نصاب تعلیم
قرآن کی پہلی وحی نازل ہوئی تو اس میں رب تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا:
(اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّـذِىْ خَلَقَ(1)خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ(2) اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْـرَمُ(3) اَلَّذِىْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ(4)عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ(5))
(العلق : ١ تا ٥)
’’اے پیغمبر! پڑھیے اپنے رب کے نام سے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ اس نے آدمی کو غلیظ منجمند خون سے پیدا کیا ہے ۔ پڑھیے اور آپ کا رب بے پایاں کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے علم دیا ، اس نے آدمی کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘
اسی طرح سورہ بقرہ میں فرمایا:
(كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ)
(البقره: ١٥١)
’’جیسا کہ ہم نے تمہاری رہنمائی کے لیے تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ہماری آیتیں تمہیں پڑھ کر سناتا ہے، اور تمہیں پاک کرتا ہے، اور قرآن وسنت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے ۔“
ان آیات کو مد نظر رکھتے ہوئے سوچئے کہ اسلام نے علم کو کتنی اہمیت دی ہے۔ کہ پہلی وحی ہی تعلیم و تعلم کے متعلق ہے، اور علم سکھانے کے لیے ہی اللہ نے اپنے رسولوں کو معلم بنا کر بھیجا۔
حدیث پاک میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ ))
صحيح مسلم، كتاب الوصبية ، باب ما يلحق الانسان من الثواب بعد وفاته : ١٦٣١.
’’جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں، لیکن تین عمل منقطع نہیں ہوتے : صدقہ جاریہ ، علم نافع اور نیک اولا د جو اس کے لیے دعا کرتی رہتی ہے۔“
یعنی علم ایک ایسی لازوال دولت ہے جو زندگی میں بھی کام آتی ہے اور مرنے کے بعد بھی، اس کے فوائد انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور اس دولت کو کوئی لوٹ اور چھین بھی نہیں سکتا اور اپنے زور سے کوئی اس کے فوائد کو روک بھی نہیں سکتا۔
علم کیا ہے؟
اس بارے مناسب ہے کہ امام شافعیؒ کے اشعار کو سامنے رکھا جائے:
كل الْعُلُومِ سِوَى الْقُرْآنِ مُشْغَلَةٌ إلَّا الحَدِيث وَ إِلَّا الْفِقْةَ فِي الدِّينِالعِلْمُ مَا كَانَ فِيهِ قَالَ حَدَّثَنَاوَسِوَى ذَاكَ مِن وَسُوَاسِ الشَّيَاطِينِ .
مواهب الوفى في مناقب الشافعي ، بتحقيق المؤلف الحضري، ومنير احمد وقار، ص: ١٤٩-عقيدة الطحاوية ، ص: ٢٤ البداية والنهاية : ٢٥٤/١٠.
’’ قرآن و حدیث اور تفقہ فی الدین کے علاوہ تمام علوم مشغلہ و مصروفیت ہیں۔علم وہی ہے جس میں یہ ہو کہ فلاں نے یہ حدیث بیان کی ، وگرنہ صرف شیطانی وساوس ہی ہیں ۔‘‘
ہاں اگر کوئی یہ کہے کہ طلب ، ڈاکٹری ، انجینئر نگ وغیرہ کا علم؟ تو اس بارے حدیث پاک ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سائل کے جواب میں فرمایا، جب سائل نے سوال کیا:
(( أَى الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ : الْإِيْمَانُ بِاللَّهِ وَجِهَادِ فِي سَبِيلِهِ . قُلْت : فائى الرِّقَابِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: "أغْلَاهَا ثَمَنًا وَأَنْفُسُهَا عِندَ أَهْلِهَا، قلت: فَإِن لَّمْ أَفَعَلُ؟ قَال:” لان تُعِيْنَ صَائِعًا أَوْ تَصْنَعَ لِاَخَرَقِ. قَالَ : فَإِن لَم أَفْعَل ؟ قَالَ : ” تَدْعُ النَّاسَ مِنَ الشَّرِ فَإِنَّهَا صدَقَةٌ تُصَدِّقُ بِهَا عَلَى نَفْسِكَ .))
’’کون ساعمل افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ۔ میں نے پوچھا:
اور کسی غلام کا آزاد کرنا افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
جو سب سے زیادہ قیمتی ہو اور مالک کی نظر میں جو بہت زیادہ پسندیدہ ہو۔ میں نے عرض کیا :
اگر مجھ سے یہ نہ ہو سکا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
پھر کسی مسلمان کا ریگر کی مدد کر یا کسی بے ہنر کی۔ انہوں نے کہا:
اگر میں یہ بھی نہ کر سکوں؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ کر دے یہ بھی ایک صدقہ ہے جسے تم خود اپنے اوپر کرو گے۔“
یعنی اسلام نے کاریگر کی مدد اور کسی کو کوئی ہنر ( چاہے وہ برتن بنانے کا ہو یا جہاز و بوٹ یا پھر وہ ہنر اسلحہ سازی کا ہو ) سکھانے کو بھی صدقہ و عبادت اور ایمان کے بعد افضل ترین افعال میں شمار کیا ہے۔
لیکن شرط یہ ہے کہ انداز تعلیم ، نصاب تعلیم اور مقام تعلیم و تربیت صاف شفاف اور اللہ رب العالمین ، رب کائنات کو رازی کرنے والا ہو ۔
کہیں ہمارا انداز تعلیم ….؟
آئیے ! اب ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں ہمارا انداز تعلیم وتربیت اور مقام تعلیم و تعلم رب کو ناراض کرنے والا اور حیا باختہ تو نہیں ہے؟
گھر سے نکلتے ہوئے:
کیا گھر سے نکلتے ہوئے ہمارا بچہ، بچی ( بیٹا بیٹی ، بھائی بہن ) دعا پڑھتے ہیں کیا ان کودعا یاد کرائی گئی ہے؟
اگر ہاں تو اجر پاگئی ماں ، اگر نہیں تو پھر والدین دونوں سے قیامت کے دن سوال ہوگا ۔ رسول ﷺ نے فرمایا:
((كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُم ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُم ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ ، أَلَا فَكُلُكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ))
صحیح بخاری، کتاب العتق باب كراهية التطاول على الرقيق وقوله عبدی او امتی: ٢٥٥٤.
’’تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا ، پس لوگوں کا واقعی امیر ایک حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا، دوسرے ہر آدمی اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا ، تیسری عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا ، چوتھا غلام اپنے آقا کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق سوال ہوگا ، پس جان لو کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہو گا ۔“
یہ حدیث صدر سے لے کر اسکول کے چیڑ اسی تک کے لیے قابل غور ہے۔
یونیفارم:
کیا ہمارے بچے اور بچیوں کی یونیفارمز ایسی تو نہیں کہ جن کو اسلام اور رب رحمٰن نا پسند فرماتا ہو..؟
اسکول میں انٹری :
کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ ہمارے نونہال و نوجوان اسکول و کالج میں داخل ہوتے وقت اُستادوں کے وقار، بڑوں کے ادب اور چھوٹوں پر شفقت جیسے اسلامی اُصولوں کواپناتے ہیں کہ نہیں۔
اسمبلی:
کیا ہمارے اسکول ( جس بھی ادارہ میں پڑھتے ہیں) کی اسمبلی میں معماران وطن کو اسلامی اقدار و تمدن کے مطابق اصلاح کے پہلوؤں پر کچھ ذہن نشین کرایا جاتا ہے یا پھر مادہ پرستی کی ترغیب ؟ وہاں انہیں عمل کے ذریعے نفرت ، خود داری ، ہمت کا سبق ملتا ہے یا طرفداری اور احساس کمتری کا ؟ جہاں سے اسکول کے قوانین کی خلاف ورزی پر سزا ملتی ہے کیا عملی نصاب میں ان کو دینی کوتاہیوں پر بھی اصلاح کا سبق دیا جاتا ہے؟
کلاس میں انٹری اور ؟
کیا کلاس روم میں آتے وقت بعد میں آنے والے بچے پہلے سے موجود بچوں اور اُستادوں کو سلام کرتے ہیں؟
اُستاد کا استقبال اور تعظیمی قیام
جب استاد کلاس میں داخل ہوتے ہیں تو بچے استقبال کے لیے کھڑتے ہو جاتے ہیں، اور اس کی تربیت کے لیے باقاعدہ کتابوں کے اندر سبق موجود ہیں کہ کلاس اور استاد کے آداب میں سے یہ ہے کہ جب استاد آئے تو کھڑے ہو جائیں۔ جب کہ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تربیت کچھ اس انداز سے کی کہ :
عَنْ أَبِي مَجْلَرٍ قَالَ خَرَجَ مُعَاوِيَةُ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ وَابْنِ عَامِرٍ فَقَامَ ابْنُ عَامَرٍ وَجَلَسَ ابْنُ الرُّبَيْرُ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لَابْنُ عَامِرٍ اجْلِسُ فَإِنِي سَمِعْتُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : مَنْ أَحَبُّ أَن يُمَثْلُ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّاً مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ . ))
ابوداؤد ، کتاب الادب، باب ف ترجل للرجل: ۵۲۲۹. اس کو البانیؒ نے صحیح کہا ہے۔
’’ابومجلز بیان کرتے ہیں کہ معاویہؓ ( عبداللہ ) ابن زبیر اور ابن عامرؓ کے پاس گئے تو ابن عامرؓ کھڑے ہو گئے اور ابن زبیر بیٹھے رہے ، معاویہؓ نے ابن عامر سے کہا بیٹھ جائیں کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کی خاطر کھڑے ہو جایا کریں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔“
یہ رسول اللہ ﷺ کی, کی ہوئی ذہن سازی ہے اور وہ ہماری نصابی کتب کی جو کہ کفار سے مستعار ہے۔
تالیاں:
ہم نصابی کتب میں پڑھتے ہیں کہ بچے نے تقریر کی تو دوسرے بچوں اور ٹیچرز نے اس کے لیے بہت ساری تالیاں بجائیں۔ اس طرح کھیل کے بارے میں جب کہ قرآن حکیم میں ذکر ہے کہ یہ کام مشرکین کا تھا:
(وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِیَةًؕ)
(الانفال : ٣٥)
’’اور بیت اللہ کے پاس ان کی نماز اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ وہ سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے۔‘‘
ڈاکٹر لقمان السلفی نے تیسیر الرحمٰن، ص: ۵۳۱ میں حافظ ابن القیمؒ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یہ افعال مشرکانہ ہیں۔
رقص:
رقص کے بارے میں خنساء ھناد اپنی کتاب ’’نصابی صلیبیں ص ، : ۴۶“ میں لکھتی ہیں کہ :
رقص کسی دور میں طوائفوں کا کام ہوتا تھا، شرفاء اپنی بیٹیوں سے رقص کر وانا یا انہیں رقص دکھانا تو در کنار ایسی خواتین کا اپنی خواتین کے سامنے نام لینا بھی معیوب سمجھتے تھے ۔ مگر آج ٹی وی نے ہر گھر میں’’طوائفوں کے مجرے‘‘ پہنچا دیے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ نصاب میں رقص کی ترکیب بتائی جانے لگی ہے۔ الف اے کی اُردو (لازمی, ترتیب نو) کتاب کا اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ اب بس پہلے کوئی گیت سیدھا سادا اور میٹھا مگر آواز دھیمی اور نرم گرم اور زخمی دماغ کو ایک ٹھنڈا مرہم چاہیے۔ رقص ہلکا پھا کا گھنگھروں کا شور نہ ہو۔ پاؤں آہستہ آہستہ زمین پر پڑیں جیسے پھول برس رہے ہوں ۔ برف کے گالے زمین پر اتر رہے ہوں۔ لیکن خمار نہ ہو، نیند نہ آئے ، ہمیں پھر مصروف ہونا ہے۔‘‘
قلعہ لاہور کا ایک ایوان ص: ۴۸۔
اگر ار باب تعلیم کو ایسا ہی ادب سکھانا مقصود ہے جس میں قدم قدم پر فحاشی کی ترغیب اور اسلامی ثقافت کی پامالی کی تعلیم ہو تو کچھ عجیب نہیں کہ چند سالوں بعد امراؤ جان اداء“ جیسی کتب شامل نصاب کر لی جائیں ۔ طوائفوں کی زبان سے بہترین ادب ملے گا۔
فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ
ترویج شرک:
بچپن میں سنی اور پڑھی ہوئی باتیں اکثر یاد رہتی ہیں، اور ایک مقولہ مشہور ہے کہ ’’بچپن کا علم پتھر پر لکیر کی مانند ہے۔“
یا یوں سمجھیں کہ ایک خالی برتن ہے چاہیں تو آپ اس میں بھس بھر دیں یا پھر سونا و ہیرے جواہرات یا چاہیں تو سبق توحید سے اس کو معطر اور کارآمد بنا دیں یا پھر شرک کی دیمک سے چٹوا کر گمراہی کے بعد بد بودار گھڑے میں ڈال دیں۔
مگر ہمارے مرتبین نصاب کا ظلم دیکھیے ، یہ ہمارے سامنے اُردو کی چھٹی کتاب ہے ، اس میں ’’علی ہجویری‘‘ کے عنوان سے سبق ہے، اس میں مرتب لکھتا ہے کہ :
’’اس سبق کے مطالعہ سے آپ سیکھیں گے صفحہ نمبر ۵۱، صفحہ نمبر ۵۲، داتا گنج بخش نمبر۵۲، کے حالات زندگی ۔‘‘
اور اسی صفحہ نمبر ۵ میں آگے وہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کا شعر نقل کرتا ہے:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما
آگے صفحہ نمبر ۵۲ پر لکھتا ہے کہ ’’کوئی انہیں گنج بخش کہتا ہے ، تو کوئی داتا ۔‘‘
اور آخر میں لکھتا ہے کہ ان کے مزار کے ساتھ ایک وسیع و عریض و شان دار مسجد ہے۔ یعنی وہ بچوں کو بتانا چاہتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی گنج بخش و داتا بھی ہے اور اللہ کا کوئی اور اوتار بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کوئی اور بھی رہنماور ہبر ہوسکتا ہے۔
آئے اب تفصیل سے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں:
گنج بخش:
فارس میں ’’گنج‘‘ خزانے کو اور ” بخش “ کا معنی ہے عطا کرنا ، دینا یعنی خزانے عطا کرنے والا ۔
دیکھیے : فیروز اللغات وآئینہ ارد والغت۔
جب کہ اس کے مقابلہ میں قرآن کہتا ہے:
((وَ لِلّٰهِ خَزَآىٕنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَفْقَهُوْنَ ))
(المنفقون : ۷)
’’اور آسمانوں اور زمین کے خزانے اللہ ہی کی ملکیت ہیں لیکن منافقین سمجھتے نہیں ہیں۔“
اور اسی طرح سورۂ حجر ( آیت : ۲۱ ) میں فرمایا:
(وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘-وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ)
’’اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں اور اسے ہم ایک معین مقدار میں ہی اُتارتے ہیں ۔‘‘
ہاں اگر کسی کے پاس خزانے ہوتے تو اس کے سب سے زیادہ مستحق نبی تا حیاتم تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں بایں الفاظ خزانوں کی نفی فرمائی ہے:
(قُلْ لَّاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآىٕنُ اللّٰهِ)
(الانعام : ٥٠)
’’آپ کہیے! میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں (یعنی میرے پاس اللہ کے خزانے نہیں بلکہ وہ اپنے خزانوں کا آپ ہی مالک ہے) “
داتا:
لغت میں داتا کے معنی ہیں دینے والا، رازق ، ضامن ۔ جب کہ یہ ساری صفات اللہ رب العزت کے لیے لائق و زیبا ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں ہے:
(رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ)
(ال عمران : ٨)
’’اے ہمارے رب ! ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد کج روی میں نہ مبتلا کر دے، اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما ، بے شک تو بڑا عطا کرنے والا ہے۔‘‘
((قُلْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّ اِنَّنِیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ ))
(الانعام: ۱۹)
’’آپ کیسے کہ وہ اکیلا معبود ہے اور میں بے شک ان معبودوں سے اظہار برات کرتا ہوں جنہیں تم لوگ اللہ کا شریک بناتے ہو۔“
رزق کے بارے میں مشرکین سابقہ سے قرآن سوال اور ان کا جواب بیان کرتا ہے:
((قُلْ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ قُلِ اللَّهُ ))
(سبا: ٢٤)
’’اے میرے نبی! آپ پوچھئے کہ آسمانوں اور زمین سے تمہیں روزی کون پہنچاتا ہے؟ آپ خود ہی بتا دیجئے اللہ “
مظهر نور خدا:
یہ جملہ ہند و عقیدے وحدت الوجود کا آئینہ دار ہے جو ہندو مذہب سے متاثر صوفیوں نے ”ہمہ اوست‘‘ کی شکل میں اختیار کر رکھا ہے۔ اس شعر کے کہنے والے کے اپنے نظریات بھی اس شعر کی یہی تشریح کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں ’’مظہر نورِ خدا‘‘ کا تصور ہندؤں کے خدائی اوتاروں کے عقائد سے بھی تشبیہ کا حامل ہے۔
ناقصان را پیر کامل کاملاں را راهنما:
اس میں گویا علی ہجویری کو نجی سے علم کے برابر ان کے مقابلہ میں کھڑا کیا جا رہا ہے، جب کہ قرآن یہ صفات نبی ﷺ کی بیان کرتا ہے:
((وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ))
(سبا : ۲۸)
’’اور ہم نے آپ کو تمام بنی نوع انسان کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے ۔“
مجمع الزوائد ج ۸،ص:۲۶۱ (۱۳۹۴۴ ) میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((بُعِثْتُ إِلَى الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ .))
’’میں ہر سرخ و سیاہ کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔“
اور صحیح بخاری / کتاب التیمم رقم: ٣٣٥ میں ہے کہ:
(( وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ عَامَّة . ))
’’کہ میں تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔“
اور قرآن نے کہا:
(وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ احْذَرُوْاۚ-فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّمَا عَلٰى رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ)
(التغابن : ١٢)
’’اور لوگو! تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اگر تم منہ پھیر لو گے تو ہمارے رسول کی ذمہ داری تو صرف یہ ہے کہ وہ دین اسلام کو پوری صراحت کے ساتھ پہنچا دیں۔‘‘
ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے کام ہی ہر ایک کے لیے چاہے وہ ناقص ہو یا کامل راہنما ہیں۔
بدعات کی تربیت :
جہاں ہمارے ملک کا نصاب تعلیم بغیر سوچے سمجھے معماران وطن کے ذہنوں میں شرک کا زہر پختہ کر رہا ہے وہاں اس کے ساتھ ساتھ بدعت کا پارہ بھی ان کے اعمال کو پلایا جا رہا ہے۔ ہمارے سامنے اُردو کی آٹھویوں کتاب ہے ، جس کے صفحہ ۲۱۳ پر عید میلادالنبی کے بارے پورا سبق لکھا ہوا ہے جو کہ بدعت ہے۔
بدعت کسے کہتے ہیں؟
(( بِدَعَة هِيَ الْفِعْلَة الْمُخَالِفَةُ للسنة سُمِّيت البدعة…. وَهِيَ الأمرُ المُحدَث الَّذِى لَمْ يَكُن عَلَيْهِ الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ وَلَمْ يَكن مِمَّا اقْتَضَاهُ الدَّلِيلُ الشَّرْعِى ))
كتاب التعريفات لسيد الشريف الجرج الحنفي، ص: ۳۳ (۲۷۳)۔
’’بدعت سنت کے مخالف فعل کا نام ہے، یعنی وہ نیا کام جس پر صحابہ اور تابعین (خیر القرون کے لوگ ) نہ تھے، اور نہ وہ دلائل شرعیہ ( کتاب وسنت ) کے مطابق ہو۔“
عید میلاد بدعت کیوں؟
عید میلاد بدعت اس لیے ہے کہ اس کو نہ تو نبی ﷺ نے منایا اور نہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور نہ ہی تابعین و تبع تابعین حتی کہ ائمہ اربعہ ( چاروں اماموں) نے بھی نہیں منایا اور نہ ہی یہ کام ان کے زمانہ میں ہوتا تھا۔
دیدار علی (بریلوی) لکھتے ہیں کہ :
’’میلاد شریف کا سلف صالحین سے قرونِ اولیٰ میں کوئی ثبوت نہیں یہ بعد میں ایجاد ہوئی ۔
رسول الكلام في بيان المولد والقيام ص: ۱۵ بحواله بریلویت از احسان الهي ظهير شهيد رحمة الله عليه ص: ۱۷۳۔
بدعت کا حکم :
شرک کے بعد عقیدہ و عمل کے فساد میں بدعت کا نمبر ہے ۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کی زبوں حالی و ذلت و رسوائی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ توحید کے تقاضوں سے دور اور شرک و بدعت کے شکنجے میں گرفتار ہیں ۔ بلا شبہ بدعت گمراہی کا پہلا زینہ اور شرک کا چور دروازہ ہے، اور بدعت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دین کا نقاب اوڑھ کر عوام کے سامنے آتی ہے اور بظاہر اس سے متعلق سارے اعمال اسلام ہی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں مگر در حقیقت یہ اسلام کے نام پر دھوکہ دہی اور ضلالت فکر وعمل کا شاخسانہ ہیں۔
تبھی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيْهِ فَهُوَ رَدُّ ))
صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا علی صلح حور فالصلح مردود : ٢٦٩٧.
’’ جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی بات نکالی جو اس میں نہیں تو وہ ( بات و چیز ) نا قابل قبول یعنی مردود ہے۔“
اسی طرح علی بن ابی طالبؓ سے مدینہ کے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ:
(( فَمَن أحَدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوَى فِيهَا مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدُلٌ . ))
صحيح بخاري، كتاب الحرية ،باب المسلمین وحوارهم واحدة يسعى بها ادنا هم: ۳۱۷۲.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے مدینہ میں کوئی بدعت ایجاد کی یا اس میں کسی بدعتی کو پناہ دی، اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ نہ اسکی کوئی فرضی عبادت قبول کی جائے گی اور نہ نفلی۔
اللہ تعالی ہمیں اس سے محفوظ رکھے اور ہمارے مرتبین نصاب کو ہدایت عطا فرما کر صحیح عقائد و اعمال کی ترویج اور تربیت کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین