صوم کا مطلب رکنا ہے، روزہ چونکہ بندہ مسلم کو کھانے پینے ، غلط کاموں اور فحش گوئی سے روکتا ہے، اس لیے اسے صوم کہا گیا ہے۔
شرعی تعریف یہ ہے کہ مسلمان مرد و عورت اللہ کا حکم مانتے ہوئے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے رک جاتے ہیں۔ روزے، 10 شعبان 2 ھ کو فرض ہوئے۔ یہ اسلام کا چوتھا بنیادی رکن ہے۔ سال بھر میں ایک مہینے یعنی رمضان المبارک کے روزے رکھنا ہر عاقل، بالغ ، مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ اس میں صرف مریض و مسافر اور عورتوں کے لیے مشروط رعایات ہیں جن کا احادیث میں ذکر موجود ہے۔ ان کے علاوہ کسی کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت نہیں۔
روزوں کے منکر کے کافر ہونے پر بھی علمائے سلف وخلف کا اجماع ہے۔ اس کی فضیلت کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہی فرمان کافی ہے کہ میرا بندہ روزہ میرے لیے رکھتا ہے اور میں ہی اسے اس کی جزا دوں گا۔ [صحيح البخاري: 7492 – صحيح مسلم: 1101]
پھر روزِ قیامت روزے داروں کے جنت میں داخلے کے لیے ایک دروازہ مخصوص ہوگا جس سے صرف روزے دار ہی داخل ہوں گے۔ ان کے علاوہ کوئی بھی اس دروازے سے داخل نہیں ہو گا۔ [صحيح البخاري: 3257]
الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَا تُقَدِّمُوا رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ، أَوْ يَوْمَيْنِ إلَّا رَجُلًا كَانَ يَصُومُ صَوْمًا فَلْيَصُمْهُ .
سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھا کرو، سوائے اس شخص کے جو پہلے سے روزہ رکھتا چلا آ رہا ہو تو وہ اس دن کا بھی رکھ لے۔“
صحيح البخاري ، كتاب الصوم، باب لا يتقدم رمضان بصوم يوم ولا يومين ، ح: 1914. صحيح مسلم ، كتاب الصيام، باب لا تقدموار مضان بصوم يوم ولايومين ، ح: 1082
شرح المفردات:
لَا تَقَدَّمُوا: یہ اصل میں لَا تَتَقَدَّمُوا کے معنی میں ہے، یعنی روزے رکھنے میں رمضان سے آگے نہ بڑھو۔ جمع مذکر حاضر ، فعل نہی معلوم، باب تفعل ۔
شرح الحديث:
امام ابنِ رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شعبان کے آخری دن روزہ رکھنے کی تین کیفیات ہیں:
➊ رمضان کی تیاری کی نیت سے روزہ رکھنا، یہ ممنوع ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے شعبان کی تیس تاریخ کو صاف موسم اور ابر آلود موسم کی صورت میں اس میں فرق کیا ہے، امام احمد رحمہ اللہ نے ان کی پیروی کی ہے۔
➋ نذر کفاره یا رمضان کی قضاء کا روزہ رکھنا۔ جمہور علماء نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ البتہ ان علماء کے ہاں ممنوع ہے جو شعبان اور رمضان کے درمیان فرق کرنے کے لیے ایک دن کا روزہ نہ رکھنے کے قائل ہیں۔
➌ مطلقاً نفلی روزے کی نیت سے رکھنا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اس کی رخصت دی ہے، امام شافعی ، اوزاعی اور احمد رحمہ اللہ نے فرق کیا ہے کہ اگر تو پہلے سے وہ عادتاً رکھ رہا ہو تو جائز ہے وگرنہ نہیں۔ اسی طرح انہوں نے اس میں بھی فرق کیا ہے کہ اگر تو وہ رمضان سے پہلے دو دن سے زیادہ دنوں کے روزے رکھتا ہے تو ٹھیک ہے وگرنہ نہیں۔ [لطائف المعارف: ص 273]