گمشدہ مال کی شرعی حیثیت اور حکم
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

سوال: مجھے ایک بہت بڑے شہر کے وسط میں سونے کی کوئی چیز گری پڑی ملی، میں نے اسے بیچ کر اس کی قیمت صدقے میں دے دی اور یہ نیت رکھی کہ اگر مجھے اس کا مالک مل گیا اور وہ راضی نہ ہوا تو میں اس کو اس کی قیمت دے دوں گا، کیا ایسا کرنے کی بنا پر مجھ پر گناہ تو نہیں؟
جواب: تم پر اور ہر اس شخص پر جو کوئی قابل اہمیت چیز پاتا ہے، یہ فرض ہے کہ وہ لوگوں کے اکٹھا ہونے کے مقامات پر ہر مہینے دو تین مرتبہ اس کا اعلان کرے۔ اگر وہ چیز پہچان لی جائے تو اسے اس کے مالک کو دے دے، اور اگر وہ پہچانی نہ جائے تو وہ سال کے بعد اٹھانے والے کی ہو جائے گی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کا حکم دیا ہے۔ اگر وہ چیز حرم میں ملی ہو تو پھر وہ اٹھانے والے کی نہیں ہو سکتی، بلکہ ہمیشہ اس کا اعلان کیا جاتا رہے تا آنکہ اس کا مالک مل جائے یا حرمیں میں متعلقہ ذمے داران تک اسے پہنچا دیا جائے، جہاں اس کے مالک کے لیے اسے محفوظ کر دیا جاتا ہے، کیونکہ مکہ کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”اس کی گری پڑی چیز اعلان کرنے والے کے سوا جائز نہیں۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 112 صحيح مسلم 1355/448]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا، میں نے اسی طرح مدینہ کو حرم قرار دیا۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2129 صحيح مسلم 1360/454]
لیکن اگر وہ لقطہ کوئی بے قیمت چیز ہو، جس پر اس کا مالک توجہ نہ دے، جیسے کوئی رسی، جوتے کا تسمہ، انتہائی کم رقم تو اس کا اعلان ضروری نہیں۔ جو اسے اٹھائے، چاہے تو اس سے فائدہ اٹھا لے اور چاہے تو اس کے مالک کی طرف سے صدقہ کر دے۔
لیکن اس سے گم شدہ اونٹ اور اس کی طرح کے ایسے جانور مستثنٰی ہیں جو چھوٹے درندوں جیسے بھیڑیا وغیرہ سے اپنی حفاظت کر سکتے ہوں، انہیں پکڑنا جائز نہیں، کیونکہ ایک شخص نے اس کے متعلق آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا:
”اسے چھوڑ دے۔ اس کے جوتے (کھر) اور پانی (پیٹ) اس کے ساتھ ہیں۔ وہ پانی تک پہنچ سکتا ہے اور درخت سے پتے کھاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے مالک سے جا ملے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2372 صحيح مسلم 1722/1]
[ابن باز: مجموع الفتاوى و المقالات: 429/19]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل