تکبیر تحریمہ کے بعد کونسی دعا پڑھنی چاہیئے؟
وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسكت بين التكبير والقراءة إسكاتة ، قال أحسبه (قال) هنية . فقلت: بابي وأمي يا رسول الله، إسكاتك بين التكبير والقراءة ما تقول [فيها] ؟ قال: أقول: اللهم ، باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب ، اللهم نقني من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس ، اللهم اغسل خطاياي بالماء والثلج والبرد
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیان کیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر اور قرآت کے درمیان قدرے خاموش رہتے ، راوی کا بیان ہے کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے ( اسكاتة ) کی بجائے ( هنية ) کہا ہے ۔ میں نے عرض کی یا رسول الله ! میرے ماں باپ قربان ہوں ، آپ تکبیر اور قرآت کے درمیان خاموشی میں کیا کلمات کہتے ہیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”میں یہ کہتا ہوں: ”الہیٰ میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اتنا فاصلہ پیدا کر دے جتنا تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلہ پیدا کیا ہے ، الہی مجھے غلطیوں سے پاک کر دے جس طرح سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے ، الہی میری خطاؤں کو پانی ، برف اور اولوں سے دھو ڈال ۔“ لفظ روایت بخاری کے ہیں ۔
تحقیق و تخریج: بخاری: 744 ، مسلم: 598
وعن أبى سعيد (الخدري) ، قال: (كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام من الليل كبر، ثم يقول: سبحانك اللهم ، وبحمدك، وتبارك اسمك، وتعالى جدك ولا إله غيرك . ثم يقول: لا إله إلا الله ، ثلاثا، ثم يقول: الله أكبر كبيرا ، ثلاثا، أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ، ونفخه ونفته ثم يقرأ)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا جب رات کے وقت اٹھتے تو اللہ اکبر کہتے ، پھر سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك ، وتعالى جدك ولا إله غيرك پڑھتے ، پھر تین مرتبہ لا إله إلا الله کہتے ، پھر تین مرتبہ الله أكبر كبيرا کہتے پھر یہ کلمات پڑھتے: أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْتِهِ ”الہی تو ہر عیب اور نقص سے پاک ہے سب تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں بابرکت ہے تیرا نام اور بلند ہے تیری شان اور تیرے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ۔ (2) میں اللہ سننے والے جاننے والے کے حضور پناہ لیتا ہوں شیطان مردود سے اس کے وسوسوں اس کی کبر و نخوت اور اس کے جادو سے ۔ پھر آپ قرآت کرتے ۔ ابوداؤد نے جعفر بن سلیمان کے حوالے سے روایت کیا ، مسلم نے علی بن علی کے حوالے سے اس حدیث کے ذریعے استدلال پکڑا ہے ، وکیع اور یحیی بن معین نے اسے ثقہ قرار دیا اور ابوزرعہ نے بھی اس کو ثقہ کہا ہے اور کبھی یہ حدیث معلول ہوتی ہے ۔
تحقیق و تخریج: یہ حدیث صحیح ہے ۔
مسند امام احمد بن حنبل: 50/3، ابوداؤد: 775 ، ترمذی 242 ، نسائی: 2/ 132 ، ابن ماجه: 804 حدیث کی سند حسن ہے اور اس کے شواہد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور عمر بن الخطاب سے ثابت ہیں ۔
فوائد:
➊ نماز میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں دعا نہ ہو یا کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں نمازی خاموش رہتا ہو سوائے اس کے کہ امام کے پیچھے ہو تو سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے بعد قرآت خاموشی سے سنے گا ۔ سجدے اور رکوع میں بھی دعائیں ہیں ان کو پڑھنا چاہیے ۔
➋ تکبیر اولی یا تکبیر تحریمہ سے قرآت تک نمازی اللهم باعد بيني الخ يا سبحانك الله اللهم و بحمدك . . . . . الخ پڑھے گا اسی طرح لا اله الا الله ، تین بار الله اكبر كبيرا ، تین بار پھر اعوذ بالله السميع العليم . . . . . الخ پڑھے گا بعد میں قرآت کرے گا ۔ آخری دو دعا ئیں رات کی نماز میں زیادہ کرتے تھے اللهم باعد بيني . . . . الخ اور سبحانك اللهم . . . . الخ یہ بھی نمازوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے ۔
➌ مذکورہ دعاؤں میں رب لاشريك کی حمد و تقدیس ہے ابن آدم کی خطاؤں کی دھلائی کی التجا ہے یا شیطان لعین سے اللہ کی معاونت کا تذکر ہ ہے ۔
➍ احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نمازی کا تکبیر تحریمہ کے فور ا بعد الحمد لله شروع کر دینا یا امام کا تکبیر تحریمہ کے فور ا بعد قرأت شروع کر دینا ناپسندیدہ عمل ہے اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ ذرا اتنا توقف ہو کہ امام بھی افتتاحیہ دعا پڑھ سکے اور اس کے مقتدی بھی تاکہ رب رفیع کی ثنا کے ساتھ ساتھ اپنے کچھ گناہوں کو معاف کرواسکیں ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل