السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکا تہ : اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی عمر عطا فرمائے۔ آمین محترم حافظ صاحب کچھ روایات لکھ کر بھیج رہا ہوں ان کی تحقیق درکار ہے۔
روایت نمبر ➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں بچھو ڈس گیا۔ نماز سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی اور نمک منگوا کر اس کے اوپر ملا اور ساتھ ساتھ قل يٰٓا يها الكٰفرون، قل هو الله احد، قل اعوذبرب الناس . پڑھتے رہے۔ [مجمع الزوائد، 5؍111، وقال الھیثمی : إسنادہ حسن]
روایت نمبر ➋ طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ عنہ کا واقعہ کہ انہیں لوگوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن نہ سننا، تو انہوں نے اپنے کانوں میں روئی دے لی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے قریب قرآن پڑھتے ہوئے سنا۔ انہوں نے کانوں سے روئی نکالی اور قرآن سننا شروع کر دیا۔ خود شاعر بھی تھے تو کہنے لگے کہ یہ کسی شاعر کا کلام نہیں چنانچہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔
اکثر اہلحدیث خطباء واعظین یہ واقعہ بیان کرتے ہیں، اس کی علمی میدان میں کیا حیثیت ہے وضاحت فرمائیں ؟
روایت نمبر ➌ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک عورت کوڑا پھینکتی تھی۔ ایک دن اس نے کوڑا نہ پھینکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر چلے گئے اس کے گھر کو صاف کیا۔ پانی بھرا تو وہ عورت آپ کا اخلاق دیکھ کر مسلمان ہو گئی۔ [بحوالہ تعلیمی نصاب کی کتابیں]
اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے کہ یہ واقعہ کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے یا صرف منہ کی بات ہے یا گورنمنٹ کا نصاب ہی اِس کا حوالہ ہے، وضاحت فرمائیں۔
روایت نمبر ➍ مروی ہے کہ ایک عورت مکہ کے اندر خریداری کے لئے آئی تو اس عورت کو کہا گیا کہ یہاں ایک شخص ہے اس کی بات نہ سننا وہ جادوگر ہے، شاعر ہے۔ اس عورت نے گٹھڑی اٹھائی مکہ سے باہر نکل کر بیٹھ گئی۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزار ادھر سے ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کہ آپ کہاں جانا چاہتی ہیں تو اس نے بتایا فلاں جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سامان اٹھایا اور وہاں اس عورت کو پہنچا دیا تو وہ عورت کہنے لگی کہ تم اچھے آدمی معلوم ہوتے ہو۔ تمہیں نصیحت ہے کہ یہاں ایک شخص نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ جادوگر ہے اس سے بچ کر رہنا۔ اس کی باتیں سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص میں ہی ہوں۔ تو عورت کہنے لگی آپ پھر غلط نہیں ہو سکتے چنانچہ اس عورت نے اسلام قبول کر لیا۔ محترم حافظ صاحب یہ چار روایتیں لکھی ہیں ان کی تحقیق مطلوب ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ والسلام خرم ارشاد محمدی
الجواب بعون الوھاب
روایت نمبر ➊
نماز میں بچھو کا ڈسنا
یہ روایت مجمع الزوائد میں بحوالہ ” الطبرانی فی الصغیر ’’“ مروی ہے۔ [5؍111]
المعجم الصغیر للطبرانی میں اس کی سند درج ذیل ہے :
حدثنا محمد بن الحسين الأشناني الكوفي : حدثنا عباد بن يعقوب الأسدي : حدثنا محمد بن فضيل عن مطرف عن المنهال بن عمرو عن محمد بن الحنفية عن على كرم الله وجهه فى الجنة . . . [2؍23ح850]
اس سند کے راوی عباد بن یعقوب الرواجنی کا جامع تعارف درج ذیل ہے :
① حافظ ابن حبان نے کہا:
وكان رافضيا داعية إلى الرفض ومع ذلك يروي المنا كير عن أقوام مشاهير فاستحق الترك
” ’’ وہ رافضی تھا، رافضیت کی طرف دعوت دیتا تھا اور اس کے ساتھ وہ مشہور لوگوں سے منکر روایات بیان کرتا تھا لہٰذا وہ متروک قرار دیئے جانے کا مستحق ٹھہرا۔ “ [المجروحين 2؍172 ]
② ابوبکرابن ابی شیبہ یا ھناد بن السری نے اس پر جرح کی، دیکھئے : [الكامل لابن عدي 4؍1653 ]
③ ابن عدی نے کہا:
وفيه غلو فيما فيه من التشيع وروي أحاديث أنكرت عليه فى فضائل أهل البيت وفي مثالب غيرهم [ الكامل 4؍1653دوسرا نسخه 5؍559 ]
④ ابن جوزی نے اسے کتاب الضعفاء و المتروکین میں ذکر کیا۔ [ 2؍77ت 1788 ]
⑤ ابوحاتم الرازی نے کہا: كوفي شيخ [ الجرح و التعديل2؍88 ]
نیز دیکھئے : [ كتاب الضعفاء لابي زرعة الرازي 2؍566 ]
تنبیہ :
یہ قول باسند صحیح امام ابوحاتم رازی سے ثابت نہیں ہے۔
⑥ شیخ البانی رحمہ اللہ نے محمد بن طاہر سے نقل کیا کہ من غلاة الروافض، روي المناكير عن المشاهير [ الضعيفة 3؍383ح 1237نيز ديكهئے اقوالِ تعديل نمبر : 10 ]
⑦ بوصیری نے اس کی روایت کو ضعیف کہا ہے۔ دیکھئے : یہی مضمون [ تنبيه : 1 ]
ان اقوال کے مقابلے میں :
① امام دار قطنی نے فرمایا : شيعي صدوق [سوالات الحاكم : 425 ]
② ابن خزیمہ نے کہا: ناعباد بن يعقوب . المتهم فى رأيه، الثقة فى حديثه [صحيح ابن خزيمه2؍376، 377ح 1497 ]
③ حاکم نے اس کی حدیث کو صحیح کہا۔ [ المستدرك2؍492ح3820، 3؍154ح 4731 ]
④ الضیاء المقدسی نے المختارۃ میں اس سے حدیث لی۔ [ المختارة 2؍183ح562 ]
⑤ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا: صدوق فى الحديث، رافضي جلد [ ذكر أسماء من تكلم فيه وهو مؤثق : 106 ]
نیز دیکھئے سیر اعلام النبلاء [11؍536] و میزان الاعتدال [2؍379، 380]
⑥ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں، متابعات میں عباد بن یعقوب سے روایت لی۔ [ صحيح البخاري : 7534 ]
⑦ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس کی بیان کردہ حدیث کو حسن کہا۔ [ مجمع الزوائد5؍111 ]
⑧ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: صدوق رافضي، حديثه فى البخاري مقرون، بالغ ابن حبان فقال : يستحق الترك [تقريب التهذيب : 3153]
نیز دیکھئے ہدی الساری [ص412] و فتح الباری [13؍510]
⑨ ابن العماد نے کہا: الحافظ الحجة [ شذرات الذهب 2؍121اوفيات250ه ]
⑩ محمد بن طاہر الفتنی نے کہا: رافضي داعية إلا أنه ثقة صدوق . . . [ تذكرة الموضوعات ص266 ]
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عباد بن یعقوب جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہے لہٰذا وہ حسن الحدیث ہے اور باقی سند حسن ہے۔
خلاصۃ التحقیق : یہ روایت حسن ہے۔
تنبیہ ➊
إذاأنا مت فاغسلوني بسبع قرب من بئري بئر غرس
” ’’ جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے میرے کنویں بئرغرس کی سات مشکوں سے غسل دینا۔ “ [ح1468 وقال البوصيري : “ هذا إسناد ضعيف، عباد بن يعقوب۔۔۔ ’’ إلخ ]
راقم الحروف نے تسہیل الحاجہ میں اسے إسناده ضعيف لکھا ہے۔ [قلمي ص100] شیخ البانی [ الضعيفة : 1237 ]
اور بوصیری اس روایت کو ضعیف کہتے ہیں لیکن انصاف یہ ہے کہ ابن ماجہ والی روایت بلحاظ سند حسن ہے، اسے الضیاء المقدسی نے المختارۃ میں بیان کیا ہے [2؍183ح526 ]
لہٰذا میں اپنی پہلی تحقیق سے رجوع کرتا ہوں والله الموفق
تنبیہ ➋
مگر اس میں سے کچھ بھی باسند و صحیح حسن ثابت نہیں ہے۔ والله اعلم
روایت نمبر ➋
طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ عنہ کا قصہ
سیدنا طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ عنہ سے منسوب یہ قصہ ابن إسحاق عن عثمان بن الحويرث عن صالح بن كيسان کی سند سے درج ذیل کتابوں میں منقول ہے :
الاستیعاب لابن عبدالبر [2؍232] سیر أعلام النبلاء للذھبی [1؍345]
تنبیہ :
”السیرۃ النبویۃ“ لابن اسحاق (مطبوع )میں مجھے یہ روایت نہیں ملی۔
یہ سند تین وجہ سے ضعیف ہے :
① ابن اسحاق مدلس ہے اور یہ سند معنعن (عن سے ) ہے۔
② عثمان بن الحویرث کی توثیق نامعلوم ہے۔
③ صالح بن کیسان تابعی ہے لہٰذا یہ سند مرسل ہے۔
سیرت ابن ہشام [ عربي2؍22 ] دلائل النبوۃ للبیہقی [5؍360۔ 363] تاریخ دمشق لابن عسا کر [27؍9، 10] البدایۃ و النھایۃ [3؍96، 97] اور السیرۃ النبویۃ لابن کثیر [2؍72۔ 76] میں یہی روایت محمد بن اسحاق بن یسار سے مرسلاً منقطعاً، بغیر سند کے مروی ہے۔
اس روایت کی تائید میں بعض روایتیں مروی ہیں مثلاً دیکھئے : طبقات ابن سعد [4؍237، 239] و الاصابۃ [2؍225] و النبلاء [1؍344، 345]
ان روایتوں کی سندوں میں محمد بن عمر الواقدی اور الکلبی دونوں جھوٹے راوی ہیں۔
خلاصۃ التحقیق : یہ قصہ ثابت نہیں ہے۔
روایت نمبر ➌
کوڑا کرکٹ پھینکنے والی عورت کا قصہ
یہ بالکل بے اصل اور من گھڑت روایت ہے۔ ہمارے علم کے مطابق حدیث کی کسی کتاب میں بھی اس کی کوئی سند موجود نہیں ہے۔
روایت نمبر ➍
گٹھڑی والی عورت کا قصہ
یہ بھی بالکل بے اصل اور من گھڑت روایت ہے۔ اس قسم کی روایتیں واعظ نما قصہ گو حضرات نے گھڑی ہیں۔ والله أعلم