں مذکور اللہ کے امر (قیامت یا قرب قیامت) آنے تک یہ جماعت قائم رہے گی“۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں اہل حق موجود رہے ہیں جو تلوار ، قلم اور زبان سے باطل کی مصنوعی عمارتوں کو ریت کی طرح بہاتے رہے ہیں اور باطل کبھی بھی اپناز ہر پوری امت میں پھیلا نہیں سکا ہے۔
امام بخاری نے اس جماعت کا مصداق اہل علم کو قرار دیا ہے۔
(۱) انکےشیخ علی بن عبداللہ المدینی نے اس جماعت سے اہل حدیث مراد لئے ہیں،(۱) صحیح البخاری کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، باب قول النبی ﷺ لاتزال طائفة — الحديث
(۲) جبکہ احمد بن حنبل کے الفاظ ہیں کہ اس جماعت کا مصداق اگر اہل حدیث نہیں تو پھر مجھے نہیں معلوم کہ اور کونسی جماعت ہو سکتی ہے۔ جامع الترمذی، تحت، رقم الحدیث ۲۱۹۳
(۳) یہ جماعت صحیح معنیٰ میں محمد رسول اللہ ﷺ کی وارث ہے ، ہر زمانہ میں انکا وجود ختم نبوت کی روشن دلیل ہے اور ان شاء اللہ یہ لوگ قیامت تک میراث نبوت کا حق ادا کرتے رہیں گے۔ علوم الحديث فی کم ، اصفحتہ :۲ رقم: ۲ وسنده حسن و صحه ابن حجر فی فتح الباری تحت الحدیث ۷۳۱۱
عملی تواتر :
محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو جو شعائر دینیہ عطا کئے وہ زمانہ صحابہ سے لے کر آج تک عملی صورت میں زندہ ہیں۔ ہر سال ہونے والے اجتماع حج کو دیکھیں ، رمضان کے روزے اور عبادات ، روزانہ پانچ وقتہ نماز، نظام زکوٰۃ، خرید و فروخت کے ضابطے‘ ازدواجی تعلقات کی قیود ، افراد کے ایک دوسرے پر حقوق اور ان کے آپس کی لین دین کے معاملات ، غرض تمام اجتماعی اور انفرادی زندگی کے مظاہر زمانہ نبوی سے لے کر آج تک کلی یا جزوی طور پر موجود ر ہے ہیں۔ چودہ صدیوں کی انیس تاریخ میں آپ ایسا کوئی دورانیہ تلاش نہیں کر سکتے جس میں کوئی دینی شعار مکمل طور پر معطل ہو چکا ہو۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت اطراف عالم میں آج تک جگمگا رہی ہے اور یہ روشنی قیامت تک کبھی مدھم نہ ہو گی۔
قرآن صحیفوں میں :
اللہ تعالی نے صحیفہ عثمانی کو پوری دنیا میں قبولیت بخش کر حفاظت قرآن کا ایک حسی سبب پیدا فرمایا اور پھر یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ آج تک جاری ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت نبوت کا یہ معجزہ اس وقت سے لے کر اب تک تمام عالم کیلئے ایک ایسا چیلنج ہے جسکو تمام دنیا والے مل کر بھی تو ڑ نہیں سکتے۔ اور یہ چیلنج قیامت تک برقرار ہے۔ ہمارے پاس خاتم النبیین ﷺ پر نازل کردہ اس کتاب کا وجود شریعت محمدی کے دوام کیلئے ایک ایسی دلیل ہے جس سے انکار کرنا دن کی روشنی میں سورج سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔
قرآن سینوں میں :
زمانہ نزول قرآن سے لے کر آج تک ہر دور میں ان گنت سینے اس نورالہیٰ کی حفاظت کرتے آرہے ہیں۔ کسی کتاب کو اول تا آخر حرف بہ حرف ایک ہی ترتیب سے لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کا یاد رکھنا صرف قرآن حکیم کا خاصہ ہے۔ دنیا میں اس شرف کے ساتھ کوئی دوسری کتاب مشرف نہیں ہے۔
اگر غور کیا جائے تو حفاظت کا یہ سبب پہلے سبب سے زیادہ قوی ہے کیونکہ مکتوب کے بارے میں کسی حادثہ کی بنا پر اس کے ختم ہو جانے کا فرضی تصور کیا جا سکتا ہے یا اس سے قہراً انسانیت کو دور رکھا جا سکتا ہے لیکن اللہ تعالی کی اس امانت کو کروڑوں انسانوں کے سینوں سے چھینا نہیں جاسکتا۔
محدثین:
محمد رسول اللہ ﷺ کی حدیث شریعت ہے اور سر چشمہ شریعت کی اہمیت کے پیش نظر صحابہ نے اسکی حفاظت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔ پھر تابعین اور اس کے بعد محد ثین کی جماعت نے اس سلسلہ کو آگے بڑھایا۔ نتیجتاً آج ہمارے پاس اللہ کے فضل سے ترکہ نبوت محفوظ ہے۔
تاریخ کے دائرہ میں محدثین کے مسائی پر نظر ڈالیں۔ سلسلہ سند اس امت کا خاصہ ہے اور اس سلسلہ کو سونے کی طرح کندن بنانے والی محدثین کی جماعت ہے جنہوں نے اپنی تمام توانائیاں صرف کر کے امت کو صحیح اور غیر صحیح اسانید میں فرق کرنے کیلئے ایک ایسا مستقیم پیمانہ عطا کیا ہے کہ منصف مزاج غیر مسلمین بھی مسلمانوں کے اس بیش بہا قیمتی خزانہ پر اپنے رشک اور حسرت کو چھپا نہیں سکے۔
کسی حدیث کے ثبوت کیلئے محدثین کی شرائط اور انکے انتہائی سخت اصولوں کا مطالعہ کیجئے۔ محدثین کے اصول سیسہ پلائی وہ آہنی دیوار ہے کہ یاجوج و ماجوج کی شکل میں آنے والے کسی بھی باطل کیلئے یہ دیوار توڑنا تو درکنار ایک سوراخ تک نکالنا اسکی دسترس سے باہر ہے۔
حتی یلج الجمل فی سم الخياط
محد ثین آسمان نبوت کے روشن ستارے ہیں۔ انہی ستاروں سے آسمان کی خوبصورتی کا راز کھلتا ہے۔
یہی ستارے بھٹکے ہوؤں کو منزل تک پہنچاتے ہیں اور یہ ستارے قیامت تک شیاطین کی دسترس کو محدود کرنے کیلئے آسمان کے محافظ ہیں اور جو شیطان اپنی سرکشی میں بدمست ہو کر آسمان کو چھونے کی کوشش کریگا اسے جلاتے رہیں گے۔
محدثین نے صداقت نبوت کے خزانوں کی کنجیاں امت کے سپرد کی ہیں جس بنا پر آج تک اہل امت انوار نبوت کی روشنی سے مستفید ہو رہے ہیں۔ انہی محدثین نے اہل دنیا کے سامنے ایک ایسا معیار قائم کیا ہے کہ آج تک آسمان نبوت کو چھونے کی کوشش کرنے والے دجالین کذابین ذلیل در سوا ہو کر رہتی دنیا کیلئے سامان عبرت مہیا کر رہے ہیں۔
واقعتا محد ثین کا وجود محمد رسول اللہ ﷺ کی دوام نبوت کیلئے ایک صریح علامت ہے۔
جوامع الکلم :
آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ :
بعثت بجوامع الكلم – – – الحديث
’’میں جامع معانی الفاظ دیگر بھیجا گیا ہوں۔‘‘
(صحیح البخاری ۸۰۱۳، صحیح المسلم ۵۲۳)
یعنی اللہ تعالٰی نے آپ کو قوت گویائی اور فصانت و بلاغت کا وہ ملکہ عطا کیا تھا کہ بہت ساری معانی، حکمتیں ، اوامر و نواہی اور حلال و حرام کے ساتھ دیگر احکام کی تعیین کیلئے آپکی زبان اقدس سے نکلنے والے چند الفاظ ہی کافی تھے۔
جوامع الکلم آپ ﷺ کے ان چھ خواص میں سے ایک ہے جو آپ ﷺ سے پہلے کسی اور نبی یارسول کو نہیں ملے جیسا کہ حدیث مذکور میں یہ صراحت موجود ہے۔
دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ؛ مختلف نوعیات کے نت نئے مسائل سامنے آرہے ہیں۔ اب تک پہنچنے والی سائنس اور میڈیا کی ترقی نے وہ سامان بہم عطا کیا ہے کہ کچھ صدیاں قبل انسانی ذہن میں اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ لیکن اس سب کچھ کے باوصف محمد رسول اللہ ﷺ کے ورثاء اہل علم ہر دور میں ان تمام جدید مسائل کا شرعی حل قرآن و حدیث سے ہی نکال کر امت محمدیہ کی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔ یہ سب جوامع الکلم کی برکتیں ہیں جو کہ آپ ﷺ کا قیامت تک رہنے والا ایک ایسا معجزہ ہے کہ امت کو کبھی کسی دوسری یا نئی شریعت کی ضرورت نہیں ہے۔
یہاں ان مسلمانوں کو بھی اپنے نظریہ پر غور و تفکر کرنے کی مخلصانہ دعوت ہے جو زبان سے محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین تسلیم کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ الفاظ دوہراتے تھکتے نہیں کہ ’’آپ تمام شرعی مسائل قرآن و حدیث سے حل نہیں کر سکتے ۔‘‘
اللہ عزوجل کی قسم ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین تسلیم کرنے والا کوئی بھی مسلمان اس طرح کادعویٰ قطعاً نہیں کر سکتا کیونکہ اس دعوی کا مقصد ہی یہی ہے کہ قرآن و حدیث ناقص ہیں۔
اعاذنا اللہ منہ
تنبیہ:
اجماع اور قیاس کے شرعی دلائل ہونے کی تصدیق قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ تفصیل کیلئے الدكتور عبد الکریم زیدان کی ’’الوجیز فی اصول الفقه‘‘ ’’اجماع‘‘ اور ’’قياس‘‘ کی بحث دیکھیں۔
لہذا شریعت کے اصل ماخذ قرآن و حدیث ہیں جبکہ اجماع اور قیاس انکی فرع ہیں۔
مکمل ضابطہ حیات :
انسانی زندگی خواہ اجتماعی ہو یا انفرادی، شریعت اسلام نے اس کے تمام زاویوں کے متعلق رہنمائی کی ہے۔ ضروریات زندگی کا ایسا کوئی ایک پہلو بھی نہیں جس سے شریعت نے صرف نظر برتا ہو۔
انسانی فطرت کے کیا تقاضے ہیں؟ بقائے انسانیت کا راز کیا ہے ؟ اسکی فلاح و بہبود کن اصولوں میں مضمر ہے ؟ اس کے خاندانی، علاقائی اور ملکی سطح پر روابط اور معاملات کی دائرہ کار کے تحت ہونے چاہئیں؟ ایسی کوئی راہ اعتدال ہے جسکے تحت ایک انسان اپنی توانائیاں اس انداز میں صرف کرتا جائے کہ جہاں پنے ذاتی فوائد حاصل ہو رہے ہوں وہاں باقی انسان اسکی سر گرمیوں کے نتیجہ میں کسی بھی قسم کے سا ئے سے محفوظ ہوں؟
اگر آپ محمد رسول اللہ ﷺ کے دئے گئے دین کے مقاصد اور اسرار کا انہماک سے مطالعہ کریں توان کو تمام سوالوں کا جواب میسر ہو گا۔
اسلام نے جہاں ایک مسلمان کو اپنے رب کے ساتھ منسلک رہنے کیلئے کچھ عبادات کا پابند بنایا ہے اسکو حصول دنیا سے مطلقاً منع بھی نہیں کیا ہے۔ نہ اتنا بے جا تشدد ہے کہ انسان اکتا کر متنفر ہو جائے اور نہ ہی اتنی آزادی ہے کہ کوئی شخص مطلق العنان ہو کر اپنے خالق حقیقی کی حاکمیت اپنی نفس کے تابع کر دے اور وہ اپنی چیرہ دستیوں سے باقی انسانوں کا جینا دو بھر کر دے۔
بتائیے کیا اس نظام میں کہیں نقطہ کے برابر بھی کوئی کمی ہے کہ جس کی تکمیل کیلئے ہم کسی اور ضابطے کے منتظر ہوں؟
محمد رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ آپ کے دئے گئے منہاج زندگی کے بعد کسی نئے نظام کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔
تنبیہ:
نزول عیسیٰ علیہ السلام اور خروج مہدی کا مقصد شریعت محمدی کو پوری دنیا میں عملاً نافذ کرنا ہے نہ ’’ کہ اس کے اصول و قوانین میں رد و بدل کرنا۔ لہذا نزول عیسی‘ علیہ السلام اور خروج مہدی حقیقتاً محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی ختم نبوت کے شواہد میں سے ہیں۔
مدعین نبوت:
عقید طحاویہ کے شارح قاضی علی بن علی الدمشقی صفحہ : ۹۴ (مہذب ) پر ختم نبوت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’لان الله تعالى لما اعبر انه عالم النبيين فمن المحال ان بان مدع يدعى النبوة ولا تظهر امارة كذبه ل دعواه‘‘
’’چونکہ اللہ تعالی نے محمد رسول اللہ ﷺ پر سلسلہ نبوت کے ختم ہونے کا اعلان کر دیا ہے لہٰذا یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرے اور لوگوں کے سامنے اس شخص کے جھوٹے ہونے کی علامات ظاہر نہ ہوں‘‘
قاضی علی بن علی رحمہ اللہ کی یہ بات سو فیصد درست ہے۔ اسود عنسی اور مسلیمہ کذاب سے لے کر مرزا غلام احمد قادیانی اور خود کو گوہر شاہی بلوانے والے ریاض احمد تک، ان تمام مدعین نبوت کے حالات زندگی اور انجام زندگی کو دیکھیں۔ کیا ان لوگوں کا تقابل سید نا آدم علیہ السلام سے لیکر سید نا محمد ﷺ تک آنے والے تمام انبیاء میں سے کسی ایک نبی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے ؟ ان تمام انبیاء کی زندگی باقی انسانوں کیلئے اسوہ حسنہ تھی، اللہ تعالٰی نے انکو بے داغ سیرت سے نوازا تھا۔ ان کی زندگی میں دنیاوی حرص کا کوئی شائبہ تک نہیں پایا جا سکتا۔ وہ اپنے افعال سے اپنے اقوال کی تصدیق کرنے والے تھے۔ انبیاء ہمیشہ دلائل کے میدان میں مخالفین پرغالب رہے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے مختلف معجزات کے ذریعے ان کی صداقت کا اعلان کیا ہے۔
کیا ان میں سے کوئی صفت نبوت کا دعویٰ کرنے والے ان کذابین کی زندگی میں آپ کو ملتی ہے ؟ انبیاء کی صفات تو دور کی بات ہے الٹا ان لوگوں نے اپنی زندگی کو ایسی غلیظ حرکتوں سے پاٹ دیا ہے جن کے تصور سے ایک عام انسان کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بذات خود یہی مدین محمد رسول اللہ ﷺ پر ختم نبوت کی تصدیق کیلئے نمونہ عبرت ہیں اور امت محمدیہ کے اس عقیدہ میں انہیں کذابین نے پختگی کی ایک اور گانٹھ باندھ دی ہے کہ :
آمنہ کے بعد آج تک کسی ماں نے ایسا کامل انسان نہیں جنا جو انسانیت کی تمام صفات حسنہ میں مقتدیٰ ہو۔ وہ عظیم انسان جس کا بولنا شریعت ہو تو خاموشی بھی شریعت، جس کا تبسم دین سمجھا جائے تو آنسو بھی دین۔ جس طرح اس کے سرور سے شریعت بنتی جائے تو اس عظیم ہستی کے غصہ سے بھی قوانین شریعت جڑتے جائیں۔ جس کا جاگنا شریعت ہو تو سونا بھی شریعت ، وہ کھائے تو شریعت بنے ، پیئے تو شریعت بنے ؛ یہاں تک کہ اس مقدس ذات کا حاجت انسانی کیلئے اٹھنے والا ایک ایک قدم بھی آثار شریعت بنتا جائے۔
آمنہ کے بعد آج تک کسی ماں نے ایسا کامل انسان نہیں جنا جو اُمی تھا مگر علم کا ایک بے کراں سمندر چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوا۔ جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ایک طویل عرصہ گذرنے کے با وجود صاف و شفاف آئینہ کی طرح چمک رہا ہے۔ چودھویں کے چاند کی طرح جو زمین سے ہزاروں میل دور ہونے کے باوصف اپنا نور تمام اہل زمین پر بکھیر رہا ہوتا ہے، البتہ اس چاند میں بھی ایک نقص ہے کہ چند گھنٹوں بعد یہ چھپ جاتا ہے لیکن میرے پیغمبر محمد رسول الله ﷺ کا نور شریعت قیامت کی دیواروں تک اپنی تجلیاں بکھیرتا رہے گا۔ جی ہاں ! آمنہ کے بعد آج تک کسی ماں نے ایسا کامل انسان نہیں جنا ۔ ———— محبت اور عقیدت کے یہ چند الفاظ سینچنے والے میرے اس قلم کو آنسو بہانے کیلئے آنکھیں نہیں ہیں!
وصلى الله على خير خلقه محمد و على آله وصحبه اجمعين !