اعتکاف کے لیے نیت
سوال : کیا دیگر اعمال کی طرح اعتکاف کے لیے بھی نیت کرنا ضروری ہے؟
جواب : چونکہ اعتکاف عبادت ہے اس لیے اس کے لیے بھی نیت ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر عبادت کے لیے نیت کو لازمی قرار دیا ہے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« اِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ» [بخاري، كتاب بدء الوحي : باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم 1]
”تمام اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔“
لیکن یہ یاد رہے کہ اس کے لیے زبان سے کوئی تلفظ ثابت نہیں۔ یہ دل کا فعل ہے۔ بعض لوگوں نے مسجد میں داخل ہو کر اعتکاف کے لیے : «نَوَيْتُ سُنَّةَ الْاِعْتِكَافِ» (میں نے اعتکاف کی نیت کی) کے الفاظ مختص کر رکھے ہیں، یہ غلط ہیں اور کسی حدیث سے ثابت نہیں ہیں، اس لیے ان سے بچنا چاہیے۔
جائے اعتکاف میں کس وقت داخل ہونا چاہیے
سوال : جائے اعتکاف میں کس وقت داخل ہونا چاہیے اور اعتکاف میں جائز امور کون کون سے ہیں؟
جواب : اعتکاف کے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے۔ [بخاري، ابواب الاعتكاف : باب الاعتكاف فى العشر الاواخر 2026]
دوسری حدیث ہے :
”سیدہ عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف بیٹھنے کا ارادہ کرتے تو فجر کی نماز پڑھ کر جاتے“۔ [ابوداؤد، كتاب الصيام : بالاعتكاف : 2464]
ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے عام اہلِ علم یہ بات لکھتے ہیں کہ آخری عشرہ کا آغاز بیس رمضان کا سورج غروب ہوتے ہی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا معتکف کو چاہیے کہ اکیسویں رات شروع ہوتے ہی مسجد میں آ جائے۔ رات بھر تلاوتِ قرآن، ذکر، تسبیح و تہلیل اور نوافل میں مصروف رہے اور صبح نمازِ فجر ادا کر کے اپنے اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جائے۔
جبکہ دوسرا موقف جو ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کا آغاز نمازِ صبح کے بعد کرتے اکیس یا بیس کی صبح کو، اس کا تعین واضح نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ معتکف بیس رمضان کی فجر کی نماز پڑھ کر اعتکاف کا آغاز کرے تاکہ اکیس کی رات معتکف میں آئے کیونکہ اعتکاف لیلۃ القدر کی تلاش کا ایک ذریعہ ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر میں دو عشرے اعتکاف کیا۔ نہ ملی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے اور آخری عشرے کا اعتکاف کیا، تسلسل بھی جاری رکھا حتیٰ کہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کر رہے تھے ان میں سے بعض بیسویں کی صبح اپنا بوریا بستر اٹھا کر گھر میں بھی پہنچا چکے تھے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا : ”جو میرے ساتھ اعتکاف کر رہا ہے وہ اپنے اعتکاف کو جاری رکھے۔“ بیسویں رمضان تھی اور صحابہ نے پھر سے آخری عشرے کا آغاز کر دیا۔ [بخاري، كتاب الاعتكاف : باب الاعتكاف فى العشر الاواخر 2027]
ذرا غور فرمایئں کہ اگر آخری عشرے کا اعتکاف اکیسویں رات بعد از آفتاب شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیسویں کے دن کا اعتکاف صحابہ رضی اللہ عنہم سے کیوں کروایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اکیسویں رات ہی کو بلا لیتے اور کہہ دیتے کہ تم نے معتکف تو توڑ پھوڑ دیا ہے اب رات مسجد میں گزارو اور کل صبح یعنی اکیسویں کی صبح کی نماز کے بعد دوبارہ داخل ہو جاؤ۔ (مولانا عبدالسلام بستوی کے ”اسلامی خطبات“) ان حضرات کا یہ کہنا ہے کہ اگر بیس کی صبح کو مسجد میں آ جائے تو ذہنی طور پر لیلۃ القدر کی تلاش کے لیے اکیسویں کو پورا تیار ہو جاتا ہے جبکہ دوسرے موقف کے لحاظ سے اکیسویں رات جائے اعتکاف سے باہر گزار دی اور اعتکاف کے ارادے سے اکیس کی صبح کو معتکف میں داخل ہوا تو آخری عشرے سے ایک رات خارج ہو جائے گی جو ایک نقص بھی ہے، لہٰذا زیادہ مناسب اور موزوں یہ ہے کہ بیسویں کی صبح کو مسجد میں آ جائے اور نماز کی ادائیگی کے بعد اپنے معتکف میں تیار ہو کر بیٹھ جائے۔ اس صورت میں دونوں احادیث پر بہتر عمل ہو جائے گا صرف آخری عشرہ سے 12 گھنٹوں کا اضافہ ہو گا اور اس اضافے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حافظ عبداللہ بہاولپوری رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی موقف کے قائل تھے اور یہ موقف مبنی بر احتیاط ہے۔ «والله اعلم»
جائز امور : معتکف کے لیے حالتِ اعتکاف میں نہانا، سر میں کنگھی کرنا، تیل لگانا اور ضروری حاجات مثلاً پیشاب، پاخانہ، فرض غسل وغیرہ کے لیے جانا درست ہے اور اعتکاف بیٹھنے والے کو بلاعذرِ شرعی اپنے معتکف سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ [بخاري 272/1]
دوران اعتکاف ممنوع افعال
سوال : مہربانی فرما کر ان امور کے متعلق آگاہی فرما دیں اعتکاف میں جن سے رک جانا چاہیے؟
جواب :
➊ جماع و ہم بستری کرنا۔ [البقرة : 187، ابن أبى شيبة 29/3، عبدالرزاق 363/4]
➋ بیمار پرسی کے لیے باہر نکلنا۔
➌ کسی کے جنازے میں شریک ہونا۔
➍ کسی ضروری حاجت کے بغیر باہر نکلنا۔ [أبوداؤد، كتاب الصيام : باب المعتكف يعود المريض 2473، بيهقي 317/4]
خواتین کا اعتکاف
سوال : بعض خواتین گھر میں اعتکاف بیٹھ جاتی ہیں تو کیا ضروری ہے کہ خواتین بھی مسجد ہی میں اعتکاف کریں؟
جواب : خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ مسجد ہی میں آ کر اعتکاف بیٹھیں، ان کے لیے گھر میں اعتکاف بیٹھنے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
« ﴿وَلَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ﴾ » [البقرة : 187]
”اور تم ان عورتوں سے جماع نہ کرو اس حال میں کہ تم مسجدوں میں اعتکاف کرنے والے ہو۔“
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اعتکاف مسجد میں کیا جاتا ہے۔ ازواج مطہرات بھی مسجد ہی میں اعتکاف کیا کرتی تھیں جیسا کہ اس کے متعلق حدیث پیچھے بیان کر دی گئی ہے۔
دوران اعتکاف چند جائز کام
سوال : ہمیں ان کاموں کے متعلق بتا دیں جنھیں اعتکاف میں سر انجام دیا جا سکتا ہے؟
جواب :
➊ کسی ضروری حاجت کے لیے انسان مسجد سے نکل سکتا ہے۔ [بخاري، كتاب الاعتكاف : باب هل يخرج المعتكف بحوائجه إلى باب المسجد 2035]
➋ مسجد میں خیمہ لگانا۔ [بخاري، كتاب الاعتكاف : باب الأخبية فى المسجد 2034]
➌ اعتکاف کرنے والے کی بیوی اس سے ملاقات کے لیے مسجد میں آ سکتی ہے اور وہ بیوی کو محرم ساتھ نہ ہونے کی صورت میں گھر چھوڑنے تک ساتھ جا سکتا ہے۔ [بخاري، كتاب الاعتكاف : باب هل يخرج المعتكف لحوائجه يلي باب المسجد 2034]
➍ استحاضہ کی بیماری میں مبتلا عورت اعتکاف کر سکتی ہے۔ [بخاري، كتاب الاعتكاف : باب اعتكاف المستحاضة 2037]
➎ اعتکاف کرنے والا اپنا سر مسجد سے باہر نکال سکتا ہے اور اس کی بیوی حالتِ حیض میں بھی ہو تو اسے کنگھی کر سکتی ہے اور اس کا سر دھو سکتی ہے۔ [بخاري، كتاب الاعتكاف : باب الحائض ترجل رأس المعتكف 2028، 2029]