جواب: رشوت کی تعریف یہ ہے:
ما يعطى لإبطال حق ، أو لإحفاق باطل
”جو چیز حق چھیننے یا باطل کے حصول کے لیے دی جائے ، رشوت کہلاتی ہے ۔“ [التعريفات للجرجاني ، ص ١١١]
رشوت کا حکم:
رشوت دینا لینا حرام ہے ، فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ [النساء: ٢٩]
”اہل ایمان ! باطل طریقہ سے ایک دوسرے کے مال نہ کھائیں ۔“
نیز فرمایا:
وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان ، واتقوا الله إن الله شديد العقاب [المائدة: ٢]
”نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کا تعاون کیجئے ، گناہ اور سرکشی پر نہ کیجئے ۔ اللہ سے ڈر جائیے ، اللہ سخت پکڑ کرنے والا ہے ۔“
سید نا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لعن الله الراشي والمرتشي
”اللہ نے رشوت دینے اور لینے والے ، دونوں پر لعنت فرمائی ہے ۔“ [مسند الإمام أحمد: 387/2 ، سنن الترمذي: ١٣٣٦ ، وسنده حسن]
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح“ امام ابن الجارود رحمہ لله (585) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (5076) نے ”صحیح“ کہا ہے ۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں:
لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشى
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور لینے والے پر لعنت فرمائی ہے ۔“
[مسند الإمام أحمد: ١٩٠ ، ١٦٤/٢ ، ١٩٤ ، سنن أبى داود: ٣٥٨٠ ، سنن الترمذي: ١٣٣٧ ، سنن ابن ماجه: 2313 ، وسنده حسن]
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح“ اور امام ابن الجارود رحمہ اللہ (586) نے ”صحیح“ کہا ہے ۔ امام حاکم رحمہ اللہ (102/4 ۔ 103) نے ”صحیح الاسناد“ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے ۔
مسروق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عَبْدِ اللهِ ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: مَا السُّحْتُ؟ قَالَ: الرِّشَا ، فَقَالَ: فِي الحُكْمِ؟ قَالَ: ذَاكَ الكُفْرُ ، ثُمَّ قَرَأَ: ﴿وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾ [المائدة: ٤٤]
میں عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا ، ایک شخص نے کہا ، حرام کیا ہے؟ فرمایا:
رشوت ، عرض کیا: حکم؟ فرمایا: کفر ہے ، پھر یہ آیت پڑھی:
﴿وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولئِكَ هُمُ الكَافِرُون﴾
”جو وحی کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے ، یہ لوگ کافر ہیں ۔ “ [مسند أبى يعلى: ٥٢٦٦ ، وسنده صحيح]
اپنے حق کے حصول کے لئے یا اپنے آپ سے ظلم و زیادتی کو دور کرنے کے لئے کسی کو کچھ دینا رشوت کی تعریف سے خارج ہے ، البتہ لینے والے کے لئے حرام ہے اور گناہ کبیرہ ہے ، کیوں کہ ظلم کی کوئی صورت جائز نہیں ۔ جو لوگوں کا مال ناحق اور ناجائز طریقہ سے حاصل کرتے ہیں ، انہیں اللہ کی پکڑ سے ڈر جانا چاہیے ۔ یاد رہے کہ حرام مال میں برکت نہیں ہوتی ، اس سے دلوں کا اطمینان سلب ہو جاتا ہے ، یوم حساب کی جواب دہی بھی سخت ہے ۔
رشوت کسی کی حق تلفی کے لئے کچھ دینے کو کہتے ہیں ، رشوت دینے والا راشی اور جسے رشوت دی جائے مرتشی اور ان دونوں کے درمیان معاملہ طے کرانے والا رائش کہلاتا ہے ۔