وعن أبى هريرة ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنما أنا لكم بمنزلة الوالد أعلمكم ، فإذا أتى أحدكم الغائط فلا يستقبل القبلة ، ولا يستدبرها ، ولا يستطب بيمينه ، ولا يتمسح بيمينه ، وكان يأمر بثلاثة أحجار ، وينهى عن الروث والرمة
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :” میں تمہارے لیے والد کے مقام پر ہوں تمہیں تعلیم دیتا ہوں ، جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لیے جائے تو اپنا رخ قبلہ کی طرف نہ کرے اور نہ اس کی طرف پیٹھ کرئے ، نہ اپنے دائیں ہاتھ سے صفائی کرے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے دھوئے ، اور آپ تین ڈھیلے استعمال کرنے کا حکم دیا کرتے تھے ، لید اور بوسیدہ ہڈی کے استعمال سے منع کیا کرتے تھے ۔“ ابوداؤد کے الفاظ ہیں ۔
تحقیق و تخریج : یہ حدیث حسن ہے ۔ ابوداؤد 8 ، ابن ماجه 313 ، نسائی : 1/ 38 ، ابن حبان : 128 ، البيهقي : 1/ 1112،102،91 ، ابن خزیمه : 80 ، مسلم : 265
وعن ابن عمر أنه كان يقول : إن ناسا يقولون إذا فقعدت على حاجتك فلا تستقبل القبلة ولا بيت المقدس ، قال عبد الله : لقد ارتقيت على ظهر بيت لنا فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم على لبنتين مستقبل بيت المقدس لحاجته
عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ جب تو قضائے حاجت کے لیے
بیٹھتا ہے نہ قبلہ کی طرف منہ کیا کر اور نہ ہی بیت المقدس کی طرف ، حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ قضائے حاجت کے لیے دو اینٹوں پر بیت المقدس کی طرف منہ کیے بیٹھے تھے ۔ امام مالک نے اس سے طویل حدیث نقل کی ہے ۔ اور فی الجملہ تمام کے ہاں ہے ۔
تحقیق و تخریج : بخاری : 148 ، مسلم : 266 ، موطا امام مالك ۔
فوائد :
➊ ایسی جگہ جہاں کوئی دیوار و مکان نہ ہو خالی میدان ہو وہاں حاجت کے وقت قبلہ سمت اپنا رخ و چہرہ نہ کرنا چاہیے، نہ پیٹھ کر کے بیٹھنا چاہیے، شمال جنوب سمت کو استعمال کرنا چاہیے، اگر چار دیواری ہو محفوظ بیت الخلا ہوں تو ادب کا تقاضا یہ ہے کہ پھر بھی پیٹھ کرنے سے گریز کیا جائے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھت کی لیٹرین میں قبلہ رخ بیٹھے تھے ۔
➋ حاجت کے وقت استنجا کے لیے تین سے کم ڈھیلے یا پتھر نہیں ہونے چاہئیں ۔ لید ، ہڈی ، گوبر سے استنجا کرنا منع ہے نیز ہڈی نرم جسم کو نقصان دے سکتی ہے اور ویسے بھی یہ جنوں کا توشہ ہیں ۔
➌ جیسے بیت اللہ مقدس ہے اسی طرح بیت المقدس بھی محترم مقام ہے دونوں کا احترام ہم پر لازم ہے ۔
➍ گھروں کے صحنوں میں یا چھتوں پر لیٹرین بنانا جائز ہے اور گھروں کی چھتوں پر چڑھنے کے لیے سیڑھی یا کوئی اور ذریعہ استعمال کرنا جائز ہے ۔ گھر کی چھت پر پردوں کا انتظام ضروری ہے جس سے دوسرے گھروں میں نظر نہ پڑے بیت الخلاء میں بیٹھنے کے لیے اینٹیں پتھر رکھے جا سکتے ہیں تاکہ گندلے پانی یا بول کے چھینٹوں سے محفوظ رہا جا سکے ۔
➎ ایک نبی اپنی قوم کی ہر طرح کی راہنمائی کرتا ہے حتی کہ قضائے حاجت کے انداز بھی بتاتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انما انا لكم بمنزلة الوالد اعلمكم ”میں تمہیں سکھاتا ہوں کیونکہ میں تمہارے والد جیسا ہوں ۔“ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ والد اپنی اولاد کا ذمہ دار اور مسؤل ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو رہنے سہنے کے ڈھنگ بتائے ان سے پل اوربھر بھی غافل نہ ہو ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :” میں تمہارے لیے والد کے مقام پر ہوں تمہیں تعلیم دیتا ہوں ، جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لیے جائے تو اپنا رخ قبلہ کی طرف نہ کرے اور نہ اس کی طرف پیٹھ کرئے ، نہ اپنے دائیں ہاتھ سے صفائی کرے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے دھوئے ، اور آپ تین ڈھیلے استعمال کرنے کا حکم دیا کرتے تھے ، لید اور بوسیدہ ہڈی کے استعمال سے منع کیا کرتے تھے ۔“ ابوداؤد کے الفاظ ہیں ۔
تحقیق و تخریج : یہ حدیث حسن ہے ۔ ابوداؤد 8 ، ابن ماجه 313 ، نسائی : 1/ 38 ، ابن حبان : 128 ، البيهقي : 1/ 1112،102،91 ، ابن خزیمه : 80 ، مسلم : 265
وعن ابن عمر أنه كان يقول : إن ناسا يقولون إذا فقعدت على حاجتك فلا تستقبل القبلة ولا بيت المقدس ، قال عبد الله : لقد ارتقيت على ظهر بيت لنا فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم على لبنتين مستقبل بيت المقدس لحاجته
عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرمایا کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ جب تو قضائے حاجت کے لیے
بیٹھتا ہے نہ قبلہ کی طرف منہ کیا کر اور نہ ہی بیت المقدس کی طرف ، حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ قضائے حاجت کے لیے دو اینٹوں پر بیت المقدس کی طرف منہ کیے بیٹھے تھے ۔ امام مالک نے اس سے طویل حدیث نقل کی ہے ۔ اور فی الجملہ تمام کے ہاں ہے ۔
تحقیق و تخریج : بخاری : 148 ، مسلم : 266 ، موطا امام مالك ۔
فوائد :
➊ ایسی جگہ جہاں کوئی دیوار و مکان نہ ہو خالی میدان ہو وہاں حاجت کے وقت قبلہ سمت اپنا رخ و چہرہ نہ کرنا چاہیے، نہ پیٹھ کر کے بیٹھنا چاہیے، شمال جنوب سمت کو استعمال کرنا چاہیے، اگر چار دیواری ہو محفوظ بیت الخلا ہوں تو ادب کا تقاضا یہ ہے کہ پھر بھی پیٹھ کرنے سے گریز کیا جائے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھت کی لیٹرین میں قبلہ رخ بیٹھے تھے ۔
➋ حاجت کے وقت استنجا کے لیے تین سے کم ڈھیلے یا پتھر نہیں ہونے چاہئیں ۔ لید ، ہڈی ، گوبر سے استنجا کرنا منع ہے نیز ہڈی نرم جسم کو نقصان دے سکتی ہے اور ویسے بھی یہ جنوں کا توشہ ہیں ۔
➌ جیسے بیت اللہ مقدس ہے اسی طرح بیت المقدس بھی محترم مقام ہے دونوں کا احترام ہم پر لازم ہے ۔
➍ گھروں کے صحنوں میں یا چھتوں پر لیٹرین بنانا جائز ہے اور گھروں کی چھتوں پر چڑھنے کے لیے سیڑھی یا کوئی اور ذریعہ استعمال کرنا جائز ہے ۔ گھر کی چھت پر پردوں کا انتظام ضروری ہے جس سے دوسرے گھروں میں نظر نہ پڑے بیت الخلاء میں بیٹھنے کے لیے اینٹیں پتھر رکھے جا سکتے ہیں تاکہ گندلے پانی یا بول کے چھینٹوں سے محفوظ رہا جا سکے ۔
➎ ایک نبی اپنی قوم کی ہر طرح کی راہنمائی کرتا ہے حتی کہ قضائے حاجت کے انداز بھی بتاتا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انما انا لكم بمنزلة الوالد اعلمكم ”میں تمہیں سکھاتا ہوں کیونکہ میں تمہارے والد جیسا ہوں ۔“ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ والد اپنی اولاد کا ذمہ دار اور مسؤل ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو رہنے سہنے کے ڈھنگ بتائے ان سے پل اوربھر بھی غافل نہ ہو ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]