کیا میت کو غسل دینے والے پر غسل لازم ہے؟
وعن أبى هريرة عن النبى صلی اللہ علیہ وسلم قال: من غسله الغسل ومن حمله الوضوء يعني الميت [أخرجه الترمذي وقال: حديث حسن قلت: ورجاله رجال مسلم]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا: میت کو غسل دینے سے خود غسل کرنا ہوگا اور اس کو اٹھانے سے وضوء کرنا ہوگا ۔ ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے میں کہتا ہوں اس کے رجال مسلم کے رجال ہیں ۔
تحقیق و تخریج: یہ حدیث صحیح ہے ۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ: 2/ 454 ابو داود: 3161 ابن ماجه: 1463 ، ترمذی: 993 کہا کہ یہ حدیث حسن ہے ۔ بیھقی 1/ 300 301 ابن حبان: 1158
وروى حماد بن سلمة عن محمد بن عمرو، عن أبى سلمة عن أبى هريرة فى هذا حديثا احتج به الظاهري، وقال أحمد وعلي بن عبد الله: لا يصح فى هذا الباب شيء [ذكره البخاري عنهما فيما حكاه الترمذي]
حماد بن سلمہ نے محمد بن عمرو سے اور اس نے ابو سلمہ سے اس نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے میں ایک حدیث بیان کی ظاہری نے اس سے دلیل پکڑی احمد اور علی بن عبد اللہ نے کہا: اس باب میں کوئی چیز صحیح نہیں ۔ بخاری نے ان دونوں سے ذکر کیا ہے جو ترمذی نے بیان کیا ہے ۔
تحقیق و تخریج: حدیث صحیح ہے ۔ بیهقی: 1/ 301 حماد بن سلمہ کے حوالے سے یہ حدیث مرفوع ہے ۔
فوائد:
➊ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ جو فوت ہو جائے اسے غسل دے کر دفنانا چاہیے ۔
➋ میت کو غسل دینے سے غسل کرنا فرض نہیں ہے ۔ ہاں جو کر لے درست ہے جو نہ کرے حرج نہیں ہے ۔ بعض کہتے ہیں میت کو غسل دینے سے غسل ضروری ہے بعض کہتے ہیں ضروری نہیں ۔ صحیح یہ آخری بات ہے جو استحباب کا تقاضہ کرتی ہے ۔
➌ میت کی چارپائی کو اٹھانے یا محض ہاتھ لگانے سے وضو متاثر نہیں ہوتا بلکہ برقرار رہتا ہے ۔ اس پر وضو ٹوٹنے کا کوئی قائل نظر نہیں آتا ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل