تہذیب واضافہ: حافظ بلال اشرف اعظمی
معزز قارئین! یزید بن ابی زیاد الہاشمی الکوفی (م: ۱۳۷ھ) کیسا راوی تھا؟ آئیے! ملاحظہ فرمائیے :
➊جمہور محدثین کے نزدیک (سوء حفظ اور کثرت خطا کی وجہ سے ) ضعیف تھا۔
❀حافظ ابن حجرؒ (م :۸۵۲ھ ) لکھتے ہیں:
”ضعیف ، كبر فتغير صار يتلقن وكان شيعيا“
”ضعیف ہے، بڑی عمر کو پہنچے تو حافظہ میں تبدیلی آگئی، تلقین قبول کرنے لگے اور شیعہ تھے ۔“
(تقريب التهذيب : ۷۷۱۷) تفصیل کے لیے دیکھیں: نور العینین في اثبات رفع اليدين، ص : ١٤٥، ١٤٦
➋شیعہ تھا۔
❀اہل تشیع کے امام ابوالقاسم الخوئی نے اپنی کتاب مــعــجــم رجال الحدیث (۱۳۶۳۴) میں یزید بن ابی زیاد کا ذکر کیا ہے اور ”الکافی“ وغیرہ میں اس کی روایات کا تذکرہ کیا ہے۔
➌مدلس تھا۔
❀حافظ ابن حجرؒ نے اس کا تذکرہ مرتبہ ثالثہ کے مدلسین میں کیا ہے۔
دیکھیں: الفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين، ص: ۱۳۱
➍ آخر عمر میں اختلاط کا شکار ہو چکا تھا۔
(المجروحين لابن حبان : ٣/ ۱۰۰،سنن الدارقطني : ١/ ٢٩٤)
اس تحریر میں ہم چند ان حنفی علماء کا تذکرہ کریں گے جنہوں نے یزید بن ابی زیاد الکوفی کو ضعیف قرار دیا ہے:
◈کمال الدین محمد بن عبد الواحد المعروف ابن الهمام حنفی (م : ۶۸۱ ھ ) لکھتے ہیں:
وهو مضعف بيزيد بن أبي زياد
يه روایت یزید بن ابی زیاد کی وجہ سے ضعیف ہے۔
(فتح القدير في شرح الهداية : ۷۷/۲)مزید دیکھیں: فتح القدير : ١/ ٢٤٥
◈جمال الدین عبد اللہ بن یوسف الزیلعی حنفی (م:۷۶۲ھ ) لکھتے ہیں:
ویزید بن أبي زياد ضعيف
نصب الراية لأحاديث الهداية : ٢٦١/٢
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
وهو معلول بيزيد بن أبي زياد
يه روايت يزيد بن ابی زیاد کی وجہ سے معلول ہے۔
(تخريج الأحاديث والآثار الواقعة في تفسير الكشاف : ٧٧/٤) مزید دیکھیں: نصب الراية : ١٨٦/١
◈علاء الدین بن علی المارديني المعروف ابن الترکمانی حنفی (م: ۸۴۵ھ ) لکھتے ہیں:
قلت: يزيد مضعف حكى البيهقي تضعیفه عن ابن معین
میں نے کہا: یزید راوی ضعیف ہے، امام بیہقیؒ نے امام یحیی بن معینؒ سے اس کی تضعیف نقل کی ہے۔
(السنن الكبرى مع الجوهر النقي: ٢٠٨/٢)
مزید لکھتے ہیں:
وفيه يزيد بن أبي زياد متكلم فيه، قال البيهقي في باب الكسر بالماء ضعيف لا يحتج به
اس سند میں یزید بن ابی زیاد ہے، اس میں کلام ہے، امام بیہقیؒ نے ”باب الكسر بالماء“ میں فرمایا: ضعیف ہے، اس سے حجت پکڑنا درست نہیں ہے۔
(السنن الكبرى مع الجوهر النقي : ٤ / ٢٦٨)
امام احمد بن حسین بیہقیؒ نے (سنن الکبریٰ : ۱/ ۳۸۷) میں یزید بن ابی زیاد سے مروی ایک روایت نقل کی اور کوئی جرح نہ کی جس پر تبصرہ کرتے ہوئے ابن الترکمانی حنفی لکھتے ہیں:
قلت: في سنده يزيد بن أبي زياد وليث بن أبي سليم فسكت عنهما وضعف يزيد في غير موضع من كتابه هذا
میں نے کہا: اس کی سند میں یزید بن ابی زیاد اور لیث بن ابی سلیم ہیں، امام بیہقیؒ نے ان سے خاموشی اختیار کی ہے، حالانکہ ان کی اس کتاب میں کئی جگہ یزید کو ضعیف قرار دیا گیا ہے ۔
(السنن الكبرى مع الجوهر النقي : ۳۸۷/۱)
◈بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی (م: ۸۵۵ھ) نے اگر چہ بعض مقامات پر یزید بن ابی زیاد کے دفاع کی کوشش کی ہے مگر اپنی کتاب ”نخب الأفكار“ میں لکھتے ہیں:
قلت: يزيد بن أبي زياد ضعيف
(نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار : ٥١/٣)
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
"قلت: وفي إسناده يزيد بن أبي زياد وهو ضعيف . “
(عمدة القاري شرح صحيح البخاري : ٢/ ٣٣١)
◈مولانا محمد بن طاہر پٹنی حنفیؒ (م : ۹۸۶ھ) نے لکھا ہے کہ مقدمہ فتح الباری میں ہے:
هو مختلف فيه والجمهور على تضعيفه إلا أنه ليس بمتروك.
’’یہ راوی مختلف فیہ ہے، جمہور محدثین اس کی تضعیف کے قائل ہیں، مگر یہ راوی متروک نہیں ہے۔“
(قـانـون الـمـوضـوعــات والــضـعـفــاء مع تذكرة الموضوعات، ص : ٣٠٦)
فائدہ ۔۔۔۔۔۔ مفتی طارق امیر خان صاحب لکھتے ہیں :
”ملک المحدثین علامہ محمد بن طاہر پٹنیؒ (المتوفی : ۹۸۶ھ) آپ نے اس فن میں ”تذکرۃ الموضوعات“ اور ”قانون الموضوعات‘‘ لکھیں، بلاشبہ مشتہرات کا یہ مجموعہ ایک انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے۔“
(ماہنامہ فقیہ سرگودھا، جلد نمبر: ۵، شمارہ نمبر : ۳، ص: ۲۶، ۲۰۱۶ء)
◈ابوالحسن علی بن سلطان محمد المعروف ملاعلی القاری (م : ۱۰۱۴ھ ) لکھتے ہیں:
”وفي إسناده يزيد بن أبي زياد وهو سي الحفظ اختلط في آخر عمره وكان يقبل الفلوس“
’’اس کی سند میں یزید بن ابی زیاد ہے، وہ سی الحفظ تھا، آخر عمر میں اختلاط کا شکار ہو گیا تھا اور بہت جلد تلقین قبول کر لیتا تھا۔‘‘
(مجموع رسائل الملا على القاري، رسالة المشرب الوردي في مذهب المهدي: ٦ / ١١٩)
◈جناب محمد انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب (م:۱۳۵۲ھ) نے فرمایا:
’’یزید بن أبي زياد وهو موصوف بسوء الحفظ“
”يزيد بن ابی زیاد سوء حفظ کا شکار تھا۔“
(العرف الشذي على الجامع الترمذي : ۱/ ۲۸۳ ، مکتبه رحمانیه لاهور)
◈ابوالحسنات محمد عبد الحئی لکھنوی حنفی (م : ۱۳۰۴ھ ) لکھتے ہیں:
’’وفيه يزيد بن أبي زیاد مجروح .‘‘
’’اس سند میں یزید بن ابی زیاد ہے، جو کہ مجروح راوی ہے ۔“
(التعلیق الممجد حاشية الموطأ للإمام محمد : ۱/ ۳۳۹)
◈دیوبندی مکتب فکر کے شیخ الہند محمود حسن دیوبندی صاحب کی تصحیح سے شائع ہونے والی سنن ابی داؤد کے حاشیہ پر لکھا ہے:
”ابن أبي زياد ذكر الإمام النووي أن هذا الحديث ضعيف لا يصح الاحتجاج به لأن يزيد بن أبي زياد مجمع على ضعفه لا سيما وقد خالف رواية الثقات .“
”ابن ابی زیاد، امام نوویؒ نے ذکر کیا ہے (شرح صحیح مسلم: ۳ (۲۷۸۷) کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اس کے ساتھ حجت پکڑنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ یزید بن ابی زیاد کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے بالخصوص جب اس نے ثقہ راویوں کی روایت کے خلاف روایت بیان کی ہے۔“
(ســـــنـــن أبي داود تصحیح محمود حسن دیوبندی صاحب : ۲/ ۹۳ ، مکتبه امدادیه (ملتان)
◈جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب (م: ۱۹۴۳ء) لکھتے ہیں:
”اور ابوداود (۹۳/۲) کی روایت کو جس میں دو کپڑے اور وہ قمیص جس میں آپ ﷺ کی وفات ہوئی مروی ہیں، یزید بن ابی زیاد کی وجہ سے ضعیف کہا ہے۔“
(نشـــر الــطيــب فـي ذكر النبي الحبيب، ص: ۱۹۸)
◈جناب خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی صاحب (م: ۱۳۴۶ھ ) التلخيص لابن حجر کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’وفيه يزيد بن أبي زياد وهو ضعيف“
(بذل المجهود في حل أبي داود : ۳/ ۱۲۸) مزید دیکھیں: بذل المجهود : ٤ / ١٩٤
فائده ۔۔۔۔ سرفراز صفدر دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
”جب کوئی مصنف کسی کا حوالہ اپنی تائید میں پیش کرتا ہے اور اس کے کسی حصہ سے اختلاف نہیں کرتا تو وہی مصنف کا نظریہ ہوتا ہے۔
(تفریح الخواطر في رد تنوير الخواطر، ص : ٢٩)
◈محمد ایوب مظاہری دیو بندی (م : ۱۴۰۷ھ ) لکھتے ہیں:
”ابن أبي زيـــــاد الهاشمي ضعيف“
چ(شرح معاني الآثار مع الحاشية المتعلقة برجال الطحاوي : ١ / ١٤٤ ، مكتبه حقانیه ملتان)
◈جناب محمد الیاس فیصل دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
”زیلعی فرماتے ہیں کہ اس کی سند میں یزید بن ابی زیاد ہے اور وہ ضعیف ہے، حافظ ابن حجر تقریب میں فرماتے ہیں کہ ضعیف ہے، بڑھاپے میں اس کی حالت بدل گئی تھی اور وہ شیعہ تھا۔‘‘
(نماز پیغمبر ﷺ، ص: ۸۵، سنی پبلی کیشنز، لاہور)
◈مفتی تقی عثمانی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
”اس کی سند یزید بن ابی زیاد کی وجہ سے ضعیف ہے۔“
(انعام الباری دروس بخاری : ۲۵۲/۵)
◈جناب امداد اللہ انور استاذ جامعہ قاسم العلوم، ملتان جرابوں پر مسح سے متعلق ایک روایت کو ضعیف ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’محدث زیلعی فرماتے ہیں کہ اس کی سند میں یزید بن ابی زیاد ہے اور وہ ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجرؒ تقریب میں فرماتے ہیں کہ ضعیف ہے، بڑھاپے میں اس کی حالت بدل گئی تھی اور وہ شیعہ تھا۔“
(مستند نماز حنفی بص : ۳۵)
لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ امداد اللہ انور صاحب نے ترک رفع یدین سے متعلق ایک ضعیف روایت کے دفاع میں اسی کتاب میں اس راوی کو ثقہ کہا ہے۔
چنانچہ لکھتے ہیں:
’’یزید بن ابی زیاد کوفی پر اگرچہ بعض محدثین نے کلام کیا ہے مگر وہ ثقہ ہے۔“
(مستند نماز خفی ص :۲۰۳)
هذا خبرهم عند الوفاق وذلك مخبرهم عند الخلاف.