موئے زیر ناف کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
ماہنامہ السنہ جہلم

جواب: مردوزن کی شرم گاہ اور اس کے گرد اگنے والے بال زیر ناف کہلاتے ہیں ، انہیں صاف کرنا فطرت ہے ۔ طبی اعتبار سے کئی فوائد بھی ہیں ، ان کی کم سے کم مدت مقرر نہیں ، البتہ زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے ۔ چالیس دنوں سے تجاوز جائز نہیں ، سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
وقت لنا فى قص الشارب ، وتقليم الأطفار ، ونتف الإبط ، وحلق العانة ، أن لانترك أكثر من أربعين ليلة
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیں لینے ، ناخن کاٹنے ، بغل کے بال اکھاڑنے اور زیر ناف بال صاف کرنے کی آخری حد چالیس دن رکھی ہے کہ اس سے زیادہ تاخیر نہ کی جائے ۔“ [صحيح مسلم: ٢٥٨]
فتاوی عالمگیری میں لکھا ہے:
ألأفضل أن يقلم أظفاره ويحفي شاربه ويحلق عانته وينقف بدنه بالاغتسال فى كل أسبوع مرة فإن لم يفعل ففي كل خمسة عشر يوما ولا يعذر فى تركه وراء الأربعين . . ولا عذر فيما وراء الأربعين ويستحق الوعيد
”افضل یہ ہے کہ ہفتہ میں ایک دفعہ ناخن کاٹے جائیں ، لبیں لی جائیں ، زیر ناف بال صاف کئے جائیں اور غسل کیا جائے ، اگر ایسا نہ کر پائے ، تو پندرہ دن بعد کر لے ، چالیس دن تک بھی اگر ایسا نہیں کرتا ، تو عذر قبول نہیں ، بلکہ وعید کا مستحق ٹھہرے گا ۔ “ [فتاوي عالمگيري: ٣٥٧/١]
ابن عابد بین شامی لکھتے ہیں:
وكره تركه تحريما ولا عذر فيما وراء الأربعين ويستحق الوعيد
”چالیس دن کے بعد بھی زیر ناف صاف نہ کرنا مکروہ تحریمی ہے ، ایسا کرنے والا وعید کا مستحق ہو جاتا ہے ۔ “ [فتاوي شامي: ٤٠٧/٦]
➊ نظافت اور ستھرائی کے لئے بہتر ہے کہ پچھلی شرمگاہ کے اردگرد بال بھی صاف کئے جائیں ، اگرچہ اس کے بارے میں روایت نہیں ملتی ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ويستحب إماطة الشعر عن القبل والدبر بل هو من الدبر والدبر أولى خوفا من أن يعلق شيء من الغائط فلا يزيله المستنجي إلا بالماء ولا يتمكن من إزالته بالاستجمار
”اگلی اور پچھلی دونوں شرمگاہوں سے بال صاف کرنا مستحب ہے ، بلکہ پچھلی شرمگاہ سے بال صاف کرنا زیادہ بہتر ہے ، کیوں کہ خدشہ رہتا ہے کہ ان بالوں کے ساتھ کچھ پاخانہ چمٹا رہ جائے اور ڈھیلا استعمال کرنے سے صاف ہی نہ ہو پائے اور پانی کا استعمال ضروری ہو جائے ۔ “ [فتح الباري: ٣٤٣/١٠]
ابن عابدین شامی لکھتے ہیں ؛
العانة الشعر القريب من فرج الرجل والمرأة ومثلها شعر الدبر بل هو أولى بالإزالة لئلا يتعلق به شيء من الخارج عند الإستنجاء بالحجر
”قبل اور دبر کے قریبی بال صاف کیجئے ، بلکہ دبر کے بال صاف کرنا زیادہ بہتر ہے ، تاکہ ڈھیلا استعمال کرتے وقت وہاں پاخانہ چمٹا نہ رہ جائے ۔“ [فتاوي شامي: ٤٨١/٢]
➋ لوہے کا آلہ یا کریم کا استعمال کیا جائے ، ٹریٹ والوں کا پاکی ریزر ، جو خشک جلد پر استعمال ہوتا ہے ، زیادہ بہتر ہے ۔ مرد و عورت کے لئے یکساں مفید ہے ۔ اس میں وقت بھی زیادہ صرف نہیں ہوتا ۔ زخم لگنے کا اندیشہ بھی نہیں ہے ، خصوصاً شوگر کے مر یضوں یا بڑے پیٹ والوں کے لئے آسانی ہے ۔ اس کا یہ فائدہ بھی ہے کہ جلد کا کلر بھی خراب نہیں ہوتا ، کریموں میں ایسے کیمیکل ہوتے ہیں ، جو جلد کو داغدار کر دیتے ہیں ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
الفطرة خمس ، أو خمس من الفطرة الختان ، والاستحداد ، ونتف الإبط ، وتقليم الأطفار ، وقص الشارب
”پانچ چیزیں فطرت ہیں؛ ختنے کروانا ، لوہے کا استعمال (زیر ناف کی صفائی کے لئے) ، بغل کے بال اکھاڑنا ، ناخن کاٹنا اور مونچھیں پست کرنا ۔“ [صحيح البخاري: ٥٨٨٩ ، صحيح مسلم: ٢٥٧]
➌ اگر بیماری یا عذر کی وجہ سے زیر ناف صاف نہیں کر سکتا ، تو گناہ گار نہیں ، کیوں کہ وہ مکلف نہیں ۔ اپنی بیوی ، بھائی یا ملازم سے یہ بال صاف نہیں کروانے چاہئیں ، کیوں کہ اس میں ان کے لئے خفت اور پریشانی ہے ، ضابطہ یہ ہے:
الضرر الأشد يزال بالضرر الأخف
”کم تر نقصان کو گوارا کرتے ہوئے بڑے نقصان سے بچا جائے گا ۔“
زیر ناف بال صاف کروانا بڑی پریشانی ہے ، بال صاف نہ کرنے سے ۔
➍ زندگی کی امید باقی نہ رہے تو ، جسم کے بال صاف کر لینا چاہئے ۔ جیسا کہ سیدنا خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ نے کیا تھا ، آپ کفار کی قید میں تھے ، انہیں بتایا گیا کہ آپ کو سولی چڑھا دیا جائے گا:
استعار موسى من بعض بنات الحارث ليستحد بها فأعارته
”تو انہوں نے حارث بن عامر کی ایک بیٹی سے استرا مستعار لیا تاکہ زیر ناف صاف کر لیں ۔“ [صحيح البخاري: ٤٠٨٦]
بعضے غافل بالوں کے شرعی احکام سے واقف نہیں ہوتے ، جن بالوں کو صاف کرنا حرام اور باعث لعنت ہے ، انہیں صاف کر لیتے ہیں اور جن بالوں کو صاف کرنا ضروری ہے ، انہیں صاف نہیں کرتے ۔ کتنے ہی لوگ کہ اس حالت میں انہیں موت آ جاتی ہے ، بعد میں لواحقین ان کے بال صاف کرتے ہیں ، حالاں کہ ایسا کرنا مناسب نہیں ، کیوں کہ وہ دار التکلیف سے نکل چکا ہے ، اسے فائدہ نہیں اور ان کے لئے خوامخواہ کی پریشانی ہے ۔
➎ خصیتین کے بال بھی تلف کرنے چاہئیں ۔
➏ بعض لوگ ناف سے لے کر گھٹنوں تک بال اتار لیتے ہیں ، یہ محض تکلف ہے ۔
➐ غیر ضروری بال بائیں ہاتھ سے صاف کرنے چاہئیں ، مجبوری کی صورت میں دایاں ہاتھ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
➑ زیر ناف بال اتارنے کے بعد فسل اختیاری ہے ، مشروع نہیں ۔
➒ عوام میں یہ نظر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ بال اتارنے کی شرعی حد گز رجائے تو کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے ، اس پر کوئی دلیل نہیں ۔ البتہ حد گزر جائے ، تو گناہ گار ضرور ہو گا ۔
➓ بامر مجبوری زیر ناف بال کاٹے بھی جا سکتے ہیں ، مونڈنا مسنون ہے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل