کیمرے کے ذریعہ بنائی جانے والی تصاویر کا حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

بعض لوگ یہ فتوی دیتے ہیں کہ کیمرے کے ذریعہ بنائی جانے والی تصاویر ان تصویروں کے حکم میں داخل نہیں ہیں جن سے منع کیا گیا ہے ، کیونکہ وہ تو سائے کو روکنا ہے لہٰذا آپ کی اس کے متعلق کیا رائے ہے ؟

جواب :

یہ تو دور حاضر کا ایک جدید اشکال اور دھوکا ہے ، سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سائے کو روکنے والا کون ہے ؟ بلاشبہ وہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) انسان ہی تو ہیں جنھوں نے تصویر سے اور تصویروں کی کمائی سے منع کیا ہے ، لہٰذا مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ ایسی دو چیزوں میں فرق کرے جو آپس میں ملتی جلتی ہوں ۔
پس برابر ہے کہ تصویر ہاتھ سے بنائی گئی ہو یا آلہ (کیمرہ) کے ساتھ ، آنے (کیمرے) سے بنائی گئی تصویر ہاتھ سے بنائی گئی تصویر کے حکم سے باہر نہیں ہے ، کیونکہ ہاتھ ہی ہے جس نے تصویریں تیار کرنے والاکیمرہ ایجاد کیا ہے اور ہاتھ ہی اس کیمرہ کو استعمال کرتا ہے ۔ اور شروع میں جب کیمرے کی تصویریں لوگوں میں عام ہوئیں تو قاہرہ سے اس کے جواز اور مذکورہ توجیہ کا فتویٰ صادر ہوا ، پھر یہ فتوئی لوگوں میں عام ہو گیاکیونکہ لوگوں کے دلوں میں خواہش پائی جاتی ہے ، پھر یہ فتویٰ پھیلتا چلا گیا ، حتی کہ بعض اسلامی مجلوں نے اس کو شائع کیا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ مجلے الٹے پاؤں واپس لوٹ جائیں گے ، پس یہ ان تصویروں کو مباح اور جائز قرار دیں گے جن کو وہ ان کیمرے کی تصویروں کو جائز قرار دینے سے پہلے حرام کہا کرتے تھے ، پس وہ ہاتھ کی بنی ہوئی تصویروں کو بھی جائز قرار دیں گے ۔
مجسم اور غیر مجسم تصویروں میں فرق کرنے کے متعلق پرانے دور سے علماء کے دو قول چلے آتے ہیں ، بعض علماء تو تمام تصویروں کو حرام کہتے ہیں اور یہی درست موقف بھی ہے ، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی (تصویروں والا ) پردہ پھاڑنے کی حدیث اس ( تصویر کے حرام ہونے ) پر دلالت کرتی ہے ۔
اور بعض علماء کا کہنا ہے کہ تصویروں کی حرمت صرف مجسم تصویروں کو شامل ہے ، مجلہ ”نور الاسلام“ ، جس کا موجودہ نام ”الازھر“ ہے ، میں نے تصویر کے متعلق ایک مقالہ پڑھا تھا ، جس میں تصویر کے متعلق علماء کا اختلاف بیان کیا گیا تھا ، پس اس مقالے کے مصنف نے مجسم تصویروں کی حرمت کو تو اختیار کیا ہے اور تصویر کو مطلقاً حرام قرار دینے کے درست و صحیح موقف سے اعراض کیا ۔
پھر اس نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس حکم شرعی پر حیلوں کا ایک دروازہ کھول دیا ہے ، پس اس نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ بلاشبہ جب تصویر اس طرح سے بدل دی جائے کہ جب آپ اس کی طرف دیکھیں تو آپ کو گمان ہو کہ وہ زندہ نہیں ہے ، تو پھر تصویر حلال اور جائز ہو جاتی ہے ، اور یہ تبدیلی اس طرح کی جائے کہ اس کی گردن پر خط کھینچ کر اس کا گلا کاٹ دیا جائے ۔ لیکن تصویر میں شرعی تبدیلی یہ ہے کہ تصویر کی نمایاں چیزوں اور اعضاء کو بدل ڈالا جائے ، جیسا کہ عائشہ ، ام سلمہ اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ، مروی احادیث میں جبریل علیہ السلام کے گھر میں داخل نہ ہونے کا ذکر ہے ، انہوں نے نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا وعدہ کر رکھا تھا ، مگر وہ نہ آئے ، پھر بعد میں آئے تو بتایا کہ بلاشبہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر یا کتا ہو ، نیز انہوں نے کہا: دیکھیے کہ گھر میں ایک پردہ ہے جس میں مردوں کی تصویریں ہیں ،
لہٰذا ان کے بدلنے کا حکم دیجیے کہ ان کو بدل کر درخت کی طرح بنا دیا جائے ۔
چنانچہ تصویر کے گناہ سے بچنے کے لیے اس میں مذکورہ مشروع تبدیلی کرنا پڑے گی ، اور (علماء کرام) اس تبدیلی کو بھی بدلتے رہے ، حتی کہ وہ صرف اس بات پر آگئے کہ تصویر کی گردن پر خط لگا دو تاکہ اس کو بے جان فرض کیا جائے ۔ لہٰذا مسلمان کو چاہیے کہ ہاتھ سے بنی ہوئی اور کیمرے کے ذریعہ کھینچی ہوئی تصویر میں مذکورہ تفریق سے دھوکہ نہ کھائے کیونکہ یہ صرف بظاہر تفریق ہے ۔ پس وہ تصویر جو ہاتھ سے بنائی جاتی ہے اس میں بھی اللہ کی خلقت کی مشابہت ہے اور ایسے ہی کیمرے کے ذریعہ بنائی گئی تصویر میں بھی۔
(محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے