لیلۃ القدر کو کن راتوں میں تلاش کرنا چاہیے؟
تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

بَابُ لَيْلَةِ الْقَدْرِ
شبِ قدر کا بیان
الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا [ ص: 422] { أَنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرُوا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْمَنَامِ فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ . فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَى رُؤْيَاكُمْ قَدْ تَوَاطَأَتْ فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ . فَمَنْ كَانَ مُتَحَرِّيهَا فَلْيَتَحَرَّهَا فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ } .
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگوں کو آخری سات راتوں میں خواب میں شب قدر دکھائی دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ آخری سات راتوں کے معاملے میں تمھارا خواب (میرے خواب کے ) موافق ہے، سو جس نے اسے تلاش کرنا ہو تو اسے آخری سات راتوں میں تلاش کرنا چاہیے۔
شرح المفردات:
تواطأت: موافق ہو گئی ہے، مطابق ہوگئی ہے۔ واحد مونث غائب ، فعل ماضی معلوم، باب تفاعل۔
شرح الحديث:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلتہ القدر کی یہ علامت بتلائی ہے کہ اس کی صبح کو جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کی شعاع نہیں ہوتی۔ [صحيح مسلم: 762.]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا تھا کہ وہ ستائیسویں شب ہے۔ [صحيح مسلم: 762.]
ایک روایت میں واضح طور پر یہ الفاظ ہیں: تَحَرُّوهَا لَيْلَةَ سَبْعِ وَ عِشْرِينَ اسے ستائیسویں شب میں تلاش کرو۔ [مسند احمد: 27/2]
(205) صحيح البخارى، كتاب الصوم، باب التماس ليلة القدر فى السبع الأواخر ، ح: 2015 – صحيح مسلم ، كتاب الصيام، باب فضل ليلة القدر والحث على طلبها — ، ح: 1165 .

——————

الْحَدِيثُ الثَّانِي: عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { قَالَ: تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنْ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ } .
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیلۃ القدر کو آخری دس دِنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
شرح الحدیث:
شافعیہ کے نزدیک اکیسویں اور تیئیسویں شب لیلتہ القدرہوتی ہے، جبکہ جمہور کے ہاں ستائیسویں شب لیلتہ القدرہے، البتہ صحیح یہی ہے کہ اس کی کوئی تعیین نہیں ہے اور تعیین نہ ہونے کی حکمت یہ ہے کہ لوگ اس کی تلاش و جستجو میں پورا عشرہ ہی عبادت و ریاضت میں گزاریں۔ [فتح الباري لابن حجر: 266/4۔ ]
(206) صحيح البخاري، كتاب الصوم، باب تحرى ليلة القدر فى الوتر من العشر الأواخر ، ح: 2017 . صحيح مسلم ، كتاب الصيام، باب فضل ليلة القدر والحث على طلبها — ، ح: 1169 .

——————

الْحَدِيثُ الثَّالِثُ: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ { أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ فِي الْعَشْرِ الْأَوْسَطِ مِنْ رَمَضَانَ . فَاعْتَكَفَ عَامًا ، حَتَّى إذَا كَانَتْ لَيْلَةُ إحْدَى وَعِشْرِينَ – وَهِيَ اللَّيْلَةُ الَّتِي يَخْرُجُ مِنْ صَبِيحَتِهَا مِنْ اعْتِكَافِهِ – قَالَ: مَنْ اعْتَكَفَ مَعِي فَلْيَعْتَكِفْ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ فَقَدْ أُرِيتُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ . ثُمَّ أُنْسِيتُهَا ، وَقَدْ رَأَيْتُنِي أَسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِينٍ مِنْ صَبِيحَتِهَا . فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ . وَالْتَمِسُوهَا فِي كُلِّ وِتْرٍ . فَمَطَرَتْ السَّمَاءُ تِلْكَ اللَّيْلَةِ . وَكَانَ الْمَسْجِدُ عَلَى عَرِيشٍ . فَوَكَفَ الْمَسْجِدُ ، فَأَبْصَرَتْ عَيْنَايَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى جَبْهَتِهِ أَثَرُ الْمَاءِ وَالطِّينِ مِنْ صُبْحِ إحْدَى وَعِشْرِينَ } .
سيدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے درمیانے عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ پھر ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کیا، یہاں تک کہ اکیسویں رات آگئی جس کی صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اعتکاف سے باہر تشریف لایا کرتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری دس دنوں کا اعتکاف بھی کرے ۔ مجھے یہ رات دکھائی گئی تھی، پھر مجھے بھلا دی گئی اور میں نے اس کی صبح کے وقت خود کو پانی اور مٹی میں سجدہ کرتے دیکھا، چنانچہ تم اسے آخری عشرے کی ہر طاق رات میں تلاش کرو۔ (راوی کہتے ہیں: ) پھر اسی رات بارش برسی اور مسجد کی چھت ٹپک پڑی ، تو میری آنکھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ اکیسویں رات کی صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پہ پانی اور مٹی کے نشان تھے۔
شرح المفردات:
عريش: چھت ، چھتر ، شامیانہ سائبان ۔
وَكَفَ الْمَسْجِدُ: چھت سے بارش کا پانی ٹپکنے لگا۔ وگف: واحد مذکر غائب افعل ماضی معلوم، باب ضَرَبَ یضرِبُ ۔
شرح الحديث:
لیلتہ القدر کی ایسی علامات جو احادیث میں بیان ہوئی ہیں یہ امکانی ہیں، یقینی نہیں ۔ یعنی لیلتہ القدر میں ان علامات کا پایا جانا ضروری نہیں ہے، البتہ علامت کے طور پہ یہ ذکر کر دی گئی ہیں۔ بسا اوقات ایسا ہو بھی جاتا ہے اور بعض دفعہ نہیں بھی ہوتا۔
(207) صحيح البخاري ، كتاب الاعتكاف، باب الاعتكاف فى العشر الأواخر ، ح: 2027. صحيح مسلم ، كتاب الصيام ، باب فضل ليلة القدر والحث على طلبها— ، ح: 1167 .

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: