ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنے کا شرعی حکم حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

ہاتھ سے اشارے کے ساتھ سلام کہنا کیسا ہے؟ جیسا کہ سرکاری دفاتر میں تو لوگ اپنے آفیسرز کو سیلوٹ مارتے ہیں، جس میں صرف ہاتھ کے ساتھ اشارہ ہی ہوتا ہے، زبان سے کلمات بھی ادا نہیں ہوتے ، کیا یہ یہود و نصاری کی عادات میں سے نہیں؟ دلائل کے ساتھ وضاحت فرمائیں۔

جواب :

دوران ملاقات ہمیں ایک دوسرے کو سلام کہنا چاہیے ، تاکہ ہماری محبت میں اضافہ ہو، اسی طرح سلام کے ساتھ مصافحہ کرنا بھی مسنون ہے۔ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”رحمان کی عبادت کرو اور (مساکین کو ) کھانا کھلاؤ اور سلام کو عام کرو، تم جنتوں میں داخل ہو جاؤ گے ۔“
(والأدب المفرد، باب إفشاء السلام 1010)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم اتنی دیر تک جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک تم ایمان نہیں لاؤ گے اور تم ایمان نہیں لاؤ گے یہاں تک کہ آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو، کیا میں تمھاری رہنمائی ایسے کام پر نہ کروں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو۔ “انھوں نے کہا: ”کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”آپس میں سلام کو عام کرو ۔ “
(الأدب المفرد، باب إفشاء السلام 1009، مسلم، كتاب الإيمان، ا باب بيان أنه لا يدخل الجنة الخ 54)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ ہمیں آپس میں سلام کو عام کرنے کا حکم ہے اور یہ ہماری محبت کا ذریعہ ہے، لیکن صرف ہاتھ کے اشارے کے ساتھ سلام کرنا درست نہیں، یہ یہود و تصاری کا فعل ہے جس سے ہمیں روکا گیا ہے اور مختلف محکموں میں جو سیلوٹ کا طریقہ رائج ہے، یہ بھی انھی کی تقلید کا نتیجہ ہے، مسلمان حکمرانوں اور عامۃ الناس کے لیے درست نہیں۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”یہود و نصاری کے سلام کی طرح سلام نہ کرو، بے شک ان کا سلام ہتھیلیوں، سروں اور اشارے سے ہوتا ہے۔“
(السنن الكبرى النسایی (92/2)، سلسلة الأحاديث الصحيحة 4/1388 389، ح : 1783)
اس کا ایک شاہد عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے طبرانی اوسط (285،383/8 ج: 7376 ) میں موجود ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری (19/11) میں اس کی سند کو جید قرار دیا ہے، یہ حدیث مختلف شواہد کی وجہ سے حسن ہے اور ترمذی (2695) میں موجود ہے۔
عطا بن ابی رباح فرماتے ہیں: ”سلف صالحین ہاتھ کے ساتھ سلام کو نا پسند کرتے تھے۔“ پس معلوم ہوا کہ ہمیں سلام کے مسنون کلمات ادا کرنے چاہیں ، صرف ہاتھ کے ساتھ اشارہ کرنا، یا سر ہلانا ، یا ہتھیلی کے ساتھ سلام نہیں کرنا چاہیے، یہ یہود و نصاری کا طریقہ ہے، سلف صالحین بھی اسے پسند نہیں کرتے تھے ، البتہ نماز کی حالت میں کوئی سلام کہہ دے تو اشارے سے ٹھیک ہے، یا دور سے کوئی سلام کہے، جو سنا نہ جاسکتا ہو تو سلام کے الفاظ کے ساتھ ہاتھ کا اشارہ کرنے میں کوئی خرچ نہیں۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ہاتھ کے اشارے سے سلام نماز کی حالت میں مستثنی ہے، اس لیے کہ جید اور عمدہ حدیثیں مروی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت نماز میں اشارے کے ساتھ سلام کا جواب دیا ہے۔ ان میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ آپ کو حالت نماز میں ایک آدمی نے سلام کہا، آپ نے اشارے سے اس کا جواب دیا اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی اسی طرح ہے۔ اسی طرح جو شخص دور ہو، سلام کی آواز نہ سنتا ہو، اس کو بھی اشارے کے ساتھ سلام کہنا جائز ہے اور اس کے ساتھ سلام کے الفاظ بھی ادا کرے۔“
(فتح الباری 19/11)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے