❀ حدیث : عن أنس بن مالك قال : كنا إذا صلينا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم بالظهائر سجدنا على ثيابنا اتقاء الحر
”انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ظہر کی نمازیں پڑھتے تھے تو گرمی سے بچنے کے لئے اپنے کپڑوں پر سجدہ کرتے تھے۔“ [صحيح البخاري : 77/1 ح 542، واللفظ له و صحيح مسلم : 225/1 ح 220]
فوائد :
➊ اس روایت اور دیگر احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز ظہر کا وقت زوال کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے، اور ظہر کی نماز اول وقت پڑھنی چاہئے۔
➋ اس پر اجماع ہے کہ ظہر کا وقت زوال کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ [الافصاح لابن هبيرة : ج1 ص 76]
➌ جن روایات میں آیا ہے کہ :
ان تمام احادیث کا تعلق سفر کے ساتھ ہے جیسا کہ صحیح البخاری [ج 1 ص 77 ح 539] کی حدیث سے ثابت ہے، حضر (گھر، جائے سکونت) کے ساتھ نہیں۔ جو حضرات سفر والی روایات کو حدیث بالا وغیرہ کے مقابلہ میں پیش کرتے ہیں، ان کا موقف درست نہیں۔ انہیں چاہئے کہ یہ ثابت کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر کی نماز ٹھنڈی کر کے پڑھی ہے۔ ! ؟
➍ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ :
”جب سایہ ایک مثل ہو جائے تو ظہر کی نماز ادا کرو اور جب دو مثل ہو جائے تو عصر پڑھو۔“ [موطا امام مالك : 8/1 ح 9]
اس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر والی نماز زوال سے لے کر ایک مثل تک پڑھ سکتے ہیں، یعنی ظہر کا وقت زوال سے لے کر ایک مثل تک ہے اور عصر کا وقت ایک مثل سے لے کر دو مثل تک ہے۔
◈ مولوی عبدالحئی لکھنوی نے التعلیق الممجد [ص 41 حاشیہ9] میں اس موقوف اثر کا یہی مفہوم لکھا ہے، یہاں بطور تنبیہ عرض ہے کہ اس ”اثر“ کے آخری حصہ ”فجر کی نماز اندھیرے میں ادا کر“ کی دیوبندی اور بریلوی دونوں فریق مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ یہ حصہ ان کے مذہب سے مطابقت نہیں رکھتا۔
➎ سوید بن غفلہ رحمہ اللہ نماز ظہر اول وقت ادا کرنے پر اس قدر ڈٹے ہوئے تھے کہ مرنے کے لئے تیار ہو گئے، مگر یہ گوارا نہ کیا کہ ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھیں اور لوگوں کو یہ بتایا کہ ہم ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پیچھے اول وقت میں نماز ظہر ادا کرتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه : 323/1 ح 3271]