عورت کا عورتوں یا اپنے خاوند کے سامنے رقص کرنے کا حکم
سوال :
عورت کا اپنے خاوند کے سامنے رقص کرنا ، اور اسی طرح عورتوں کے ساتھ مل کر یعنی ڈانس کرنا اور اسی طرح مردوں کے دھمال اور بھنگڑا ڈالنے کے متعلق ہم یہ تو جانتے ہیں کہ بلاشبہ یہ حرام ہے ، لیکن اس کے حرام ہونے کی دلیل کیا ہے ؟ ہمیں جواب سے نوازیں ۔ جزاکم اللہ خیراً
جواب :
یہ سوال تین چیزوں کو پر مشتمل ہے :
اولاً :
عورت کا اپنے خاوند کے سامنے رقص اور ڈانس کرنا ۔
ثانیا :
عورت کا اپنے جیسی عورتوں کے ساتھ مل کر ڈانس اور رقص کرنا ۔
ثالثا :
مردوں کا دھمال اور بھنگڑا ڈالنا ۔
پہلا امر :
اور وہ یہ ہے کہ عورت کا اپنے خاوند کے سامنے رقص کرنا ، اگر تو وہ فطری رقص ہے تو ممنوع نہیں ہے ، یعنی اس نے باقاعدہ رقص کی تعلیم حاصل کر کے اس کو نہیں سیکھا ہے ، جیسا کہ یہ دور حاضر کا جدید فیشن ہے ۔ اور اگر عورت کا وہ رقص مرد کی شہوت کو تحریک دینے والا ہو تو اس رقص کی حر مت پر کوئی نص موجود نہیں ہے ، بشرطیکہ یہ رقص میاں بیوی کے درمیان ہی ہو ۔
لیکن اگر اس نے اس رقص کو بطور مشغلہ کے اختیار کر رکھا ہو اور موجودہ دور میں چلنے والے رقص کے باقاعدہ اصول و ضوابط پڑھے اور سیکھے ہوں تو یہ جائز نہیں ہے ، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اگر وہ اپنے خاوند کے سامنے رقص کرتی ہے تو وہ کبھی اپنے خاوند کے علاوہ کسی اور کے سامنے بھی رقص کرے گی ۔
رہا اس کا عورتوں کے سامنے رقص کرنا ؟ تو میں کہوں گا : اگر تو اس رقص سے مراد موجودہ دور کا رقص ہے تو یہ بالکل واضح ہے ، بلاشبہ وہ جائز نہیں ہے ، اور اگر کہا جائے : آپ کے اس قول کی دلیل کیا ہے ؟ تو میں کہوں گا : بلاشبہ معاملات میں اعتدال و میانہ روی بہت نادر ہے ، اکثر افراط و تفریط کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ، خاص طور پر جب لوگ ایک مخصوص چیز سے انحراف کر کے لمبا عرصہ زندگی گزار چکے ہو تو جب ان کے سامنے حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہ چیز جس میں وہ مبتلا ہیں اس میں شریعت سے انحراف پایا جاتا ہے اور شریعت اس کے درست ہونے کا انکار کرتی ہے تو وہ (بجائے مان لینے کے ) شریعت سے اعراض و انحراف کرتے ہیں ، پس اس سے اس کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہو جاتا ہے ۔
اور یہ ہے وہ چیز جس کا ہمیں دور حاضر میں سامنا ہے ، عام مسلمانوں نے کئی صدیاں ایسی گزاری ہیں کہ وہ اس کے علاوہ کسی چیز سے واقف نہ تھے ، یہ فلاں مذہب ہے ، یہ فلاں مذہب ہے ، چار مذاہب اہل السنت والجماعت کے مذاہب ہیں اور یہ ان مذاہب سے جدا ہیں جو مذہب اہل سنت والجماعت کے طریقے سے ہٹے ہوئے ہیں ، رہا قال اللہ وقال الرسول پر اعتماد تو یہ ان زمانوں میں موجود تھا جس کے خیر و بہتر ہونے کی (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ) گواہی دی گئی ہے ، پھر ایک عرصہ تک یہ اعتماد ختم رہا حتی کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہے اور ان کے مخلص شاگردوں کا دور آیا تو انہوں نے مسلمانوں کو اس بات سے خبردار کیا کہ سلف کے کتاب وسنت پر اعتماد والے منہج کی طرف لوٹ جانا واجب ہے ۔
اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگردوں کی اس دعوت کا بڑا اچھا اثر تھا ، لیکن ان کے دور میں اس کا حلقہ انتہائی کمزور تھا اور فکری جمود عام لوگوں پر ہی نہیں بلکہ خاص لوگوں پر بھی غالب و طاری رہا ، پھر اس کے بعد وہ دور آیا کہ یہ بیداری پھر سے دب کے رہ گئی جس کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے پیدا کیا تھا ، اور لوگ پھر سے فقہی جمود کا شکار ہو گئے ، سوائے اس دور کے اور کچھ تھوڑا سا اس سے پہلے کے دور میں ، چنانچہ بہت سے علماء کھڑے ہوئے جنھوں نے اس بات سے خبردار کیا کہ کتاب وسنت کی طرف رجوع کی ضرورت کی دعوت کی تجدید ہونی چاہیے اور اس کام کی طرف سبقت کرنے والے شیخ محمد بن عبد الوہاب جانتے تھے ، کیونکہ انہوں نے فی الواقع کتاب وسنت کی اتباع کی طرف دعوت دی ، لیکن ان علاقوں کی طرف دیکھتے ہوئے جن میں شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے ملک میں نجدی عرب زندگی بسر کر رہے تھے اور ان بت پرستوں کی صورت پر غور و فکر کرتے ہوئے جو شیخ کے علاقوں میں آباد تھے ، اس وقت شیخ کی سب سے بڑی کوشش اور کا و ش توحید کی دعوت کو کھڑا کرنے کا اہتمام تھا ۔
اور جہاں تک میرا خیال ہے کہ یہ ایک انتہائی طبعی معاملہ ہے کہ بے شک انسان کی طاقت محدود ہے ، پس وہ جیسے لوگ کہتے ہیں چو مکھی لڑائی نہیں لڑ سکتا ، اسی بنا پر شیخ کی تمام کاوشیں دعوت توحید کو پھیلانے اور اسباب شرک و بت پرستی کے خلاف لڑنے پر صرف ہوئیں ، اور وہ اس معاملہ میں بہت زیادہ توفیق دیے گئے اور بعد میں ان کی یہ پاکیزہ دعوت عالم اسلام میں پھیل گئی ، اور انتہائی افسوس کہ ان کے اور ان کے مخالفین کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں ۔ اپنی مخلوق کے متعلق اللہ تعالیٰ کی یہی سنت اور طریقہ ہے اور تم اللہ تعالیٰ کے طریقے کو بدلا ہوا نہیں پاؤ گے ۔
لیکن موجودہ دور میں بعض علماء نے کتاب وسنت کی دعوت کی تجدید کا اہتمام کیا اور عربی ممالک میں عام اور خاص حلقوں میں اس مسئلہ میں کافی بیداری پیدا ہوئی ، لیکن عجمی ممالک کے متعلق افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی بیہوشی میں ہی مبتلا رہے ۔
مگر ان عرب ممالک میں ایک کمزوری باقی رہی ، جس کی طرف میں نے ابھی اشارہ کیا ہے وہ یہ کہ ان میں سے بعض لوگوں میں میانہ روی نہیں تھی ، بلکہ وہ ایک چیز سے آگاہ تھے تو دوسری چیز سے یکسر جاہل تھے ، پس آپ ان میں سے عامی شخص کو ، جو کچھ بھی سمجھ بوجھ نہیں رکھتا ، دیکھیں گے کہ جب وہ کسی عالم سے کوئی مسئلہ دریافت کرتا ہے کہ اس کا حکم کیا ہے ؟ خواہ اس کا جواب نفی اور منع میں ہی ہو مگر وہ جلدی سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس کی دلیل کیا ہے ؟
اور بعض اوقات اس عالم کے لیے دلیل پیش کرنا ممکن نہیں ہوتا ، خصوصاًً جب دلیل استنباط کی ہوئی ہو ، اور کتاب و سنت میں وہ مسئلہ منصوص علیہ نہیں ہوتا کہ اس کی دلیل پیش کی جائے ، لہٰذا اس قسم کے مسئلہ میں سائل کے لیے یہ لائق نہیں ہے کہ وہ گہرائی اور باریکی میں جاتے ہوئے کہے : اس (مسئلہ) کی دلیل کیا ہے ؟ اسے اپنے نفس کو پہچاننا چاہیے کہ کیا وہ اہل دلیل میں سے ہے یانہیں ؟ کیا اس کے پاس عام و خاص مطلق و مقید اور ناسخ و منسوخ کی معرفت کا علم ہے ؟ جبکہ صورت حال یہ ہے کہ وہ ان میں سے کسی چیز کو بھی نہیں سمجھتا ہے تو کیا اس کو یہ کہنا مفید ہو گا : اس کی دلیل کیا ہے ؟ اور اس کی بنیاد کیا ہے ؟
میں کہتا ہوں : عورت کے اپنے خاوند کے سامنے رقص کرنے یا عورت کے اپنی مسلمہ بہن کے سامنے رقص کرنے کے جائز یا ممنوع ہونے پر اور مردوں کے وھمال اور بھنگڑا ڈالنے کے حکم پر وہ سائل دلیل چاہتا ہے تو فی الحقیقت ہمارے پاس اس مسئلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی منصوص دلیل موجود نہیں ہے ، اس کی دلیل کا انداز تو صرف نظر وفکر ، استنباط اور تفقہ ہوگا ۔
اسی لیے ہم بعض اوقات کہتے ہیں : ہر مسئلہ ایسا(16-النحل:43)نہیں ہے کہ اس پر تفصیلی دلیل ہو جس کو کوئی مسلمان سمجھ سکے ، خواہ وہ عام آدمی ہو یا جاہل ہو یا وہ طالب علم ہو ، اور مسائل میں سے ہر مسئلہ کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (16-النحل:43)
”اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے سوال کر لو ۔ “
حد اعتدال سے تجاوز کرنے کا ایک انداز ، جس کی طرف میں نے ابھی اشارہ کیا ہے ، یہ بھی ہے کہ لوگوں میں سے جاہل (استنباطی) دلیل سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے ۔ بلاشبہ بہت سے کتاب وسنت کی طرف دعوت کی طرف منسو ب لوگ تہمت لگاتے ہیں کہ عالم سے جب کسی مسئلہ کے متعلق سوال کیا جائے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس میں ”قال اللہ “ اور ”قال الرسول “ کہے ۔
میں کہتا ہو : یہ واجب نہیں ہے اور یہ سلف صالحین رضی اللہ عنہم کے منہج اور ان کی سیرتوں کی طرف منسو ب فوائد میں سے ایک ہے ، اور ان کے فتوی جات ، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ، استنباطی دلیل پر مشتمل ہوتے تھے ۔
سو اس بنا پر دلیل کا ذکر کرنا اس وقت واجب ہوتا ہے جب امر واقعی اس کا تقاضا کرتا ہو ، لیکن اس پر واجب نہیں ہے کہ جب بھی اس سے کوئی سوال دریافت کیا جائے تو وہ کہے : اللہ نے یوں فرمایا ، یا اس مسئلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا یہ ارشاد ہے ، خصوصاًً جب وہ مسئلہ فقہ کے دقیق اور اختلافی مسائل میں سے ایک ہو ۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ [النحل : 43] کا اولاً تقاضا یہ ہے کہ آپ کے ذمہ مطلق طور پر واجب ہے کہ آپ اس شخص سے سوال کریں جس کے متعلق آپ کو گمان ہو کہ وہ اہل علم میں سے ہے ، پس جب آپ اس سے پوچھے گئے سوال کا جواب سن لیں تو آپ پر اتباع واجب ہوگا ، الا یہ کہ آپ کو کوئی شبہ ہو جس کے متعلق آپ نے کسی اور عالم سے کچھ سن رکھا ہو تو اس شبے کو پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، لہٰذا تب اس عالم پر واجب ہوگا کہ اس سائل کو جو شبہہ در پیش ہے وہ اپنے علم کے مطابق اس شیبہ کو دور کرنے کی پوری کوشش کرے ۔
خلاصہ کلام :
عورت کا اپنے خاوند کے سامنے رقص کرنا مذکورہ قید کے ساتھ جائز ہے ، لیکن عورت کا اپنے جیسی دیگر عورتوں کے سامنے رقص کرنے کی بھی دوصورتیں ہیں ، جس طرح میں نے ابھی خاوند کے سامنے رقص کرنے کی دو صورتیں بیان کی ہیں : اگر رقص اس کا مشغلہ نہ ہو بلکہ اس میں صرف ہاتھوں کو ہلا کر تفریح کا اہتمام کیا جائے ، اور اس میں سرین اور دیگر اعضاء کو یوں حرکت نہ دی جائے کہ اس سے نفس میں ( گناہ و زنا کی) تحریک پیدا ہو ، یا اس سے (رقص کرنے والی کے بدنیت و بد کردار ہونے کے ) شبہات پیدا ہوں تو اگر اس مذکورہ انداز کو رقص کہا جا سکتا ہے تو یہ رقص کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن اگر مذکورہ خرابیوں میں سے کوئی خرابی اس رقص میں موجود ہو تو پھر اس میں اصل یہ ہے کہ اس سے روک دیا جائے ، رہا مردوں کا دھمال ، پس اگر تو ، وہ اس دھمال سے مشابہت رکھتا ہے جس کو عموماًً ہم صرف گانے کے ساتھ ملا ہوا دیکھتے ہیں ، چہ جائیکہ اس میں غیر مشروع الفاظ ہوں تو لہو و تفریح کا یہ انداز ایسا نہیں ہے کہ اس میں رغبت اور دلچسپی ظاہر کی جائے بلکہ اس سے کنارہ کشی کرنا ہوگی ، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
كل لهو يلهو به ابن آدم ، باطل ، إلا مداعبته لامرأته ، وملاعبته لفرسه ، ور ميه بقوسه والسباحة [صحيح سنن الترمذي ، رقم الحديث 1637 ]
”ہر وہ کھیل جس سے ابن آدم غفلت کا شکار ہو جاتا ہے وہ باطل ہے اور اگر کوئی کھیل جائز ہے تو وہ یہ کہ آدمی اپنی بیوی کے ساتھ دل لگی ، گھوڑے ، تیر چلانے اور تیراکی کا کھیل کھیلے ۔“
تو ہم اس حدیث سے یہ دیکھتے ہیں کہ مذکورہ رقص باطل ہے اور جب اس کھیل کی یہ حالت ہے ، جو وہ کسی بھی لحاظ سے غیر مشروع چیز سے محفوظ ہو ، کہ وہ کنارہ کشی کیے جانے کے لائق ہے ، حق اور جائز نہیں ہے ، تو تب تو ہم کہیں گے : مذکورہ رقص جائز تو ہے لیکن اس حدیث کے پیش نظر ، جو ابھی ہم نے ذکر کی ہے ، وہ راحج نہیں بلکہ مرجوح ہے ۔
پس میرے گمان کے مطابق (واللہ اعلم) بلاشبہ میں اس قسم کے دھمال کے متعلق یہ گواہی نہیں دیتا کہ اس کا خلاف شرع چیزوں سے محفوظ ہونا ممکن نہیں ، اور یہ اس طرح مثلاًً ہم بعض اوقات دھمال سنتے ہیں جس میں موسیقی شامل ہوتی ہے اور ادھر سے مؤذن اذان دے رہا ہوتا ہے اور امام قرآن کی جہری قرأت کر رہا ہوتا ہے ، لیکن وہ ان میں سے کسی چیز کی طرف توجہ نہیں دیتے بلکہ وہ اپنے اس لہو ولعب میں مگن رہتے ہیں ۔
تب تو یہ دھمال مرجوح لہو ولعب سے ہوگا ۔ اور ہم یہ نہیں کہیں گے کہ وہ حرام ہے ، الا یہ کہ اس کے ساتھ کسی بھی پہلو سے کوئی خلاف شرع چیز ملی ہوئی ہو تو اس وقت یہ بلاشبہ حرام ہو گا ۔
(محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ )