ہاتھ چومنے سے متعلق روایات کا جائزہ
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت فاطمہ کے پاس تشریف لے جاتے تو ان کے ہاتھ کو بوسہ دیتے اور انہیں عزت دیتے۔ اسی طرح جب حضرت فاطمہ رسول اللہ کے پاس آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیتے اور اپنی جگہ بٹھاتے۔
(سنن ابی داؤد: 5217، سنن ترمذی: 3872)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "حسن صحیح غریب” قرار دیا، جبکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے "صحیح” کہا ہے۔

اہم نکتہ:

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی صحابی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو بوسہ دینا ثابت نہیں۔ جو روایات اس بارے میں وارد ہوئی ہیں، وہ سب ضعیف ہیں۔

اہل علم اور فضلاء کی دست بوسی:

سلف صالحین اور اہل علم کے ہاتھ کو بوسہ دینا ثابت ہے، جیسا کہ:

عاصم بن بہدلہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: "جب میں سفر سے ابو وائل کے پاس آتا، تو وہ میرا ہاتھ چومتے۔”
(القبل والمعانقۃ والمصافحۃ لابن الاعرابي: 5)

حسین بن علی جعفی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کبھی کبھار میرا ہاتھ چوما کرتے تھے۔”
(القبل والمعانقۃ والمصافحۃ لابن الاعرابي: 7)

امام ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب محدث ابو مسہر مسجد میں جاتے تو لوگ ان کے ہاتھ چومتے۔
(تقدمۃ الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 291)

اہل علم اور والدین کی عزت و تکریم:

علماء، والدین اور بزرگوں کے ہاتھ چومنا اس وقت جائز ہے جب ان میں تکبر یا عجب پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ اگر تکبر پیدا ہونے کا خطرہ ہو، تو اس سے اجتناب ضروری ہے۔

حصولِ تبرک کے لیے دست بوسی:

کسی ولی یا صالح شخص کے ہاتھ حصولِ تبرک کے لیے چومنا شرعاً ناجائز اور بدعت ہے، کیونکہ تبرک صرف آثارِ نبویہ کے ساتھ خاص ہے۔ اس عمل کو سلف صالحین نے قبول نہیں کیا، اور خیر القرون میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

دست بوسی کے بارے میں روایات کی تحقیق:

حدیث ابن عمر:
(سنن ابی داؤد: 2647)
اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ راوی یزید بن ابو زیاد کو محدثین نے ضعیف اور مدلس قرار دیا ہے۔

حدیث اسامہ بن شریک:
(المعجم الصغیر للطبرانی: 2041)
اس کی سند میں ابو سعید حارثی ضعیف ہیں۔

حدیث زاہر بن حزام:
(المعجم الکبیر للطبرانی: 274/5)
سالم بن ابو الجعد کا زاہر سے سماع ثابت نہیں۔

حدیث الحسن البصری:
(القبل والمصافحۃ لابن الاعرابي: 24)
یہ روایت موضوع ہے کیونکہ راوی عمرو بن عبید متروک ہیں۔

حدیث کعب بن مالک:
(الرخصۃ في تقبیل الید لابن المقری: 1)
راوی اسحاق بن عبداللہ بن ابو فروہ متروک ہیں۔

حدیث زید العبدی:
(الأدب المفرد للبخاری: 587)
راوی ہود بن عبداللہ کو کسی نے ثقہ نہیں کہا، اور وہ مجہول الحال ہیں۔

حدیث جابر بن عبداللہ:
(تقبیل الید لابن المقری: 11)
یہ روایت سخت ضعیف ہے۔

آثار صحابہ اور دست بوسی کی روایات کا جائزہ

  1. سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی دست بوسی:

    عبدالرحمن بن رزین رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کو سلام کیا۔ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ باہر نکالے اور کہا: "میں نے ان ہاتھوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ہے۔”
    ان کے ہاتھ موٹے اور مضبوط تھے جیسے اونٹ کی ہتھیلی۔ حاضرین نے کھڑے ہو کر ان کے ہاتھوں کا بوسہ دیا۔
    (الأدب المفرد للبخاری: 973)

    تبصرہ:

    اس روایت کی سند ضعیف ہے کیونکہ عبدالرحمن بن رزین کو محدثین نے مجہول قرار دیا ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اسے "مجہول” کہا ہے۔
    (سنن الدارقطنی: 198/1)

  2. سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کی دست بوسی:

    روایت ہے کہ یزید بن اسود رضی اللہ عنہ نے سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے چہرے اور سینے پر مَلا، کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر چکے تھے۔
    (حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء لأبي نعیم الأصبہاني: 306/9)

    تبصرہ:

    یہ روایت موضوع ہے، کیونکہ بیان کرنے والے راوی عمرو بن واقد اور موسیٰ بن عیسیٰ متروک ہیں۔

  3. سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی دست بوسی:

    ثابت بنانی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: "کیا آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاتھ سے چھوا ہے؟”
    سیدنا انس نے جواب دیا: "جی ہاں!” اس پر ثابت بنانی نے ان کا ہاتھ چوم لیا۔
    (الأدب المفرد للبخاری: 974)

    تبصرہ:

    اس روایت کی سند ضعیف ہے کیونکہ سفیان بن عیینہ مدلس ہیں اور سماع کی تصریح نہیں ہے۔ مزید برآں، علی بن زید بن جدعان کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔

  4. سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کی ایک اور دست بوسی:

    یحییٰ بن حارث ذماری تابعی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے پوچھا: "کیا آپ کے ہاتھ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوا ہے؟”
    سیدنا واثلہ نے جواب دیا: "جی ہاں!” تو یحییٰ بن حارث نے ان کا ہاتھ چوم لیا۔
    (المعجم الکبیر للطبرانی: 94/22)

    تبصرہ:

    اس روایت کی سند ضعیف ہے کیونکہ ابو عبدالملک القاری نامعلوم ہیں اور ان کی توثیق موجود نہیں۔

  5. سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی ناف کا بوسہ:

    عمیر بن اسحاق تابعی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ انہیں اپنے جسم کی وہ جگہ دکھائیں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بوسہ دیا تھا۔ سیدنا حسن نے اپنی قمیص اٹھائی اور سیدنا ابوہریرہ نے ان کی ناف کا بوسہ دیا۔
    (مسند الإمام أحمد: 255/2، السنن الکبریٰ للبیہقی: 232/2)

    تبصرہ:

    اس روایت کی سند حسن ہے، اور امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔

دست بوسی کی مشروعیت اور حدود کا خلاصہ

دست بوسی اسلامی تعلیمات میں ایک ایسا عمل ہے جو بعض شرائط کے تحت جائز ہے، جیسا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کرام سے ثابت ہے۔ یہ عمل محبت، احترام، اور عزت کی علامت کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل علم و فضل کے لیے کیا جاتا تھا۔ تاہم، اس کا مقصد کبھی بھی حصولِ تبرک نہیں تھا، اور اس نیت سے کسی کے ہاتھ چومنا بدعت اور غیر شرعی قرار دیا گیا ہے۔

اہم نکات:

  • محبت اور احترام کے طور پر دست بوسی: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے مابین محبت و عزت کے اظہار کے طور پر دست بوسی ثابت ہے، لیکن اس کا مقصد تعظیم و تکریم تھا نہ کہ تبرک۔
  • حصولِ تبرک کے لیے دست بوسی: کسی ولی یا صالح شخص کے ہاتھ کو تبرک کی نیت سے چومنا ناجائز اور بدعت ہے۔ یہ عمل خیر القرون (نیک زمانے) میں ثابت نہیں ہے۔
  • روایات کی تحقیق: صحابہ کرام کی دست بوسی سے متعلق متعدد روایات کی اسناد ضعیف یا مجہول ہیں، جنہیں احتیاط سے قبول کیا جانا چاہیے۔
  • اہل علم اور والدین کا احترام: اہل علم، والدین اور نیک افراد کے ہاتھ چومنا جائز ہے، بشرطیکہ اس سے تکبر یا عجب پیدا نہ ہو۔

مجموعی طور پر:

دست بوسی، جب تک عزت و احترام کے اظہار کے طور پر کی جائے، اسلامی تعلیمات کے مطابق جائز ہے۔ لیکن جب اس میں تبرک کی نیت شامل ہو یا اسے بدعت کا درجہ دے دیا جائے، تو یہ عمل ناجائز ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے احتیاط لازم ہے کہ یہ عمل صرف محبت اور ادب کی علامت رہے، نہ کہ کسی قسم کی بدعت یا غیر شرعی عقیدے کی بنیاد۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے