جو لوگ ذخیرۂ حدیث اور مسلم تاریخ کو پرکھنے کے لیے سخت معیارات کا استعمال کرتے ہیں، انہیں یہ بھی چاہیے کہ وہی معیارات یورپ اور امریکہ کی تاریخ اور ان کے قانونی ذرائع پر بھی لاگو کریں۔ ہمارے پاس، الحمدللہ، سب کچھ محفوظ ہے اور محفوظ رہے گا، جبکہ وہاں ان معیارات کے تحت کچھ بھی ثابت نہیں کیا جا سکے گا۔ وہاں تو بڑی بڑی شخصیات کی تاریخی حیثیت اور اہم واقعات کا وجود ہی سوالیہ نشان بن سکتا ہے۔
اگر ہم آج کے دور کی مثال دیکھیں، تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔ آج بھی، جہاں ہر طرف خبریں، تبصرے، اور تجزیے گونج رہے ہیں اور روزانہ اربوں ٹن مواد نشر ہو رہا ہے، کسی بھی خبر کی سچائی کو جانچنے کا پیمانہ عینی شہادت ہی ہوتا ہے۔ آپ کو خبر کا ذریعہ معلوم ہو سکتا ہے، لیکن آپ یہ نہیں جان سکتے کہ وہ خبر دینے والے کی بصیرت، بصارت، سچائی، اور متعلقہ معاملے کی معلومات کتنی ہیں۔ اس کے علاوہ، آپ کو خبر دینے والے کے رجحانات، تعصبات، یا ذاتی وابستگیوں کا بھی علم نہیں ہوتا۔
لیکن جو خبریں ہم تک چودہ سو سال پہلے پہنچیں، ان میں ہمیں ان خبروں کو پہنچانے والے لاکھوں افراد کی ذاتی زندگیوں، حتیٰ کہ ان کے مجموعی کردار تک کی معلومات حاصل ہیں۔ ان کی بصیرت، بصارت، علمیت، سچائی، اور متعلقہ معاملات میں ان کی واقفیت کے بارے میں ہمیں کافی حد تک آگاہی حاصل ہے۔ ان کے رجحانات، تعصبات یا غیر تعصبی رویوں کو بھی کسی نہ کسی حد تک جانچ سکتے ہیں۔
جو بنیادیں آج کی تنقید کا حصہ بنتی ہیں، وہ صرف انسان کی ممکنہ غلطیاں ہیں، اور یہ غلطیاں آج کے جدید ترین ٹیکنالوجی کے دور میں بھی نظر آتی ہیں۔ لیکن ہمارے اسلاف نے تاریخ، سیرت، اور حدیث کے حوالے سے جو معیارات مقرر کیے، یورپ اور امریکہ ان معیارات کا تصور کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
میں اپنے بھائیوں، بزرگوں، اور دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس تناظر میں خصوصاً نوجوانوں کو مولانا مناظر احسن گیلانی رحمت اللہ علیہ کی کتاب تدوین حدیث پڑھنے کی ضرور ترغیب دیں۔ اس سے بیشتر (اپنے اور پیدا کردہ) شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے۔