سواری پر نوافل ادا کرنا
وَعَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُسَبِّحُ عَلَى الرَّاحِلَةِ قِبَلَ أَي وَجْهِ تَوَجَّهَ ، وَيُوتِرُ عَلَيْهَا غَيْرَ أَنَّهُ لَا يُصَلِّى عَلَيْهَا الْمَكْتُوبَةَ
حضرت سالم بن عبداللہ بن عمرو اپنے باپ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا : ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر نوافل ادا کرتے خواہ سواری کسی طرف بھی رخ کیے ہو اس پر آپ وتر بھی پڑھ لیا کرتے تھے ، لیکن آپ اس پر فرضی نماز نہیں پڑھا کرتے تھے ۔“
تحقيق و تخریج : بخاری : 2/ 575 ، فتح الباری : 2/ 670 ، مسلم بحواله ابن وهب : 700
فوائد :
➊ بیت المقدس کو قبلہ اول کہا جاتا ہے مدینہ میں تشریف آوری کے بعد سولہ یا سترہ ماہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے انداز کی تصویر کشی فرمارہے ہیں جب وہ بیت اللہ کی محبت میں مارے مارے اپنے وجہ اطہر کو چشم فلک کی طرف لگائے اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کن حکم کے منتظر تھے ۔
➋ دوران نماز کسی نمازی کو قبلہ کی صحیح سمت کا علم ہو جائے تو اس کی طرف پھر سکتا ہے اسی طرح کوئی نابینا یا قبلہ کی سمت سے ہے کہ خبر انسان نماز میں ٹیڑھا کھڑا ہو تو اس کو قبلہ رخ کرنا جائز ہے ۔
➌ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وحی جیسا عظیم معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے کسی نبی یا ولی کی مرضی پر وحی یا کرامت کبھی ظاہر نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے جب چاہتے ہیں وحی فرما دیتے ہیں یا کرامت ظاہر کروا دیتے ہیں اور نہ ہی وحی کے نزول کے وقت اللہ تعالیٰ کو ہمارے معاملات سامنے رکھنے پڑتے ہیں جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے حالانکہ امر کا تقاضہ یہ تھا کہ نماز مکمل ہو جاتی تو پھر وحی سے باخبر کیا جاتا کیونکہ ارادت الہی ان چیزوں کی محتاج نہیں اس لیے نماز میں ہی وحی کا نزول ہوا بشرطیکہ پاکی پائی جاتی ہو ۔
➌ کسی نبی ، ولی یا امام سے نماز کی حالت میں اگر اللہ تعالیٰ وحی بھیجیں الہام کریں یا کوئی نشانی ظاہر کر دیں تو اس سے نماز خراب نہیں ہوتی ۔ اسی طرح پہلے کسی اور سمت کی طرف نماز پڑھی بعد میں معلوم ہونے پر قبلہ کی طرف رخ کر لیا تو اس سے نماز دہرانی نہیں پڑے گی ۔ اور یہ بھی پتہ چلا کہ بیت المقدس کی طرف پڑھی گئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نمازیں بے کار نہیں گئیں اور نہ ہی اعادہ کی ضرورت پیش آئی سبھی قبول و مقبول ہوئیں ۔
➎ دور دراز ہوتے ہوئے مکمل اور یقینی طور پر کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا مشکل ہوتا ہے لہٰذا ایک دفعہ سواری کا رخ اپنے اندازے کے مطابق قبلہ رخ کر لیں بعد میں سواری کا رخ جہاں ہو جس طرف ہو کوئی حرج نہیں نماز ہو جائے گی ۔ ایسی سواری جو اپنے اختیار میں ہو یا ایسی سواروں کی جماعت جو اکٹھی جارہی ہو تو فرضی نماز سواری سے اتر کر ادا کی جائے اور ظاہر بات ہے زیادہ تعداد کے ہوتے ہوئے اقامت و جماعت کا اہتمام کرنا ہوتا ہے سواریوں سے اتر کر نماز ادا کی جائے گی البتہ نفلی عبادت سواری پر کی جا سکتی ہے اسی طرح وتر بھی اس پر پڑھا جا سکتا ہے ۔ کشتی ، بحری جہاز ، ہوائی جہاز پر نفل فرض دونوں پڑھ سکتے ہیں حالات حاضرہ میں اکثر لوگ بے نماز ہوتے ہیں اکثر ڈرائیور کنڈیکٹر حضرات اپنی روزی کے صرف متلاشی ہوتے ہیں ان کو کسی کی نمازوں سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسلامی ملک میں جہاں نماز کا ٹائم ہو جائے وہاں گاڑی کھڑی کر کے نماز ادا کروائی جائے لیکن اس کے برعکس اذانوں کے وقت بھی بے حیائی فلموں اور گانوں کو جاری رکھا جاتا ہے ۔ اس صورت میں ایک نمازی کے لیے بہتر ہے کہ وہ اندازہ لگا کر نمازیں اکٹھی پڑھ لے اور پھر سفر کو روانہ ہو ۔
➏ سواری پر وظائف وغیرہ کرتے ہوئے قبلہ رخ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل