سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے والد ابوطالب کا نام کیا تھا؟
ماہنامہ السنہ جہلم

جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے والد ابوطالب کا نام عبد مناف بن عبدالمطلب تھا ۔ شیعہ کہتے ہیں کہ آپ کا نام عمران تھا ۔ یہ دنیا کی بے حقیقت بات ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) لکھتے ہیں:
واسمه عند الجميع عبد مناف وشد من قال: عمران ، بل هو قول باطل نقله ابن تيمية فى كتاب الرد على الرافضي أن بعض الروافض زعم أن قوله تعالى: ﴿إن الله اصطفى آدم ونوحا وآل إبراهيم وآل عمران﴾ (آل عمران: 33) ، أن آل عمران هم آل أبى طالب وأن اسم أبى طالب عمران واشتهر بكنيته .
”اہل حق کے نزدیک ابوطالب کا نام عبد مناف ہے ۔ جو کہتے ہیں کہ ان کا نام عمران ہے ، ان کی بات شاذ بلکہ باطل ہے ۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے روافض کے رد میں اپنی کتاب (منھاج السنۃ) میں لکھا ہے : بعض روافض کے نزدیک اللہ کے فرمان: ﴿إن اللهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ﴾ (آل عمران:33) اللہ نے آدم ، نوح ، آل ابراہیم اور آل عمران کو منتخب فرما لیا ہے ۔ میں آل عمران سے مراد آل ابوطالب ہیں اور ابو طالب کا نام عمران تھا ، اپنے کنیت سے مشہور ہوئے ۔“ [ فتح الباري شرح صحيح البخاري: ١٩٤/٧]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661 ۔ 728ھ) لکھتے ہیں:
منهم من يقول: كان اسمه عمران ، وهو المذكور فى قوله تعالى: ﴿إن الله اصطفى آدم ونوحا وآل إبراهيم وآل عمران على العالمين﴾ (سورة آل عمران: 33) ، وهذا الذى فعلوه مع ما فيه من الافتراء والبهتان ففيه من التناقض وعدم حصول مقصودهم ما لا يخفى .
”بعض روافض کہتے ہیں: ابوطالب کا نام عمران تھا ۔ اللہ کے اس فرمان میں انہی کا ذکر ہے: ﴿إِنَّ اللهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَّآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ﴾ (سُورَةُ آلِ عِمْرَانَ: 33) ,اللہ تعالیٰ نے آدم ، نوح ، آل ابراہیم اور آل عمران کو جہان والوں سے چن لیا ہے ۔ یہ اللہ پر افترا اور بہتان تو ہے ہی ، اس استدلال میں بھی واضح تناقض ہے ، یہ تو روز رو شن کی طرح عیاں ہے کہ اس من چاہی تفسیر سے ان کا مدعا ثابت نہیں ہو سکتا ۔“ [ منهاج السنة: ٣٥٠/٤]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (700۔774 ھ) لکھتے ہیں:
زعمت الروافض أن اسم أبى طالب عمران وأنه المراد من قوله تعالى: ﴿إن الله اصطفى آدم ونوحا وآل إبراهيم وآل عمران على العالمين﴾ (آل عمران: 33) ، وقد أخطأوا ذلك خطأ كثيرا ولم يتأملوا القرآن قبل أن يقولوا هذا البهتان من القول فى تفسيرهم له غير مراد الله تعالى ، فإنه قد ذكر بعد هذه قوله تعالى: ﴿إذ قالت امرأت عمران رب إني نذرت لك ما فى بطني محررا﴾ (آل عمران: ٣٥) ، فذكر ميلاد مريم بنت عمران عليها السلام وهذا ظاهر ولله الحمد ، وقد كان أبو طالب كثير المحبة الطبيعية لرسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يؤمن به إلى أن مات على دينه كما ثبت ذالك فى صحيح البخاري .
” روافض کہتے ہیں کہ ابوطالب کا نام عمران تھا اور اللہ کے اس فرمان میں انہی کا ذکر ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحاً وَّآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعالَمِينَ﴾ (آل عمران: 33) ،اللہ تعالیٰ نے آدم ، نوح ، آل ابراہیم اور آل عمران کو لوگوں سے پسند فرما لیا ہے ۔ یہ ان کی فحش غلطی ہے ۔ یہ لوگ بے فکر ہو کر تفسیر میں اللہ پر ایسی بہتان بازیاں کرتے ہیں کہ اللہ کی مراد ہی بدل دیتے ہیں ، کیا تدبر نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ (آیت نمبر: 33) کے بعد یہ فرمایا ہے: ﴿إِذْ قالَتِ امْرَأَتُ عِمْرانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرا﴾ (آل عمران: ٣٥) ،جب عمران کی اہلیہ نے کہا: میرے رب ! ‘ میں نذر مانتی ہوں کہ اپنے ہونے والے بیٹے کو تیرے لیے وقف کر دوں گی ۔ گو ابوطالب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے طبعی طور پر بہت لگاؤ تھا ، لیکن آپ نے کلمہ نہیں پڑھا ، کفر پر ہی فوت ہوئے فوت ہوئے ، جیسا کہ صحیح بخاری (4772،3884،2375،1360) میں ہے ۔“ [ البداية والنهاية: ٣٠/١١]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

1