مضمون کے اہم نکات:
فصل سوم: کیا اہل حدیث اہل سنت سے خارج ہیں؟
جھنگوی صاحب نے چند مسائل کی نشاندہی کر کے لکھا ہے کہ
ان کے علاوہ اور بہت سارے مسائل ہیں جن میں اہل سنت اور غیر مقلد اہل حدیث کا خاصا اختلاف ہے۔ اہل سنت اور اہل حدیث ایک چیز کا نام کیسے بن گیا جبکہ حدیث اور سنت ایک چیز نہیں ہے۔ جس طرح اشار یا صراحتاً گزر چکا ہے تو اہل سنت اور اہل حدیث بھی ایک کیسے ہو سکتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 56)
الجواب:۔ اولاً:
اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ جھنگوی صاحب حدیث اور سنت کو دو متضاد الفاظ جانتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں۔
آئیے پہلے ان الفاظ کا معنی و مفہوم معلوم کر لیں۔
سنت کا لغوی معنی‘ طریقہ‘ راستہ‘ خواہ اچھا ہو یا برا‘
( حلبی کبیر ص 13)
اور شرعی اصطلاح میں سنت کا مطلب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا طریقہ ہے۔ حضرت انسؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ
((من رغب عن سنتي فليس منى ))
یعنی جس نے میرے طریقہ پر چلنے سے گریز کیا وہ مجھ سے نہیں۔ الحدیث:-
( بخاری ص 757 ج 2‘ مسلم ص 449 ج 1 )
اس حدیث میں لفظ‘ سنت‘ کا معنی مولانا سہارنپوری نے حاشیہ بخاری ص 758 میں طریقہ کیا ہے۔
قارئین کرام جب آپ نے سنت کے معنی کو جان لیا تو آئیے لفظ حدیث کا مفہوم بھی جان لیں۔ حدیث کا لغوی معنی بات ہو تا ہے۔ اور اصطلاح شرع میں اس کا اطلاق قرآن وحدیث پر ہوتا ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے اصطلاح حدیث میں اس کا کیا معنی ہے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا عبد الرشید حنفی دیوبندی فرماتے ہیں کہ
نبي عليه الصلوة والسلام کے اقوال‘ اعمال اور احوال کو حدیث سے تعبیر کرنا خود ساختہ اصطلاح نہیں بلکہ خود قرآن کریم سے مستنبط ہے۔
(امام ابن ماجہ اور علم حدیث ص 128)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حدیث میں سنت کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ گو حدیث کا لفظ سنت کے لفظ سے زیادہ وسیع اور اپنے اندر پھیلاؤر کھتا ہے ۔ مثلا تکبیر تحریمہ کو ہم حدیث اور سنت کے دونوں الفاظ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ جبکہ عذاب قبر کی احادیث وغیرہ کو ہم سنت سے تعبیر نہیں کر سکتے۔ اسی طرح آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے سراپا کو حدیث تو کہہ سکتے ہیں لیکن سنت سے تعبیر نہیں کر سکتے۔ روزہ افطار کرنے کی مسنون دعا کو ہم حدیث اور سنت تو کہہ سکتے جبکہ احوال قیامت کے متعلق آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ارشادات عالیہ کو حدیث کہیں گے سنت سے تعبیر نہیں کر سکتے۔ خلاصہ کلام یہ کہ سنت سے حدیث کا لفظ زیادہ وسیع ہے جو اپنے اندر سنت کا مفہوم بھی رکھتا ہے۔ مولانا محمد تقی عثمای حنفی دیو بندی فرماتے ہیں کہ
سنت کے متعلق بعض کا خیال ہے کہ وہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے صرف عمل کا نام ہے اور یہ احادیث ان میں شامل نہیں۔ لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ استعمال عام میں حدیث اور سنت میں کوئی فرق نہیں‘ ملخصاً
(درس ترمذی ص 31 ج 1 )
جب یہ ثابت ہو گیا کہ حدیث کے لفظ میں سنت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو خود بخود اہل حدیث کا اہل سنت ہونا ثابت ہو گیا۔
علامہ نوویؒ فرماتے ہیں کہ
(قال القاضی عیاض انما اراد احمد اهل السنة والجماعة ومن يعتقد مذهب أهل الحديث )
یعنی قاضی عیاض نے کہا ہے کہ امام احمد بن حنبل کی مراد اہلسنت والجماعت سے وہ جماعت مراد ہے جو ( عملی اور ) اعتقادی طور پر مذہب اہل حدیث پر گامزن ہے۔
( شرح مسلم ص 143 ج 2)
مولانا مفتی کفایت اللہ حنفی دیوبندی فرماتے ہیں کہ
اہل حدیث مسلمان ہیں اور اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں۔
(کفایت المفتی ص 325 ج 1)
غیر مقلدین جن کے خیالات سوال میں مذکور ہیں اصولاً تو اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں۔
(کفایت المفتی ص 324 ج1)
ان عبارات سے ثابت ہو گیا کہ اہل حدیث اہل سنت میں داخل ہیں۔
مبتد عین دیابنہ کا اہل حدیث سے اختلاف
جھنگوی صاحب نے چند مسائل کی نشاندہی بھی کی ہے کہ اہل سنت ان کے قائل ہیں۔ جبکہ اہل حدیث ان کے منکر ہیں۔ جو حسب ذیل ہیں۔
(۱) مسئلہ تقلید
(۲) ایک مجلس کی تین طلاقیں
(۳) احترام اولیاء
(۴) صحابہ معیار حق ہیں
(۵) صحابہ کا فعل بھی سنت ہے
(۶) جمعہ کی پہلی اذان
(۷) نماز کے بعد اجتماعی دعا
(۸) فقہ (۹) عذاب قبر
(۱۰) حیاۃ النبیﷺ
(۱۱) بیسں اور آٹھ تراویح
(۱۲) روضہ رسول کی زیارت
(۱۳) سماع عند القبر
(۱۴) بھینس کی قربانی
(۱۵) گھوڑے کی قربانی
(۱۶) نماز میں مصحف سے دیکھ کر تلاوت کرنا
(۱۷) جنبی کا تلاوت کرنا
(۱۸) خوشدامن سے بدکاری پر بیوی پر طلاق کا واقعہ ہونا
(۱۹) روضہ رسول کا محترم ہونا
(۲۰) جنازہ کو آہستہ پڑھنا
(۲۱) رکوع کی رکعت کو شمار کرنا
(۲۲) قومہ میں ہاتھ نہ باندھنا
(۲۳) منسوخ احادیث پر عمل نہ کر نا
(۲۴) مغرب کی اذان کے بعد نوافل ادانہ کرنا
(۲۵) نماز میں عاجزی سے کھڑے ہونا
(۲۲) مرد و عورت کی نماز کا فرق
(۲۷) نا بالغ امام نہیں ہو سکتا
(۲۸) فاتحہ قرآن میں شامل ہے
(۲۹) تہجد اور تراویح میں فرق ہے۔
جھنگوی صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ اہل سنت کے مسائل ہیں جبکہ اہل حدیث کا موقف اس کے بر عکس ہے۔
الجواب:- اولاً:-
بھائی ان میں بعض مسائل کو تو آپ نے ہماری طرف غلط منسوب کیا ہے مثلا مسئلہ نمبر ۳‘۴‘۵‘۶‘۸‘۹‘۱۲‘۱۳‘۱۹‘۲۰‘۲۳‘۲۵‘۲۸ وغیرہ مسائل میں ہمار ا وہ موقف نہیں جو آپ بیان کر رہے ہیں اور آپ نے لعنت اللہ علی الکاذبین کی وعید سے نڈر ہو کر یہ افتراء کیے ہیں۔
اسی طرح مسئلہ نمبر ا‘۷ ‘۲۶٬۱۰ وغیرہ بدعات قبیحہ ہیں ۔ اور بقایا مسائل میں سے بعض تو نصوص سے ثابت ہیں اور بعض میں امت مرحومہ کے علاوہ خود مبتدعین دیابنہ میں اختلاف ہے۔ تفصیل آگے آرہی ہے۔
ثانیا:۔
ان میں اکثر مسائل جزوی و فروعی ہیں۔ کیا جزوی و فروعی اختلاف کی بنا پر کسی گروہ یا شخص کو اہل سنت سے خارج قرار دیا جا سکتا ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں۔ یہ آپ کی زیادتی ہے! کیونکہ بعض جزوی مسائل میں صحابہ کرام میں بھی اختلاف رائے تھا۔ آپ کی کتاب کا انداز بتاتا ہے کہ آپ نے بعض اختلافی مسائل پر تحقیق تو ضرور کی ہے مگر علی الاطلاق دین اسلام کی تعلیم اور ان کے چشمہ قرآن و حدیث اور اس کے امین صحابہ کرامؓ کے مقدس گروہ کے فتاویٰ کا مطالعہ نہیں کیا۔ ورنہ ان مسائل کو بیان کر کے آپ کسی کو اہل سنت سے خارج ہونے کا فتویٰ صادر نہ کرتے۔ بہر حال آئیے آپ کے بیان کردہ مسائل کا ہم تحقیقی جائزہ پیش کرتے ہیں۔ اللہ آپ کو حق بات قبول کرنے کی عادت صالحہ ڈال دے۔
کیا تقلید اہل سنت کی علامت ہے؟
مسئلہ تقلید کی تفصیل تو گزر چکی ہے اور وہاں ہی ہم نے صراحت کر دی ہے کہ تقلید کو صرف ہم نے ہی شرک قرار نہیں دیا بلکہ متعدد حنفی اہل علم بھی یہی کہتے ہیں۔ یہاں ہم صرف اس قدر بیان کرنا چاہتے ہیں کہ منکر تقلید اہل سنت سے خارج نہیں کیونکہ یہ چوتھی صدی کی بدعت ہے۔ ظاہر ہے کہ جو چیز تکمیل دین کے صد ہا سال بعد ایجاد ہوئی ہو وہ دین کا جزو و حصہ اور ایمان میں داخل نہیں ہو سکتی۔
مولانا اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں کہ
حنفی و شافعی ہو نا جزو ایمان نہیں‘ ور نہ صحابہ و تابعین کا غیر مومن ہونا لازم آئے گا۔
(امداد الفتاویٰ ص 300 ج 5)
مولانا مفتی کفایت اللہ حنفی دیوبندی فرماتے ہیں کہ
محض ترک تقلید سے اسلام میں فرق نہیں پڑتا اور نہ اہل سنت والجماعت سے تارک تقلید باہر ہوتا ہے۔
(کفایت المفتی ص 325 ج 1)
یہ بات ملحوظ رہے کہ اہل سنت کا مذ ہب تو آئمہ اربعہ سے قبل کا ہے لٰہذا ان کی تقلید اہل سنت کی علامت و نشانی اور امتیازی مسئلہ کیسے بن گئی۔ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ
( ومن اهل السنة والجماعة مذهب قديم معروف قبل أن يخلق الله أبا حنيفة ومالكا و الشافعي وأحمد فانه مذهب الصحابة الذين تلقوه عن نبيهم ومن خالف ذلك كان مبتدعا عند اهل السنة والجماعة)
یعنی اہل سنت والجماعت قدیم و معروف مذہب ہے جو عام ابو حنیفہ‘ امام مالک‘ امام شافعی‘ امام احمد بن حنبل‘ وغیرہ کی پیدائش سے بھی پہلے صحابہ کرام کا مذ ہب تھا۔ انہوں نے وہ مذ ہب نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے سیکھا تھا۔ اور جو شخص اس کے خلاف کرتا ہے وہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک بدعتی ہے۔
( منہاج السنتہ ص 256 ج 1 طبع مکتبہ سلفیہ لاہور 1976ء)
آخر میں ہم جھنگوی صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ اہل سنت میں داخل تھے کہ نہیں اگر آپ کہہ دیں کہ وہ اہل سنت میں داخل ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ وہ غیر مقلد تھے۔ اگر وہ تقلید نہ کرنے کے باوجود اہلسنت سے خارج نہیں تو اہل حدیث کیوں خارج ہیں ؟ وجہ فرق بین اور صاف بتا ئیں۔
کیا ایک مجلس کے تین طلاقوں کو تین تسلیم کرنا اہل سنت کی علامت ہے؟
اولا:
مبتدعین دیابنہ کو اعتراف ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینا حرام و بدعت ہے۔ یہ فتویٰ ان کی تمام متداول کتب فقہ میں موجود ہے۔ غالباً اس بات کا جھنگوی کو بھی اعتراف ہو گا لیکن ہم قارئین کرام کی تشفی و تسلی کے لیے چند عبارات نقل کیے دیتے ہیں تاکہ حق واضح ہو جائے۔
مولانا تقی عثمانی دیوبندی فرماتے ہیں کہ
بیک وقت تین طلاقیں واقع کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ امام ابو حنیفہ اور امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ یہ حرام اور بدعت ہے۔
(درس ترمذی ص 468 ج 3)
مبتدعین کے مفتی خیر المدارس فرماتے ہیں کہ طلاق بدعی یہ ہے کہ ایک طہر میں یا ایک مجلس میں تین طلاقیں دینا۔
(خیر الفتاویٰ ص 331 ج 5)
ہدایہ میں ہے کہ
(وطلاق البدعة ان يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو ثلاثا في طهر واحد فاذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصياً )
اور طلاق بدعی یہ ہے کہ ایک ہی کلمہ سے ( تین طلاقیں دے یا تین کو ایک طہر میں دے۔ جب کسی نے ایسا کر لیا تو گناہ گار ہوا اور طلاق واقع ہو گئی۔
( ہدایہ مع فتح القدیر ص 329 ج 3)
جب آپ نے اس بات کو سمجھ لیا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں بدعت ہیں تواب سنیے کہ بد عت اہل سنت کا مذ ہب نہیں۔
علامہ تفتازانی متوفی 758ھ فرماتے ہیں کہ
(اهل السنة والجماعة وهم الذين طريقتهم طريقة الرسول واصحابه دون اهل البدع )
یعنی اہل سنت والجماعت وہ لوگ ہیں جن کا طریقہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اور آپ کے صحابہ کرامؓ کے طریقہ کے موافق ہے نہ کہ اہل بدعت کے طریقہ کے مطابق۔
(التلویح مع التوضیح ص 354)
حضرت علی مرتضیٰؓ فرماتے ہیں کہ
((اهل السنة المتمسكون بماسنه الله ورسوله وان قلوا واما اهل البدعة فالمخالفون لامر الله و كتابه ورسوله العاملون برأيهم واهوائهم وان كثروا ))
یعنی اہل سنت وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کے مقرر کردہ طریقہ کو اختیار کرنے والے ہیں خواہ وہ تعداد میں کم ہی کیوں نہ ہوں۔ اور اہل بدعت وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالٰی اور اس کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کے مخالف اپنی رائے اور خواہش نفسی پر عمل کرنے والے ہیں۔ خواہ وہ تعداد میں زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔
(کنز الا عمال ص 77 ج 14‘ رقم الحديث 44209 طبع نشر السنتہ ملتان)
ان تصریحات سے ثابت ہوا کہ کوئی جماعت یا شخص بدعت کے انکار کی وجہ سے اہل سنت سے خارج نہیں ہو تا بلکہ اصلی اہل سنت ہی وہ ہے جو بدعت کا انکار کرتا ہے۔ پس اس اصول کے تحت آپ اہل سنت سے… ہیں اور ہم بفضلہ تعالٰی اصلی وخالص اور ٹھیٹھہ سنی ثابت ہوئے۔
ثانیاً:-
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ
((كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وابى بكروسنتين من خلافة عمر طلاق الثالث واحدة الحديث ))
یعنی حضرت رسول کریم صلى الله عليه وسلم کے زمانہ مبارکہ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کی پوری مدت خلافت اور حضرت عمر فاروقؓ کی خلافت میں بھی دو سال تک تین طلاقیں ایک ہی شمار کی جاتی تھیں۔
( صحیح مسلم ص 477 ج 1 )
اس صحیح مرفوع متصل حدیث کی بنا پر حضرت ابن عباسؓ کا بھی یہی فتویٰ تھا کہ بیک وقت دی گئی تین طلاقوں سے صرف ایک ہی پڑے گی۔
(ابو داؤد ص 299 ج1)
امام عکرمہ (ابوداؤد مع عون ص 227 ج 2) امام طاؤس ( عبد الرزاق ص 302 ج 6 ) امام عطاء بن ابی رباح ( ایضا ص 335 ج 6) امام عطاء بن سیار (موطا امام مالک ص 521) امام جابر بن زید (مصنف ابن ابی شیبہ ص 26 ج5) امام عمرو بن دینار (فتح الباری ص 297 ج 9 ) ان کے علاوہ متعدد تابعین ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق شمار کرتے ہیں۔
مولانا مفتی کفایت اللہ حنفی دیوبندی فرماتے ہیں کہ
بعض علماء اس کے قائل ضرور ہیں کہ ایک رجعی طلاق ہوتی ہے اور یہ مذہب اہل حدیث حضرات نے بھی اختیار کیا ہے اور حضرت ابن عباس‘ طاؤس‘ عکرمہ‘ ابن اسحاق‘ سے منقول ہے پس کسی اہل حدیث کو اس حکم کی وجہ سے کافر کہنا درست نہیں اور نہ وہ قابل مقاطعہ اور مستحق خراج عن المسجد ہے۔
(کفایت المفتی ص 361 ج 6)
امام ابن تیمیہ‘ امام ابن قیم‘ علامہ رشید رضا مصری ( تفسیر المنار ص 383) شیخ جمال الدین قاسمی مرحوم بھی اہل حدیث مؤقف کے حامی تھے۔
جھنگوی صاحب وضاحت فرمائیں کہ کیا یہ تمام لوگ اہل سنت سے خارج ہیں؟
کیا آئمہ کے اقوال معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں؟
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت اولیاء کرام کا احترام کرتے ہیں جبکہ غیر مقلد آئمہ کرام اولیاء کرام کی بے جا خامیاں نکالتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 53)
الجواب:- اولاً: –
خیر القرون سے لے کر تا حال اہل علم میں بعض جزوی مسائل میں اختلاف چلا آرہا ہے۔ فریقین ایک دوسرے کی دلیل کا نقص واضح کرتے رہے ہیں۔ اور اپنی دلیل کو صحیح و درست اور حق کہتے رہے ہیں۔
یہ ایک ایسی بین حقیقت ہے جس کا انکار دو پہر کے وقت سورج کے وجود کا انکار ہے۔ کسی بھی مذہب کی فقہ کو اٹھا کر دیکھ لیجیے وہ اپنے دلائل دیتے ہوئے دیگر بزرگان دین کے اقوال کو نقل کر کے ان پر علمی تبصرہ کرتے ہیں۔ یہ چیز ادب و احترام کے منافی نہیں‘ ور نہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تمام آئمہ گستاخ تھے ۔ کیونکہ انہوں نے اپنے سے ماقبل کے لوگوں سے اختلاف کیا‘ کسی سے کم کسی سے زیادہ امام محمد اور قاضی ابو یوسف کے امام ابو حنیفہ سے اختلاف ایک بین حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں تو کیا یہ لوگ گستاخ اور بے ادب تھے نہیں یقیناً نہیں۔ اس لیے کہ ہر شخص کا نہ علم برابر ہے اور نہ ہی عقل و فہم مساوی ہے۔
ہاں البتہ اختلاف رائے کرتے ہوئے آئمہ دین کے ادب و احترام کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ وہ ہمارے اسلاف ہیں‘ جو دین کے خادم اور سنت کے فدائی تھے اور ان کا سینہ علوم قرآن سے منور تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام آئمہ کرام ہمارے محسن ہیں۔ ان کی علمی کاوشوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس کے باوجود آئمہ معصوم عن الخطاء نہ تھے۔ آخر وہ بشر تھے۔ اللہ تعالٰی کی ذات اور پیغمبر نہ تھے۔
یہی اہل حدیث کا مذہب ہے۔ اس کی ہم دعوت دیتے ہیں۔ پورے جزم و یقین کے ساتھ یہ بات عرض کرتے ہیں کہ تمام محقق علماء اہل حدیث نے جب بھی کسی امام کے قول سے اختلاف کیا تو اسے علمی حد تک ہی رکھا۔ سب و شتم اور گالیاں نکال کر اپنے کلیجہ کو ٹھنڈا کرتا اہل بدعت اور گمراہ لوگوں کا کردار ہے۔ حسن اخلاق‘ زبان کی حفاظت مومن کی شان اور اہل علم کا شعار ہے۔ جھنگوی صاحب بلا وجہ ہم سے ناراض اور بد ظنی کر رہے ہیں۔ ور نہ یقین جانئے کہ اہل حدیث کا دامن ان الزامات سے مبرا ہے۔ چنانچہ مفتی خیر المدارس (ملتان) اس حقیقت کا کھلے لفظوں میں اعتراف کرتا ہے کہ علماء اہل حدیث سلف صالحین اور آئمہ دین کے گستاخ نہیں۔
(خیر الفتاویٰ ص 402 ج 2)
ثانیا:-
حقیقت یہ ہے کہ مبتدعین دیانہ اصل میں اولیاء اور بزرگوں کے گستاخ اور بے ادب ہیں۔ مولوی محمد حسن سنبھلی حنفی ( جو مولانا قاسم علی نانوتوی کے شاگرد خاص ہیں) نے معروف درسی کتاب‘ شرح عقائد کا حاشیہ نظم الفرائد کے نام سے لکھا ہے۔ اس حاشیہ میں ایک مقام پر وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ‘ امام ابن قیم‘ امام شوکانی‘ امام ابن حزم جیسے اساطین فن اور مجنھد ان ذی شان کا ذکر اس طرح کرتا ہے۔
وخلفاء هذه المللة اربعة ابن تيمية وابن القيم والشوكاني فيقولون ثلثة رابعهم كلبهم واذا انضم اليهم ابن حزم وداؤد الظاهري بان صار واستة ويقولون خمسة سادسهم كلبهم رجما بالغيب وخاتم المكلبين مثله كمثل الكلب أن تحمل عليه يلهث وتتركه يلهث
( نظم الفرائد ص 102 طبع انوار محمدی لکھنؤ)
اس عبارت کا ترجمہ کرنے کی ہمت نہیں۔ بس اتنا جان لیں کہ امام ابن تیمیہ‘ امام ابن قیم‘ امام ابن خذم‘ امام داؤد امام شوکانی‘ اور ان کے عقیدت مندوں کو کتا کہا گیا ہے۔
اس قدر لچر زبان استعمال کرنے والے بھی ادب و احترام کے ٹھیکے دار ہیں؟
کیا صحابہ معیار حق نہیں؟
جھنگوی صاحب نے ایک شگوفہ یہ بھی چھوڑا ہے کہ غیر مقلدین صحابہ کو معیار حق نہیں سمجھتے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 53)
حالانکہ یہ کذب وافتراء ہے۔ ارشادر بانی ہے۔
اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ ( الاية بقره آیت 13)
یعنی ایمان اس طرح لاؤ جس طرح لوگ ( صحابہ ) ایمان لائے ( 13-2)
اس آیت میں الناس سے مراد صحابہ کرام کی مقدس جماعت مراد ہے ۔ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ
ایمان کے لیے ایک معیار اور کسوٹی ہیں۔ اب ایمان انہی کا معتبر ہو گا جو صحابہ کرام ہی کی طرح ایمان لائیں گے۔
(تفسیر احسن البیان ص 10)
اس سے ثابت ہوا کہ عقائد وایمان میں صحابہ سے اختلاف جائز نہیں۔ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ ہمارے نزدیک صحابہ کرام نے نصوص کی جو تشریح کی ہے وہ بھی حجت ہے
حافظ ثناء اللہ زاہدی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ
ولذلك اختار جمهور المحدثين ترجيع تفسير الصحابي للحديث على تفسير غيره من المتاخرين لانه شاهد موارد النصوص واجتهاده في فهم النصوص اصوب من اجتهاد المتاخرين من فقهاء التابعين ومن بعد هم كما في تفسير ابن عمر البيعان بالخيار والحنفية خالفوافي هذه الصورة
اور اسی وجہ سے جمہور محدثین کرام کے نزدیک صحابی کی تفسیر کو متاخرین کی تفسیر حدیث پر ترجیح ہے ۔ کیونکہ صحابہ نصوص کے وارد ہونے کے عینی شاہد ہیں۔ اور فھم نصوص میں صحابہ کرام کا اجتہاد‘ متاخرین فقہاء و تابعین اور ان سے بعد والے حضرات فقہاء سے زیادہ درست اور حق ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عمرؓ بیع خیار کی حدیث کی تفسیر کی ہے۔ اور حنفیہ نے اس صورت میں اختلاف کیا ہے۔ (حاشیہ خلاصة الافکار ص 214)
ہاں البتہ کسی مسئلہ میں جب صحابہ میں سے کسی کا قول مرفوع حدیث کے خلاف ہو تب صحابی کا قول حجت نہیں ہوتا۔ اور یہی حنفیہ کا اصول ہے۔ علامہ ابن ھمام فرماتے ہیں کہ
ان قول الصحابي حجة فيجب تقليده عندنا اذالم ينفه شئ آخر من السنة
یعنی ہمارے نزدیک صحابی کا قول حجت ہے جب تک سنت سے کوئی چیز اس کی نفی نہ کرے۔
(فتح القدير ص 37 ج 2 باب صلاة الجمعة )
ملاعلی القاری نے مرقاۃ ص 269 ج 3 میں فتح القدیر سے اس عبارت کو نقل کر کے سکوت کیا ہے۔
مولانا ظفر احمد تھانوی حنفی دیوبندی فرماتے ہیں کہ
قول الصحابي حجة عندنا اذالم يخالفه مرفوع
یعنی صحابی کا قول ہمارے نزدیک حجت ہے جب مرفوع حدیث کے خلاف نہ ہو۔
(اعلاء السنن ص 126 ج 1)
اس کلیہ کا مولانا نے اعلاء السنن ص 140 ج 1 میں بھی ذکر کیا ہے ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ
ولا حجة في قول الصحابى فى معارضة المرفوع لاسيما اذا كانت المسالة مختلفا فيها بين الصحابة
یعنی صحابی کا قول جب مرفوع حدیث کے معارض ہو تو حجت نہیں ہو تا بالخصوص جب وہ مسئلہ صحابہ کرام میں مختلف فیہ ہو۔
(اعلاء السنن ص 438 ج 1‘ باب آداب الاستنجاء )
ان عبارات علماء دیو بند سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جس مسئلہ میں صحابہ کرام مختلف فیہ ہوں یا جن مسائل میں صحابہ کرامؓ کے فتاویٰ حدیث مرفوع کے مخالف د معارض ہوں ان میں صحابہ کرام کے اقوال حجت شرعیہ نہیں۔ باقی رہا صحابہ کرام کا اجماع تو وہ ہمارے نزدیک حجت ہے۔ تفصیل کے لیے علامہ ابن حزم کی کتاب الاحکام فی اصول الاحکام ص 47 ج 1 دیکھئے اس ساری تفصیل سے ثابت ہوا کہ جھنگوی صاحب نے غلط بیانی کی ہے۔ ورنہ اہل حدیث صحابہ کرام کو معیار حق جانتے اور سمجھتے ہیں۔
کیا جمعہ کی دوسری اذان بدعت عثمانی ہے؟
جھنگوی صاحب نے ایک غلط بیانی یہ بھی کی ہے کہ اہل سنت کے نزدیک اقوال صحابہ سنت میں جبکہ اہل حدیث جمعہ کی دوسری اذان کو عثمانی بدعت کہتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 53)
الجواب:- اولا:-
قارئین کرام مسئلہ تقلید میں‘ مؤلف تحفہ اہل حدیث کی گپ ‘ کے زیر عنوان امام ابو حنیفہ سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کا تمام تر علم رائے و قیاس تھا۔ جبکہ اہل حدیث رائے وقیاس کی بجائے قرآن و سنت اور اقوال صحابہ کرام کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بناتے تھے۔ اور ان سے مسائل کا حل تلاش کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ دریں صورت کس منہ سے جھنگوی صاحب ہمیں مطعون کر رہے ہیں۔
ثانیا :۔
اگر کوئی شخص عثمانی اذان کو بدعت کہنے سے اہل سنت سے خارج ہے تو جھنگوی کان کھول کر سن لے کہ اسے بدعت کہنے والے حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ ص 140 ج 2 کتاب الصلوٰۃ باب الاذان يوم الجمعة‘ حافظ ابن حجر نے‘ فتح الباری ص 315 ج 2‘ میں اس روایت کو نقل کر کے سکوت کیا ہے۔
اور اکا بر دیابنہ کو اعتراف ہے کہ فتح الباری میں حافظ ابن حجر کا سکوت روایت کے صحیح ہونے کی علامت ہے۔ دیکھئے
(معارف السنن ص 385 ج 1 و درس ترمذی ص 74 ج 1 و قواعد في علوم الحدیث ص 89)
جھنگوی صاحب ہمت کریں اور عبداللہ بن عمرؓ کے اہل سنت سے خارج ہونے کا اشتہار شائع کریں‘
شاباش تیرے ہوئے تے جمے دے
ثالثاً:-
اوپر کی تقریر سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ مسئلہ صحابہ کرام میں مختلف فیہ تھا۔ اور پہلے یہ عرض کر دیا گیا ہے کہ جس مسئلہ میں صحابہ کرام مختلف فیہ ہوں تو وہاں ان کے اقوال حجت نہیں۔ لہذا حضرت عثمانؓ کا قول حجت نہ رہا۔ مگر آپ حیران ہو نگے حنفیوں نے اسے پھر بھی لائق عمل بنالیا ہے۔ حالانکہ جس روایت میں حضرت عثمان غنیؓ کا دوسری اذان دینا ثابت ہوتا ہے اسی حدیث میں اس امر کی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی زندگی مبارک سیدنا صدیق اکبرؓ اور عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں ایک ہی اذان دی جاتی تھی۔
(بخاری (912) باب الاذان یوم الجمعة)
رابعا:-
اگر جھنگوی یہ جھوٹا بہانہ تلاش کرلے کہ خلفاء الراشدین کا عمل سنت میں داخل ہے اور اس پر صحیح حدیث موجود ہے۔ اس کی تفصیل کا تو یہ موقع نہیں اہل علم تحفتہ الاحوذی ص 368 ج 1 کی مراجعت کریں‘ البتہ ہم یہاں پر جھنگوی کا منہ بند کرنے کی غرض سے حضرت عثمان غنیؓ کی ایک مثال عرض کرتے ہیں وہ یہ کہ حضرت عثمانؓ سے صحیح سند کے ساتھ یہ مروی ہے کہ انہوں نے سفر حج میں دور کعت کی بجائے پوری نماز پڑھی ہے۔
( بخاری ص 147 ج 1 ‘و مسلم ص 243 ج 1 و نسائی ص 170 ج 1)
لیکن احناف اس کے بر عکس یہ کہتے ہیں کہ اگر مسافر جان بوجھ کر نماز قصر کی بجائے پوری ادا کرے تو اس کی نماز فاسد ہو گئی۔ اور اس پر واجب ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے۔
(احسن الفتاویٰ ص 77 ج 4 ‘و خیر الفتاوی ص 681 ج 2 ‘و درس ترمذی ص 325 ج 2 ‘وفتح القدير ص 5 ج 2 و بدائع الصنائع ص 91 ج 1 ‘و البحر الرائق ص 130 ج 2 ‘و فتاویٰ عالم گیری ص 139 ج 1 ‘و فتاویٰ شامی ص 128 ج 1)
جھنگوی صاحب اگر اقوال صحابہ کو بھی سنت کہتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اس عمل عثمانی کو فاسد کہتے ہیں؟
کیا نماز کے بعد اجتماعی دعا اہل سنت کی علامت ہے؟
جھنگوی صاحب لکھتے ہیں کہ اہل سنت نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں جبکہ غیر مقلدین اہل حدیث دعا نہیں کرتے بلکہ بدعت کہتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 53)
الجواب:- اولاً:- فرض نمازوں کے بعد اجتماعی طور پر پیش امام کادعا منگوانا اور مقتدیوں کا آمین آمین کہنا کسی حدیث مرفوع و متصل سے ثابت نہیں ہے۔
دیوبندیوں کے محدث کبیرعلامہ کا شمیری فرماتے ہیں کہ
وليعلم أن الدعاء المعمول في زماننا من الدعا بعد الفريضة رافعين أيديهم على هيئة الكذائية لم تكن المواظبة عليه في عهده عليه السلام
معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے زمانہ میں جو فرض نمازوں کے بعد دعا مروج ہے کہ امام و مقتدی مل کر ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے اور آمین آمین کہتے ہیں یہ اس پر رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں مواظبت نہ تھی ۔
( عرف الشذی ص 86 ج 1)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ
اما این دعائه که آئمه مساجد بعد از سلام میکنند و مقتدیاں آمین آمین میکویند چنانچه الان در دیار عرب و عجم متعارف هست از عادت پیغمبر خدا نه بود و درین باب هیچ حدیث ثابت نه شده
آئمہ مساجد سلام پھیرنے کے بعد یہ جو دعا کرتے ہیں اور مقتدی آمین آمین کہتے ہیں جیسا کہ عرب و عجم کے ممالک میں رائج ہے یہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی عادت نہ تھی۔ اور اس سلسلہ میں کوئی حدیث صحیح ثابت نہیں۔
( شرح سفر السعادت ص 90 طبع مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر 1398ھ)
مولانا عبدالحی لکھنوی فرماتے ہیں
یہ طریقہ جو فی زمانہ مروج ہے کہ امام سلام کے بعد رفع یدین (ہاتھ اٹھا کر) کے ساتھ دعا مانگتا ہے اور مقتدی آمین کہتے ہیں حضور صلى الله عليه وسلم کے زمانے میں نہ تھا۔ جیسا کہ ابن قیم نے زاد المعاد میں اس کی تصریح کی ہے۔
( مجموعۃ الفتاویٰ ص 232 ج 1 طبع ایچ ایم سعید کراچی 1404ھ)
یہ تمام عبارات علماء دیو بند کی ہیں۔ جن سے ثابت ہوا کہ مروجہ دعار سول اللہﷺ سے ثابت نہیں۔ قارئین کرام جب آپ نے اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا تواب سنئے کہ دعا عبادت ہے اور عبادات اصل میں ممنوع الاصل ہیں۔ یعنی ان کی کیفیت وغیرہ اپنی طرف سے متعین نہیں کی جاسکتی۔ جس کی پوری تفصیل راقم نے دین الحق جلد دوم میں عرض کر دی ہے۔ اگر جھنگوی کو ہماری تحقیق پر اعتماد نہیں تو اپنے استاذ محترم مولانا سر فراز خان صاحب صفدر کی تالیف ’’راہ سنت‘‘ کا مطالعہ کرلے۔ جس میں انہوں نے اس ضابطہ اور کلیہ کو بیان کیا ہے۔
ثانیاً:
اسے بدعت کہنے کی وجہ سے آپ ہمیں اہل سنت سے خارج کر رہے ہیں۔ حالانکہ اسے بدعت کہنے والے متعدد آئمہ کرام میں امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ
(امادعاء الامام والمأمومين جميعا عقيب الصلاة فهو بدعة لم يكن على عهد النبيﷺ )
یعنی نماز کے بعد امام اور مقتدیوں کا اکٹھی دعا کرنا بدعت ہے ۔ یہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے عہد مبارک میں نہ تھی۔
(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ص 519 ج 22)
دیو بندیوں کے فقیہ العصر مفتی اعظم حضرت مفتی رشید احمد صاحب فرماتے ہیں کہ امام کے ساتھ مل کر دعا کرنے کی رسم خواہ سرا ہو یا جہرا بدعت ہے جو قلت علم و کثرت جہل سے پیدا ہوئی اور جہال کی افراط ہے۔
(زبدة الكلمات ص 9 مندرجہ احسن الفتاویٰ ص 67 ج 3)
علامہ محمد انور شاہ کا شمیری حنفی دیوبندی مرحوم نے العفائس المرغوبتہ کی تقریظ ص 37 میں مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی نے رسالہ بدعت والسنتہ ص 19 میں اور مولانا ابوالقاسم رفیق دلاوی نے عماد الدین ص 397 میں فرض نمازوں کے بعد امام کا دعامانگنا اور مقتدیوں کا مل کر آمین کہنے کو بدعت کہا ہے۔
جھنگوی ہمت کرے اور مذکورہ اکابر دیوبند کے اہل سنت سے خارج ہونے کا اشتہار شائع کرے۔ اگر جھنگوی صاحب تیار ہیں تو اشتہار کا مسودہ تیار کریں اشاعت کے لئے فنڈ ہم مہیا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ان شاء اللہ مگر قارئین کرام یاد رکھئے کہ جھنگوی اہل حدیث کو تو اس بدعت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے خارج از اہل سنت کہتا ہے اور کتاب کی اشاعت کر کے ہمیں بطور تحفہ پیش کرتا ہے لیکن اپنے اکابر کو ایسا تحفہ قطعا نہیں دے گا کیوں ؟ آخر انصاف کا میزان یہی ہے کہ مخالف کو تو مطعون کیا جائے اور اپنے اکابر کی باری آئے تو خاموشی سادھ لی جائے۔
تف ہے ایسی دیانت پر تعجب ہے ایسی خشیت الہی پر اور کیا کہنے ہیں اس عیاری ومکاری اور بے ایمانی کے
کیا اہل حدیث فقہ کے منکر ہیں؟
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت فقہ کے قائل ہیں جبکہ غیر مقلدین اہل حدیث فقہ کے منکر ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 53)
الجواب:- اولاً:-
سب سے پہلے یہ بات معلوم کرنی ضروری ہے کہ فقہ کسے کہتے ہیں ؟ ارباب لغت فرماتے ہیں کہ
(الفقه فهم الشئ قال ابن فارس وكل علم لشى فهو فقه )
یعنی فقہ کسی چیز کے فہم کو کہتے ہیں۔ ابن فارس نے کہا ہے کہ کسی بھی چیز کے علم کا نام فقہ ہے۔
(المصباح المنير ص 479)
شریعت کی اصطلاح میں قرآن و سنت کو فقہ کہتے ہیں۔ حضرت زید بن ثابتؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ
((نضر الله امراسمع مقالتی فبلغها قرب حامل فقه غير فقيه ورب حامل فقه إلى من هو افقه منه ))
اللہ تعالی اس شخص کو خوش و خرم رکھے جو میری بات کو سن کر دوسروں تک پہنچائے کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ فقہ کو اٹھانے والا فقیہ نہیں ہوتا اور بسا اوقات فقہ کو اٹھانے والے اپنے سے زیادہ فقیہ کے پاس لے جاتے ہیں۔
(ابن ماجه (230) وابوداؤد ( 3654) و ترمذی مع تحفہ ص 372 ج 3 و مسند احمد ص 183 ج 5 و سنن دارمی (229) وابن حبان (67)
یہی حدیث حضرت جبیر بن مطعمؒ سے بھی مروی ہے۔
(ابن ماجه (231) و مسند احمد ص 80 ‘ 82 ج 4 و مستدرک حاکم ص 87 ج 1 و سنن دارمی (227 ‘ 228) وطبرانی کبیر ص 127 ج 2 وابو یعلی ص 456 ج 6)
اس حدیث پر غور کیجئے کہ اللہ کے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اپنے ارشاد کو فقہ سے تعبیر کیا ہے۔ اصل میں قرآن وسنت اور ان کا فہم فقہ ہے۔ حضرت امیر معاویہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ
(من يرد الله به خيرا يفقه في الدين)
یعنی اللہ جس سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔
( بخاری ص 16 ج 1 و مسلم ص 333 ج 1 )
اس سے معلوم ہوا کہ فقہ دراصل دین کی سمجھ ہے جو کسی چیز نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے اور وہی قرآن وحدیث ہی ہے۔ اقوال الرجال تو علماء کی دماغ سوزی کا نتیجہ ہیں۔ لہذا ان کے فتاویٰ فقہ نہیں بلکہ آراء اور قیاسات ہیں۔
قارئین کرام جب آپ نے اس بات کو بخوبی سمجھ لیا تواب غور کیجیے کہ اس کا کون کلمہ گو منکر ہے کہ اللہ تعالی علماء کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔
ثانیا:-
غالباً جھنگوی صاحب کی فقہ سے مراد فقہ حنفی کی مروجہ کتب فقہ ہیں۔ حالانکہ اہل حدیث ان کا انکار فقہ ہونے کی وجہ سے نہیں کرتے بلکہ غیر معصوم امتیوں کے اقوال کی بناپر کرتے ہیں۔ جیسے حنفی حضرات فقہ جعفریہ‘ فقہ حنبلی‘ فقہ شافعی‘ فقہ مالکی وغیرہ کا انکار کرتے ہیں تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ حنفی فقہ کے منکر ہیں ؟ کیونکہ یہ متعدد فقہا کی فقہ کو نہیں مانتے۔
کیا اہل حدیث عذاب قبر کے منکر ہیں؟
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت قبر میں عذاب و ثواب کے قائل ہیں جبکہ موجودہ غیر مقلد اہل حدیث اس کے قائل نہیں ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 53)
الجواب:- اولا:-
میں حیران ہوں کہ اس کا جواب لکھوں تو کیا لکھوں؟ آخر جھنگوی نے کونسے دلائل دیئے ہیں۔ جن کو میں توڑوں ؟ جب سارے معاملے کی بنیاد ہی بد ظنی سے دو ہاتھ آگے کذب و افترا اور غلط بیانی پر ہے تو اس کے جواب میں صرف لعنت الله علی الكاذبين ہى کافی تھا۔ عذاب قبر کے ثبوت پر متعدد آیات قرآن اور متواتر احادیث ہیں ۔ بھلا کوئی اہل حدیث اس کا کب انکار کر سکتا ہے ؟ جھنگوی صاحب پر واضح ہو کہ عذاب قبر کا منکر خبیث العقیدہ‘ بد بخت بدترین بدعتی اور اہل سنت سے خارج ہے ۔ جب تک اس خبیث عقیدہ سے تو یہ نہ کرے اس سے کوئی معاملہ بحیثیت مسلمان کرنا جائز نہیں۔ اور اگر مر جائے تو اس کا جنازہ پڑھناہ جائز نہیں۔
ثانیاً:-
جھنگوی کی تحریر گواہ ہے کہ وہ صرف موجودہ علماء اہل حدیث کے متعلق یہ عقیدہ بتاتا ہے۔ گذشتہ فوت شدہ جملہ اہل حدیث علماء کے بارے ایسے اعتراف ہے کہ وہ عذاب قبر کے قائل تھے ۔ اس لیے ہمیں جملہ محد ثین کرام سے اس کے بارے دلائل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ رہے موجودہ دور کے علماء اہل حدیث تو اس سلسلہ میں پہلی بات تو ہم قارئین کرام کو دعوت فکر دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ
وہ کسی بھی مقامی اہل حدیث کے اہل علم سے پوچھ کر تسلی کر سکتے ہیں۔ جھنگوی صاحب ہمارے استاذی المکرم حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب گوندلوی حفظہ اللہ کی تالیف ’’عقیدہ اہل حدیث ص 341 کا مطالعہ کر لیں۔ ان شاء اللہ ان کے تمام شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے۔ ہاں البتہ ضد لاعلاج مرض ہے اس کے لیے جھنگوی صاحب کم از کم دس بار على الصبح لاحول ولاقوة الا بالله العلى العظيم‘ كا وظیفہ کیا کریں۔ ان شاء اللہ اس اکسیری نسخہ سے شفا ہو گی۔
اگر کوئی کسر رہ گئی تو جھنگوی صاحب اذا حدث کذب ( منافق جب بات کرتا ہے تو غلط بیانی کرتا ہے) کو بھی دن میں ایک آدھا بار یاد کر لیا کریں۔ اس سے ان شاء اللہ ضرور شفا ہوگی۔
کیا مبتدعین دیوبندیہ کی طرح اہل سنت حیات النبی صلى الله عليه وسلم کے قائل ہیں ؟
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت حیاۃ النبی ﷺ کے قائل ہیں جبکہ غیر مقلد اس کے قائل نہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 54)
الجواب:- اولا:-
پہلے مبتد عین دیا بنہ کا حیاۃ النبی ﷺ کے سلسلہ میں مؤقف سمجھ لینا ضروری ہے تاکہ بات کو سمجھنے میں آسانی رہے۔ دیو بند کے شیخ الحدیث مولانا حسین احمد مدنی فرماتے ہیں کہ آپ کی حیات نہ صرف روحانی ہے جو کہ عام شہداء کو حاصل ہے بلکہ جسمانی بھی ہے اور از قبیل حیات دنیوی بلکہ بہت وجوہ سے اس سے قوی تر۔
(مکتوبات شیخ الاسلام ص 130 ج 1 ‘و تسکین الصدور ص 275 و خیر الفتاویٰ ص 113 ج 1)
مولانا قاسم علی نانو توی فرماتے ہیں کہ
انبیاء علیھم السلام کو ابدان دنیا کے حساب سے زندہ سمجھیں گے۔
(لطائف قاسمیہ ص 4 و تسکین الصدور 275 و خیر الفتاوی‘ ص 114 ج 1)
قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث صحیح مرفوع متصل اور صحابہ کرامؓ میں سے ایسی حیات کا عقیدہ قطعاً ثابت نہیں‘ یہ مبتدعین دیوبند کا بریلوی مسلک سے تاثر کی وجہ سے عقیدہ ہے ور نہ اس کی کوئی معتبر دلیل ثابت نہیں۔
ثانیا:-
آپ کے استاد محترم مولانا سرفراز خاں صاحب صفدر نے تسکین الصدور ص 264 میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ علمائے اہل حدیث حیات النبی صلى الله عليه وسلم کے قائل ہیں۔ جھنگوی صاحب اس کی صراحت کریں کہ صفدر صاحب کا ذب ہیں یا آپ ؟
حیات انبیاء کا عقیدہ اور قرآن
موت کے بارہ میں عام اصول کے تحت انبیاء بھی اسی طرح شامل ہیں جیسا کہ عام انسان ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی نے سوائے اپنی ذات کے کسی اور کو اس اصول سے متشنیٰ قرار نہیں دیا۔
كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ(26)وَّ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ (سورۃ رحمٰن آیت 26 ‘ 27)
جو بھی اس پر ہے فانی ہے۔ اور تیرے رب بزرگی عزت والے کا چہرہ باقی رہے گا۔
حياة جاوداں صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے باقی تمام کو فنا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک عام قاعدے کے تحت تمام انبیاء کی موت کا اعلان کیا ہے۔
عام اعلان:
مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ(المائده : 75)
یعنی مسیح تو صرف اللہ کے رسول تھے ان سے قبل رسول فوت ہو گئے۔
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌۚ-قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُؕ (آل عمران : 144)
محمد (صلى الله عليه وسلم) صرف اللہ کے رسول ہیں ان سے پہلے رسول گزر چکے ہیں۔
ان دونوں آیات سے واضح ہوا کہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم سے پہلے جتنے بھی رسول آئے تھے وہ اپنی طبعی عمر گزار کر عدم کے مسافر ہوئے اور تمام نے موت کا پیالہ پی لیا۔ ہاں البتہ مسیح آسمان کی طرف زندہ اٹھائے گئے تھے۔ قرب قیامت کے وقت ان کا اس دنیا میں نزول ہو گا اور باقی ماندہ زندگی جب بسر کرلیں گے تو موت ان کو بھی آئے گی اور وہ بھی فوت ہو جائیں گے۔
(مشکوٰۃ باب نزول عیسیٰ بن مریم فصل سوم )
بعض انبیاء کی موت کا تذکرہ:۔
اس عام اعلان کے علاوہ اللہ تعالی نے انبیاء علیھم السلام کی موت کا بالخصوص ذکر کیا ہے جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ میں فرمایا
أَمۡ كُنتُمۡ شُهَدَآءَ إِذۡ حَضَرَ يَعۡقُوبَ ٱلۡمَوۡتُ (البقره : 133)
کیا تم اس وقت موجود تھے جب حضرت یعقوب کو موت آئی ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے بارہ میں فرمایا
حَتَّىٰ إِذَا هَلَكَ(المؤمن: 34)
یعنی جب یوسف علیہ السلام فوت ہو گئے۔ حضرت سلیمان علیہ اسلام کے بارہ میں فرمایا
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ(سورۃ السبا: 14)
جب ہم نے اس پر موت وارد کر دی تو جنوں کو اس کی موت کی خبر نہ ہوئی مگر زمین کے کیڑوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ
وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ
(مریم : 23)
مجھ پر سلامتی ہے جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا
وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ
(النساء: 159)
مسیح کی موت سے پہلے ہر ایک اہل کتاب ان پر ایمان لائے گا‘
حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ
وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ
(الشعراء:81)
وہی اللہ ہے جو مجھے موت دے گا پھر زندہ کرے گا۔
خاتم النبیین سید المرسلین محمد صلى الله عليه وسلم کی وفات:-
اللہ تعالی نے عام انبیاء علیہ السلام کی وفات کے تذکرہ کے ساتھ رسول اکرمﷺ کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ بھی وفات پا جانے والے ہیں۔
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۖ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ (34) كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (الانبياء: 34)
اور ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں بنائی۔ پس اگر آپ مر جائیں تو یہ ہمیشہ رہیں گے ہر نفس نے موت کو چکھنا ہے۔
اس آیت میں آپ علیہ السلام اور تمام انسانوں کی موت کا تذکرہ یکجا کیا ہے کہ جیسے عام انسانوں کو موت آتی ہے آپ کو بھی موت آجانی ہے۔ جس کی ضروری تفصیل ان الفاظ میں بیان فرمادی کہ
أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا(آل عمران : 144)
کیا پس اگر آپ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم (مسلمانوں ) اپنی ایڑھیوں کے بل پھر جاؤ گے اور جو شخص بھی اپنی ایڑھیوں کے بل پھر جائے وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ (الزمر : 30)
بلا شبہ آپ (صلى الله عليه وسلم) بھی فوت ہونے والے ہیں اور یہ بھی فوت ہونے والے ہیں۔ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی زبان اقدس سے یہ اعلان کروایا کہ
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام : 163)
کہہ دو بلاشبہ میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میرا مرنا اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
ان آیات نے رسول اللہ ﷺ کے بارہ میں واضح کر دیا کہ آپ ﷺ کو بھی موت آنے والی ہے اور آپ ﷺ اس بارہ میں دوسرے انسانوں سے مستشنیٰ نہیں ہیں۔
موت آگئی
پھر وہ وقت آگیا جب ان ارشاد ربانیہ کے عین مطابق آپ صلى الله عليه وسلم پر بھی موت کا وقت آپہنچا۔ جس سے کسی بھی ذی روح کو مفر نہیں ۔ آپ علیہ السلام کو حجتہ الوداع سے واپس آئے ہوئے چند دن ہی گزرے تھے کہ طبیعت خراب رہنے لگی۔ علاج معالجہ کیا مگر مرض بڑھتا گیا۔ غشی پر غشی طاری ہونے لگی اور بالآ خر حیات مستعار کی آخری گھڑی آ پہنچی جس کی تفصیل ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میری گود میں سر ٹپکائے ہوئے تھے قریب ہی پانی کا ایک پیالہ پڑا ہوا تھا آپ ﷺ پانی میں ہاتھ ڈالتے اور پھر اس ہاتھ کو چہرے پر پھیرتے اور فرماتے جارہے تھے۔
(لا اله الا الله ان للموت سكرات )
بلاشبہ موت میں سختیاں ہیں۔ اسی حالت میں کہ آپ ﷺ کے ہاتھ کو اوپر اٹھایا ہوا تھا فرمار ہے تھے۔
((في الرفيق الأعلى ))
اسی ثناء میں آپ ﷺ کی روح مبارک قبض ہو گئی اور ہاتھ نیچے کو جھک گیا۔
( بخاری ص 640 ج 2)
چند لمحوں میں آپ صلى الله عليه وسلم کی موت کی خبر پورے مدینہ میں پھیل گئی۔ جس سے شہر میں کہرام مچ گیا ایسے معلوم ہو تا تھا کہ پورے مدینہ کو تاریکی نے گھیرے میں لے لیا ہے ۔ حضرت انسؓ اس منظر کی نقشہ کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ کہ مدینہ شہر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی آمد کے دن روشن تھا مگر جس دن آپ صلى الله عليه وسلم کی وفات ہوئی مدینہ کی ہر چیز تاریک تھی۔
( ترمذی ص 203 ج 2)
سید نا ابو بکر صدیقؓ کا خطبہ اور صحابہ کا اجماع :-
یہ سب صدمے کی کیفیت تھی۔ عقیدت‘ محبت اور جذبات کے غلبے کا یہ عالم تھا کہ حضرت عمر فاروقؓ جیسے قوی و بہادر آدمی بھی کہنے لگے کہ جو شخص کہے گا کہ رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے ہیں میں اس کی گردن اڑادوں گا۔ (اللہ اکبر)
اس اثناء میں حضرت ابو بکر صدیقؓ آپ صلى الله عليه وسلم کی میت مبارک کے پاس پہنچے چہرہ انور سے چادر کو ہٹایا آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش جاری ہے۔ چہرہ انور کی طرف جھکتے ہیں اور اسے بوسہ دیتے ہیں۔ دردُ فراق کا یہ عالم ہے اور فرماتے ہیں کہ
(لا يجمع الله عليك موتتين ابدا اما الموة التي كتب الله عليك فقدمتها )
اللہ تعالی آپ ﷺ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گاوہ موت اللہ نے جو آپ صلى الله عليه وسلم پر لکھی تھی تو آپ ﷺ فوت ہو چکے ہیں۔
پھر حضرت عمر فاروقؓ ابھی صحابہ کرام سے باتیں کر رہے تھے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا عمر بیٹھ جائیے مگر حضرت عمر فاروقؓ نے بیٹھنے سے انکار کر دیا‘ تو حضرت ابو بکر صدیقؓ نے خطبہ دینا شروع کر دیا۔
صحابہ کرام حضرت عمر فاروقؓ کو چھوڑ کر حضرت ابو بکر صدیقؓ کی طرف آگئے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا
(من كان منكم يعبد محمدافان محمد اقدمات ومن كان يعبد الله عزوجل فان الله حي لا يموت قال الله عز و جل )
(وما محمد الرسول قد خلت من قبله الرسل الى الشاكرين )
جو تم میں سے محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی عبادت کرتا ہے تو محمد ﷺ بلاشبہ فوت ہو چکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے۔ کبھی نہیں مرے گا پھر آپ نے یہ آیت پڑھی کہ نہیں محمد مگر اللہ کے رسول ان سے پہلے تمام رسول فوت ہو چکے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اس خطبہ کے بعد سب کو یقین ہو گیا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم فوت ہو چکے ہیں۔ اور ہر ایک کی زبان پر
(وما محمد الارسول قد خلت من قبله الرسل )
آیت تھی۔
(ملخصاً بخاری ص 166 ج 1)
کسی ایک صحابی نے بھی آپ صلى الله عليه وسلم کی موت کا انکار نہیں کیا بلکہ تمام نے تسلیم کیا بلاشبہ تمام اکا بر و اصاغر صحابہ کرامؓ کار سول اللہ صلى الله عليه وسلم کی وفات پر اجماع تھا۔ منقول از عقیدہ اہل حدیث‘ از حضرت استاذی المکرم
شان صدیق اکبر رضی اللہ عنہ:-
حضرت ابو بکرؓ کا جگر کہاں سے لاؤں جنہوں نے آنحضرت ﷺ سے انتہائی عقیدت و محبت کے باوجود تمام صحابہ کرام کے سامنے بغیر کسی مصلحت اور وقت کی نزاکت کے حقیقت کا اظہار کیا اور اپنی قوت ایمانی اور علوم نبویہ میں مہارت کی وجہ سے صحابہ کرام کا آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی وفات پر اجماع کرا دیا ۔ بلاشبہ صدیق اکبرؓ نے جذبات و محبت اور فرط عقیدت کو قرآن و سنت کے تابع رکھا۔
حضرت صدیق اکبرؓ نے اللہ کی توفیق سے اس وقت امت مرحومہ کا حوصلہ بڑھایا جب صحابہ کرام اس دکھ کے پہاڑ کو سہنے سے عاجز آگئے۔
حضرت صدیق اکبرؓ نے اس وقت امت مرحومہ کی راہنمائی فرمائی جب ان جیسے نڈر‘ بے باک اور قرآن و سنت سے لبریز سینہ کی اشد ضرورت تھی۔ صدیق اکبرؓ نے عقیدہ حیاۃ النبی کو پاش پاش کر کے رکھ دیا‘ حضرت صدیق اکبرؓ نے وفات النبی اللہ کے عقیدہ کو قرآن و سنت کی آہنی سلاخوں سے مضبوط و مستحکم کیا کہ تمام صحابہ کرام نے ان کی فراست ایمانی اور علوم نبوی کے امین ہونے کی گواہی دی اور آنے والے مبتدعین ان کے بیان کردہ دلائل کو توڑنہ سکے‘ صدیق اکبر نے اپنے مطاع ﷺ کے دین کی خوب آبیاری کی کہ کوئی کفروشرک اور بدعت کی آندھی اس پودے کو اس کی جڑ سے اکھیڑ نہ سکی‘ وہ اپنے آقا ﷺ کے ساتھ جنت میں اسی طرح رہیں گے‘ جیسے وہ دنیا میں اپنے آقا ﷺ کے ساتھ تھے ۔ اس سے بڑ کر ان کے لیے اور کوئی خوشی نہیں۔
حقیقت بدلنے کی کوشش:-
قارئین کرام ان واضح نصوص اور اجماع صحابہ کرام کو جھنگوی ٹولہ سدی جیسے کذاب و دجال راویوں کی من گھڑت روایات کے بل بوتے پر رد کرنے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ دعویٰ پوچھو تو اہل سنت ہے شرم ہے نہ حیا‘
(انا للہ وانا الیہ راجعون)
دیو بند کا حیاتی ٹولہ خود کو حنفی باور کراتا ہے۔
مولانا اسماعیل سلفی مرحوم نے ایک بارا نہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
ایسے اوہام کو عقیدہ کہنا بھی صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ کتب عقائد (شرح عقائد نسفی‘ عقیدہ طحاویہ‘ شرح العقیدہ الاصفہانیہ‘ عقیده صابونیہ وغیرہ) میں اس کا کوئی ذکر نہیں حالانکہ کتب عقائد کے سارے مشمولات کے مستقل عقیدہ کی حیثیت بھی محل نظر ہے۔ عقیدہ کے لیے حسب تصریح متکلمین اور اشاعرہ و ماتریدیہ قطعی دلائل کی ضرورت ہے۔ حیات انبیاء کی احادیث استاد کے لحاظ سے اخبار احاد صحیح سے بھی فروتر ہیں۔
(تحریک آزادی فکر ص 389 طبع مکتبہ نذیریہ لاہور)
کیا آٹھ رکعت تراویح اہل سنت کا مذہب نہیں ؟
جھنگوی صاب فرماتے ہیں کہ اہل سنت میں تراویح سے کم کے قائل نہیں۔ جبکہ غیر مقلد آٹھ کے قائل ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 54)
الجواب:- اولاً:-
آٹھ رکعت نماز تراویح سنت صحیحہ سے ثابت ہے صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا ہے امام مالک نے اسے اختیار کیا ہے۔ متعدد حنفی بزرگوں نے آٹھ رکعت کو مسنون تسلیم کیا ہے۔ (جن کی تفصیل آگے آرہی ہے ) تو کیا یہ تمام اہل سنت سے خارج ہیں ؟ وضاحت کیجئے۔
ثانيا :-
احادیث صحیحہ سے آٹھ رکعت نماز تراویح ثابت ہے ۔ امام ابوسلمہ رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ
(كيف كانت صلوة رسول الله له في رمضان فقالت ما كان يزيد في رمضان ولا في غيره على احدى عشرة ركعة )
(الحديث)
یعنی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی رمضان المبارک میں نماز کیسی تھی؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ (الحدیث)
(بخاری ص 269 ج 1 و مسلم ص 254)
حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ
(صلى بناء رسول الله صلى الله عليه وسلم في شهر رمضان ثمان ركعات و اوتر)
یعنی ہم نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ رمضان میں آٹھ رکعت نماز (تراویح) باجماعت پڑھی اور وتر بھی‘ الحدیث
(صحیح ابن حبان ص 64 ج 5 ( رقم الحدیث 2406) وابن خزیمہ ص 138 ج 2 (رقم الحدیث 1070) و مسند یعلی ص 326 ج 2 (رقم الحديث 1796)
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعبؓ نبی صلى الله عليه وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ہے آج رمضان کی رات میں میں نے ایک کام کیا ہے۔
(قال وماذاك يا ابي ؟ قال نسوة دارى قلن انا لانقرا القرآن فنصلى بصلاتك قال فصليت بهن ثمانى ركعات ثم اوترت قال فكان شبه الرضا ولم يقل شيئا)
نبی کریم ﷺ نے سوال کیا‘ تو حضرت ابی نے جواب دیا کہ گھر کی عورتوں نے کہا کہ ہم آج آپ (رضی اللہ عنہ ) کا قرآن نماز (تراویح) میں سنیں گی۔ چنانچہ میں نے ان کو آٹھ رکعت (تراویح) پڑھائیں ۔ اور وتر بھی یہ سن کر نبی ﷺ خاموش ہو گئے۔ اور کچھ نہ فرمایا۔ اور یہ آپ صلى الله عليه وسلم کے راضی ہونے کی دلیل تھی۔
(صحیح ابن حبان ص 111 ج 5 رقم الحدیث 2541) و مسند ابو یعلی ص 326 ج 2 ( ر قم الحديث (1795) و مسند احمد ص 115 ج 5 و طبرانی الاوسط ص 441 ج 4 رقم الحدیث 3743)
علامہ ھیثمی فرماتے ہیں کہ طبرانی کی سند حسن ہے۔
(مجمع الزوائد ص 77 ج 2)
اور جھنگوی صاحب کے استاد محترم مولانا سر فراز خان صفدر فرماتے ہیں کہ
اگر علامہ ھیثمی کو صحت اور سقم کی پرکھ نہیں تو اور کس کو تھی۔
(احسن الکلام ص 290 ج 1)
اس حدیث میں تقریر کی سنت کا بیان ہے اور آٹھ رکعت عدد کا بھی ذکر ہے۔
ثالثاً:-
مذکورہ مرفوع احادیث کے علاوہ اس پر حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں عمل بھی رہا۔ امام سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ
(امر عمر بن الخطاب ابی بن كعب وتميما الدارى ان يقوم للناس باحدى عشرة ركعة )
یعنی حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت ابی بن کعب اور تمیم الداریؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کو قیام رمضان کی گیارہ رکعات قیام ( پڑھائیں ) کرائیں۔ الحدیث
(موطاامام مالک ص 98, بھیقی ص 496 ج 2 و شرح معانی الاثار ص 202‘ علامہ نیوی مرحوم حنفی دیوبندی فرماتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے۔ (آثار السنن ص 250)
آٹھ رکعت تراویح کے مسنون ہونے پر علمائے احناف کی شہادات
(۱) علامه ابن ھمام حنفی المتوفی 681ھ فرماتے ہیں کہ
(فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة احدى عشر ركعة بالوتر في جماعة فعله الله ثم تركراه)
یعنی اس تقریر سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ قیام رمضان جماعت کے ساتھ گیارہ رکعات سنت ہے وتر کے ساتھ‘ اس قدر ہی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے رکعات پڑھیں پھر عذر کی وجہ سے ترک کر دیں (کہ کہیں فرض نہ ہو جائے)
(فتح القدير ص 407 ج 1 طبع مکتبہ الرشیدیہ کوئٹہ )
اس عبارت کو ملخصاً ابن نجیم نے البحر الرائق ص 67 ج 2 میں اور ابی عابدین نے منحتہ الخالق ص 67 ج 2 میں نقل کر کے سکوت کیا ہے۔
علامہ طحطاوی فرماتے ہیں کہ
(ان النبي ﷺ لم يصليها عشرين بل ثمانيا )
یعنی رسول اللہ ﷺ نے بیسں رکعات نماز تراویح نہیں پڑھی بلکہ آٹھ رکعت ادا فرمائی ہیں۔
(طحطاوی علی در المختار ص 495 ج 1)
علامہ ابن عابدین فرماتے ہیں کہ
(ان مقتضى الدليل كون المسنون منها ثمانية )
یعنی دلیل کے اعتبار سے آٹھ رکعات نماز تراویح مسنون ہے اور باقی مستحب۔
(فتاویٰ شامی ص 45 ج 2)
ملا علی القاری حنفی فرماتے ہیں کہ
(ان التراويح فى الأصل أحدى عشرة ركعة فعله رسول الله له فيكون سنة فالعشرون مستحبا)
یعنی اصل میں نماز تراویح مع و تر گیارہ رکعات ہی مسنون ہے بیسں رکعات مستحب ہیں۔
(حاشیہ مشکوٰة ص 115 واللفظ لہ ومرقاة ص194 ج3)
نواب قطب الدین حنفی فرماتے ہیں کہ
حضرت عمر کے عہد میں کبھی گیارہ یا بعضی راتوں میں قصد تشبہ (مشابہت ) کا ساتھ حضرت ﷺ کے کیا ہو کہ حضرت سے گیارہ پڑھنی ثابت ہوئی ہیں۔
(مظاہر حق ص 421 ج 1 طبع نول کشور 1934ء)
شیخ عبد الحق محدث دہلوی حنفی فرماتے ہیں کہ
(وكان بعض السلف في عهد عمر بن عبد العزيز يصلون باحدى عشرة ركعة قصد التشبيه برسول الله )
یعنی عمر بن عبد العزیز کے عہد میں بعض سلف آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی مشابہت میں گیار در کعات نماز تراویح پڑھا کرتے تھے۔
(ما ثبت بہ السنتہ ص220)
علامہ عینی حنفی فرماتے ہیں کہ
(وقيل احدى وعشرة ركعة وهو اختيار مالك لنفسه واختيار ابو بكر بن العربي )
یعنی بعض کہتے ہیں کہ تراویح گیارہ رکعات ہے اور یہ امام مالک نے اپنے لیے اسی کو پسند کیا ہے۔ اور ابن العربی نے اس کو اختیار کیا ہے۔
(عمدۃ القاری ص 357 ج 5)
مفتی کفایت اللہ صاحب حنقی دیوبندی کے نائب مفتی جناب مولانا حبیب المرسلین حنفی دیو بندی فرماتے ہیں کہ
حدیث جابر رضی اللہ عنہ کی تراویح کے بارے میں صحیح ہے ۔ لہٰذا آٹھ رکعت تراویح آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی سنت حقیقہ ہے۔
(کفایت المفتی ص 352 ج 3)
نوٹ:
مولانا نے بعد میں کسی مصلحت سے اس فتویٰ سے رجوع کر لیا تھا۔
حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ
اکثر روایتوں سے حضور کا آٹھ رکعتیں (تراویح) پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔
(کفایت المفتی ص 363 ج 3)
مزید فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری کو حضرت عمرؓ نے گیارہ رکعت کا حکم دیا تھا۔
( ایضاً ص 351 ج 3)
جھنگوی صاحب صراحت کریں کہ آیا مذکورہ اشخاص اہل سنت میں داخل تھے یا نہیں ؟ بالخصوص حضرت عمر فاروقؓ‘ جنہوں نے آٹھ رکعت پڑھانے کا حکم فرمایا۔ واضح رہے کہ حنفیہ کی طرف سے جو یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عمر فاروق‘ کے دور میں بیس رکعتیں پڑھی جاتی تھیں یہ روایت سند ا منقطع ہے۔ تفصیل کے لئے (دین الحق ص 531 ج 1 ) دیکھئے
کیا تراویح اور تہجد میں فرق ہے؟
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ
اہل سنت کے ہاں تہجد اور تراویح دو الگ الگ نمازیں ہیں۔ جبکہ غیر مقلدین اہل حدیث کے ہاں تہجد اور تراویح ایک چیز ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 56)
پہلے حدیث نقل کی جاچکی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضرت ابو سلمہ نے سوال کیا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی نماز رمضان میں کیسی تھی۔ اس کے جواب میں حضرت عائشہؓ نے کہا کہ آنحضرت ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے۔
( بخاری ص 269 ج 1 و مسلم ص 254 ج1)
حضرت عائشہؓ کے اس جواب سے ثابت ہوا کہ وہ تہجد اور تراویح کو ایک ہی قرار دیتی تھیں۔ ورنہ لازم آئے گا کہ حضرت عائشہؓ نے سائل کو جواب غلط دیا تھا۔ اور یہ باطل ہے علاوہ ازیں امام بخاری‘ امام بیھقی (السنن الکبریٰ ص 495 ج 2) علامہ زیلعی حنفی (نصب الرايه ص 153 ج 2) علامہ ابن همام حنفی ( فتح القدیر ص 407 ج 1) علامہ حسن بن عمار الشرنبلالی حنفی (مراقی الفلاح ص 224) علامہ ابن نجیم حنفی نے (البحر الرائق ص 66,67 ج 2) وغیرہ نے اس روایت کو تراویح کے ابواب میں ذکر کر کے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اس حدیث کا تعلق نماز تراویح کے ساتھ ہے اور حضرت عائشہ نے تہجد اور تراویح کو ایک قرار دیا ہے۔
مولانا انور شاہ کاشمیری مرحوم حنفی دیوبندی فرماتے ہیں کہ
یہ بات تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ نبی ﷺ کی تراویح آٹھ رکعت تھیں اور کسی ایک روایت سے بھی ثابت نہ ہو سکا کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے رمضان میں تہجد اور تراویح الگ الگ پڑھی ہوں۔ نبی صلى الله عليه وسلم کے زمانہ میں تراویح اور تہجد کی رکعات میں کوئی فرق نہ تھا۔ بلکہ صفت اور وقت میں فرق تھا۔
( مترجم العرف الشذی ص 282 ج 1)
اس بات کو حضرت شاہ صاحب نے فیض الباری ص 240 ج 2 میں مفصل طور پر لکھا ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی چیز ہے۔ ان کی عبارت اور اس کی توضیح و تشریح کے لیے دین الحق ص 520 ج 19 کا مطالعہ کریں بلکہ حضرت مولانا عبدالحی لکھنوی نے مجموعۃ الفتاویٰ ص 1329 میں یہی موقف اختیار کیا ہے۔ جھنگوی ہمت کرے اور ان اکابر دیو بند کو اہل سنت سے خارج ہونے کا اشتہار شائع کرے۔
کیا اہل حدیث قبر نبوی علیہ التحیۃ والسلام کی زیارت کو حرام سمجھتے ہیں؟
جھنگوی شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر پورے جذم ویقین کے ساتھ غلط بیانی کرتے ہوئے تحریر کرتا ہے کہ اہل سنت حضور علیہ السلام کے روضہ کی زیارت کو ثواب سمجھتے ہیں جبکہ غیر مقلد اہل حدیث اسے حرام کہتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 54)
الجواب : – اولاً :-
جھنگوی نے اہل حدیث کی طرف یہ منسوب کیا ہے کہ یہ روضہ اقدس کی زیارت کو حرام کہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں یہ غلط بیانی ہے جھنگوئی اور اس کے رفقاء اور مشیر جنہوں نے اس کتاب کی تالیف میں بڑے بڑے قیمتی مشورے دیئے اور مصنف کی خوب پیٹھ ٹھونکی ہے وہ سب مل کر اور پوری کوشش کر کے اس انکشاف کا ثبوت دکھا دیں ورنہ (لعنة الله على الكاذبين ) کی وعید سے ڈر جائیں۔
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ
(وان كان المسافر الى مسجده يزور قبره ﷺ بل هذا من افضل الاعمال الصالحة )
یعنی اگر مسافر مسجد نبوی کی طرف جائے تو آپ صلى الله عليه وسلم کی قبر کی زیارت کرے بلکہ یہ افضل اعمال صالحہ سے ہے۔
(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ص 330 ج 27)
ثانیاً:-
ہاں البتہ اہل حدیث کے نزدیک خاص قبر اطہر کی زیارت کے لیے سفر جائز نہیں بلکہ سفر میں نیت مسجد نبوی کی زیارت کی کرنی چاہیے ۔ اور وہاں جاکر قبر نبوی علیہ السلام کی زیارت کرنا مستحب اور عمل حسنہ ہے ۔ اور اس پر متواتر احادیث ہیں۔ مثلا حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
(لا تشد الرحال الا الى ثلثة مساجد المسجد الحرام ومسجد الاقصى ومسجدى) الحديث
یعنی ثواب کی نیت سے سفر نہ کیا جائے مگر تین مساجد کی طرف‘ بیت اللہ مسجد اقصیٰ اور میری مسجد ( یعنی نبوی)
( بخاری ص 159 ج 1 و مسلم ص 433 ج 1 )
اس حدیث کو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عام ہی سمجھا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ طور سے واپس آئے تو لا تشد الرحال کی حدیث کے راوی حضرت بصرہ بن ابی بصر والغفاری رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہاں سے آئے؟ تو حضرت ابو ہریرہؓ نے جب بتایا تو حضرت بصرہؓ کہنے لگے کہ
(لو لقيتك من قبل ان تاتيه لم تأته قلت له ولم ؟ قال اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لا تعمل المطى الا الى ثلثة مساجد المسجد الحرام ومسجدى ومسجدبيت المقدس ) (الحديث)
اگر تم مجھ سے طور پر جانے سے پہلے ملتے تو وہاں نہ جاتے۔ میں (ابو ہریرہؓ) نے کہا کیوں ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سنا ہے آپ علیہ السلام فرماتے تھے نہ سفر اختیار کیا جائے مگر تین مساجد کی طرف ایک مسجد حرام‘ دوسری میری مسجد اور تیسری مسجد بیت المقدس۔
(الحدیث) ( سنن نسائی ( مجتبیٰ ) ص 168 ج 1) (رقم الحدیث 1431) والسنن الکبریٰ للنسائى ص 540 ج 1 ( رقم الحدیث 1754) و موطاامام مالک ص 92 و مسند احمد ص 7 ج 6 و مشکل الاثار للطحاوی ص 242 ج 1‘ طبع مجلس دار انتظام ہند ) ومسند ابوداؤد طیالسی (1348,2506) و طبرانی کبیر ص 276 ج 2 و طبرانی الاوسط ص 378 ج 3 والتمهيد لمانی الموطا من المعانی والاسانید ص 36 ج 23)
علامہ البانی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے‘ ارواء الغلیل ص 228 ج 3
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام نے حدیث‘ لا تشد الرحال‘ کو عام سمجھا تھا جس سے ثابت را کہ ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مقام کی زیارت زیاتی ثواب کی غرض سے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ اس ساری تفصیل سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اہل حدیث کے نزدیک روضہ نبوی صلى الله عليه وسلم کی زیارت تو مستحب اور اعمال حسنہ سے ہے۔ البتہ سفر کرتے وقت مسجد نبوی کی زیارت کی نیت کرنی چاہیے اور وہاں جا کر جہاں مسجد نبوی کی زیارت کرنی چاہئے روضہ رسول کی بھی زیارت کر لینی چاہئے۔
امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ
حج سے پہلے یا بعد جب مدینہ میں داخل ہو تو مسجد نبوی میں آئے اور وہاں نماز پڑھے‘ وہاں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار نماز سے زیادہ ہے الحدیث اور تشد رحال نہ کرے مگر مسجد نبوی‘ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰٰ کی طرف جیسا کہ بخاری ص 168 ج 1 و مسلم ص ج 1 میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے…
پھر نبی صلى الله عليه وسلم پر درود پڑھے اور ان کے صاحبین (ابو بکرؓ و عمرؓ) پر سلام کہے کیونکہ آپ علیہ السلام کا فرمان ہے
کہ جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا تو اللہ تعالیٰ میری روح کو لوٹا دیتا ہے اور اسے جواب دیتا ہوں۔ ابوداؤد
حضرت عبد اللہ بن عمر جب مسجد نبوی میں داخل ہوتے تو فرماتے کہ
(السلام عليك يارسول الله‘ السلام عليك يا ابابكر‘ السلام عليك يا ابت):
پھر واپس پلٹ آتے اسی طرح تمام صحابہ کرام کرتے تھے۔
(مجموع فتاویٰ ابن تیمہ ص 146 ج 26 )
مولانا محمد بشیر صاحب سہوانی مرحوم فرماتے ہیں کہ
(لانزاع في نفس مشروعية زيارة قبر نبينا ﷺ واماما نسب إلى شيخ السلام ابن تيمية من القول بعدم مشروعية زيارة قبر نبينا ﷺ فافتراء )
یعنی شرعی طریقہ پر آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی قبر اطہر کی زیارت کرنے میں قطعا کوئی نزاع نہیں ہے اور اس بارہ میں علامہ ابن تیمیہ پر یہ محض جھوٹا بہتان ہے کہ قبر نبوی صلى الله عليه وسلم کی زیارت کو نا جائز کہتے تھے۔
( صيانتہ الانسان ص 3)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ زیارت میں اختلاف نہیں بلکہ سفر کی نیت میں اختلاف ہے۔ مگر جھنگوی صاحب غلط بیانی کرتے ہوئے ذرا بھر حیا نہیں کرتے۔ ہم انہیں چیلنج کرتے ہیں کہ جو بات آپ نے لکھی ہے اس کا ثبوت دیں ورنہ یاد رکھے غلط بیانی کرنا مومن کی شایان شان نہیں بلکہ منافقت کی علامت ہے واذا احدث كذب اللہ سمجھ اور ہدایت عطا کرے۔ آمین
کیا فوت شدہ سنتے ہیں؟
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت نبی صلى الله عليه وسلم کی سماع عند القبر درود و سلام کے قائل ہیں جبکہ غیر مقلد منکر ہیں۔ ( تحفہ اہل حدیث ص64)
الجواب:- اولاً : –
کتب عقائد وغیرہ سے یہ ثابت کیجیے اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی قبر پر جو درود و سلام پڑھا جاتا ہے اسے آنحضرت ﷺ براہ راست اور بلاواسطہ کے سنتے ہیں؟ پھر قرآن کریم کی کوئی نص یا حدیث صحیح‘ صریح‘ مرفوع، متصل پیش کیجیے جس کا یہ معنی ہو کہ قبر نبوی پر جو درود پڑھا جاتا ہے اسے آنحضرت ﷺ عاد تاً سنتے ہیں۔ اگر آپ ایسی کوئی آیت قرآن سے دکھا دیں یا حدیث نبوی ثابت کر دیں تو ہم قبول کرنے کے لیے تیار ہیں ورنہ عقائد فاسدہ کو اہل سنت کا عقیدہ کہتے ہوئے اللہ کا خوف کیجیے۔
ثانیا: –
ارشاد ربانی ہے کہ
اِنَّ اللّٰهَ یُسْمِـعُ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِـعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ ( سورة الفاطر:24)
اللہ تعالیٰ جسے چاہے سنائے اور آپ قبر والوں کو نہیں سنا سکتے۔ (35-22)
اِنَّكَ لَا تُسْمِــعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِــعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ (النمل: 80)
آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو جب پیٹھ موڑ کر جارہے ہوں۔ (80-27)
اسی مضمون کی آیت سورت الروم ( آیت 52) میں بھی موجود ہے۔
یہ آیات قرآن گواہ ہیں کہ جو شخص فوت ہو کر عالم برزخ میں جاچکا ہے وہ اہل دنیا کی کوئی بات سننے پر قادر نہیں ہے۔
ثالثاً:-
سماع موتی کا مسئلہ صحابہ کرام سے لے کر تاحال مختلف فیہ ہے جس کا اعتراف مولانا غلام اللہ صاحب نے‘ جواہر القرآن ص 902 ج 2 میں‘ مفتی محمد شفیع صاحب نے معارف القرآن ص 602 ج 6 میں ‘ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب نے تفسیر عثمانی ص 545 میں اور مولانا اشرف علی تھانوی نے‘ امداد الفتاویٰ ص 437 ج 5 میں کیا ہے اور اس بات پر متعدد دلائل بھی موجود ہیں ‘ سوال یہ ہے کہ
جس قدر صحابہ کرامؓ سماع موتی کے منکر تھے ؟ بالخصوص ام المومنین حضرت عائشہؓ ( بخاری ص 567 ج 2) تو کیا یہ اہل سنت سے خارج تھے۔
جھنگوی پورے وثوق سے اپنے ( نصرۃ العلوم کے ) ٹولہ سمیت اس کی وضاحت کرے۔
رابعاً:-
علماء حنفیہ عدم سماع کے قائل ہیں۔ جیسا کہ فتح القدیر اور فتاویٰ شامی میں صراحت ہے اگر عربی عبارت سمجھنے سے قاصر ہوں تو (کفایت المفتی ص 194 ج 1) کا مطالعہ کر لینا۔ جہاں حضرت مولانا کفایت اللہ صاحب نے سماع موتی کا انکار کر کے حنفیہ کا مسلک بھی یہی بتایا ہے اور فتاویٰ شامی سے عبارت بھی نقل کی ہے۔
مزید تسلی و تشفی کے لیے (جواہر القرآن ص 904 ج 2) کو بھی ایک نظر دیکھ لینا کہ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان صاحب مرحوم دیوبندی نے یہ ثابت کیا ہے کہ مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ، مولانا محمد انور شاہ کاشمیری‘ مولانا شبیر احمد عثمانی‘ عدم سماع کے قائل تھے جھنگوی ہمت کرے اور مزکو رہ علمائے دیو بند کے اہل سنت سے خارج ہونے کا فتویٰ صادر کرے اور اس فتویٰ کی تصدیق مولانا سر فراز خان صاحب صفدر سے بھی کرادے تو ہم مان جائیں گے کہ واقعی مولانا کفایت اللہ صاحب‘ رشید احمد گنگوہی صاحب‘ انور شاہ کاشمیری‘ شبیر احمد عثمانی صاحب وغیرہ بوجہ سماع موتی کے انکار کے اہل سنت سے خارج اور فرقہ ضالہ میں داخل تھے۔
کیا بھینس اور گھوڑے کی قربانی جائز ہے؟
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت بھینس کی قربانی جائز سمجھتے ہیں جبکہ غیر مقلد اہل حدیث حرام سمجھتے ہیں۔ اہل سنت گھوڑے کی قربانی حرام سمجھتے ہیں جبکہ غیر مقلد اہل حدیث حلال سمجھتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 54)
الجواب:- اولا:-
بھینس کی قربانی پر اہل حدیث میں اختلاف کے ضمن میں ، بھینس کی قربانی کے زیر عنوان تفصیل آرہی ہے اور گھوڑے کی حلت پر بحث مذہب اہل مدینہ اور اہل حدیث کے سلسلہ میں‘ گھوڑے کی حلت و حرمت‘ کے عنوان سے آگے ان شاء اللہ آرہی ہے ان دونوں مسائل کو وہاں سے ہی دیکھ لیا جائے۔
ثانیا:-
ہم نے زندگی میں جھنگوی سے زیادہ کوئی کاذب نہیں دیکھا۔ غالباً جھنگوی اہل حدیث کے خلاف جھوٹ لکھنا جائز سمجھتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ کذب وافترا اور غلط بیانی کرتے ہوئے کوئی شرم و حیا محسوس نہیں کرتا۔ ہماراد عویٰ ہے کہ کسی اہل حدیث نے گھوڑے کی قربانی کا فتویٰ نہیں دیا۔ اگر جھنگوی کے قول میں صداقت ہے تو وہ ہمت کرے اور اپنے رفقاء سمیت مل کر سر توڑ کوشش کر کے کسی اہل حدیث مفتی کا فتوی دکھائے ورنہ اللہ کا خوف کرے اور اپنے احوال کو درست کرے اور اہل حق کی مخالفت ترک کردے۔
جھنگوی کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث
(نحرنا على عهد رسول الله ﷺ فا كلناه )
( بخاری ص 829 ج 2 و مسلم ص 150 ج 2)
سے اشتباہ ممکن تھا کہ گھوڑے کی قربانی جائز ہے۔ مگر تمام شارحین حدیث نے اس کا معنی ’’ الذبح ‘‘ کیا ہے ۔ اگر آپ کو اعتبار نہ ہو تو علامہ شوکانی کی تالیف ( نیل الاوطار ص 117 ج 8) اور (السراج الوهاج ص 278 ج 2) للتواب صدیق الحسن خاں محدث قنوجی کا مطالعہ کرلینا۔
علمائے اہل حدیث کا یہاں " نحر ” کا معنی ’’ (لذبح ‘‘ کرتا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ علمائے اہل حدیث گھوڑے کی قربانی کو جائز نہیں جانتے۔ علمائے اہل حدیث میں سب سے کچا سلفی علامہ وحید الزمان ہے اس نے بھی اس کا معنی ذبح ہی کیا ہے۔
(تیسیر الباری ص 355 ج 5 طبع امجد اکیڈمی لاہور )
گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ یہی مقام تھا کہ کسی سلفی کو وہم ہو سکتا تھا کہ گھوڑے کی قربانی جائز ہے مگر شارحین حدیث نے اس کا معنی ذبیح کر کے اس احتمال کو رد کر دیا۔ مگر افسوس کہ جھنگوی کو جھوٹ کا ایسا چسکا پڑا ہے کہ اس کی عادت مبارکہ بن چکی ہے۔ اللہ اسے سمجھ اور ہدایت دے اور کذب و افتراء کرنے کی عادت سیہ کو ترک کرنے کی توفیق عنایت کرے ہم تو فقیرانہ دعا ہی کر سکتے ہیں جھنگوی کی بری عادت بدلنا ہمارے بس میں نہیں۔
نماز میں مصحف سے قراۃ قرآن کا مسئلہ
جھنگوی صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ اہل سنت نماز میں قرآن شریف کو دیکھ کر پڑھنانا جائز سمجھتے ہیں جبکہ غیر مقلد صحیح سمجھتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 54)
الجواب: – اولاً:-
جھنگوی صاحب نے تحفہ اہل حدیث کے صفحہ 53 پر لکھا ہے کہ اہل سنت صحابہ کرامؓ کو معیار حق سمجھتے ہیں۔ انتھی بلفظہ اور زیر بحث مسئلہ پر ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کا عمل تھا۔
(ان عائشةؓ كانت تقرأ في المصحف وهي تصلى )
یعنی حضرت عائشہؓ نماز میں قراۃ مصحف (قرآن) سے دیکھ کر کرتی تھیں۔
(مصنف عبد الرزاق ص 420 ج 2)(رقم الحدیث 3930)
صحیح بخاری میں ہے کہ
(كانت عائشة يومها عبدها ذكوان من المصحف )
یعنی حضرت عائشہ کا غلام ذکوان قرآن سے دیکھ کر ان کی امامت کراتا تھا۔
( صحیح بخاری ص 96 ج 1 )
امام ابی بکر بن ابی ملیکہ فرماتے ہیں کہ
(ان عائشه اعتقت غلامالها عن دبر فكان يؤمها في رمضان في المصحف )
یعنی حضرت عائشہ کا ایک غلام تھا جسے بعد ازاں آپؓ نے آزاد کر دیا تھا وہ حضرت عائشہؓ کی رمضان المبارک میں امامت کراتا تھا اور قراۃ قرآن مصحف ( قرآن ) سے دیکھ کر کرتا تھا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ص 338 ج 2 وفتح الباری ص 147 ج 2 و كتاب المصاحف لا بن ابی داؤد ص 192)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس اثر کی سند صحیح ہے۔
( تغلیق التعلیق ص 291 ج 2)
امام ابن ثهاب الزہری رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ قرآن میں دیکھ کر امامت کا کیا حکم ہے؟
(قال ما زالوا يفعلون ذلك منذ كان الاسلام كان خيارنا يقرون في المصاحف )
یعنی ابتداء اسلام سے ہی علماء قرآن مجید دیکھ کر (امامت) کراتے رہے جو ہمارے بہتر تھے۔
(قیام الليل ص 168 طبع مکتبہ اثریہ )
امام سعد‘ المام سعید بن مسیب‘ امام حسن بصری‘ امام محمد بن سرین‘ امام یحیی بن سعید انصاری‘ امام مالک‘ امام احمد بن حنبل رحم اللہ عنھم تمام کے تمام اس کے جواز کے قائل ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے
(قیام الليل ص 168 و مصنف ابن ابی شیبہ ص 338 ج 2 و مصنف عبد الرزاق ص 420 ج 2)
جھنگوی صراحت کرے مذکورہ صحابہ و تابعین کا گروہ فقہاء مدینہ اور اخیار امت امام احمد بن حنبل اور امام مالک جیسے لوگ اہل سنت میں داخل ہیں یا خارج ؟ اگر جھنگوی ان کو اساطین اہل سنت میں شمار کرتا ہے تو اہل حدیث کو کیوں خارج سمجھتا ہے؟
اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ مسئلہ میں اختلاف کی وجہ سے جھنگوی کا اہل حدیث کو اہل سنت سے خارج سمجھنا اس کی جہالت ہے۔
ثانیا :-
جیسے مختار بن عبید ثقفی نے محبت اہل بیت کی آڑ میں نبوت کا دعویٰ کیا۔ جس کی تفصیل علامہ شھرستانی نے (کتاب الملل والنحل ص 132 ج 1) میں بیان کی ہے۔ شیعہ نے محبت علی مرتضیٰ میں صحابہ کرامؓ پر تبرا اور سب و شتم کو اپنا شعار بنا لیا ہے‘ ایسے ہی حنفیہ نے فقاہت کی آڑ میں قرآن سے دشمنی کی ہے۔
دو عدد مثالیں ملاحظہ کریں علامہ زین بن نجیم حنفی المتوفی 971ھ لکھتا ہے کہ
(ولو نظر المصلى الى المصحف وقرأمنه فسدت صلاته لا الى فرج امراة بشهوة لان الاول تعليم وتعلم فيها لا الثاني )
اور اگر کوئی نمازی قرآن دیکھ کر اس سے قرآت کرے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی اور اگر کسی عورت کی شرمگاہ شہوت سے دیکھ لے تو نماز باطل نہ ہوگی کیونکہ قرأت تعلیم و تعلم کے متعلق ہے اور شرمگاہ دیکھنا تعلیم نہیں ہے۔
( الاشباہ و النظائر ص 224 طبع ایچ ایم سعید کراچی ومع شرح حموی ص 317 ج 2)
اس بدترین اور گندی مثال سے قارئین کرام خود ہی اندازہ لگائیں کہ فقہاء احناف کے دل میں قرآن کا ادب و احترام کس حد تک تھا۔
آہ ادب واحترام کی ٹھیکے داری اور فقاہت کی علم برداری کا دعویٰ کرنے والے گروہ کے نزدیک عورت کی شرمگاہ شہوت سے دیکھنے سے نماز باطل نہیں ہوتی مگر مصحف سے تلاوت قرآن کو یہ حضرات ناجائز و حرام اور نماز کے باطل ہونے کا مؤقف رکھتے ہیں۔
اس سلسلہ میں دوسری حیا سوز اور فقہ حنفی کا بد ترین مسئلہ بھی ملاحظہ کیجیے
فتاویٰ قاضی خاں میں لکھا ہے
(والذي رعف فلاير قادمه فاراد ان يكتب بدمه على جبهته شيئا من القرآن قال ابوبكر الاسكاف يجوز قيل لوكتب بالبول قال لوكان فيه شفاء لا باس به )
یعنی اگر کسی کی نکسیر بند نہ ہوتی ہو تو اس نے اپنی جبین پر ( نکسیر کے ) خون سے قرآن میں سے کچھ لکھنا چاہا تو ابو بکر اسکاف نے کہا ہے یہ جائز ہے۔ اگر وہ پیشاب سے لکھے تو اس نے کیا اگر اس میں شفا ہو تو کوئی حرج نہیں۔
(فتاویٰ قاضی خان علی حامش فتاویٰ عالم گیری ص 404 ج 3 کتاب الحظر والا باحته )
یہی فتویٰ فقہ حنفی کی معروف کتاب (فتاویٰ سراجیہ ص 75 والبحر الرائق ص 116 ج 1 و حمومی شرح الا شباو النظائر ص 108 ج 1 باب القاعده الخامستہ الضرر لا يزال، و فتاویٰ شامی ص 210 ج 1 باب التداوی بالمحرم ) وغیرہ کتب فقہ حنفی میں چوتھی صدی سے لے کر بارھویں صدی تک متداول رہا ہے بلکہ فتاویٰ عالم گیری میں لکھا ہے کہ
(فقد ثبت ذلك في المشاهير من غير انكار )
یعنی مشاھیر میں یہ فتویٰ بلا انکار ثابت ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری ص 356 ج 5 کتاب الكراهية باب التداوی والمعالجات)
عالم گیری کی اس عبارت سے ثابت ہوا کہ فقہا احناف کا یہ مفتی بہ فتویٰ ہے۔
بریلوی مکتب فکر کے معروف مترجم مولوی غلام رسول سعیدی نے کھل کر فقہاء کے ان فتاویٰ کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
میں کہتا ہوں کہ خون یا پیشاب کے ساتھ سورہ فاتحہ لکھنے والے کا ایمان خطرہ میں ہے۔ اگر کسی آدمی کو روز روشن سے زیادہ یقین ہو کہ اس عمل سے اس کو شفا ہو جائے گی تب بھی اس کا مر جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ خون یا پیشاب کے ساتھ سورۃ فاتحہ لکھنے کی جرات کرے۔ اللہ تعالی ان فقہاء کو معاف کرے جو ہال کی کھال نکالنے اور جزئیات مستنبط کرنے کی عادت کی وجہ سے ان سے یہ قول شنیع سر زد ہو گیاور نہ ان کے دلوں میں قرآن مجید کی عزت و حرمت بہت زیادہ تھی۔
( شرح صحیح مسلم ص 557 ج 6 طبع فرید بک سٹال لاہور 1995ء)
سعیدی صاحب کی اس ہمت مردانہ اور جرات رندانہ کی داد دیتے ہوئے عبدالمجید شرقپوری برسٹل بر طانیہ فرماتے ہیں کہ فقہ کی ایک کتاب ( نہیں بھائی تقریباً نصف درجن ابو صھیب ) میں لکھا ہے کہ علاج کی غرض سے خون یا پیشاب کے ساتھ سورہ فاتحہ کو لکھنا جائز ہے۔ راقم الحروف نے اکثر علماء سے اس کے متعلق پوچھا مگر چونکہ یہ بات بڑے بڑے فقہاء نے لکھی ہے اس لیے سب نے اس مسئلہ پر سکوت اختیار کیا ہے۔ علامہ سعیدی نے پہلی بار اس جمود کو توڑا۔
(شرح صحیح مسلم بعنوان تاثرات صفحہ 66 جلد اول الطبع الخامس 1995ء)
یہی ہم نماز میں مصحف سے دیکھ کر قرآۃ کے سلسلہ میں عرض کرتے ہیں کہ بھائی شرم گاہ تو ایک انسانی عضو ہے قرآن اللہ کا کلام ہے لہٰذا اس باطل و مردود فتویٰ کی تردید کرتے ہوئے نماز کو فاسد و باطل کہنے سے توبہ کر لیجئے اور صحابہ کرام کو معیار حق تسلیم کرتے ہوئے نماز میں مصحف سے قرآت کے جواز کو تسلیم کر لیجیے اور فقہاء کو معصوم عن الخطاء جان کر منہ اٹھا کر ان کے پیچھے نہ لگ جائیے ان کی صحیح بات کو قبول کیجیے اور غلط بات کی تردید کردیجیے۔
الغرض جیسے سعیدی صاحب نے مذکورہ جمود کو توڑتے ہوئے حق بات کہہ دی ہے آپ بھی اس کی ہمت کریں اور پوری فقہ حنفی پر نظر ثانی کریں اور کھرے کھوٹے کو الگ کر کے اپنی اخروی زندگی کے لیے ذخیرہ جمع کر لیں اللہ آپ کو توفیق دے۔ اگر اتنے جری و دلیر نہیں تو حنفی فقہ کو کلی خیر باد کہہ کر قرآن و سنت کو اپنا لیجیے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ شاہراہ بہشت ہے۔
کیا جنبی تلاوت قرآن کر سکتا ہے؟
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت کے ہاں جنبی عورت قرآن شریف نہیں پڑھ سکتی۔ غیر مقلد اہل حدیث کے ہاں پڑھ سکتی ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 54)
الجواب:- اولا :-
جھنگوی صاحب کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ خفیہ کے نزدیک جنبی مرد قرآن پڑھ سکتا ہے ورنہ عورت کی تخصیص کے چہ معنی۔
ثانیا:۔
خود مبتدعین کے نزدیک جنبی و حائضہ حدیث و تفسیر اور تمام ذکر واذکار کر سکتے ہیں۔
(احسن الفتاویٰ ص 36 ج 2 و کفایت المفتی ص 253 ج 2)
بلکہ اگر قرآن کو بھی دعا کی نیت سے پڑھے تو جائز ہے۔ مولانا تھانوی فرماتے ہیں کہ جنب و حائض کے پڑھنے میں یہ تفصیل ہے کہ یہ نیت قرآن کے پڑھنا جائز نہیں بہ نیت دعاء کے پڑھنا جائز ہے۔
(امداد الفتاویٰ ص 93 ج 2 مزید دیکھئے خیر الفتاوی ص 290)
الغرض حنفیہ کی شاخ دیوبندیوں کے نزدیک بھی یہ نیت دعا قرآن پڑھ سکتا ہے۔ جو تمام متداول فقہ حنفی کی کتب میں موجود ہے مثلاد دیکھیے
(ہدایہ‘ فتح القدیر‘ درمختار‘ رد المختار‘ البحر الرائق فتاویٰ عالم گیری‘ حلبی کبیر‘ شرح وقایہ‘ باب الحیض والاستحاضة‘)
پھر اس کی جو دلیل عنایت کی جاتی ہے وہ آپ بھی پڑھ لیں۔ مولانا لکھنوی فرماتے ہیں کہ
(لان الفاظ القرآن تتغير عن القرآنية باختلاف النية )
اس لیے کہ نیت کے اختلاف سے الفاظ قرآن متغیر ہو جاتے ہیں۔
(عمدة الرعایة ص 116 ج 1 طبع ایچ ایم سعید کراچی)
انا للہ وانا الیہ راجعون گویا ان فقہ کے ٹھیکے داروں کے نزدیک اگر سورہ فاتحہ کو دعا کی نیت سے پڑھا جائے تو جائز ہے، لیکن تلاوت کی نیت سے پڑھا جائے تو نا جائز ہے کیونکہ الفاظ سورۃ فاتحہ متغیر ہو جاتے ہیں۔
ثالثاً :-
جنبی و حائضہ کے لیے کتنی مقدار میں تلاوت ناجائز ہے۔ امام کرخی کی روایت کے مطابق مطلقاً جائز نہیں ۔ صاحب ہدایہ‘ علامہ نسفی اور ابن نجیم نے اسی کو اختیار کیا ہے اور صاحب بدائع نے فرمایا۔
( وعليه عامة المشائخ )
دوسری روایت امام طحاوی کی ہے انہوں نے مادون الایة کی تلاوت کو جائز قرار دیا ہے اس کو فخر الاسلام بزدوی نے اختیار کیا ہے اور صاحب خلاصہ نے فرمایا ( وعليه الفتوىٰ ) یعنی فتویٰ اس پر ہے۔
(درس ترمذی ص 373 ج 1)
مبتدعین جن دلائل سے قرآت کی ممانعت ثابت کرتے ہیں ان سے علی الاطلاق ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صاحب ہدایہ نے روایت نقل کر کے کہا ہے کہ یہ طحاوی پر حجت ہے۔
( ہدايه مع فتح القدير ص 148 ج 1 )
جھنگوی صاحب صراحت کریں کہ امام طحاوی اہل سنت سے ہیں یا نہیں ؟
رابعاً:-
ابن عباسؓ ‘سعید بن جبیر‘ سعید بن مسیب‘ امام ربیع بن عبد الرحمٰن‘ امام مالک امام بخاری‘ امام طبری‘ تمام ابن منذر اور امام داؤد کے نزدیک قرآت مطلق جائز ہے۔
( درس ترمذی ص 373 ج 1 ‘و حاشیہ اعلاء السنن ص 375 ج 1 ‘و معارف السنن ص 445 ج 1 ‘بخاری ص 44 ج 1 والا وسط لابن منذرص 99 ج 2 و معالم السفن ص 77 ج 1 )
جھنگوی ان کے متعلق بھی فیصلہ کرے کہ یہ تمام ائمہ اہل سنت میں داخل ہیں یا خارج؟
خامساً:-
جن روایات سے عدم قرآت ثابت کی جاتی ہے وہ تمام کی تمام ضعیف و معلول ہیں اور ان میں سے کوئی بھی درجہ حسن کو نہیں پہنچتی ۔ تفصیل کے لیے
(تحفہ الاحوذی ص 124 ج 1 و نصب الرایہ ص 197 ج 1 ‘وارواء الغلیل ص 241 ج 2) کی مراجعت کریں۔
لیکن اس کے باوجود ہم عرض کرتے ہیں کہ ہماری تحقیق یہی ہے کہ ادب و احترام کا تقاضا ہے کہ حالت جنابت اور حیض میں تلاوت قرآن کرنا جائز نہیں خواہ ایک آیت ہو یا اس سے کم و بیش ہو۔
یہی موقف محدث مبارکپوری نے ( تحفتہ الاحوذی ص 124 ج 1) میں اختیار کیا ہے اور حافظ عبد اللہ روپڑی مرحوم کا بھی یہی نظریہ ہے۔
(فتاویٰ اہل حدیث ص 263 ج1)
حضرت عمر فاروقؓ جنابت کی حالت میں تلاوت قرآن کو مکروہ سمجھتے تھے۔ مصنف عبد الرزاق ص 337 ج 1 و مصنف ابن ابی شیبہ ص 102 ج 1 و بیھقی ص 89ج 1 ‘حافظ ابن حجر نے‘ التلخیص ص 138 ج 1 میں اس اثر کو صحیح کہا ہے الغرض احتیاط کا پہلو یہی ہے کہ جنبی و حائضہ تلاوت قرآن نہ کرے۔
سادساً:-
اگر کہا جائے کہ بہر حال بعض علمائے اہل حدیث کا جواز پر فتویٰ ہے تو عرض ہے کہ جب یہ مسئلہ خیر القرون سے ہی مختلف فیہ ہے صحابہ و تابعین اور امت مرحومہ کے جلیل القدر اساطین میں بعض اس کے قائل ہیں اور بعض مکروہ کہتے ہیں تو پھر اس جزوی و فروعی اختلاف کی بنا پر جھنگوی کس کس کو اہل سنت سے خارج قرار دے کر اپنے علم و فہم کا حدود اربعہ معلوم کرائے گا۔
سابعاً :-
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے (المحلٰی ص 95ج 1) میں حنفیہ کے موقف پر بڑا جچا تلا تبصرہ کیا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ جو لوگ جنبی اور حائضہ کو آیت یادون الآیتہ کی تلاوت کا کہتے ہیں ان کے قول پر قرآن و سنت‘ اجماع امت اور عقل سلیم سے کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ آیت یا آیت کا کچھ حصہ بلا شک و شبہ قرآن ہے اور سارے قرآن اور کچھ حصہ کی تلاوت میں کوئی فرق نہیں۔ ان لوگوں پر حیرانگی ہے جو مطلقاً قرأت سے منع کرتے ہیں لیکن ایک آدھ آیت کی اجازت دیتے ہیں۔
( لمحلٰی بالا ثار مسئله 116)
کسی حنفی سپوت سے امام ابن حزم کا جواب نہیں بن پڑا۔ ہم نے متقدمین کی کتب کے علاوہ متاخرین کی سعی و کوشش کی حرف آخر‘ اعلاء السنن کو بھی دیکھ لیا ہے مگر کسی حنفی مائی کے لال کو اس جان کے وبال کو چھیڑنے کی ہمت نہیں ہوتی یہ الگ بات ہے کہ جھنگوی ٹولہ امام ابن حزم کو ظاہری کہہ کر اپنے دل کی بھڑا اس تو نکال سکتا ہے لیکن اس گتھی کو سلجھا نہیں سکتا کہ کسی چیز کے حرام و مکروہ ہونے سے اس کی قلیل مقدار حلال و مباح کس طرح ہو سکتی ہے؟
کیا خوش دامن سے بدکاری کرنے پر عورت حرام ہو جاتی ہے؟
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت کے ہاں ساس کے ساتھ بد فعلی سے بیوی حرام ہو جاتی ہے جبکہ اہل حدیث کے ہاں بیوی حرام نہیں ہوتی۔
(نزل الابرار تحفہ اہل حدیث ص54)
الجواب:- اولاً :-
قارئین کرام بات کو آگے لے جانے سے قبل فقہاء احناف کا مؤقف سمجھ لینا بھی ضروری ہے ۔ حنفیہ کا کہنا ہے کہ قرآن نے والد کی منکوحہ سے نکاح کرنا حرام قرار دیا ہے اور نکاح کا حقیقی معنی وطی ہے۔ یعنی جن عورتوں سے تمہارے آباء نے وطی کی ہے تم ان سے وطی نہ کرو۔ حاصل یہ کہ باپ کی موطوہ بیٹے کے لیے حرام ہے۔ باپ نے وطی حلال کی ہو یا حرام کیونکہ اصل سیب حرمت وطی ہے نہ کہ نکاح‘ صحیح نکاح میں جو حرمت ثابت ہوتی ہے اس کا سبب بھی وطی ہے نہ کہ نفس نکاح اور اثبات حرمت کے لیے وطی کو مقید بحلال کرنا زیادہ علی الکتاب ہے۔
(خیر الفتاری ص477 ج 4 ‘و تبیان القرآن ص 617 ج 2 واللفظ له )
یہی قیاس انہوں نے ساس کے سلسلہ میں کیا ہے لیکن ان فقاہت کے ٹھیکے داروں کو یہ بات کون سمجھائے کہ حنفیہ کا اصول ہے کہ حقیقت اور مجاز کا اجتماع جائز نہیں۔
( نور الانوار ص94)
جبکہ مذکورہ آیت سے وطی حرام مراد لینا مجاز اور وطی حلال حقیقت ہے۔ اور ان دونوں کو جمع کرنا احناف کے نزدیک باطل ہے۔ الغرض اس سے حقیقت ہی مراد ہے اور وہ وطی حلال ہے اور مجاز (وطی حرام) اس میں شامل نہیں۔
حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی المتوفی 1225ھ فرماتے ہیں کہ
میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ اس آیت میں نکاح سے مراد عقد ہے ، جماع مراد نہیں ہے۔ کیونکہ بالا جماع باپ کی منکوحہ بیٹے کے لیے حرام ہے خواہ باپ نے اس سے جماع کیا ہویانہ کیا اور مذنیہ کی ماں اور بیٹی سے نکاح کی حرمت اجماعی نہیں اختلافی ہے۔ اس لیے اجماعی معنی پر آیت کو محمول کرنا ہی اولٰی ہے۔
( تفسیر مظہری ص 364 ج 2 متر جم طبع دار الاشاعت کراچی 1999 ء)
ثانیاً: ۔
بالفرض اگر تسلیم کر لیا جائے کہ آیت میں عموم مجاز ہے (جو قطعاً غلط ہے ) تو تب بھی یہ ثابت ہو گا کہ جس عورت سے مرد ( یا اس کے والد نے) وطی کی ہے اس کی بیٹی اور ماں اس پر حرام ہیں ۔ حالانکہ مبتدعین کا موقف ہے کہ اگر ساس کو شہوت سے مس کر لیا جائے تو نکاح فاسد ہو جاتا ہے۔
جیسا کہ اشرف علی تھانوی نے (امداد الفتاویٰ ص310 ج 2) میں صراحت کی ہے اور اس مساس (چھونے) میں غلطی قصد اور سہو میں کوئی فرق نہیں۔
(کفایت المفتی ص 182 ج 5)
بلکہ یہاں تک کہ اگر مردرات کو بیدار ہوا اور غلطی سے اپنی بیٹی یا ساس کو ہاتھ لگ گیا تو تب بھی مرد پر اس کی بیوی حرام ہو گئی۔
(بہشتی زیور ص 5 حصہ چہارم و کفایت المفتی ص 193 ج 5)
اس جگہ پر ہم ارباب عقل و خرد کو دعوت فکر دیتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ فرض کرو کہ عمررات کو بیدار ہوا‘ اور اسے فل شہوت تھی‘ اس کی دائیں جانب اس کی بیوی بشریٰ آرام کر رہی تھی مرد عورت کو ہم بستری کے لئے بیدار کرتا ہے، لیکن اس کا ہا تھ اسی حالت شہوت سے اپنی دودھ پیتی بیٹی ، حمیدہ کو لگ جاتا ہے، بس اتنی سی بات کو بنیاد بنا کر دیو بندی کہتے ہیں کہ بیوی حرام ہو گئی۔
نکاح کو وطی کہنے والو! یہاں کس سے وطی ہوئی کوئی بے شرم اور بے غیرت بھی اپنی بیٹی سے وطی کا تصور نہیں کر سکتا مگر فقاہت کے ٹھیکے داروں نے مرد کی بیوی حرام کردی اس سے بڑھ کر لطیفہ سینے کہتے ہیں کہ اگر ساس کو شہوت کے ساتھ بوس و کنار کیا لیکن اسی حالت میں انزال ہو گیا تو نکاح فاسد نہیں ہوا۔
مفتی رشید احمد دیو بندی فرماتے ہیں کہ
بوس و کنار سے حرمت مصاہرت کے لیے یہ شرط ہے کہ انزال نہ ہو۔ بدون جماع انزال ہو گیا تو حرمت مصاہرت ثابت نہ ہو گی۔ (احسن الفتاویٰ ص 92 ج 5) در مختار میں ہے و بہ یفتی، یعنی یہ مفتی بہ قول ہے۔
(در المختار علی رد المحتار ص 33 ج 3 کتاب النکاح فصل في المحرمات)
قارئین کرام آپ نے ملاحظہ کیا کہ نکاح کو وطی حرام کہنے والوں نے اپنی ہی دلیل سے کس طرح انحراف اور بغاوت کی ہے۔ اس سلسلہ میں متعدد امثلہ ہیں۔ باذوق حضرات ضمیر کا بحران ص 317 اور حقیقت اللہ ص 165 کا مطالعہ کریں۔
ثالثاً:-
ساس بمنزلہ ماں کے ہے۔ اس سے بدکاری کرنا نہایت درجہ کی بے حیائی‘ بے غیرتی ہے اور اس کا مر تکب خبیث دیوث اور فاسق و فاجر ہے اور اس پر اصرار کرنے والا مسلمان نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کسی سے یہ فعل بد قصد ایا سہو واقعہ ہو گیا تو مرد پر بیوی حرام ہوئی یا نہیں۔ حضرت امام بخاری نے (صحیح بخاری ص 765 ج 2) میں حضرت ابن عباسؓ کا تعلیقاً فتویٰ نقل کیا ہے کہ ہیوی حرام نہیں ہوئی۔ اس اثر کو امام بیھقی نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ
(عن ابن عباسؓ في رجل غشىام امرأة قال تخطى حرمتين ولا تحرم عليه امرأته )
یعنی حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے ایسے شخص کے متعلق فرمایا جس نے اپنی بیوی کی ماں سے زنا کیا فرمایا اس نے دو حرمتیں توڑیں لیکن اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوئی۔
(السنن الكبرىٰ للبیھقی ص 168 ج 7 ‘و تغلیق التعليق ص 404 ج 4 والمحلی لا بن حزم ص 209 ج 9)
حافظ ابن حجر نے ( فتح الباری ص 128 ج 9) میں اور مولوی سہارنپوری حنفی دیوبندی نے ( حاشیہ بخاری ص 765 ج 2 بین السطور ) میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ یہی مؤقف مذہب امام زہری‘ امام یحییٰ بن یعمر‘ امام شافعی‘ امام ابی سلیمان اور ایک روایت میں امام مالک کا ہے۔
(ا لمحلی ص 290 ج 9)
بلکہ حافظ ابن حجر نے تو اس کو جمہور کا مؤقف قرار دیا ہے اور علامہ ابن عبدالبر سے نقل کرتے ہیں کہ تمام محقق اہل علم کا اس پر اتفاق ہے۔
( فتح الباری ص 129 ج 9)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ صرف اہل حدیث کا ہی مذہب نہیں بلکہ صحابہ کرام میں ابن عباسؓ بھی یہی نظریہ رکھتے تھے۔ اور جھنگوی جن چار مذاہب میں کسی ایک کی تقلید کو فرض قرار دیتا ہے ان میں سے امام شافعی کا بھی یہی موقف ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ جھنگوی اصول کے مطابق بھی یہ اہل حق میں مسئلہ اجماعی و اتفاقی نہیں بلکہ مختلف فیہ ہے اور اہل حدیث کو اس مسئلہ کی وجہ سے اہل سنت سے خارج قرار دینا دراصل امام شافعی اور ابن عباسؓ کو ہی خارج قرار دینا ہے۔ لہذا جھنگوی ہمت کرے اور صحابہ کو معیار حق کہنے کا نعرہ واپس لے کر صریحا مزکورہ بزرگوں کی تکفیر کرے۔
کیا روضہ رسول صلى الله عليه وسلم کو گرانا واجب ہے؟
جھنگوی لکھتا ہے کہ اہل سنت کے ہاں روضہ رسول ﷺ محترم ترین مقام ہے۔ جبکہ غیر مقلدین کے ہاں بدعت ہے‘ گرانا واجب ہے۔
(عرف الجادی‘ تحفہ اہل حدیث ص 54)
الجواب: – اولاً:-
اہل حدیث کے نزدیک تمام مقابر محترم ہیں اور رسول اللہ ﷺ تو امام الانبیاء خاتم النبین ہیں ان کی ادنیٰ تو ہین بھی کفر ہے اور اس کا مر تکب مرتد اور واجب القتل ہے۔
ثانیا:-
عرف الجادی کو دیکھ لیا گیا ہے اس میں کہیں بھی روضہ رسول اللہ ﷺ کو گر انا واجب نہیں لکھا یہ جھنگوی کا صریحاً جھوٹ اور سولہ آنے غلط بیانی اور سو فیصد دھوکہ ہے دیو بندیو کہو جھوٹے پر ہزار بار لعنت۔
گستاخ رسولﷺ کون؟
موقع کی مناسبت سے ہم جھنگوی کے اکابر کی چند عبارات نقل کر کے دیو بندیوں کا اصلی و حقیقی اور مکروہ چہرہ دکھا دینا بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔
مولوی محمد قاسم نانوتوی دیوبندی لکھتا ہے کہ
اول معنی خاتم النبین معلوم کرنے چاہئیں تاکہ فہم جواب میں کچھ وقت نہ ہو۔ سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا خاتم ہو نا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب سے آخری نبی ہیں۔ مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تا خر زمانے میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔
(تحریر الناس ص 5 طبع دار الاشاعت کراچی 1976 ء)
اس مردود عبارت میں جہاں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا انکار ہے وہاں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی فضیلت خاتم النبین کا بھی انکار کر دیا ہے۔ حالانکہ خود رسالت مآب ﷺ نے اپنے آخری نبی ہونے کو وجہ فضیلت کہا ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے انبیاء پر چھ باتوں کی وجہ سے فضیلت ہے ان میں ایک (و ختم ہی النبیون )‘ نبوت مجھ پر ختم ہو گئی۔
(مسلم ص 199 ج 1 ‘وابو عوانہ ص 395 ج 1 و ترمذی مع تحفہ ص 378 ج 2 ومسند احمد ص 412 ج 2 و بیھقی ص 432 ج 2 ودلائل النبوۃ ص 472 ج 5 للبیهقي)
مگر نانوتوی نے مذکورہ عبارت میں اس کی وجہ فضیلت ہونے کا انکار کر دیا ہے اس خبیث عقیدہ کا لازمی نتیجہ تھا کہ نانو توی ختم نبوت کا ہی انکار کر دیتا چنانچہ ایسے ہی ہوا‘ لکھتا ہے کہ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو تو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔
( تحزیر الناس ص 18)
اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو پھر بھی خاتمیت محمد ی میں کچھ فرق نہ آئے گا‘
( تحزیر الناس ص 34)
الغرض نانوتوی نے ختم نبوت کا انکار کر کے مرزائیوں کے لیے چور دروازہ کھول دیا۔ وہ آج علی الاعلان قاسم نانوتوی کی مذکورہ عبارات سے استدلال کرتے ہیں۔ جیسا کہ مرزائیوں کے معروف مناظر عبدالرحمٰن خادم وکیل گجرات نے ( احمدیہ پاکٹ بک ص 275 طبع جدید) میں مولوی اللہ دتہ جالندھری نے (قہیمات ربانیہ ص 757) میں، قاضی محمد نذیر نے ( تحقیق عارفانہ ص 31) میں، مولوی جلال الدین شمش نے (روداد مقدمہ مرزائیہ بہاولپور ص 1003 ج 2 ) میں ‘ مرزا محمود احمد نے ( تفسیر کبیر ص 589 ج 2 ) میں‘ مرزا بشیر احمد نے (تبلیغ ہدایت ص 342) میں’ مرزا طاہر احمد نے ( زهق الباطل ص 343) میں اور مولوی محمد صادق نے ( حقانیت احمدیت ص 209) وغیرہ میں مرزائیوں نے نانوتوی کی عبارت کو دلیل بنا کر عوام کو گمراہ کرنے کی سعی لاحاصل کی ہے۔ یہی نہیں بلکہ مبتدعین دیوبندیہ اور بریلویہ کی مشترکہ شخصیت ملاعلی القاری نے موضوعات کبیر میں لکھا ہے کہ
(اذا المعنى انه لاياتي نبي بعده ينسخ ملته )
یعنی خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جو آپ ﷺ کی ملت ( دین ) کو منسوخ کر دے گا۔
( موضوعات كبير ص 100)
یہی معنی سید احمد طحطاوی حنفی المتوفی 1231ھ نے در المختار کے حاشیہ میں کیا ہے۔
حاشیہ الطحطاوی ص 41 ج 1 بحوالہ تعلیقات رضاص 192 طبع مرکزی مجلس رضالا ہو ر 1982ء مولانا عبد الحی لکھنوی حنفی المتوفی 1304ھ فرماتے ہیں کہ
علمائے اہل سنت بھی اس امر کی تصریح کرتے ہیں کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے عصر میں کوئی نبی صاحب شرع جدید نہیں ہو سکتا اور آپ کی نبوت عام ہے اور جو نبی آپ کا ہمعصر ہو گا شریعت محمدیہ کا متبع ہو گا۔
( مجموعة الفتاویٰ ص 33 ج 1)
قارئین کرام آخر الذکر تینوں عبارات دیوبندیہ اور بریلویہ ہر دو فریق کی مسلم شخصیات کی ہیں جس سے لازم آتا ہے کہ دونوں فریق کے سابقہ علماء میں انکار ختم نبوت کے جراثیم پائے جاتے تھے۔ ان دونوں فریق کی ایک اور گستاخی ملاحظہ کریں۔ مولوی عبدالسمیع را پوری بریلوی نے انوار ساطعہ میں لکھا تھا کہ
اور تماشا یہ کہ اصحاب محفل میلاد تو زمین کی تمام جگہ پاک نا پاک ‘مجالس مذ ہبی وغیر مذہبی میں حاضر ہو نا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا نہیں دعویٰ کرتے۔ ملک الموت اور ابلیس کا حاضر ہونا اس سے بھی زیادہ تر مقامات پاک ناپاک کفر غیر کفر میں پایا جاتا ہے ۔ کہ تمہارے استدلال کے موافق تو چاہیے یہ سب محدث اور فقہاء بباعث اعتقاد حضور ہر جگہ ملک الموت اور ابلیس کے بانیان محفل مولد شریف کی بہ نسبت زیادہ مشرک ٹھہریں
(انوار ساطعہ ص 57)
اس کی تردید کرتے ہوئے مولوی خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی لکھتا ہے کہ
غور کرنا چاہیے کہ شیطان وملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلادلیل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے۔
(براہین قاطعہ ص 55)
یہاں دونوں فریق بحث یہ کر رہے ہیں کہ نبی صلى الله عليه وسلم کا علم شیطان لعین سے کم تھا یا زیادہ۔ جس کے دل میں ذرا بھی محبت اور احترام رسول ﷺ ہو وہ اس قسم کا ناپاک موازنہ کرتاہی نہیں۔ آخر کوئی یہ بحث کیوں نہیں اٹھا تا کہ میری ماں فاحشہ تھی یا نہیں ! یا میری ماں رنڈی سے زیادہ پاک دامن تھی یا نہیں ! یا مولوی احمد رضاخاں بریلوی اور مولوی قاسم نانوتوی کا علم بند ر اور خنزیر سے زیادہ تھا کہ نہیں !ایا مولوی نعیم الدین مراد آبادی بریلوی اور مولوی رشید احمد گنگوہی کتے سے زیادہ صاحب علم تھے یا نہیں۔ یا مولوی حشمت علی بریلوی اور محمود حسن خاں دیو بندی کا ایمان فرعون سے زیادہ تھا یا نہیں ! یا مولوی احمد یار گجرانی بریلوی اور حسین احمد مدنی دیو بندی کا علم چوہے بلی سے زیادہ تھایا نہیں ؟
دونوں فریقوں پر حیرانگی ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے علم کا موازنہ کس لعین سے کیا ہے۔ ایک فریق وسعت ثابت کر رہا ہے تو دوسرا فریق نفی کر رہا ہے۔ یہ ہے ان لوگوں کی محبت رسول اللہ ﷺ اور عشق مصطفیٰ ﷺ کا نمونہ۔
قارئین کرام ! یہ تو تھیں بریلوی اور دیو بندیوں کی مشترکہ گستاخیاں اب ذرا خاص فرقہ دیوبند کی بھی ملاحظہ کرتے جائیے مولوی رشید احمد دیوبندی فرماتے ہیں کہ لفظ رحمتہ اللعالمین صفت خاصہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی نہیں ہے بلکہ دیگر اولیاء و انبیاء اور علماور بانیین بھی موجب رحمت عالم ہوتے ہیں۔
(فتاویٰ رشید یہ ص 218 طبع محمد علی کار خانہ اسلامی کتب خاں محمد کراچی)
حالانکہ رحمت اللعالمین کی صفت رسول اللہ ﷺ کی ہے اور اس صفت میں کوئی ولی و پیر اور مولوی شریک و سہیم نہیں ہے ۔ یہ تو ایسی گستاخی ہے جو مبتد عین دیو بند کو بھی مسلم ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنا الہام " و ما ارسلناك الارحمة للعالمين ” (تذكره مجموعه الھامات مرزاص 81و385) شائع کر کے اسے اپنے حق میں باور کر لیا تو پوری امت مرحومہ کے علاوہ خود مبتد عین دیابنہ نے اسے آنحضرت مانے کی گستاخی قرار دیا۔ دیکھیے ( قادیانی فتنہ اور ملت اسلامیہ کا مؤقف ص 75)
مولوی اشرف علی تھانوی لکھتا ہے کہ
آپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل غیب۔ اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور کی کیا تخصیص ہے۔ ایسا علم غیب تو زید عمرو بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لیے بھی حامل ہے۔
(حفظ الایمان ص9)
استغفر الله معاذ اللہ
اس مکروہ اور ایمان شکن عبارت کا تذکرہ ( امداد الفتاویٰ ص 61 ج 6) میں بھی موجود ہے۔ یہ عبارت اس قدر دل آزار اور محبت نبوی کے منافی ہے کہ مرزا طاہر احمد جیسے خبیث العقیدہ شخص نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ
دلیل دو اور بے شک جو ایک غلط اور فاسد عقیدہ ہے اس کو غلط ثابت کرو مگر گستاخی تو نہ کرو۔ آنحضرت ﷺ کا مجنون اور جمیع حیوانات سے مقابلہ و موازنہ تو نہ کرو یہ تو ایسی گستاخی ہے کہ اس سے آدمی پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔
( زهق الباطل ص 546)
جھنگوی کے اکابرین کی اس قدر گستاخیاں ہیں کہ اگر تفصیل عرض کی جائے تو بات لمبی ہو جائے گی لہذا انہیں چند باتوں پر اکتفا کر رہا ہوں۔ اگر جھنگوی میں غیرت ہے تو ان کا جواب تحریر کرے۔ ہم اس بحث کو اپنے ایک مخالف کے قول پر ختم کر رہے ہیں۔
مولوی حکیم ابوالعلا محمد امجد علی حنفی بریلوی (شاگرد خاص مولوی احمد رضا خان ) لکھتا ہے کہ غیر مقلدین یہ بھی وہابیت ہی کی ایک شاخ ہے وہ چند باتیں جو حال میں وہابیہ نے اللہ عزو جل اور نبی صلى الله عليه وسلم کی شان میں بکی ہیں غیر مقلدین سے ثابت نہیں۔
(بہار شریعت ص 57 حصہ اول)
مولوی احمد سعید کا ظمی حنفی بریلوی لکھتا ہے کہ غیر مقلدین نام نہاد اہل حدیث بھی ان وہابیوں کے ہم مسلک ہیں اگر چہ ان سے توہین آمیز عبارات ثابت نہیں۔
(تسبیح الرحمٰن مندرجہ مقالات کا ظمی ص 205 ج 2)
یہ دونوں عبارات کٹر اور متعصب بریلوی مولویوں کی ہیں ۔ الحمد للہ ہمارے اکا برین نے شرک و بدعات کی پر زور تردید کی ہے لیکن انداز بیان گستاخانہ نہیں رکھا۔ بلکہ ادب و احترام کو پیش نظر رکھ کر تردید کی ہے یہ سب اللہ کی توفیق ہے۔
وهو على كل شئ
کیفیت نماز جنازہ
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت نماز جنازہ آہستہ پڑھتے ہیں جبکہ غیر مقلد اہل حدیث بلند آواز سے پڑھتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 55)
الجواب:- اولا:-
اس پر تفصیل سے بحث آگے آرہی ہے اہل حدیث کے نزدیک بھی آہستہ نماز جنازہ پڑھنا اولٰی ہے۔ یہی مبتدعین دیابنہ کا موقف ہے دیکھیے (خیر الفتاویٰ ص 288 ج 3) مفتی کفایت اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ جہر میں کوئی حرج نہیں۔
(کفایت المفتی ص 78 ج 4)
ثانیا:-
بعض نصوص سے اشارۃ النص کے طور پر نماز جنازہ کا بلند پڑھنا ثابت ہے۔ تفصیل آگے اہل حدیث میں اختلاف کے سلسلہ میں آرہی ہے۔ علاوہ ازیں حضرت عبد اللہ بن عباس سے بلند آواز سے جنازہ پڑھنا ثابت ہے۔
( سنن نسائی ص 228 ج 1 و بیہقی ص 38 ج 4 وابن حبان ص 69 ج 6)
صحابہ کو معیار حق کا نعرہ بلند کرنے والا جھنگوی صراحت کرے کہ ابن عباس اہل سنت میں داخل ہیں یا خارج؟
رکوع کی رکعت
جھنگوی صاحب لکھتے ہیں کہ اہل سنت رکوع میں مل جانے والی رکعت کو شمار کرتے ہیں جبکہ غیر مقلد کہتے ہیں کہ اس کی رکعت نہیں ہوئی۔
(توضیح الکلام‘ تحفہ اہل حدیث ص 55)
الجواب: – اولاً:-
توضیح الکلام ص 142تا 150 ج 1 میں صراحت ہے کہ رکوع میں ملنے سے رکعت نہیں ہوتی۔ یہ امام بخاری حضرت ابو ہریرہؓ‘ جذه القراۃ ص 16,17,30‘ حضرت ابو سعید الخدری‘ جذء القرآة ص 19, 17 اور انعام مجاہد جزء القرآة ص 8 وغیرہ کا بھی یہی موقف تھا۔
جھنگوی وضاحت کرے کہ یہ اکا بر امت اہل سنت سے ہیں یا نہیں؟
ثانیا:۔
نماز میں قیام اور قراۃ آپ کے نزدیک بھی فرض ہے اور رکوع میں شامل ہونے والا ان دونوں کو ہی نہیں پاتا تو آپ نے اس کی رکعت کو کس دلیل سے شمار کرتے ہوئے قیام و قرآۃ کا حکم ساقط کر دیا۔
قومہ میں ہاتھ باندھنے کا مسئلہ
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت قومہ میں ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں جبکہ سندھ کے غیر مقلد اہل حدیث قومے میں ہاتھ باندھ لیتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 55)
الجواب : اولا :-
یہ مسئلہ اجتہادی و فروعی ہے تفصیل آگے اہل حدیث میں اختلاف کے سلسلہ میں آرہی ہے۔
ثانیاً:-
امام ابو حنیفہ‘ امام محمد اور قاضی ابو یوسف کی ایک روایت میں قومہ کی حالت میں ہاتھ باندھنے کا حکم آیا ہے مولانا عبد الحی لکھنوی حنفی مرحوم فرماتے ہیں کہ
(لا مضائقة في اختياره بعد ظهور موافقة للاصول )
یعنی ہمارے آئمہ سے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے بارے میں جو قول منقول ہے اس کے اختیار کرنے میں کوئی حرج اور مضائقہ نہیں ہے کیونکہ وہ ہمارے اصول حنفیہ کے مطابق ہے۔
(سعایہ فی شرح شرح وقایہ ص 159 ج 2)
فماكان جوابكم فهو جوابنا
کیا اہل حدیث کے نزدیک منسوخ حکم پر عمل کرنا جائز ہے؟
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت منسوخ احادیث پر عمل نہیں کرتے‘ جبکہ غیر مقلد انہیں پر عمل کرنا جہاد عظیم سمجھتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 55)
الجواب : اولا :-
اس کے جواب میں ہم صرف ” لعنت الله على الكاذبين “ ہی کافی سمجھتے ہیں۔
لیکن جھنگوی جیسے متعصب و جاہل اور ضدی کے لیے مزید عرض ہے کہ آپ کسی اہل حدیث فاضل سے یہ دعویٰ ثابت کریں کہ منسوخ حکم پر عمل کرنا جائز ہے۔ اگر آپ ایسا ثابت کر دیں تو ہم تسلیم کر لیں گے کہ آپ کے قول میں صداقت کا شائبہ ہے۔ اگر آپ ثابت نہ کر سکیں یقینا ثابت نہیں کر سکیں گے تو جھنگوی اور اس کے حواری صراحت کریں کہ جھوٹ و افتراء کو دیو بندی لغت میں کیا کہتے ہیں اور مفتری و کاذب کو تقلیدی شریعت میں کیا کہتے ہیں۔
ثانیا :-
ناسخ و منسوخ کی آگے تفصیل سے بحث آرہی ہے لیکن ہم یہاں ایک بات عرض کرنا چاہتے ہیں کہ امت کے کسی فرد کی رائے وقیاس اور اٹکل پچو سے کسی آیت یا حدیث نبوی کو منسوخ قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ کسی حکم شرعی کو منسوخ قرار دینے کے لیے نص کی ضرورت ہے۔ اس بات کو ملحوظ رکھ کر جھنگوی ٹولہ پوری کوشش کر کے صرف ایک مسئلہ کی نشان دہی کرے کہ یہ حکم شرعی فلاں نص سے منسوخ ہے لیکن اہل حدیث کا عمل منسوخ پر ہے۔ مجھے میری زندگی کے مالک کی قسم ہے کہ حنفیوں کا دیو بندی ٹولہ تو کیا پوری دنیا کے تمام حنفی فرقے اور گروہ اکھٹے ہو کر سر توڑ کوشش کریں تب بھی انہیں ایک مثال بھی نہیں ملے گی۔ ہاں البتہ ان کا منہ بند نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالی نے انہیں زبان دی ہے اور شیطان نے انہیں اہل حق کی مخالفت میں بر انگیختہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے جھنگوی ٹولہ عدل وانصاف سے کوسوں دور ہو کر کذب و افترا کو اپنادین و مذ ہب اور شعار بنا چکا ہے۔
اللہ انہیں جھوٹ جیسے فعل بد اور افترا جیسی منحوس عادات سیہ ترک کرنے کی توفیق عطا کرے ۔ اے اللہ ہم تو تیرے عاجز و نا تواں بندے ہیں تیری توفیق سے جھنگوی ٹولہ کے حق میں دعائے خیر ہی کر سکتے ہیں شرح صدر عنایت کرنے والا تو ہی ہے۔
مغرب کی نماز سے قبل دو عدد نوافل کی مشروعیت
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت مغرب کی اذان کے بعد نفل نہیں پڑھتے جبکہ غیر مقلدین ویسے تو نفلوں کے دشمن ہیں لیکن یہاں ضرور پڑھتے ہیں۔
(تحفہ اہل حدیث ص 55)
الجواب:- اولا:-
مثل ہے کہ چور مچائے شور کہ چور چور‘ اس پر عمل کرتے ہوئے جھنگوی صاحب نے اہل حدیث کو نوافل کا دشمن قرار دیا ہے۔ حالانکہ نوافل سے دشمنی تو ان کی اسی بات سے ثابت ہو گئی کہ اللہ کے پیارے رسول حضرت محمد صلى الله عليه وسلم نے نماز مغرب سے پہلے نوافل پڑھنے کا ارشاد فرمایا ہے۔
( بخاری ص 157 ج 1)
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہؓ ان نوافل کا اس قدر التزام کرتے کہ اگر کوئی نو وارد مسجد نبوی میں آتا تو وہ یہ خیال کرتا تھا کہ نماز مغرب کی جماعت ہو چکی ہے۔
( بخاری ص 73 ج 1 و مسلم ص 278 ج 1)
لیکن حنفیہ نے ان نوافل سے دشمنی کرتے ہوئے نماز مغرب سے قبل نوافل کو مکر وہ کہا ہے۔
(مستملی ص 240)
ثانیاً:- حضرت انس حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ‘ حضرت ابی بن کعبؓ ” حضرت ابوایوب انصاریؓ ‘حضرت ابو درداؓ ‘حضرت جابر بن عبد اللہؓ ‘حضرت ابو موسیؓ ‘حضرت ابو برزہؓ ‘جیسے جلیل القدر صحابہ کرامؓ سے یہ نوافل پڑھنے ثابت ہیں۔
تابعین کرام سے ان کا پڑھنا ثابت ہے ۔ امام احمد بن حنبل‘ امام اسحٰق‘ امام ابن حزم‘ اور متعدد شافعی حضرات بھی اسی کے قائل ہیں۔
( مرعاۃ ص 139 ج 4 و قیام اللیل ص 46 و محلی لابن حزم ص 20 ج 2)
امام احمد بن حنبل سے جب سوال ہوا کہ بعض لوگ اس کا انکار کرتے ہیں۔
(و تبسم كالمتعجب ممن ينكر ذلك )
یعنی آپ نے منکرین پر تعجب اور حیرانگی سے تبسم فرمایا۔
(قیام اللیل ص 48)
امت مرحومہ کے مذکورہ آئمہ وصحابہ کے متعلق جھنگوی صراحت کرے کہ یہ اہل سنت میں سے ہیں یا نہیں؟
نماز میں قیام کی کیفیت
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت نماز میں عاجزی سے کھڑے ہوتے ہیں جبکہ غیر مقلد اکٹر کے کھڑے ہوتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص55)
الجواب: – اولا :-
جھنگوی صاحب کا اکٹر سے کیا مراد ہے ؟ اگر جسم کا تناؤ مقصود ہے تو یہ شریعت کو مطلوب ہے اور نماز میں کاہلی سے کھڑا ہو نا منافقت کی علامت ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ
وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ (النساء: 142)
اور جب کھڑے ہوتے ہیں طرف نماز کی کھڑے ہوتے ہیں کاہلی سے ( شاہ رفیع الدین)
ثانیا:-
اگر اکٹر سے مراد آپ کی سرکشی ہے جیسا کہ آپ نے عاجزی کے بالمقابل اس کو استعمال کر کے واضح کر دیا ہے تو یہ آپ کی زیادتی بلکہ کذب و افترا ہے۔ کیونکہ کسی بھی اہل حدیث نے نماز میں تکبر و غرور سے کھڑے ہونے کا فتویٰ نہیں دیا۔ راقم عرض کرتا ہے کہ مفتی تو کجا کسی جاہل سے جاہل اور گنوار نے بھی نماز میں سرکشی‘ سے قیام کرنے کا نہیں کہا۔ اگر جھنگوی اپنے قول میں صادق ہے تو دلیل دے ورنہ اللہ کا خوف کرے ۔ تقویٰ و خشیت الہیٰ کو اپنا شعار بنائے کہ اہل علم کا یہ وصف ہے۔ جہاں تک نماز میں خشوع کا تعلق ہے تو اس کے بارے ارشاد ربانی ہے کہ
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (1) الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ (المومنون : 1,2)
بلا شبہ ایمان والوں نے فلاح پائی جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں۔ (12-23)
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبدہ الفلاح مرحوم اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ خشوع کے لفظی معنی ہیں کسی کے سامنے ڈر کر جھک جانے اور عاجزی و انکساری اختیار کرنے کے اس کا تعلق دل سے بھی ہے اور ظاہری اعضائے بدن سے بھی لہذا نماز میں خشوع اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دل پر خوف و ہیت طاری ہو اور اس کے اعضاء میں سکون ہو۔ وہ نگاہ ادھر ادھر پھیرے‘ نہ کپڑے یاداڑھی وغیرہ سے کھیلے اور نہ انگلیاں چٹخائے کیونکہ ادھر ادھر دیکھنے کو شیطان کا حصہ قرار دیا ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کی حالت میں اپنی داڑھی سے کھیل رہا ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا اگر اس کے دل میں خشوع ہو تا تو اس کے اعضاء پر بھی اثر ہوتا۔ یہ خشوع نماز کی اصل روح ہے اس لیے بہت سے علماء نے اسے فرض قرار دیا ہے یعنی اگر یہ نماز میں نہ ہو گا تو نماز نہ ہو گی۔
(اشرف الحواشی ص408)
مزید دیکھیے اصدق البیان ص 178 ج 1 واحسن البیان ص 939
حنفی نماز کا نقشہ :-
علامہ دمیری نے اپنی معروف کتاب (حیاۃ الحیوان الکبریٰ ص 214 ج 2) مطبوعہ مصر میں قاضی قفال کی زبانی حنفی نماز کی تصویر کشی کی ہے۔ آئیے ملاحظہ کریں۔
سلطان محمود حنفی المذہب تھا۔ لیکن اسے حدیث سننے کا شوق رہتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے علماء کی ایک جماعت کی مجلس کا انعقاد کیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ کس مذہب کی نماز سنت نبوی کے موافق ہے۔ نماز کی ادائیگی کے لیے اس وقت کے سب سے بڑے عالم قاضی قفال مروزی کا انتخاب ہوا۔ قاضی موصوف نے جو حنفی نماز ادا کی تو وہ حسب ذیل ہے۔
قاضی موصوف نے کتے کی رنگی ہوئی کھال منگوائی اور اس کا کچھ حصہ نجاست سے آلود کر کے پہن لی ۔ صاف پانی کے بجائے نبیذ تمر سے بلانیت اور بغیر بسم اللہ پڑھے بلاتر تیب وضو کیا اور قبلہ رخ کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ اللہ اکبر کی بجائے فارسی زبان میں خدائے بزرگ تراست کہہ کر ہاتھ باندھ لیے اور بغیر سورہ فاتحہ پڑھے قرآن کی آیت‘ مدهامتن، کا فارسی میں ترجمہ کہہ کر رکوع کیا اور جاتے اٹھتے تین تسبیح کہتے ہوئے بغیر سیدھے کھڑے ہونے کے سجدے میں چلے گئے اور بغیر اطمینان کے دوسرا سجدہ ایسے کیا جیسے کو اٹھو نگے مارتا ہے اور تشہد میں بغیر درود شریف کے سلام کی جگہ ہوا خارج کر دی اور نماز سے باہر ہو گئے اور کہنے لگے بادشاہ یہ حنفی نماز ہے ۔ ایسی نماز دیکھ کر بادشاہ غصے میں آگیا اور کہنے لگا ایسی نماز کون پڑھ سکتا ہے۔ قاضی فرمانے لگے بادشاہ فقہ حنفی کی مستند کتا ہیں منگائیے کتا بیں منگائی گئیں تو قاضی قفال مروزی نے من و عن اس نماز کے طریقے کو احناف کی کتابوں سے ثابت کر دیا۔ آج بھی اگر جھنگوی کو فقہ حنفی کی مذکورہ نماز کی کفیت مقصود ہو تو فقہ کی کتابوں کا مطالعہ کرے یا پھر ہماری طرف رجوع کرے ہم ان کو یہ کیفیت ان کی فقہ کی کتابوں سے ہی دکھا دیں گے۔ ان شاء اللہ
کیا اسلام میں مرد و عورت کی نماز کا فرق ہے؟
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت کے ہاں مرد و عورت کی نماز کی ادائیگی میں بعض جگہ فرق ہے جبکہ غیر مقلدین کے ہاں مرد و عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 55)
الجواب: – اولاً:-
حدیث صحیح میں ہے کہ رسول اللہ اللہ نے فرمایا کہ
(صلوا کما رایتمونی اصلی )
یعنی نماز اسی طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
( بخاری کتاب الاذان باب الاذان للمسافر )
یہ حدیث عام ہے نمازی خواہ مرد ہو یا عورت‘ جو اس بات کا مدعی ہے کہ مرد و عورت کی نماز میں فرق ہے۔ وہ اس کی دلیل دے۔
ثانیاً:-
احناف کے نزدیک مرد و عورت کی نماز میں تقریبا 22 مقامات پر کیفیت میں فرق ہے جھنگوی صاحب ہمت کریں اور ان تمام مقامات کے لیے ایک ایک حدیث صحیح‘ مرفوع متصل دکھاتے جائیں تو ہم مان جائیں گے کہ واقعی مردو عورت کی نماز کی کیفیت میں فرق کا مذ ہب و مؤقف اہل سنت کا ہے ورنہ زبانی جمع خرچ کو کون پلے باندھتا ہے۔
اور فقہاء کے بے دلیل قول و اقوال کو شریعت قرار دینا اہل سنت کا مذہب نہیں شریعت وہی ہے جو اللہ اور اس کے پیارے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے بیان فرمائی ہے۔
بچے کی امامت کا مسئلہ
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت کے ہاں نا بالغ امام نہیں بن سکتا جبکہ غیر مقلدین کے ہاں امام بن سکتا ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 55)
الجواب:- اولا :-
نا بالغ بچہ جب نماز کے مسائل سے بخوبی واقف ہو اور نماز کو صحیح مسنون طریقہ سے ادا کر سکتا ہو اور قرآن کے حروف کو باقاعدہ اصول تجوید کے مطابق ادا کر سکتا ہو تو اس کی امامت بالکل جائز ہے۔ اور اس سے انکار محض تقلیدی ضد ہے۔ بچے کی امامت صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں حضرت عمرو بن سلمہ اپنی قوم میں امام مقرر تھے‘ حالانکہ اس وقت ان کی عمر سات سال تھی۔
( بخاری کتاب المغازی رقم الحد یث 4302)
بچے کی امامت کے قائل امام حسن بصریؒ ‘امام اسحاق بن راھویہؒ ‘امام بخاریؒ ‘امام شافعیؒ ‘و غیره ہیں۔
( مرعاة ص 66 ج 4)
جھنگوی صراحت کرے کہ آیا یہ ائمہ کرام اہل سنت سے ہیں یا نہیں ؟
ثانیاً:-
جھنگوی نے مطلق بچے کی امامت سے انکار کیا ہے۔ حالانکہ ماوراء النہر اور مشائخ بلخ کے تمام حنفیوں کے نزدیک نوافل میں بچہ امامت کراسکتا ہے۔
(مرقاة ص 89 ج 3)
بلکہ حنفیہ خاص کر دیوبندیہ کے نزدیک اگر نا بالغ بچہ فرائض میں بھی نا بالغ بچوں کی امامت کرائے تو جائز ہے۔
(فتاویٰ عالم گیری ص 44 ج 1 و خیر الفتاویٰ ص 353 ج2)
ثالثاً:-
اصل مسئلہ بچہ کی امامت نہیں بلکہ اصل اختلاف یہ ہے کہ معطل کے پیچھے مقتدی فرائض ادا کر سکتا ہے کہ نہیں؟ اور بچے کی امامت کا مسئلہ در اصل اس مسئلہ کی ایک فرع و جزو ہے۔ جھنگوی صاحب نے عدم علم کی وجہ سے مغالطہ کھایا ہے یا دیا ہے۔ کیونکہ بچہ اگر امامت کے لائق ہے تو اس کی امامت بالاتفاق درست ہے اور وہ امام بن سکتا ہے۔ چونکہ حنفیہ کے نزد یک نا بالغ پر نماز فرض نہیں جس کی وجہ سے اس کی اقتداء میں انہیں تامل ہے۔ جھنگوی صاحب ( فتاویٰ شامی اور امداد الفتاویٰ ص 238 ج 1 ) کا بغور مطالعہ کریں، اور متنفل کی اقتداء میں فرائض ہو جاتے ہیں جس کی تفصیل ( دین الحق ص 496 ج 1 ) میں راقم نے عرض کر دی ہے جھنگوی صاحب اس کا بھی مطالعہ کرلیں۔
اور ان صحیح و صریح احادیث کا کوئی معقول جواب ہے تو عنایت کریں ورنہ تقلیدی پٹا کو اتار کر رحمت کے سایہ قرآن وحدیث پر عمل کریں۔ اللہ توفیق دے۔
کیا سورۃ فاتحہ قرآن کا حصہ نہیں؟
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت کے ہاں سورۃ فاتحہ قرآن پاک میں شامل ہے جبکہ غیر مقلدین کے ہاں سورۃ فاتحہ قرآن میں نہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 55)
الجواب:- اولا:-
یہ دعویٰ آج تک کسی اہل حدیث نے نہیں کیا کہ سورۃ فاتحہ قرآن کا حصہ و جزو نہیں۔ یہ آپ کی زیادتی ہے۔ ہمار ا دا من ان خرافات سے پاک ہے۔ ہم پوری جماعت اہل حدیث کی طرف سے اس کی تردید کرتے ہیں اور جھنگوی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی سلفی سے اپناد عویٰ ثابت کرے۔ ورنہ لعنتہ اللہ علی الکاذبین کی سخت وعید سے ڈر کر تو بہ کرے اور جماعت اہل حدیث سے تحریری طور پر معافی مانگے۔
پوری امت مرحومہ کا اتفاق و اجماع ہے کہ سورۃ فاتحہ قرآن میں شامل ہے۔ حضرت امام بخاریؒ فرماتے ہیں:
( سميت ام الكتاب لانه يبدء بكتابها في المصاحف وبيده بقرء لها في الصلوٰة )
یعنی سورۃ فاتحہ کا نام ’’ام الکتاب‘‘ اس لیے رکھا گیا ہے کہ قرآن کی کتابت اس سے شروع ہوتی ہے اور یہ کہ نماز میں قرآۃ کی ابتداء بھی اس سے ہوتی ہے۔
( بخاری ص 642 ج 2)
یہی بات امام ابن جریرؒ نے ( تفسیر طبری ص 35 ج 1 ) میں اور ابن کثیرؒ نے ( تفسیر القرآن العظيم ص 8 ج 1) میں کہی ہے خود رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے سورۃ فاتحہ کو قرآن کی عظیم سورۃ قرار دیا ہے۔
( بخاری ص 642 ج 2)
شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ فرماتے ہیں کہ سبع من المثاني سورۃ فاتحہ ہے اور یہ قرآن میں سے ہے۔
( تفسیر القران بكلام الرحمٰن ص 192)
علامہ حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹیؒ نے (واضح البیان ص 62) میں، مولانا محمد عبدہؒ نے (اشرف الحواشی ص2) میں مولانا عبد الستار نے (ترجمہ قرآن کے حاشیہ ص2) میں‘ مولانا محمد صادق خلیل نے ( اصدق البیان ص 40 ج 1 ) میں‘ علامہ عبدالرحمٰن کیلانی نے (تیسیر القرآن ص ج 1) میں‘ حافظ صلاح الدین یوسف نے (احسن البیان ص 1 ) میں‘ سورۃ فاتحہ کو قرآن کا حصہ قرار دیا ہے۔
جماعت اہل حدیث کے ان محققین کی عبارات بھی اگر جھنگوی کو مطمئن نہیں کر سکیں تو پھر یہ کسی بھی اہل حدیث سے اس کے متعلق دریافت کر سکتا ہے کہ آیا سورۃ فاتحہ قرآن میں شامل ہے کہ نہیں۔ تمام اہل حدیث پہلے اعوذ باللہ کا جھنگوی کو دم کریں گے پھر سورۃ فاتحہ کو قرآن کا افضل ترین حصہ قرار دیں گے۔ ہاں البتہ کسی جذباتی مجاہد سے مت پوچھنا‘ ممکن ہے وہ آپ کو گریبان سے پکڑ کر اس کا ثبوت نہ مانگ لے جو آپ کے پاس قطعاً نہیں‘ اور وہ آپ کو بازار میں گھسیٹ کر لے آئے اور دو چار جوتے لگاتے ہوئے کہے کہ مسلی‘ نے جھوٹ بولا تھا اور یہ اس کی سزا ہے۔
ثانیا :-
جھنگوی نے کبھی اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھا ہوتا تو کبھی بھی ایسی شرارت نہ کرتا۔
سنیے کہ دیوبند کا شیخ الہند مولوی محمود الحسن خاں لکھتا ہے کہ
’’کلام اللہ وحدیث میں بعض آیات و جملہ فرقہ ضالہ نے الحاق کیے ہیں‘‘۔
(ایضاح الادلہ ص 191 طبع مطبع قاسمی مدرسہ اسلامیہ دیو بند 1330 ھ)
مولوی انور شاہ کا شمیری نے لکھا ہے کہ
’’میرے نزدیک محقق بات یہ ہے کہ قرآن میں تحریف لفظی ہوئی ہے‘‘۔
(فیض الباری ص 395 ج 3 طبع مکتبہ حقانیہ پشاور)
جھنگوی صراحت کرے کہ مذکورہ دونوں اکا بر دیو بند اہل سنت سے ہیں یا بد ترین بدعتی اور امت کے گمراہ ترین لوگوں میں شامل ہیں؟
ہم عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔
کیا تہجد اور تراویح میں فرق ہے ؟
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت کے ہاں تہجد اور تراویح دو الگ الگ نمازیں ہیں۔ جبکہ غیر مقلدین اہل حدیث کے ہاں تہجد اور تراویح ایک چیز ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 56)
الجواب:- اولاً:-
حضرت عائشہؓ تراویح اور قیام اللیل میں فرق کی قائل نہ تھیں۔ جیسا کہ ان سے ابو سلمہ نے سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ
((ما كان يزيد في رمضان ولا في غير رمضان على احدى عشرة ركعة ))
یعنی رسول اللہ ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔
( بخاری ص 269 ج 1 )
حضرت امام بخاریؒ اور امام محمدؒ نے (موطا ص 138) میں اس پر قیام رمضان اور تراویح کے ابواب باندھے ہیں۔ مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی نے لکھا ہے کہ
(قوله قيام شهر رمضان ويسمى التراويح )
یعنی قیام رمضان اور تراویح ایک ہی چیز ہے۔
( التعليق الممجدد ص 138)
امام بیہقی نے (السنن الکبریٰ ص 495 ج 2 ) میں‘ باب ماروی فی عدد رکعات القيام فی شہر رمضان میں اسے ذکر کیا ہے۔
ثانیا:-
متعدد اہل علم نے مذکورہ روایت کو بیسں رکعات والی من گھڑت و منکر روایت کے مقابلہ میں بطور معارضہ پیش کیا ہے۔ مثلا
(1) امام زیلعی حنفی نے نصب الرایہ ص 153 ج 2
(۲) امام ابن ھمام حنفی فتح القدير ص 407 ج 1
(۳) عبد الحق محدث دہلوی حنفی فتح سر المنان ص 692 قلمی بحوالہ خاتمہ اختلاف ص 70
(۴)علامہ عینی حنفی عمدۃ القاری ص 128 ج 11
(۵) علامہ سید طی الحادی للفتاویٰ ص 414 ج 1
حضرت عمر فاروقؓ اور متعدد سلف صالحین کے علاوہ دیو بند کے شیخ الحدیث مولانا انور شاہ کاشمیری بھی تراویح اور تہجد کو ایک ہی سمجھتے تھے۔
(فیض الباری ص 420 ج 2)
تفصیل کے لیے (دین الحق ص 520 ج 1) کی مراجعت کریں۔
جھنگوی اوروں کو جانے دے انور شاہ صاحب کے متعلق وضاحت کرے کہ یہ اہل سنت میں داخل ہے یا نہیں؟
کیا ایک رکعت وتر ثابت نہیں؟
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ اہل سنت کے ہاں وتر تین ہیں جبکہ غیر مقلدین اہل حدیث کے نزدیک و تر ایک ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 56)
الجواب: – اولاً:-
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں کہ رات کی نماز دو دور کعت ہے۔ جب تم میں سے کسی کو طلوع فجر کا اندیشہ ہو تو صلى ركعة واحدة
وہ ایک رکعت وتر پڑھ لے۔ الحدیث
( بخاری ص 135 ج 1 و مسلم ص 257 ج1)
دوسری حدیث میں آپ کا فرمان ہے کہ
(الوتر ركعة من أخر الليل)
یعنی و تر ایک رکعت ہے رات کے آخر میں۔ الحدیث
(مسلم ص 257 ج1)
تیسری حدیث میں آپ کا ارشاد ہے کہ
((يااهل القرآن او تروا فان الله وتريحب الوتر))
اے قاریو! وتر پڑھا کرو کیونکہ اللہ وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔
(ابوداؤد ص 200 ج 1 و ترمذی مع تحفہ ص 336 ج 1 و نسائی ص 199 ج 1 ابن ماجہ ص 83 و مسند احمد ص 100 ج 1 وابن خزیمہ ص 136 ج 2)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک وتر پڑھا کرتے تھے۔
(ابن ماجه ص 85)
ثانیا:-
( دین الحق ص 430 ج 1 )
میں راقم نے خلفاء الراشدین کے علاوہ تقریباً ۲۲ صحابہ کرامؓ سے ایک وتر پڑھنا ثابت کیا ہے۔ ان کے علاوہ آئمہ ثلاثہ امام مالکؒ امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ایک رکعت وتر کے قائل ہیں۔
( ترمذی مع تحفہ ص 340 ج1)
انوار ساطعہ کے بریلوی مصنف نے ایک رکعت وتر پر بھی اعتراض کیا تھا۔ اس پر نقد کرتے ہوئے مولوی خلیل احمد سہارنپوری حقی دیو بندی فرماتے ہیں کہ :
’’وتر کی ایک رکعت احادیث صحاح میں موجود ہے ۔ اور عبد اللہ بن عمرؓ اور ابن عباسؓ و غیر هما صحابہ اس کے مقر اور مالک و شافعی واحمد کا وہ مذہب پھر اس پر طعن کرنا مؤلف کا ان سب پر طعن ہے۔ کہو اب ایمان کا کیا ٹھکانہ جب آنکھ بند کر کے آئمہ مجتہدین پر اور صحابہ اور احادیث پر تشفیع کی پس یہ تحریر بجز جہل کے اور کیا درجہ رکھتی ہے معاذ اللہ منها‘ براحسین قاطعہ ص 7
علامہ سہارنپوری حفی کی اس صراحت کی روشنی میں جھنگوی صراحت کرے کہ اس کے ایمان کا ٹھکانہ کہاں ہے؟
فصل چهارم
کیا احادیث میں اختلاف ہے؟
منکرین سنت نے ایک شکوفہ یہ بھی چھوڑ رکھا ہے کہ احادیث میں زبر دست اختلاف ہے۔
دیکھئے! دواسلام صفحہ 303 ہمارے جھنگوی صاحب ان کی ہمنوائی کرتے ہوئے حدیث میں اختلاف ثابت کرتے ہیں پھر رفع اختلاف کے لیے تقلید کی دعوت دیتے ہیں۔
(تحفہ اہل حدیث ص 58)
اگر جھنگوی صاحب کی بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ آئمہ دین سے اخذ و استفادہ کیا جائے۔ ان کی علمی خدمات کو طاق نسیاں نہ کیا جائے ۔ مگر افسوس کہ جھنگوی صاحب اس سے امام ابو حنیفہ کی تقلید ثابت کر رہے ہیں۔ حالانکہ حدیث امام ابو حنیفہ کا فن نہ تھا۔ انہوں نے اس سلسلہ میں کوئی قابل ذکر خدمت نہیں کی کہ رفع اختلاف کے لیے جھنگوی صاحب ان کی تقلید کی دعوت دے رہے ہیں۔ یہ فن محد ثین کرام کا تھا اور انہوں نے اس سلسلہ میں قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔ مشکل الحدیث ہو یا ناسخ و منسوخ! انہوں نے ہر بات کو کھول کر واضح کر دیا۔ حنفیہ نے بھی انہیں سے ان مسائل کو اخذ کیا‘ مگر شکریہ کی بجائے انہیں پنساری قرار دے کر تو ہین کی۔ ہم جھنگوی صاحب کو دعوت فکر دیتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ جن احادیث کی آپ نے نشان دہی کی ہے کہ ان میں اختلاف ہے کیا ان کا حل آپ امام ابو حنیفہ سے ثابت کر سکتے ہیں؟ نہیں یقیناً نہیں! تو پھر کسی منہ سے دعویٰ کرتے ہو کہ تقلید اپنا لو تو یہ مسائل آپ کو حل کیے ہوئے ہی مل جائیں گے۔
بہر حال آئیے ان احادیث کی طرف جن کی جھنگوی صاحب نے نشان دہی کی ہے۔
گوہ کی حلت و حرمت کی احادیث
فرماتے ہیں کہ صحابہ نے آپ کے سامنے گوہ کھائی ہے اور ابوداؤد میں حدیث آتی ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے منع فرمایا۔
( تحفہ اہل حدیث ص58)
الجواب:- اولا:-
بلا شبہ ممانعت کی حدیث حضرت عبد الرحمٰن بن شبلؓ سے مروی ہے۔
(ابو داؤود مع عون ص 416 ج 3 وبیہقی ص 326 ج 9 العلل المتناھيتہ ص 172 ج 2)
علامہ خطابی‘ علامہ منذری‘ امام بیہقی اور ابن جوزی نے اس حدیث پر جرح کی ہے۔ لیکن حافظ ابن حجر نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔ کمانی عون‘ اور یہی حق اور درست ہے۔ لیکن ممانعت سے حرمت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ متعدد صحیح احادیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ میں اسے کھاتا ہوں نہ ہی حرام قرار دیتا ہوں۔
( بخاری ص 831 ج 2 و مسلم ص 150 ج 2)
کسی صحابی سے گوہ کے حرام ہونے کا فتویٰ منقول نہیں بلکہ امام نووی نے گوہ کی حالت پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔
(شرح مسلم ص 151 ج 2)
ثانیا:۔
تعارض کے لیے احادیث کا صحت میں برابر ہو نا شرط ہے۔
اور حلت کی احادیث‘ حضرت عمرؓ ‘حضرت ابی سعیدؓ ‘حضرت ابن عباسؓ ‘حضرت خالد بن ولیدؓ ‘حضرت یزیدؓ بن الاصم‘ حضرت سلیمانؓ حضرت ابوہریرہؓ ‘حضرت خذیمهؓ ‘وغیرهم صحابه کرام سے مروی ہیں۔
(تحفۃ الاحوذی ص 74 ج 3)
ان میں اکثر احادیث بخاری و مسلم کی متفق علیہ ہیں۔ جبکہ عبدالرحمٰن بن شبلؓ سے مروی حدیث کی سند میں کلام ہے کہ اس کا راوی ضمضم بن زرعہ مختلف فیہ راوی ہے۔ امام ابن معین نے توثیق اور ابو حاتم نے تضعیف کی ہے۔ تھذیب ص 405 ج 4 ‘ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ وہم کرتا ہے، تقریب‘ لہٰذاحلت کی احادیث صحیحہ و کثیرہ کا مقابلہ کرنے کی اس میں بہر حال طاقت نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے یہ توضیح کی گئی ہے کہ حلت بدستور باقی ہے اور ممانعت مکروہ تنزیہی پر محمول ہے۔
ثالثاً:-
حنفیہ سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ گوہ حلال ہے۔ امام طحاوی فرماتے ہیں کہ
(فثبت بتصحيح هذه الآثار أنه لاباس باكل الضب وهو القول عندنا )
یعنی ان حدیث صحیحہ سے ثابت ہوا کہ گوہ کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ اور ہمارے نزدیک یہی محقق قول ہے۔
( شرح معانی الا ثار ص 348 ج 2)
مولانا عبدالحی لکھنوی مرحوم علامہ عینی سے نقل کرتے ہیں کہ
(الاصح أن الكراهة عند اصحابنا تنزيهية لاتحريمية للاحاديث الصحيحة انه ليس بحرام)
یعنی ہمارے اصحاب کے نزدیک صحیح تر بات یہی ہے کہ گوہ مکروہ تنزیہی ہے۔ مکروہ تحریمی نہیں کیونکہ احادیث صحیحہ میں اس کی حلت بیان ہوئی ہے۔
(التعليق المجد ص 281)
بلکہ مولانا ظفر احمد تھانوی نے تو یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ
(ان اكثر الحنفية قبل الغيني على ان الكراهة فيه للتنزيه وهو المعروف عنهم )
یعنی علامہ عینی سے قبل اکثر حنفی گوہ کو مکروہ تنزیہی قرار دیتے تھے اور یہی ان کے ہاں معروف تھا۔
(اعلاء السنن ص 161 ج 17 )
اس کے بعد انہوں نے صراحت کی ہے کہ صاحب مذہب سے اصل میں کراھت منقول ہے جس کی وجہ سے بعض حنفیہ نے تنزیہی کہا ہے تو بعض نے مکروہ تحریمی قرار دیا ہے۔
(ص 161,162)
الغرض فقہاء احناف میں گوہ کے حلال و حرام ہونے میں اختلاف ہے۔
مولانا محمود الحسن خاں صاحب حنفی دیوبندی فرماتے ہیں کہ ضب (گوہ) میں اختلاف ہے۔ عند الحنفیہ حرام نہیں کر بہت کی روایت ہے تحریمی بھی اور تنز یہی بھی۔
(الورد الشذى ص 265 طبع معهد الخلیل الاسلامی 1416ھ)
قارئین کرام ! جب آپ نے اس بات کو بخوبی سمجھ لیا کہ خود احناف میں اس مسئلہ میں اختلاف ہے تو پھر جھنگوی صاحب کس منہ سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تقلید کی یہ برکت ہے کہ انسان کو نارسخ و منسوخ کا علم ہو کر رفع اختلاف کا حل مل جاتا ہے۔ اگر فقط تقلید ہی اختلاف کو مٹانے کا حل تھا تو حنفیہ میں کیوں اختلاف ہے؟
قارئین کرام ! آپ حیران ہونگے کہ اگر جھنگوی ٹولہ اپنے مولویوں کی بات پر اعتماد کر کے اسے مکروہ تحریمی قرار دے لے یا ظفر احمد تھانوی کی بات مان کر گوہ کو حرام قرار دے لیں اور حلت کی احادیث کو بلا دلیل منسوخ کہہ دیں (اعلاء السنن ص 160) تو یہ پھر بھی امام ابو حنیفہ کے مقلد ہی رہے اور ان کی تقلید میں ذرا بھی فرق نہیں آتا۔ لیکن اگر محد ثین ان احادیث کے اختلاف کو تطبیق دیگر موافقت ثابت کر دیں تو یہ پھر بھی اختلاف کا طعن کرتے ہیں۔
مطبوخ چیز سے وضو ٹوٹنے کا مسئلہ
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (حدیث) آپ کا عمل اس کے خلاف بھی ہے (حدیث)
( تحفہ اہل حدیث ص 58)
الجواب: – اولا:-
حضرت جابرؓ راوی ہیں کہ
(كان اخر الامرين من رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك الوضوء معامست النار)
یعنی آگ پر پکی ہوئی چیز کے معاملہ میں بارگاہ نبوت سے صادر ہونے والے دو مختلف حکموں سے ترک وضو کا حکم آخری ہے۔
(ابوداؤد ومع عون ص 76 ج 1 و نسائی ص 34 ج 1 وابن خزیمہ ص 28 ج 1 والمحلی ص 226 ج 1 و بیہقی ص 155 ج 1)
حضرت ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ
( انه رای رسول الله ﷺ يتوضاء من ثورا قط ثم راه اكل كتف شاة ولم يتوضاء )
یعنی میں نے مشاہدہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ پنیر کے ٹکڑے کھا کر وضو کیا کرتے تھے (جو ایک مطبوع چیز ہے ) مگر بعد میں انہوں نے یہ دیکھا کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے بکری کا گوشت کھایا اور دوبارہ وضو نہ کیا۔
( بیہقی ص 155 ج 1 وابن خزیمہ ص 27 ج 1 )
روایت مذکورہ میں تو ضاء مضارع کے صیغہ نے واضح کر دیا کہ ایک زمانہ میں مطبوخ چیزیں کھا کر رسول اللہ ﷺ وضو کیا کرتے تھے جسے آپ علیہ السلام نے بعد میں ترک کر دیا۔
جھنگوی صاحب کا ارشاد ہے کہ جس حدیث پر خلفائے راشدین کا عمل نہیں وہ منسوخ ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 60)
اور زیر بحث مسئلہ میں خلفائے راشدین کا عمل آگ سے پکی ہوئی چیز کھا کر وضو نہ کرنے کا تھا۔
( شرح صحیح مسلم ص 156 ج 1 و مسند الشاميين بحوالہ عون المعبود ص 76 ج 1) وغاية المقصود ص 140 ج 2 ومصنف عبد الرزاق ص 165 ج 1 رقم الحديث ,648,649,664641,643,647) و مصنف ابن ابی شیبہ ص 47 ج 1 و شرح معانی الاثار ص 53 ج 1 و بیہقی ص 157 ج 1)
ثانیاً:-
آپ نے احادیث کو اختلاف کی وجہ سے ترک کر کے تقلید کو اپنایا کہ حدیث کی طرف رجوع کرنا مقلد کا وظیفہ نہیں۔
(احسن الفتاویٰ ص 55 ج 3)
اور آپ نے ان اختلاف کا حل تقلید کو قرار دیا۔ مگر جھنگوی صاحب زیر بحث مسئلہ میں تو خود حنفیہ میں تین اقوال ہیں۔
(۱) آگ سے پکی ہوئی چیز کو کھا کر وضو کرنے کا حکم منسوخ ہے۔
( طحاوی ص 52 ج 1 )
(۲) یہ حکم استحبابی ہے
( فیض الباری ص 305 ج 1 و اعلاء السنن ص 173 ج 1 )
(۳) اس سے لغوی وضو مراد ہے نا کہ وضو نماز ( الورد الشذی ص 16 و درس ترندی ص 298 ج 1 ‘ بلکہ مولانا ظفر احمد تھانوی نے لغوی وضو کی تردید کی تھی لیکن اس کے حاشیہ پر مولانا تقی عثمانی نے ان کا رد تحریر کیا ہے۔
( حاشیہ اعلاء السنن ص 173 ج 1 )
ظاہر ہے کہ یہ تینوں اقوال آپس میں سخت متعارض ہیں۔ ان میں موافقت ثابت نہیں کی جاسکتی۔ حالانکہ بقول جھنگوی مقلدین میں اس سلسلہ میں اختلاف رائے نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ یہ تمام حضرات مقلد تھے۔
فماکان جوا بکم فھو جو ابنا
شراب کی حرمت
جھنگوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کا شراب پینا ایک وقت میں حدیث سے ثابت ہے۔ بعد میں منع فرمانا بھی حدیث سے ثابت ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 58)
الجواب :- اولا :-
خمر (شراب) کے حرام و ممنوع ہونے پر امت کا اجتماع ہے اور یہ نص قرآن سے حرام ہے۔
ثانیا:-
اس پر بھی امت کا اجماع ہے کہ خمر (شراب) پہلے مباح تھی بعد میں اللہ تعالی نے اسے حرام قرار دے دیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں انصار اور مہاجرین کے کچھ لوگوں کے پاس گیا وہ کہنے لگے آؤ ہم تمہیں کھلائیں اور شراب پلائیں۔ اس وقت شراب حرام نہ ہوئی تھی۔ چنانچہ میں ان کے پاس ایک باغ میں گیا‘ وہاں ایک اونٹ کے سر کا گوشت بھونا گیا تھا اور شراب کی ایک مشک رکھی تھی۔ میں نے ان کے ساتھ گوشت کھایا اور شراب پی ، پھر وہاں مہاجرین اور انصار کا ذکر آیا۔ میں نے کہا مہاجرین انصار سے بہتر ہیں۔ ایک شخص نے سری کا ٹکڑا لیا اور مجھے دے مارا جس سے میری ناک زخمی ہو گئی۔ میں نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں آکر واقعہ بیان کیا تو اللہ تعالی نے میری وجہ سے شراب کے بارے میں یہ آیات نازل فرمائی۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورۃ المائده : 90)
یعنی اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تا کہ تم فلاح یاب ہو۔
( صحیح مسلم ص 281 ج 2)
اس صحیح صریح حدیث سے ثابت ہوا کہ ایک مدت تک شراب مباح تھی۔ بعد میں اللہ تعالی نے اسے حرام قرار دے دیا۔ معلوم نہیں جھنگوی صاحب کو اس میں کیا اختلاف نظر آیا ہے کیونکہ تمام متداول اصول کی کتابوں میں اس امر کی صراحت ہے کہ ناسخ و منسوخ میں اختلاف نہیں ہوتا۔ لیکن علم و فضل کے دعووں کےباوجود جھنگوی ٹولہ ان میں اختلاف ثابت کر رہا ہے۔ حالانکہ اختلاف کے لیے ضروری تھا کہ حلت و حرمت بدستور باقی ہوتی لیکن علم و فضل کے ان مدعیوں کے بڑے دماغ میں یہ چھوٹی سی بات نہیں اتر رہی اس پر مستزاد یہ کہ فقہ کار اگ بھی آلاپتے ہیں لیکن اعتراضات سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ تفقہ فی الدین کی انہیں ہوا تک نہیں لگی۔ بغض و تعصب نے انہیں مزید عقل و فہم سے کورا کر کے فی طغیانہم کا مصداق بنا دیا ہے۔
ثالثاً:-
ان نصوص شرعیہ کے بر عکس حنفیہ کے نزدیک صرف انگور کی شراب ہی حرام ہے باقی نشہ آور مشروبات ان کے نزدیک حرام ہیں نہ نجس۔
مولوی غلام رسول سعیدی حنفی بریلوی لکھتا ہے کہ
آئمہ ثلاثہ (امام شافعی امام مالکؒ اور امام احمدؒ) کے نزدیک ہر نشہ آور مشروب حرام ہے خواہ اس کی مقدار کثیر ہو یا قلیل اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک خمر تو مطلقاً حرام ہے اور خمر کے علاوہ باقی نشہ آور مشروبات جس مقدار میں نشہ آور ہوں اس مقدار میں حرام ہیں اور اس سے کم مقدار میں حرام ہیں نہ نجس اور ان کا پینا حلال ہے۔
(تبیان القرآن ص 299 ج 3 وص 14 8 ج 1 و شرح صحیح مسلم ص 190 ج 6 واللفظ لہ)
صاحب در المختار فرماتے ہیں کہ
(والجلال منها اربعة انواع نبيذ التمر والزبيب ان طبخ ادنى طبخة يحل شربه وأن اشتد وهذا اذا شرب منه بلا لهو وطرب مالم يسكر والثاني الخليطان والثالثة نبيذ العسل والتين والبرد والشعير طبخ اولا والرابع المثلث )
یعنی چار اقسام کی شراب حلال ہے کھجور اور منقی کا نبیذ جب اسے تھوڑا سا پکایا جائے۔ دوسرا مخلوط نبیذ‘ تیسرا شہد اور انجیر وغیرہ کا نبیذ اور چوتھا ثلث انگور کا شیرہ جس کا دو تہائی جل چکا ہو یہ سب اقسام حلال ہیں۔ بشر طیکہ قوت کی نیت سے استعمال کی جائیں لہو و لعب کا ارادہ نہ ہو۔
( در المختار مع رد المختار ص 453 ج 6)
سر کے مسح کا تکرار
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ سر کا مسح تین مرتبہ کرنا (ابوداؤد ) ایک مرتبہ کرنا۔
( تحفہ اہل حدیث ص 58)
الجواب :- اولاً:-
ایک بار مسح کرنے کی صحیح صریح احادیث ہیں جو بخاری و مسلم کی متفق علیہ ہیں جبکہ تین بار مسح کرنے کی حدیث درجہ حسن کی ہے بلکہ بعض علماء نے اس پر جرح بھی کی ہے۔ بقول مولانا تقی عثمانی تین بار مسح کرنے کی روایت شاذ ہے۔
( درس ترمذی ص 244 ج 1)
جب مبتدعین کے نزدیک یہ روایت ہی درست نہیں تو پھر اعتراض کیوں؟
ثانیا:-
ان دونوں میں تعارض نہیں بلکہ موافقت ہے۔ ایک بار کی حدیث متواتر ہے جس سے ثابت ہوا کہ ایک بار مسح کرنا سنت اور تین بار کرنا جائز ہے۔
محدث عظیم آبادی فرماتے ہیں کہ
التحقيق في هذا الباب ان احاديث المسح مرة واحدة أكثر واصح واثبت من احاديث تثليث المسح وان كان حديث التثليث ايضاً صحيحا من بعض الطرق لكنه لا يساويها فى القوة فالمسح مرة واحد ة هو المختار والتثليث لاباس به )
یعنی اس مقام پر محقق بات یہ ہے کہ ایک بار مسح کرنے کی احادیث تین بار مسح کرنے کی حدیث سے تعداد اور صحت و ثبوت میں زیادہ ہیں۔ گو تین بار کی حدیث بھی تعدد طرق کی وجہ سے صحیح ہے لیکن قوۃ صحت میں تین بار کی روایت ان کے برابر نہیں لہذا ایک بار مسح کرنا مختار اور تین بار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(غايتہ المقصود ص 337 ج 1 و عون المعبود ص 41 ج 1 )
مولانا عثمانی فرماتے ہیں کہ
اگر بالفرض حضرت عثمانؓ کی اس ثلا ثا والی روایت کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو بھی وہ بیان جواز پر محمول ہو سکتی ہے چنانچہ حنفیہ میں سے بعض محققین نے تثلیث کو جائز کہا ہے۔
(درس ترمذی ص 245 ج 1 )
نماز عصر کے بعد نوافل کا حکم
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ عصر کے بعد آپ کے نوافل پڑھتے تھے حدیث منع فرماتے تھے کہ عصر کے بعد نفل نہ پڑھو۔
( تحفہ اہل حدیث ص 58)
الجواب:۔ اولا :-
امت مرحومہ میں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ تقریباً آٹھ موقف پائے جاتے ہیں۔ خود مقلدین کے ہاں بھی اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔
تفصیل کے لیے (اعلام اہل العصر ص163) کا مطالعہ کریں۔
اگر تقلید کی وجہ سے اختلاف ختم ہو سکتا تھا تو مقلدین آئمہ اربعہ میں زیر بحث مسئلہ میں کیوں اختلاف ہے؟
ثانیاً:-
احادیث میں قطعاً اختلاف نہیں صرف فرض کر لیا گیا ہے۔ جھنگوی صاحب آنکھوں سے تقلیدی پٹی اتار کر حدیث کا مطالعہ کرتے تو انہیں اختلاف نظر ہی نہ آتا۔ بہر حال ٹھنڈے دل سے ہماری گزارشات کو سنئے واضح رہے کہ نماز عصر کا جو مختار وقت ہے وہ بالاتفاق مکروہ وقت نہیں، ورنہ جماعت عصر کے بعد منفرد بھی نماز عصر نہیں پڑھ سکتا۔
مولانا محمد تقی عثمانی حنفی دیوبندی امام طحاوی سے نقل کرتے ہیں کہ اس وقت بذاتہ کوئی کراہت نہیں جس کی دلیل یہ ہے کہ اسی دن کی فجر اور عصر اس میں بلا کرا ہت جائز ہے۔
( درس ترمذی ص 425 ج 1 )
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اس وقت میں ہی نماز عصر کے بعد دور کعت نفل پڑھا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ
((ماترك النبي ﷺ السجدتين بعد العصر عندی قط ))
یعنی میرے ہاں نبی صلى الله عليه وسلم نے نماز عصر کے بعد دورکعت نماز نفل کبھی بھی ترک نہیں کیے۔
( بخاری ص 83 ج 1 و مسلم ص 277 ج 1 واللفظ لہ )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز عصر کے متصل نوافل پڑھا کرتے تھے اور جن احادیث میں ممانعت ہے وہ سورج کی کیفیت وہیؔت بدلنے پر محمول ہیں۔ حضرت علی مرتضٰیؓ راوی ہیں کہ
(نهى رسول الله ﷺ عن صلاة بعد العصر الا ان تكون الشمس بيضاء نقية مرتفعة )
یعنی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے نماز عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۔ مگر جب آفتاب چمکتا ہوا بلند ہو۔
(نسائی ص 67 ج 1 وابوداؤد مع عون ص 492 ج 1 و مسند احمد ص 81,129,141 ج 1 و مسند طیالسی ص 108 و بیہقی ص 455 ج 2 وابن خزیمہ ص 265 ج 2)
اس حدیث پر امام ابوداؤد نے سکوت کیا ہے اور جس روایت پر ابوداؤد سکوت کریں وہ اکابر دیوبند کے نزدیک کم از کم حسن درجہ کی ہوتی ہے۔
(اعلاء السنن ص 152 ج 7 )
جبکہ حافظ ابن حجر نے ( فتح الباری ص 50 ج 2) میں‘ علامہ ابن حزم نے (المحلی بالاثار ص 71 ج 2) میں‘ حافظ عراقی نے اور علامہ ناصر الدین البانی نے ( اروالغلیل ص 237 ج 2 و سلسلۃ الاحادیث الصحیحتہ (200) میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
الغرض یہ حدیث صحیح، مرفوع، متصل ہے جس کا واضح مفاد یہ ہے کہ
نماز عصر کے بعد جب تک سورج بلند رہے اور اس کی کیفیت میں فرق نہ آئے تب تک نوافل وغیرہ ادا کرنے بلا کراہت جائز ہیں اور جن روایات میں مطلق نماز عصر کے بعد نوافل پڑھنے کی ممانعت ہے وہ احادیث اس حدیث پر محمول ہیں کیونکہ یہ مسلمہ اصول ہے کہ مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا۔
قارئین کرام جب آپ نے اس بات کو بخوبی سمجھ لیا تو اب سنئے کہ جن احادیث میں بعد نماز عصر رسول اللہ ﷺ سے دور کعت ہمیشہ پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے وہ نماز عصر کے متصل پر محمول ہیں۔ فلا اعتراض
ثالثاً:-
خود حنفیہ کے نزدیک بھی ان دونوں روایات میں قطعاً تعارض نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ حنفیہ نے نوافل سے دشمنی کرتے ہوئے اسے رسول اللہ ﷺ سے خاص کیا ہے۔ (الورد الشذی ص 41) اور محدثین کرام نے اسے بلادلیل صرف زبانی جمع خرچ قرار دیکر رد کر دیا ہے اور حضرت علی مرتضیٰؒ کی مذکورہ حدیث کے ساتھ موافقت ثابت کی ہے۔ جیسا کہ امام ابوداؤد‘ امام نسائی‘ امام ابن خزیمہ وغیرھم نے اپنی اپنی کتب میں تبویب ابواب سے صراحت کی ہے۔
جھنگوی صاحب کو ہمارا چیلنج ہے کہ وہ کسی صحیح‘ صریح‘ مرفوع‘ متصل حدیث سے یہ ثابت کرے کہ آنحضرت ﷺ نماز عصر کے بعد دور کعت کو اتنا لیٹ کرتے یہاں تک کہ سورج کی ہیئت میں فرق آجاتا۔ اگر جھنگوی ایسی حدیث ثابت کر دے تو ہم مان جائیں کہ واقعی جھنگوی کے قول میں صداقت ہے اور وہ اپنے دعویٰ میں صادق ہے۔ لیکن جھنگوی کیا پوری دنیا کے مبتدعین اس کا ثبوت نہیں دے سکتے۔ جس سے ثابت ہوا کہ یہ لوگ جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں۔
اعضاء وضو کو دھونے کی تعداد
جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ کلی کرنا‘ ناک میں پانی ایک ایک مرتبہ کی حدیث ہے تین تین مرتبہ والی حدیث بھی آئی ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 58)
الجواب:- اولا:-
ان احادیث میں قطعاً تعارض نہیں، عداوت اہل حدیث نے جھنگوی ٹولہ سے امانت و دیانت اور تقویٰ و خشیت الہٰی یکسر ختم کر دی ہے اور بغض و تعصب اور ہٹ دھرمی نے انہیں عقل و فہم سے کورا کر دیا ہے جس سے یہ لوگ يحمل اسفار تو بن گئے ہیں لیکن انما یخشی الله من عباده العلماء کی صف سے مرصع نہیں ہو سکے ۔ ہم جھنگوی ٹولہ سے مؤدبانہ گزارش کرتے ہیں کہ حدیث آپ کا فن نہیں اور مذکورہ اعتراضات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ علم حدیث کی آپ کو بو تک نہیں لگی اس لیے بہتر یہ ہے کہ آپ کسی مسلم شخصیت سے ثابت کریں کہ ان احادیث میں تعارض ہے ۔ چلو آپ کو مزید رعایت دیتے ہیں علامہ نیموی‘ علامہ کا شمیری‘ مولانا بنوری اور ظفر احمد تھانوی جیسے اکابر علماء دیوبند سے ہی ثابت کر دیں کہ وضو کی تعداد والی روایات میں تعارض ہے۔ اگر آپ ثابت کر دیں تو ہم موافقت ثابت کر دیں گے۔ اگر آپ ثابت نہ کر سکے یقیناً ثابت نہیں کر سکیں گے جس سے لازم آیا کہ یا تو آپ جاہل مطلق ہیں یا پھر آپ نے جھوٹ بولا ہے۔
ثانیاً:-
ایک عدد میں دھونے کے وجوب کا ثبوت ہے جو جواز کو ثابت کرتا ہے اور تین بار میں عدد مسنون کی حدذ کر ہوئی ہے۔ فلا اعتراض
نماز فجر کا وقت
فرماتے ہیں کہ صبح کی نماز روشنی میں پڑھنا‘ اندھیرے میں پڑھنا‘ دونوں حدیثیں آئی ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 58)
الجواب :- اولا:-
صبح کی نماز کو اندھیرے میں پڑھنا رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا۔ جیسا کہ حضرت عائشہؓ ( بخاری ص 82 ج 1 ‘و مسلم ص 230 ج 1) حضرت جابرؓ ( بخاری ص 79 ج 1 و مسلم ص 230 ج 1 ) حضرت انسؓ ( بخاری ص 81 ج 1 ) سے مروی ہیں ۔ حضرت ابی مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ
آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے جبریل کی اقتداء میں صرف ایک بار ہی نماز فجر کو روشنی میں ادا کیا ہے پھر وفات تک نماز کو روشنی میں نہیں پڑھا۔
(ابو داؤد ص 57 ج 1 و ابن حبان ص 45 ج 4 و بیہقی ص 364 ج 1)
جس سے ثابت ہوا کہ روشنی میں ایک بار صرف بیان جواز کے لیے نماز کو ادا فرمایا۔ مگر آپ علیہ السلام کا معمول اندھیرے میں ہی پڑھنے کا تھا۔
علامہ زیلعی حنفی امام حازمی سے نقل کرتے ہیں کہ
بلا شبہ آپ ﷺ فجر کی نماز ہمیشہ اندھیرے میں پڑھا کرتے تھے یہاں تک کہ آپﷺ وفات پاگئے۔
( نصب الرایہ ص 240 ج 1 )
اس حقیقت کے برعکس جھنگوی صاحب دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ ﷺ سے فجر کی نماز روشنی میں پڑھنا بھی ثابت ہے۔ حالانکہ یہ کورا بلکہ کالا سیاہ جھوٹ ہے۔ جھنگوی ہمت کرے اور اپنے دعویٰ کو ثابت کرے ورنہ لعنتہ اللہ علی الکازبین کی وعید شدید سے ڈر جائے۔
ثانیا :-
خود اکا بر دیو بند کے نزدیک اگر نمازی جمع ہو جائیں تو اندھیرے میں نماز فجر کو ادا کرنا افضل و اعلیٰ اور اولیٰ ہے۔
(الورد الشذی ص 29 و درس ترمذی ص 406 ج 1 و نماز مسنون ص 180)
ثالثاً:۔
یہاں حضرت رافع بن خدیج سے مروی حدیث کا نام نہ لینا۔ کیونکہ آپ نے تعارض کار خوبی فعلی احادیث میں کیا ہے جبکہ روایت رافع قولی ہے۔ ویسے قولی و فعلی احادیث میں بھی قطعاً تعارض نہیں۔ مفصل دین الحق ص 162 میں دیکھئے۔
جھنگوی مرزا غلام احمد قادیانی کے نقش قدم پر
فرماتے ہیں کہ دیکھیں یہ مختلف قسم کی احادیث آرہی ہیں اس قسم کی سینکڑوں احادیث پیش کی جاسکتی ہیں جن میں کافی تعارض و مخالف موجود ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 58)
الجواب:- اولا:-
ان میں تعارض و تخالف موجود نہیں جیسا کہ تفصیل سے لکھا جا چکا ہے اگر ان کے علاوہ مزید روایات کی نشان دہی بھی کرتے تو ہم ان کا جواب بھی عرض کرتے۔
ثانیاً: –
احادیث کو متعارض کہنا دراصل منکرین حدیث اور مرزائیت کا شوشہ ہے اور جھنگوی انہی لوگوں کا مقلد ہے۔ آئیے مرزا غلام احمد قادیانی کے اقوال ملاحظہ کریں۔
(۱) مولوی ثناء اللہ صاحب کو یہ بھی ایک دھوکہ لگا ہوا ہے کہ وہ متناقض حدیثوں کو ہر ایک کے سامنے پیش کرتے ہیں یہی دھو کہ انکے بزرگ مولوی محمد حسین صاحب کو لگا ہوا ہے۔
(اعجاز احمدی ص 26 وروحانی خزائن ص 136 ج 19)
(۲) علاوہ اس کے ان حدیثوں کے درمیان اس قدر تناقض ہے کہ اگر ایک حدیث کے برخلاف دوسری حدیث تلاش کرو تو فی الفور مل جائے گی۔
(اعجاز احمدی ص 27 و روحانی ص 137 ج 19 )
(۳) خدا نے مجھے اطلاع دے دی ہے کہ یہ تمام حدیثیں جو (اہل حدیث مرزا کے زد میں (ابو صہیب ) پیش کرتے ہیں تحریف معنوی یا لفظی میں آلودہ ہیں اور یا سرے سے موضوع ہیں اور جو شخص حکم ہو کر آیا ہے اس کا اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پا کر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پا کر رد کرے۔
(ضمیمه تحفہ گولڑویہ ص 11 ور روحانی ص 51 ج 17)
(۲) علمائے مخالفین کا میری نسبت در حقیقت اور کوئی بھی عذر نہیں بجز اس بیہودہ عذر کے کہ جو ایک ذخیرہ رطب ویابس حدیثوں کا انہوں نے جمع کر رکھا ہے ان کے ساتھ مجھے نا پنا چاہتے ہیں حالانکہ ان حد یثوں کو میرے ساتھ نا پنا چا ہیے تھا۔
(تحفہ گولڑویہ ص 42 در وحانی 158 ج 17)
(۵) ان پانچ حد یثوں میں کس قدر اختلاف ہے کسی حدیث میں براق کاذکر ہے اور کسی میں یہ ہے کہ جبریل ہاتھ پکڑ کر لے گیا اور کسی میں بیداری اور کسی میں خواب لکھی ہے اور کسی میں لکھا ہے کہ میں حمرہ میں لیٹا ہوا تھا اور کسی میں لکھا ہے کہ میں مسجد کعبہ میں تھا اور کسی میں لکھا ہے کہ صرف جبریل آیا تھا اور کسی میں لکھا ہے کہ تین آدمی آئے تھے اور کسی میں لکھا ہے کہ آدمؑ کے بعد عیسیؑ اور یحییٰؑ کو دیکھا اور کسی میں لکھا ہے کہ آدم کے بعد ادریس کو دیکھا اور کسی میں لکھا ہے کہ عیسیؑ کو دوسرے آسمان میں دیکھا اور موسیٰؑ کو چھٹے آسمان میں اور کسی میں لکھا ہے کہ پہلے موسیٰؑ کو دیکھا پھر عیسیٰؑ کو‘ اور کسی میں لکھا ہے کہ ابراہیم . کو ساتویں آسمان پر دیکھا اور کسی میں لکھا ہے کہ موسیٰ کو ساتویں آسمان پر دیکھا اور ابراہیم کو چھٹے میں غرض اس قدر اختلاف ہے کہ جس کے مفصل لکھنے کے لیے بہت سے اوراق چاہییں۔
(ازالہ اوہام ص 935 در روحانی خزائن ص 614 ج 3)
واضح رہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے جملہ اعتراضات پر خاکسار نے اپنی تالیف (علوم الحدیث اور مرزا) میں مفصل بحث کی ہے جس میں مذکورہ اعتراض کا بھی علمی و تحقیقی جائزہ پیش کر دیا گیا ہے۔ لہذا یہاں اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کی طباعت و اشاعت کا کوئی ذریعہ پیدا کر دے۔ آمین یاالہ العلمین
(۶) جس قدر بعض احادیث میں تعارض و مخالف پایا جاتا ہے اس کے بیان کرنے کے لیے تو ایک رسالہ چاہیے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ص 15 وروحانی خزائن ص 17 ج 4)
(۷) (ومع ذالك فيها اختلاف كثيرة ومنافات كبيرة ولاجل ذلك افترقت الامة وتشاجرت الملة فمنهم حنبلى وشافعى ومالكي وحنفى وحزب المتشيعين )
اور اس کے ساتھ ساتھ احادیث میں بہت زیادہ اختلاف ہے اور آپس میں سخت متعارض ہیں اور انہیں کے سبب امت میں افتراق اور ملت کا شیرازہ بکھرا ہے ان سے حنبلی‘ شافعی‘ مالکی ، حنفی اور شیعہ کا گروہ ہے۔
( آئینہ کمالات اسلام ص 559)
(۸) مرزا غلام احمد قادیانی کا بیٹا اور اس کا دوسرا جانشین مرزا محمود احمد اپنے خطبہ جمعہ مورخہ 4 جولائی 1924ء میں کہتا ہے کہ
حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد قادیانی) فرمایا کرتے تھے کہ حدیثوں کی کتابوں کی مثال تو مداری کے پٹارے کی ہے جس طرح مداری جو چاہتا ہے اس میں سے نکال لیتا ہے۔ اسی طرح ان سے جو چاہو نکال لو فی الواقعہ یہ صحیح بات ہے اور یہ نبی کا ہی کام ہے کہ بتائے کونسی ایسی حدیث ہے جو دست و بر کا نتیجہ ہے اور کو نسی محمد صلى الله عليه وسلم کا سچا کلام ہے۔
(الفضل 15 جولائی 1924ء بحوالہ خطبات محمود ص 457 ج 8)
مولوی نور الدین جانشین اول مرزا قادیانی نے بھی یہ روایت قدرے الفاظ کے قیرے مرزے سے نقل کی ہے۔
(الحکم مؤرخہ 17دسمبر 1902 مندرجہ حقائق الفرقان ص 105 ج 4 طبع ربوه بدون تاریخ)
نتیجه:-
اولا مر ز او اضح اور کھلے الفاظ میں کہتا ہے کہ احادیث میں اختلاف ہے اور یہ مداری کی پٹاری کیا ہے۔
(عبارت نمبر 1,2,5,6,7,8)
ثانیا :۔
اس کے اختلاف کو مٹانے اور احادیث کو لائحہ عمل بنانے کے لیے مرزا کہتا ہے کہ میری پیروی کرو۔
(عبارت نمبر 3,4)
(1) ایسے ہی جھنگوی کہتا ہے کہ احادیث میں تعارض و مخالف موجود ہے۔
(۲) ان ختلافات کا حل یہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کی تقلید کی جائے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 59)
بحث کا بنیادی پتھر :-
قارئین کرام حقیقت یہ ہے کہ احادیث صحیحہ میں قطعاً تعارض نہیں۔ خود غرضی اور مطلب پر آری کے لیے اختلاف باور کرا یا جاتا ہے۔ ایک فریق کہتا ہے کہ چونکہ احادیث میں اختلاف ہے لہٰذا یہ واجب العمل نہیں بلکہ قول امام کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ دوسرا فریق بھی یہی کہتا ہے کہ فرق صرف یہ ہے کہ ایک گروہ تقلید کے پردہ میں اسلامی تعلیم کو نا قص وادھورا کہتا ہے تو دوسر اگر وہ جھوٹی نبوت کی آڑ میں اسلامی تعلیم کو مسخ کر رہا ہے۔
فریقین منافقت کے روپ میں :۔
حقیقت میں یہ دونوں فریق ہی احادیث کے منکر ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے مذکورہ جھوٹا بہانہ تلاش کیا ہے اور جن روایات کو یہ حضرات قبول کرتے ہیں وہ اسوہ حبیب جان کر نہیں بلکہ اپنے موقف کی حمایت کے لیے جس سے ان کا مقصود عوام الناس کو مطمئن کرتا ہوتا ہے۔ گویا احادیث کو معیار حق سمجھنے کی بجائے اقوال آئمہ کو معیار حق جانتے ہیں جس پر احادیث کو اپنے نظریات پر ماپتے ہیں۔
مرزے کی عبارت نمبر 3 ملاحظہ ہو
مولانا محمد رسول خاں صاحب دیوبندی فرماتے ہیں کہ
اہل حدیث اور ہم اتنے امر میں شریک ہیں کہ وہ بھی قرآن اور حدیث پڑھتے ہیں اور ہم بھی۔ مگر فرق یہ ہے کہ ہم حدیث اس وجہ سے پڑھتے ہیں کہ امام کے جن اقوال کا منشا ہمیں معلوم نہیں معلوم ہو جائے یعنی ہم فقہاء کے اقوال کی تائید کے لیے حدیث کا استعمال کرتے ہیں۔
(قاسم العلوم ص 25 جلد اول شمارہ نمبر 11 بحوالہ پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث کی خدمات حدیث ص 75)
اس کے قریب قریب بات مرزاغلام احمد نے کہی ہے کہ
تائیدی طور پر ہم وہ حد نہیں بھی پیش کرتے ہیں ( اعجاز احمدی ص 30 و روحانی ص 140 ج 19 ) گویادونوں فریق حدیث کو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اصل بنیاد حدیث نہیں بلکہ اپنے خود ساختہ نظریات ہیں۔ پھر حدیث کا استعمال بھی یہ حضرات جس طرح کرتے ہیں وہ بھی قابل دید ہے۔ دونوں ہی وضع حدیث میں معروف ہیں۔ جھنگوی نے اس چھوٹے سے کتا بچہ میں دوروایات خود وضع کی ہیں۔ ایسا ہی مرزا بھی احادیث وضع کرنے میں جری و دلیر تھا۔ تفصیل کے لیے راقم کا اشتہار مرزا غلام احمد قادیانی کے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم پر دس افتراء کا مطالعہ کیجیے۔ جو خاکسار کی تالیف حیات عیسیٰ علیہ السلام اور صداقت مرزا پر ایک مناظرہ جو نہ ہو سکا‘ کے آخر ص 97 میں مطبوعہ ہے۔
علاوہ ازیں مرزا کی طرح آل دیوبند کو بھی من گھڑت اور وضعی روایات سے استدلال کرتے ہوئے ان کا ضمیر انہیں ملامت نہیں کرتا چنانچہ جھنگوی صاحب فرماتے ہیں که تفسیر در منشور آیت یوم تبیض وجوہ (الایہ ) کے تحت نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جن کے چہرے روز قیامت چمکتے ہو نگے وہ اہل سنت والجماعت ہو نگے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 51)
بلا شبہ یہ روایت ( در منشور ص 63 ج 2 ) میں (دیلمی ص 449 ج 5 کے حوالے سے) موجود ہے لیکن من گھڑت اور موضوع ہے جیسا کہ امام دار قطنی نے صراحت کی ہے۔ تفصیل کے لیے ( تنزیہ الشریعتہ ص 319 ج1) کا مطالعہ کیجیے۔
اگر جھنگوی صاحب کو علم حدیث کا دھواں تک لگا ہو تا تو من گھڑت اور موضوع روایت سے استدلال نہ کرتے اگر ضرور ہی کرنا تھا تو اس پر حکم لگا دیتے کہ موضوع ہے۔ علم کو چھپانا اہل علم اور اہل سنت کا شعار نہیں بلکہ مبتدعین کا ہے۔