سوال : مہربانی فرما کر ہماری رہنمائی فرما دیں کہ اعتکاف کی شرعی حیثیت کیا ہے اور یہ کہ یہ کس رات سے شروع ہوتا ہے؟
جواب : لغوی اعتبار سے اعتکاف کا معنی کسی چیز پر جم کر بیٹھ جانا اور نفس کو اس کے ساتھ لگائے رکھنا ہے، اور شرعی اعتبار سے تمام دنیاوی معاملات ترک کر کے عبادت کی نیت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی خاطر مسجد میں ٹھہرنے کا نام اعتکاف ہے۔
اعتکاف بیٹھنے والے کو «مُعْتَكِف » اور جائے اعتکاف کو «مُعْتَكَف » کہا جاتا ہے۔ اعتکاف سال میں کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شوال کے مہینے کا اعتکاف بھی ثابت ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں ہمیشہ اعتکاف بیٹھتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے درمیانے عشرے کا بھی اعتکاف کیا ہے لیکن افضل آخری عشرے کا اعتکاف ہے۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے جا ملے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
«ان النبى صلى الله عليه وسلم كان يعتكف العشر الاواخر من رمضان حتى توفاه الله، ثم اعتكف ازواجه من بعده » [بخاري، ابواب الاعتكاف : باب الاعتكاف فى العشر الاواخر 2026]
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا کرتے تھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فوت کر دیا پھر آپ کے بعد آپ کی بیویاں اعتکاف کرتی تھیں۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
«ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعتكف فى العشر الاوسط من رمضان، فاعتكف عاما حتى إذا كان ليلة إحدى وعشرين، وهى الليلة التى يخرج من صبيحتها من اعتكافه، قال: من كان اعتكف معي، فليعتكف العشر الاواخر» [بخاري، ابواب الاعتكاف : باب الاعتكاف فى العشر الاواخر 2027]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے درمیانے عشرے کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔ ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسبِ معمول اعتکاف کیا، جب اکیسویں رات ہوئی، یہ وہ رات تھی جس کی صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اعتکاف سے نکلتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرے کا بھی اعتکاف بیٹھے۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
«كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا اراد ان يعتكف صلى الصبح، ثم دخل المكان الذى يريد ان يعتكف فيه» [ابن ماجه، كتاب الصيام : باب: ما جاء فيمن يبتدئ الاعتكاف وقضاء الاعتكاف 1771، نسائي 710، احمد 24598]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو فجر کی نماز پڑھ کر اپنی جائے اعتکاف میں داخل ہو جاتے۔“ اعتکاف کے طریقے کے متعلق اہلِ علم کے دو اقوال ہیں :
➊ ایک قول یہ ہے کہ اعتکاف مسنون آخری عشرے کا ہے اور آخری عشرے کا آغاز بیس رمضان کا سورج غروب ہوتے ہی ہو جاتا ہے لہٰذا معتکف کو چاہیے کہ وہ اکیسویں رات شروع ہوتے ہی مسجد میں آ جائے، رات بھر تلاوتِ قرآن، ذکر الٰہی، تسبیح و تہلیل اور قیام میں مصروف رہے اور نمازِ فجر ادا کر کے اپنے اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جائے۔
➋ دوسرا موقف یہ ہے کہ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عشرے کا اعتکاف کیا اور دوسری حدیث میں ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھ کر اعتکاف کی جگہ میں داخل ہوتے تھے لیکن اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ وہ اکیس کی یا بیس کی صبح ہے۔ بہتر یہ ہے کہ معتکف بیس رمضان کی فجر پڑھ کر اعتکاف کا آغاز کرے تاکہ آخری عشرے کی اکیسویں کی طاق رات جائے اعتکاف میں گزارے، کیونکہ اعتکاف لیلۃ القدر کی تلاش کا ایک ذریعہ ہے جیسا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح ہوتا ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ درمیانے عشرے کا اعتکاف کیا۔
کئی صحابہ کرام یہ اعتکاف کر کے اپنا بوریا بستر باندھ کر گھروں کو چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرے کا بھی اعتکاف کرے۔“ یہ بیس رمضان کو فرمایا تھا۔
غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ آخری عشرے کی اکیسویں رات بعد از غروبِ آفتاب شروع ہوتی ہے، آپ نے بیسویں کے دن کا صحابہ سے اعتکاف کروایا حالانکہ آپ انہیں رات کو بھی بلا سکتے تھے اور کہہ دیتے کہ تم نے اعتکاف کے مقام پر داخل ہونا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بیس کی صبح کو مسجد میں آ جائے تو ذہنی طور پر لیلۃ القدر کی تلاش کے لیے تیار ہو جائے گا اور جائے اعتکاف سے مانوس بھی ہو جائے گا۔ اس طرح اس کی اکیسویں رات معتکف میں گزرے گی۔ جب کہ دوسرے موقف کے لحاظ سے ان کی اکیسویں رات جائے اعتکاف سے باہر گزرے گی، جو ایک نقص بھی ہے لہٰذا زیادہ مناسب اور موزوں یہ ہے کہ بیسویں کی صبح کو مسجد میں آئے اور نماز ادا کرنے کے بعد اپنے معتکف میں تیار ہو کر بیٹھے۔ اس صورت میں دونوں احادیث پر عمل ہو جائے گا۔ صرف آخری عشرے سے بارہ گھنٹوں کا اضافہ ہو گا اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ «والله اعلم»
دوسرا موقف مبنی بر احتیاط ہے وگرنہ اعتکاف تو ایک دن یا رات کا بھی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
«ان عمر سال النبى صلى الله عليه وسلم، قال: كنت نذرت فى الجاهلية ان اعتكف ليلة فى المسجد الحرام، قال: فاوف بنذرك » [بخاري، ابواب الاعتكاف : باب الاعتكاف ليلا 2032]
”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک رات مسجد حرام میں اعتکاف کی نذر مانی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اپنی نذر پوری کرو۔“
معلوم ہوا کہ اعتکاف ایک عشرے سے کم کا بھی ہو سکتا ہے۔