ہدایت اور گمراہی میں انسان کی ذمہ داری
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، جلد 09

سوال

قرآنِ مجید میں ارشاد ہے: ﴿ وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ – یُضِلُّ بِه مَنْ یَّشَآءُ ﴾ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ تو انسان قصور وار کیوں ہے؟

جواب

سوال میں ذکر کیا گیا قرآنِ مجید کا حوالہ ﴿ وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ – یُضِلُّ بِه مَنْ یَّشَآءُ ﴾ ان الفاظ میں قرآن میں نہیں ملتا۔ آپ سے گزارش ہے کہ سورت اور آیت نمبر کی نشاندہی فرما دیں تاکہ درست حوالہ پیش کیا جا سکے۔

اب آتے ہیں سوال کے اصل موضوع کی طرف۔ سوال میں ہدایت اور گمراہی کو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں سمجھتے ہوئے یہ پوچھا گیا ہے کہ انسان پھر قصور وار کیوں ہے؟ اس حوالے سے قرآنِ مجید میں کئی آیات ہیں جو اس مسئلے کی وضاحت کرتی ہیں۔

رزق اور اختیار کی مثال

ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رزق اسی کے ہاتھ میں ہے:
﴿ إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الرَّ‌زَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ ﴾
(الذاریات: 58)
[’’ بے شک اللہ ہی رزق دینے والا، قوت والا اور مضبوط ہے۔‘‘]

اگر یہ بات درست ہے کہ رزق اللہ کے اختیار میں ہے، تو پھر انسان روزی کمانے کے لیے کیوں محنت کرتا ہے؟ دکانیں، فیکٹریاں اور دیگر ذرائع معاش کیوں اختیار کرتا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نظام اسباب کے ذریعے چلتا ہے، اور انسان کو بھی اپنی کوششوں سے ان اسباب کا حصہ بننا ہوتا ہے۔

ہدایت و ضلالت اور انسان کا اختیار

ہدایت اور گمراہی کے معاملے میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ رَ‌بُّ الْعَالَمِينَ ﴾
(التکویر: 29)
[’’ اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے جب تک اللہ، پروردگارِ عالم، نہ چاہے۔‘‘]

یہ آیت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اللہ کی مشیت ہر چیز پر حاوی ہے، لیکن انسان کو بھی اپنے ارادے اور اختیار کی آزادی دی گئی ہے۔ انسان اپنی مرضی سے ہدایت یا گمراہی اختیار کرتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ اللہ کی مشیت کے تابع ہوتا ہے۔

اللہ کی مشیت اور انسان کی ذمہ داری

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں واضح کیا ہے کہ وہ اپنی مشیت سے ہدایت اور ضلالت کا فیصلہ کرتا ہے، لیکن اس میں انسان کی اپنی کوشش، نیت اور عمل کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ اللَّـهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ ﴾
(الشوریٰ: 13)
[’’ اللہ جسے چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے، اسے ہدایت دیتا ہے۔‘‘]

یہ آیت بتاتی ہے کہ ہدایت انہی کو ملتی ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کی رضا کے طلبگار ہوتے ہیں۔

گمراہی اور انسان کی غلطی

گمراہی کا انتخاب انسان کے ظلم اور فسق کی بنا پر ہوتا ہے:
﴿ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ ﴾
(البقرہ: 26)
[’’ اور وہ (اللہ) گمراہ نہیں کرتا مگر فاسقوں کو۔‘‘]

لہذا، گمراہی انسان کی اپنی نافرمانی اور فسق کی بنا پر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نظام اسباب کی بنیاد پر چلتا ہے، اور انسان کے اعمال اس کے نتائج کو متعین کرتے ہیں۔

نتیجہ

انسان اپنی مرضی اور اختیار کے ساتھ ہدایت یا گمراہی کا راستہ چنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت اس کے اعمال اور نیت کے مطابق ہدایت یا گمراہی کا فیصلہ کرتی ہے، لیکن انسان کی اپنی ذمہ داری اور ارادہ اس میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے انسان اپنے اعمال کا قصور وار ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1