ماہِ رجب کے کونڈے : حقیقت یا بدعت؟ ایک تحقیقی جائزہ
یہ اقتباس الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر (ترجمان سپریم کورٹ، الخبر، سعودی عرب) کی کتاب بدعات رجب و شعبان سے ماخوذ ہے۔

ماہ رجب کے کونڈے وغیرہ :۔

ماہ رجب میں ہی حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے نام کا حلوہ تقسیم کیا جاتا ہے۔ جو کہ رجب کے کونڈوں کی شکل میں ایک خود ساختہ عبادت کی شکل اختیار کیئے ہوئے ہے، ایسے ہی اسی ماہ میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کی ولادت کی رات میں مجلس قائم کی جاتی ہے اور شیخ جیلانی رحمہ اللہ کے نام پر جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔
اسی طرح خواجہ غریب نواز ، خواجہ بندہ نواز ، اور میراں داتا وغیرہ بزرگوں کے نام پر بھی جانور ذبح کیئے جاتے ہیں ، اور اُن مجالس میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے، طبلے بجائے جاتے ہیں عَلَمْ اٹھائے جاتے ہیں ، اور کئی ایسی دوسری برائیوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے ، جنہیں نہ صرف یہ کہ دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ کوئی سلیم الطبع انسان ان افعال کو گوارہ بھی نہیں کر سکتا، دین اسلام کے نام پر قائم کی جانے والی ان مجالس کو دین کی تعلیمات سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔
اور ہمارے پاک و ہند میں تو ایسے میلوں اور مجلسوں کی سارا سال بھر مار رہتی ہے ، جبکہ مصر کے خرافی لوگوں میں بدوی، رفاعی اور دسوقی کے نام پر ، شہر عدن میں عدسی ، اور ملک یمن میں زیلعی کے نام پر جو بدعات اپنائی جاتی ہیں ، تمام محققین علمائے اسلام اور اہل بصیرت، ان سب اعمال کے بدعت و ضلالت ہونے پر متفق ہیں ، اور جن لوگوں کو ان افعال کے جواز پر اصرار ہے، ان کا بھی شاید کوئی قصور نہیں ، کیونکہ حلوے نے ان کی عقل و دانش پر ایسے پردے ڈال رکھے ہیں کہ انہیں اُس کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔

بی بی کی صحنک اور رجبی وغیرہ :۔

بعض لوگ ماہِ رجب میں حضرت بی بی فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کے نام کی صحنک تیار کرتے ہیں، جس کے کھانے میں شرکت کرنے والی عورتوں میں بعض شرطوں کا پایا جانا ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ حضرت بی بی رضی اللہ عنہا کی صحنک کو مرد نہ کھائیں اور کوئی کنیز نہ کھائے ، وہ عورت بھی نہ کھائے جس نے دوسرا خاوند کیا ہے، جو نیچ قوم کا یا بدکار ہو وہ بھی نہ کھائے ، اور اس نیاز میں فلاں فلاں ترکاری ضرور ہی شامل ہو ، اور مہندی بھی ضرور ہو۔
اور کچھ لوگ اسی مہینہ میں رجبی مناتے ہیں، ان امور کی شریعت اسلامیہ میں کوئی دلیل نہیں بلکہ یہ خود ساختہ اور غیر اللہ کی نیازیں ہیں ، اور وہ بھی صرف برصغیر کی تیار کردہ۔

رجب کے کونڈے اور ایک افسانہ :۔

یہی حال حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کے کونڈوں کا بھی ہے، جن کے مدعوین مہمانوں یا بالفاظ دیگر ”کونڈہ خوروں“ کو پہلے یہ ہدایت کی جایا کرتی تھی کہ یہ اندر ہی اندر پکتے اور تیار کیئے جاتے ہیں، انہیں اندر ہی کھائیں ، اس مخصوص حلوے کو چھت کے نیچے تیار کیا جاتا ہے اور چھت کے نیچے ہی کھایا جاتا ہے اسے باہر نہیں لے جایا جا سکتا۔ اُن کی یہ بات محض اس حد تک تو بہر حال معقول ہے، اور وہ ٹھیک ہی تو کہتے ہیں کہ ایسی چیز کو چھت سے باہر لے جا کر نہیں کھائی جاتیں ، بلکہ یہ اندر کی چیز ہے، اسے اندر ہی رہنا چاہئے ، باہر تو وہی چیز لائی جاسکتی ہے جو مذہبی ، اخلاقی طبیعی اور معاشرتی ہر اعتبار سے جائز اور نا قابلِ اعتراض ہو، جبکہ یہاں کم از کم دینی و مذہبی اعتبار سے معاملہ اس کے برعکس ہے، کیونکہ کونڈوں کا آغاز کسی شرعی دلیل پر نہیں ہوا بلکہ یہ تو محض ایک قصے یا افسانے میں ظہور پذیر ہوئے ہیں، قرآن و سنت اور سلف امت کے یہاں یہ مروجہ فعل ثابت نہیں ہے۔
تو آئیے پہلے آپ کو ان کونڈوں کو وجہ جواز بخشنے والی ”داستان عجیب“ کا خلاصہ سنادیں ، لکڑ ہارے کی وہ داستان کچھ اس طرح ہے :
ایک لکڑ ہارا مدینہ منورہ میں تنگدستی کی زندگی بسر کر رہا تھا، رزق کی تلاش میں وہ مدینہ سے نکلا ، اور بارہ سال کہیں بھی خوش حالی کی جھلک نظر نہ آئی ، پیچھے بیوی نے وزیر کے گھر میں نوکری اختیار کر لی ، ایک دن جھاڑو دے رہی تھی کہ حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ کا وہاں سے گزر ہوا ، انھوں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا : آج کیا تاریخ ہے؟ کسی نے بتایا : آج رجب کی بائیس تاریخ ہے، فرمایا : اگر کوئی مشکل میں پھنسا ہو تو اس کو چاہیئے کہ نئے کونڈے لائے اور اُن میں پوریاں بھر کر میرے لیے فاتحہ پڑھے ، پھر میرے وسیلے سے دُعاء مانگے ، اگر اس کی حاجت روائی اور مشکل کشائی نہ ہوئی تو قیامت کے دن میرا دامن پکڑ لے، یہ سن کر لکڑ ہارے کی بیوی نے اس پر عمل کیا اور اپنے شوہر کے صحیح و سلامت اور مال و دولت کے ساتھ واپس لوٹ آنے کی دُعاء کی کونڈے اپنا رنگ دکھاتے ہیں، بارہ سال سے مارا مارا پھرنے والا لکڑ ہارا ایک مدفون خزانے کو پالیتا ہے ، اور واپس آکر وزیر محل کے سامنے ایک شاندار گھر بنا لیتا ہے۔
اتفاق سے ایک دن وزیر کی بیگم کی نظر اپنے محل کے سامنے بنے ہوئے اُس شاندار مکان پر پڑی ، اور پتہ چلا کہ یہ اُسی خادمہ کا گھر ہے جو یہاں جھاڑو دیا کرتی تھی ، اسے منگوا کر اس کا راز پوچھا تو پتہ چلا کہ یہ سب کونڈوں نے رنگ دکھایا ہے، وزیر کی بیگم کو کونڈوں کی اس سحر انگیزی پر یقین نہ آیا اور کہا : تمہارے شوہر نے یہ مال کسی چوری ڈاکے کے ذریعے حاصل کیا ہوگا۔
جیسے ہی اس نے حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے ارشاد و کرامت کو جھٹلایا ویسے ہی اس کے میاں سے وزارت کا عہدہ جاتا رہا، حاسد وکینہ پرور جھوٹا وزیر غالب آگیا اور اس نے اس کے میاں کو خائن ثابت کر دیا ، بادشاہ نے اس وزیر کو معزول کر کے اس کی تمام جائیداد ضبط کرلی اور اسے ملک چھوڑ جانے کا حکم دے دیا ، میاں بیوی شہر سے نکل رہے تھے کہ بیوی کے پاس کُل دو درہم تھے، ان میں سے انھوں نے ایک درہم کا خربوزہ خرید کر رومال میں باندھ لیا ، تا کہ بھوک کے وقت کام آئے۔
اتفاق ایسا ہوا کہ اسی دن بادشاہ کا بیٹا شکار پر گیا ہوا تھا جس کے واپس آنے میں کچھ دیر ہوگئی ، نئے وزیر نے پھر کاری ضرب لگائی کہ کہیں معزول وزیر نے اُسے قتل نہ کروا دیا ہو۔ بادشاہ کے حکم سے سرکاری کارندے گئے اور انھیں دربار میں حاضر کر دیا ، جب معزول وزیر کی بیوی کے ہاتھ میں موجود رومال کو کھولا گیا تو اس میں خربوزے کی جگہ شہزادے کا سر بندھا ہوا پایا گیا، بادشاہ ان دونوں کو پھانسی پر لٹکانے کا حکم صادر کر دیتا ہے، اور جیل میں بند کر دیتا ہے۔
وزیر اور اس کی بیگم کونڈوں کی کرامت پر یقین نہ کرنے کے نتیجہ میں سزائے موت کے انتظار میں جیل میں بند ہیں، وزیر اپنی بیگم سے کہتا ہے : مجھے کچھ یاد نہیں پڑتا کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی پر ظلم کیا ہو نہ جانے ہمیں کس خطا کی پاداش میں یہ ذلت ورسوائی مل رہی ہے؟ وزیر کی بیگم نے کہا : آپ تو بے قصور ہیں ، قصور وار تو میں ہوں کہ جس نے حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کے کونڈوں کا انکار کیا۔
چنانچہ وہ ساری رات توبہ کرتی رہی ، خلاصی کی صورت میں کونڈے بھرنے کا عزم کرتی رہی ، ادھر انھوں نے کونڈوں کی عظمت کا اقرار کیا ، ادھر شہزادہ شکار سے گھر واپس آگیا ، بادشاہ اپنے بیٹے کو سلامت دیکھ کر بڑا حیران ہوا، اور وزیر کو جیل سے نکلوا کر ماجرا دریافت کیا ، تو اس نے ادب و احترام سے کونڈے نہ بھرنے ، ان کو جھٹلانے اور پھر رات جیل میں توبہ کر کے کونڈے بھرنے کے عہد کا واقعہ بیان کر دیا ، بادشاہ نے اس وزیر کو دوبارہ بحال کر دیا ، بلکہ خلعت سے بھی نوازا ، پھر بادشاہ اور وزیر تو کیا ، رعایا نے بھی کونڈے بھرنے کا اہتمام شروع کر دیا۔
یہ عجیب و غریب داستان کونڈے بھرنے والوں کی دلیل ہے جو نہ تو آسمان سے نازل ہوئی ہے ، نہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے صادر ہوتی ہے، اور نہ ہی خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم یا دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی کی طرف منسوب ہے، بلکہ قطعی من گھڑت کہانی ہے، جو قرآن وحدیث تو دور کی بات ہے ، کسی بھی معتبر کتاب میں مذکور نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی سند ہے، بلکہ کسی منشی جمیل احمد کے منظوم کلام میں خوبصورت انداز سے یہ افسانہ ملتا ہے، جس کا خلاصہ ہم نے ذکر کر دیا ہے۔ اسے الف لیلوی اور ہزار داستان نما ادبی شہ پارہ تو کہہ سکتے ہیں ، مگر اسے شریعت مان لیں ، اتنی بڑی حماقت کوئی صاحب عقل و دانش مسلمان کیسے کر سکتا ہے؟

اس افسانہ کے من گھڑت ہونے کے بعض دلائل :۔

اولا :۔

جس ہستی یعنی حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی طرف اس داستان کو منسوب کیا گیا ہے ، اُن سے ایسے متکبرانہ الفاظ کا صادر ہونا قطعاً بعید از عقل ہے ۔

ثانيا :۔

اس داستان کے جھوٹے ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں نہ کبھی کوئی بادشاہ ہوا ہے، نہ وزیر، خصوصاً جبکہ حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی پیدائش ایک روایت کے مطابق 8 رمضان 80ھ اور دوسری کے مطابق 17 ربیع الاول 83ھ میں ہوئی ، اور اُن کی وفات پر اتفاق ہے کہ 15 شوال 148ھ ہے، اب تاریخ اسلام کو دیکھ لیں ، معلوم ہو جائے گا کہ اُن کی عمر عزیز کے تقریباً 52 سال خلفائے بنی امیہ کے عہد میں گزرے جن کا دار الخلافہ دمشق تھا ، اور باقی سال خلافت بنی عباس میں گزرے جنہوں نے بغداد کو اپنا دارالخلافہ بنا لیا تھا۔
ان تاریخی حقائق سے معلوم ہو گیا کہ مدینہ میں کبھی کوئی بادشاہ تھا، نہ اس کا محل ، نہ کوئی وزیر تھا ، اور نہ ہی وزیر کا محل ، البتہ جس ادیب و شاعر نے بادشاہ ، وزیر اور ان کے محلات بناڈالے، اسی نے لکڑ ہارے کا کردار بھی تراش لیا ، اور ایک ادبی شہ پارہ لکھ مارا جسے ہم نے شریعت بنا ڈالا ہے۔

ثالثاً :۔

سابقہ دونوں تاریخی روایات کے مطابق امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی تاریخ پیدائش 8 رمضان یا 17 ربیع الاول ہے ، 22 رجب نہیں ہے ، اور نہ ہی یہ ان کی تاریخ وفات ہے، بلکہ وہ بالا اتفاق 15 شوال ہے ، اب بتائیں یہ کونڈے کس خوشی میں بھرتے ہیں؟

اصل حقیقت :۔

در حقیقت بعض لوگوں کے نزدیک اُس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی نسبتی ، ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تھی، لہذا وہ تو عمداً اور دانستہ بُعضِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے اظہار کے لیئے خوشی مناتے اور حلوہ پوری کے کونڈے بھر بھر کر تقسیم کرتے ہیں ، جبکہ دیگر لوگوں کی کثیر تعداد بلا سوچے سمجھے، نا دانستہ ہی ان کی خوشی میں شریک ہو جاتی ہے، پہلے تو اندر کا یہ لاوا اندر ہی اندر پکتا تھا ، اور اندر ہی اندر کھایا جاتا تھا ، مگر جب دوسرے لوگوں کی ایک بھیڑ بھی اُن کے ساتھ شامل ہو گئی تو اب اُسے مذکورہ داستان عجیب کے ذریعے ایک نئی صورت دے دی گئی ہے۔(مختصرا از : ”رجب کے کونڈے“ مولانا فضل الرحمن طبع دار الدعوة السلفيه ، لاہور ، ہفت روزه الاعتصام لاہور ، جلد 39، شماره 13، بابت 26 رجب 1407ھ بمطابق 27 مارچ 1987ء)
اس داستان میں قرآن وسنت کی تعلیمات سے رو گردانی ، نذر لغیر اللہ اور حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی شان میں توہین و گستاخی کے پہلو بھی نکلتے ہیں، جن کی تفصیل میں جانے کی بجائے سردست ایسے من گھڑت قصے کہانیوں کو عمل کی بنیاد بنانے والوں سے صرف اتنا ہی عرض کریں گے کہ :
گر ہمیں مکتب وہمیں ملا
کار طفلاں تمام مخدوم

انوار قرآن و حدیث :۔

آئیے ! ایمان و عقیدہ کی تازگی کے لیے قرآن کریم سے اللہ تعالیٰ کے بعض ارشادات اور احادیث شریفہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند فرمودات و معمولات کا بھی مطالعہ کریں تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ حاجت مندوں کو مشکلات میں گھر جانے کی صورت میں کسے پکارنا چاہیئے ؟ اور کس سے مشکل کشائی طلب کرنا چاہیئے۔ اور وہ کون سی ذات ہے جو ایسے وقت میں حاجتیں پوری کرنے اور مشکلات دور کرنے کے لیے سنتی اور مانتی ہے۔ چنانچہ سورۃ بقرہ آیت : 186 میں اپنے نبی صلى الله عليه وسلم سے مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (سورۃ البقرۃ: 186)
آپ سے جب میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو فرما دیں کہ بے شک میں بہت قریب ہوں۔ میں دُعاء مانگنے والے کی دعاء قبول کرتا ہوں ، جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے ، لہذا انہیں چاہئے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔
اور سورۃ مؤمن آیت : 60 میں ارشاد فرمایا :
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (سورۃ غافر : 60)
اور تمہارے رب نے فرمایا، کہ مجھے پکارو، میں تمہاری پکار قبول کروں گا۔
اور سورہ تغابن آیت 13 میں فرمایا :
اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (سورۃ التغابن : 13)
اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس مومنوں کو چاہیئے کہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہی توکل کریں۔
ان آیات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ بہت قریب ہے۔ اور پکارنے والے جب بھی اسے پکارتے ہیں تو نہ صرف وہ ان کی پکار سنتا ہے بلکہ جو کچھ وہ مانگتے ہیں وہ بھی دیتا ہے۔ کوئی مانگنے والا تو ہو۔ اور یہ بھی کہ چونکہ سب کچھ اللہ ہی کا ہے، لہذا اہلِ ایمان مسلمانوں کو چاہیئے کہ صرف اُسی پر توکل اور بھروسہ رکھیں اور در در کی خاک نہ چھانتے پھریں۔
اگر کبھی آزمائش کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کو کوئی تکلیف آجائے تو اسے سوائے اُس کے کوئی بھی دور نہیں کر سکتا۔ اور نہ ہی کوئی دوسرا اس کی طاقت رکھتا ہے۔ جیسا کہ سورہ نمل کی آیت : 62 میں ارشاد الہی ہے :
أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ (سورۃ النمل: 62)
کون ہے جو مجبور و بے قرار کی دُعاء و پکار کو سنتا ہے۔ جبکہ وہ اُسے پکارے اور کون اس تکلیف کو رفع کرتا ہے؟
سورہ انعام کی آیت : 17، اور سورہ یونس کی آیت : 107 میں صراحت کے ساتھ فرمایا ہے :
وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ (سورۃ الانعام : 17)
اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اُسی کے سوا اُسے دُور کرنے والا دوسرا کوئی نہیں ہے۔
یہاں بات صاف ہو گئی کہ حاجت روائی اور مشکل کشائی صرف اللہ تعالی ہی کا خاصہ ہے جس میں کوئی نبی یا ولی اس کا شریک نہیں۔ لہذا صدقہ و خیرات صرف اللہ کے نام کریں۔ یہی ذریعہ ثواب و نجات اور باعث دفع بلا ہے۔ اور غیر اللہ کے نام پر دی گئی نذر و نیاز نہ صرف یہ کہ اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوتی بلکہ وہ تو صریح شرک اور گناہ کبیرہ ہے۔
ماہ رجب کے کونڈے بھی اسی میں آتے ہیں۔ جعل سازوں اور شکم پرست جاہلوں نے انہیں رواج دیا۔ اور کچھ جاننے والے طبقہ کے افراد نے اپنی بھلائی اور فائدہ اسی میں دیکھا کہ لوگوں کو اسی راہ پر چلتے رہنے دینا چاہیئے تاکہ روزی روٹی کا چکر چلنے کے ذرائع میں سے ایک یہ بھی بحال رہے۔ بلکہ سیدھے سادے لوگوں کو ان کے خود ساختہ فضائل سُنا کر مزید پختہ کیا اور کونڈے بھرنے والوں کو گناہوں سے خلاصی اور جنت کی بشارتیں دیں ، اور دنیا میں اس فعل کو مُرادیں پوری ہونے کا ذریعہ بتایا۔ حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے کونڈے بھرنے والوں کا یہ عقیدہ بالکل عیسائیوں کے عقیدہ کی طرح ہے، جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نعوذ بالله سُولی پر چڑھ کر ان لوگوں کے گناہ بخشوا لیے ہیں۔ یا پھر عیسائی گنہگار چرچ میں جا کر اپنے گناہوں کا اعتراف اپنے پادری کے سامنے کرتے ہیں۔ اور وہ اُن کی بخشش کروا دیتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ ان ہر دو کے عقیدہ میں با ہم کیا فرق ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پوتے اور حضرت باقر رحمہ اللہ کے بیٹے حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ ایک ایسے اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس میں ایمان کی شمع روشن تھی۔ اُن کا گھر سونے چاندی کی چمک و دمک سے روشن نہ تھا۔ بلکہ ان کے خاندان نے غربت و افلاس اور فقر و فاقہ میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی ایمان کی روشنی کو کبھی گُل نہیں ہونے دیا۔
صحیح بخاری و مسلم میں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے :
ما شبع آل محمد صلى الله عليه وسلم من خبز الشعير يومين متتابعين حتى قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم
(بخاری ، کتاب الاطعمة و الرقاق ، مشكوة تحقيق الالبانی 1443/3)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی جَو کی روٹی مسلسل دو دن پیٹ بھر کر نہ کھائی، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض کرلی گئی۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
خرج النبى صلى الله عليه وسلم من الدنيا ولم يشبع من خبز الشعير
(بخاری حدیث : 5414)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں اس دنیا سے رُخصت ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پیٹ بھر کر جَو کی روٹی بھی نہیں کھائی تھی۔
صحیح بخاری میں ہی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
أنه مشى إلى النبى صلى الله عليه وسلم بخبز شعير وإهالة سنخة ولقد رهن النبى صلى الله عليه وسلم درعا له بالمدينة عند يهودي
میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جَو کی روٹی اور بدلی ہوئی ہوا والی چربی کا تیل لے کر حاضر ہوا۔ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک ذرع مدینہ کے ایک یہودی کے یہاں گروی رکھ چکے تھے۔
اور یاد رہے کہ گھر والوں کے لیے جَو لے کر ان کے بدلے میں یہ ذرع گروی رکھی تھی اور کتب حدیث وسیرت میں یہ بات معروف ہے کہ جب آپ نے رحلت فرمائی تو اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذرع ایک یہودی کے ہاں گروی پڑی تھی۔ آگے اسی مذکورہ حدیث میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نو ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم تھیں۔ بایں ہمہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :
ما أمسى عند آل محمد صاع من بر ولا صاع حب
(بخاری : 2069)
آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی رات بھی ایک صاع گندم یا ایک صاع دانے جمع نہیں رہے۔
بھلا بتائیے کہ ایسی مقدس ہستی جس کے خاندان والوں اور اہلِ بیت کی غربت و افلاس کا یہ عالم تھا کہ کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا تھا اور جس شخصیت نے ایسی پاکیزہ خاندانی تربیت اور عمدہ روایت کے مطابق پرورش پائی ہو، انہیں ان کونڈوں کے عمل اور حلوہ پوریوں کا خیال کہاں سے آگیا؟ اور پھر جب یہ کام تابعین، تبع تابعین ، محدثین و مجتہدین اور ائمہ وفقہاء رحمہم اللہ میں سے کسی نے نہیں کیا تو آج ان کونڈہ خوروں کو آخر اس کے جواز کا ثبوت کہاں سے مل گیا ہے؟

اولا :۔

روایت و درایت اور نقل و عقل ہر اعتبار سے یہ فعل خود ساختہ اور غیر اسلامی ہے۔

ثانياً :۔

ان لوگوں نے اگر کونڈوں کو مغفرت کا سستا طریقہ سمجھ کر اختیار کیا ہے اور انہی کے ذریعے وہ جنت پانا چاہتے ہیں تو پھر یقین جانیں کہ یہ جنت میں رہنے والی بات ہے۔ کیونکہ جب تک عمل صالح اور اللہ تعالیٰ کی رحمت نہ ہوگی ، مغفرت نہ ہوگی۔ محض کسی بزرگ کی قرابت کے دعوے کام نہ آئیں گے۔
سورۃ ھود کی آیت : 45 اور 46 پڑھ کر دیکھیں حضرت نوح علیہ السلام کو ان کے بیٹے کنعان کی نسبت کیسا سخت جواب بلکہ ڈانٹ پلائی گئی تھی۔ سورہ توبہ آیت : 113 میں ہمارے نبی صلى الله عليه وسلم کو بھی مشرکین کے لیے دعائے مغفرت و شفاعت کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔
اور سورۃ بقرۃ کی آیت : 255 ، یعنی آیتہ الکرسی میں فرما کر واضح فرما دیا گیا ہے کہ :
مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ (سورۃ البقرۃ : 255)
دربار الہی میں اس کے حکم کے بغیر کوئی بھی کسی کی سفارش نہیں کر سکے گا۔
جب معاملہ اتنا سخت ہے، تو پھر شب و روز اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیاں کرنے اور خود اپنے ہی بنائے ہوئے اعمال کو اختیار کرنے والے کی نسبت شفاعت کیسے ہوگی ؟ اور حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی سفارش ہر گنہگار کے متعلق کیسے قبول ہوگی ؟
اللہ کے بندو ! ہاتھوں پر ہاتھ رکھے محض تمناؤں کی بناء پر جنت کے وارث بن جانے کی بجائے مسنون عمل کی دنیا میں آؤ۔ اور صحیح بخاری و مسلم میں مذکور اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش نظر رکھو ، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا ، اپنی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اور اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور پورے خاندان وقبیلہ کو الگ الگ مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ اپنے آپ کو آگ سے بچالو، میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا :
يا فاطمة بنت محمد سليني ما شئت من مالي لا أغني عنك من الله شيئا
(بخاری حدیث : 2602 مسلم حدیث: 204، صحیح ترمذی : 1880، صحیح الجامع : 7983)
اے فاطمہ بنت محمد ! مجھ سے میرے مال میں سے جو کچھ چاہو مانگ لو لیکن حکم الہی کے سامنے میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔
اگر عمل کے بغیر محض تمنا اور شفاعت کے سہارے نجات و مغفرت ممکن ہوتی تو اُن سادات کی ہوتی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقیقت واضح فرمادی ہے تو اُن کے مقابلہ میں ہم جیسوں کی حیثیت ہی کیا ہے ؟

بائیس رجب کے کونڈے اور فاضل بریلوی احمد رضا خان کا فتویٰ :۔

کونڈوں کی رسم نہ صرف شیعہ بلکہ سننیوں اور عموما بریلوی حضرات میں بھی چلتی ہے ، جبکہ اُن کے بانی فاضل بریلوی احمد رضا خان اپنی معروف کتاب احکامِ شریعت میں ان کے خلاف فتوی دے چکے ہیں ، اس کے حصہ اول کے صفحہ : 55 پر وہ لکھتے ہیں :
علامہ شہاب الدین خفاجی ”نسیم الریاض شرح قاضی عیاض“ میں فرماتے ہیں :
ومن يكون يطعن فى معاوية فذلك كلب من كلاب الهاوية
جو شخص حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے ، وہ جہنم کے کتوں میں سے ایک کتا ہے۔
چہ جائیکہ ان کے یوم وفات (22 رجب) کو ان کی موت کی خوشی میں کونڈے کرے۔(بحوالہ تعلیمات شاہ احمد رضا خان بریلوی از مولانا محمد حنیف یزدانی ، ص : 72، 73)
ایمان لانے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہ ہوئے۔ ہمہ وقت پاس رہتے اور وحی الہی کی کتابت کرتے، حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے دل میں جو احترام تھا ، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد بھی جاری رہا۔
”ملفوظات اعلیٰ حضرت“ جلد سوم ص : 42 پر فاضل بریلوی کا بیان مذکور ہے کہ ایک صحابی عابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کی شباہت کچھ کچھ سرکار سے ملتی تھی ، جب وہ دمشق تشریف لاتے ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے تخت سے سروقد رکھتے اس لیے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مشابہ تھے۔(بحوالہ تعلیمات شاہ احمد رضا خان بریلوی از مولانا محمد حنیف یزدانی ، ص : 57)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے