سوال :
کیا ہومیوپیتھی ادویات استعمال کرنا جائز ہے؟
جواب :
یہ بات بالکل عیاں اور واضح ہے کہ ہومیوپیتھک دوائیوں میں الکحل استعمال ہوتی ہے اور الکحل شراب ہے، اس کے استعمال کی اجازت نہیں۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا اس کا سرکہ بنایا جا سکتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“
(مسلم کتاب الأشربة باب تحريم تحليل الخمر ح 1983)
وائل حضرمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
”طارق بن سوید رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع کر دیا، اس نے کہا: ”میں نے یہ دوائی کے لیے بنائی ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک یہ دوا نہیں ہے، بلکہ یہ بیماری ہے۔“
(مسلم کتاب الأشربة باب تحريم التداوي بالخمر …. الخ ح 1984)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی مدینہ سے آیا، اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی شراب کے بارے میں پوچھا جسے وہ اپنی زمین میں مکئی سے بنا کر پیتے تھے، اسے مزر کہا جاتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا وہ نشہ آور ہے؟“ اس نے کہا: ”ہاں!“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نشہ آور چیز حرام ہے، بے شک اللہ تعالیٰ کا اس شخص کے لیے عہد ہے جو نشہ آور چیز پیتا ہے کہ اسے طینۃ الخبال میں سے پلائے گا۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! طینۃ الخبال کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جہنمیوں کا پسینا وغیرہ ہے۔“
(مسلم کتاب الأشربة باب بيان أن كل مسكر خمر وأن كل خمر حرام ح 2002)
الغرض، اس معنی کی بے شمار احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ الکحل یعنی شراب پینا حرام ہے، لہذا وہ دوا جس میں شراب شامل ہوئی ہو، خواہ وہ ہومیوپیتھک ہو، ایلوپیتھک ہو یا کوئی اور، اس کا استعمال حرام ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ استعمال کے وقت وہ موجود نہیں ہوتی تو گزارش یہ ہے کہ شراب کی خرید و فروخت بھی منع ہے۔ جب یہ دوا خریدی جاتی ہے تو اس میں الکحل ہوتی ہے، لہذا اس کا پینا اور خریداری کرنا دونوں حرام ہیں۔