5 اہم سوالات: طہارت، بالوں اور علاج کے مسائل قرآن و حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

① مکمل غسل کرنے کی بجائے کیا صرف بالوں کو دھو لینا درست ہے؟
② کیا بالوں میں مانگ نکالنا ضروری ہے؟
③ اگر بالوں کو بغرض علاج کچھ عرصہ کے لیے کناروں سے کاٹا جائے، فیشن درنظر نہ ہو تو کیا عورت کے لیے اس کی اجازت ہے؟
④ آج کل تقریباً ہر قسم کی ادویات میں الکحل کی کافی مقدار موجود ہوتی ہے، تو ان کا استعمال کس حد تک درست ہے؟
⑤ ہاتھ دکھانا اور دیکھنا کیسا ہے؟ اسے علم نجوم سے مختلف کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ ایک نمازی اور نیک شخص اسے غلط نہیں سمجھتا۔

جواب :

آپ کے سوالوں کے جوابات مختصراً بالترتیب درج ذیل ہیں:
① فرض غسل کی صورت میں تمام جسم دھونا ضروری ہے، صرف بالوں کا دھونا کفا یت نہیں کرتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے یہ طریقہ ملتا ہے کہ آپ پورا جسم دھویا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا اغتسل من الجنابة بدأ فغسل يديه ثم توضأ كما يتوضأ للصلاة ثم يدخل أصابعه فى الماء فيخلل بها أصول الشعر ثم يصب على رأسه ثلاث غرف بيديه ثم يفيض الماء على جسده كله
(بخاری کتاب الغسل باب الوضوء قبل الغسل ح 248، مسلم ح 316)
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرتے تو پہلے ہاتھ دھوتے، پھر نماز کی طرح وضو کرتے، پھر اپنی انگلیاں پانی میں داخل کرتے، ان کے ذریعے اپنے سر کے بالوں کی جڑوں کا خلال کرتے، پھر اپنے سر پر تین مرتبہ اپنے دونوں ہاتھوں سے چلو بھر کر پانی ڈالتے، پھر سارے جسم پر پانی بہاتے۔“
مسلم کی روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ اس طرح ابتدا کرتے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو برتن میں داخل کرنے سے پہلے دھوتے، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈالتے، اپنی شرمگاہ دھوتے، پھر وضو کرتے۔ اسی طرح صحیح مسلم کتاب الحیض (330) میں ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل سے سارا جسم دھونے کا حکم دیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من ترك موضع شعرة من جنابة لم يغسلها فعل بها كذا وكذا من النار
(ابو داود کتاب الطهارة باب في الغسل من الجنابة ح 249، مسند احمد 94/1، 101، 133 ح 727، 794، 1121، اس کی سند حسن ہے۔ تمہید 99/22، تلخيص 142/1)
”جس نے جنابت کے غسل میں ایک بال برابر جگہ بھی خشک چھوڑ دی، اسے نہ دھویا، تو اس کے ساتھ آگ میں سے ایسا ایسا کیا جائے گا۔“
ان صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ فرض غسل میں پورے جسم کو دھونا ضروری ہے، صرف بالوں کا دھونا کفایت نہیں کرتا۔ اگر عام غسل ہو تو اس میں صرف سر دھو لینا بھی کافی ہے، اسے لغوی غسل کہا جا سکتا ہے، لیکن حالت احتلام یا جنابت کی صورت میں پورا جسم ہی دھونا پڑتا ہے۔
② بالوں میں سیدھی مانگ نکالنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
كنت إذا أردت أن أفرق رأس رسول الله صلى الله عليه وسلم صدعت الفرق من يافوخه وأرسلت ناصيته بين عينيه
(ابو داود کتاب الترجل باب ما جاء في الفرق ح 4189، مسند احمد 90/6، 275 ح 25101، 26887)
”جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کی مانگ نکالنے کا ارادہ کرتی تو سر کے درمیان سے مانگ نکالتی اور پیشانی کے بال دونوں آنکھوں کے درمیان کی سیدھ سے لٹکاتی۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدھی مانگ نکالنا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، لہذا ہمیں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور ٹیڑھی مانگیں نکال کر یہود و نصاریٰ جیسی بود و باش سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ خلیفہ ثانی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب شام کے عیسائیوں سے مصالحت کی تو ان پر جو شرائط عائد کیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ شام کے عیسائی ٹوپی، چوغہ، جوتے اور مانگ نکالنے میں مسلمانوں کی مشابہت نہیں کریں گے۔
(ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر 383/2 سورۃ التوبہ آیت 29 کے تحت)
لہذا رہن سہن، لباس اور مانگ وغیرہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں وغیرہ میں واضح فرق ہونا چاہیے، لیکن افسوس، آج بہت سے مسلمان ایسے ہیں جن کو دیکھنے سے انگریز اور یورپیوں و نصاریٰ وغیرہ میں ظاہری کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔
③ عورتوں کا بالوں کو لمبائی سے کاٹنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن انھیں اس کا غیر محرم مردوں کے سامنے اظہار نہیں کرنا چاہیے اور فیشن ایبل بن کر کھلے بالوں نہیں پھرنا چاہیے۔ صحیح مسلم میں ہے:
وكان أزواج النبى صلى الله عليه وسلم يأخذن من رءوسهن حتى تكون كالوفرة
(مسلم کتاب الحيض باب القدر المستحب الخ ح 320)
”ازواج مطہرات اپنے بالوں کو اس طرح کاٹتی تھیں کہ وہ وفرہ کی مانند ہو جاتے۔“
وفرہ کانوں کی لو تک بالوں کو کہتے ہیں، لہذا اگر کوئی عورت لمبائی سے بال چھوٹے کرنا چاہے تو اس کی گنجائش موجود ہے۔
④ تمام ادویات میں تو الکحل شامل نہیں ہوتی۔ الکحل کے بغیر ایلوپیتھی، ہومیوپیتھی اور دیسی دوائیں موجود ہیں، جن کا استعمال صحیح قسم کے اطباء اور ڈاکٹر حضرات سے رابطہ کر کے کیا جا سکتا ہے، البتہ جن دواؤں میں الکحل بھی شامل ہو ان کا استعمال درست نہیں، کیونکہ شراب کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کی خرید و فروخت اور دوا وغیرہ سے منع کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾
(المائدة: 90)
”اے ایمان والو! شراب، جوا، بت اور فال کے تیر پلید اور شیطانی کاموں میں سے ہیں، ان سے اجتناب کرو، تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن البتع فقال كل شراب أسكر فهو حرام
(بخاري کتاب الأشربة باب البتع من العسل وهو البتع ح 5586، مسلم کتاب الأشربة باب بيان أن كل مسكر خمر ح 2001)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (شہد کی) نبید کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر وہ مشروب جو نشہ لائے حرام ہے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كل مسكر خمر وكل مسكر حرام
(مسلم کتاب الأشربة باب بيان أن كل مسكر خمر وأن كل خمر حرام ح 2003)
”ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما أسكر كثيره فقليله حرام
(ترمذی کتاب الأشربة باب ما جاء ما أسكر كثيره فقليله حرام ح 1865، ابو داود کتاب الأشربة باب ما جاء في السكر ح 3681)
”جس چیز کا زیادہ حصہ نشہ لائے، اس کا تھوڑا حصہ بھی حرام ہے۔“
وائل حضرمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ طارق بن سوید رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع کر دیا، اس نے کہا:
انما اصنعها للدواء فقال انه ليس بلواء ولكنه داء
(مسلم کتاب الأشربة باب تحريم التداوي بالخمر الخ ح 1984)
”میں نے یہ دوائی کے لیے بنائی ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک یہ دوا نہیں ہے، بلکہ یہ بیماری ہے۔“
لہذا الکوحل دوا نہیں بیماری ہے، نشہ آور ہے جس کی بنا پر حرام ہے، اس لیے ایسی ادوایات سے اجتناب کیا جائے جن میں الکحل ہو۔
⑤ نجومیوں، کاہنوں اور فٹ پاتھ پر بیٹھے پروفیسرز وغیرہ کو ہاتھ دکھانا اور قسمت کے احوال پوچھنا جائز و درست نہیں۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أتى عرافا فسأله عن شيء لم تقبل له صلاة أربعين ليلة
(مسلم کتاب السلام باب تحريم الكهانة وإتيان الكهان ح 2230)
جس نے کسی خبریں بتانے والے کے پاس آکر اس سے کسی چیز کے بارے دریافت کیا تو اس کی چالیس راتوں کی نماز قبول نہیں ہوتی۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أتى كاهنا فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد صلى الله عليه وسلم
(مسند احمد 2/476 ح 10170، ابو داود کتاب الطب باب في الكاهن ح 3904)
جو کاہن کے پاس آکر اس چیز کی تصدیق کر دے جو وہ کہے تو وہ اس چیز سے بری ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔
لہذا نجومیوں اور کاہنوں وغیرہ کے پاس آکر ہاتھ دکھانا، قسمت معلوم کرنا اور فال نکلوانا، جملہ امور ناجائز و حرام ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے