کیا کتب حدیث کے مصنفین مقلد تھے؟ دیوبندی دلائل کا علمی جائزہ
تحریر: ابو الا سجد محمد صدیق رضا

کیا محدثین کرام رحمہم الله مقلد تھے؟

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسّلام على رسوله الأمين و على آله و صحبه أجمعين ، أما بعد :
مقلدین حضرات اپنی بے دلیل تقلید کو ثابت کرنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں ۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لئے بہت سی باتیں بناتے ہیں، جن میں ایک بات یہ بھی ہے کہ کتب احادیث کے مؤلفین و جامعین بھی ’’مقلد‘‘ تھے ۔ کہنے والے تو اس سے بڑھ کر اور بہت کچھ کہ بیٹھتے ہیں لیکن فی الوقت ہماری بحث محدثین کے متعلق محدود ہے۔

◈ دیوبندی مکتبہ فکر کے وکیل احناف، ترجمان الاسلام، مناظر اسلام اور کثیر الالقاب امین اوکاڑوی صاحب نے لکھا: ’’حالانکہ حدیث کی جتنی کتابیں آج ملتی ہیں وہ یا مجتہدین کی لکھی ہوئی ہیں یا مقلدین کی ، جن کا ذکر طبقات حنفیہ، طبقات مالکیہ ،طبقات شافعیہ اور طبقات حنابلہ میں ہے حدیث کی ایک بھی مستند کتاب نہیں جس میں اجماع اور اجتہاد کے ماننے کو حرام یا شرک قرار دیا ہو۔ فقہ کے ماننے سے منع کیا ہو۔ اس کے مولف کے بارہ میں صرف ایک ہی مستند حوالہ پیش کیا جا سکے کہ کان لا يجتهد و لا يقلد کہ نہ اس میں اجتہاد کی اہلیت تھی نہ تقلید کرتا اس لئے غیر مقلد تھا۔‘‘

🌿(تجلیات صفدرج اص ۱۱۳، مطبوعہ ملتان، مجموعه رسائل ۱۳٫۳)
◈مفتی احمد ممتاز صاحب ’’رئیس دار الافتاء جامعہ خلفاء راشدین کراچی‘‘ نے لکھا: اسی لئے ان آخری دو باتوں میں خود حضرات محدثین رحمہم اللہ تعالیٰ بھی حضرات مجتہدین رحمہم اللہ تعالیٰ کی تقلید کرتے ہیں۔ چنانچہ اسی تقلید کا نتیجہ ہے کہ حضرات محدثین علیہم الرحمہ کا ذکر چار ہی قسموں کی کتابوں میں ملتا ہے۔

❀ طبقات حنفیہ

❀ طبقات مالکیہ

❀ طبقات شافعیہ

❀ طبقات حنابلہ

طبقات غیر مقلدین نامی کوئی کتاب، محدثین کے حالات میں آج تک کسی مسلم مورخ ومحدث نے نہیں لکھی۔

🌿(اصلی چہرہ ص۷)
و ان دو اقتباسات سے یہ بات با آسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ ان میں کتب احادیث کے تمام مؤلفین کو مقلد باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اوکاڑوی صاحب نے تو یہ لکھ دیا تھا کہ محدثین یا تو مجہتدین ہیں یا مقلدین لیکن ان کی نقل کرتے ہوئے مفتی احمد ممتاز صاحب ذرا آگے نکلے اور تمام محدثین کو مقلد ظاہر کرنے کی کوشش کی۔

بہر حال یہ بات تو درست ہے کہ محدثین کا ذکر ان چار طبقات میں ملتا ہے لیکن یہ بات قطعاً درست نہیں کہ یہ اسی تقلید کا نتیجہ ہے۔ یعنی محدثین کے مقلد ہونے کا نتیجہ ہے۔ البتہ یہ ان مقلدین کے مبتلائے تقلید ہونے کا نتیجہ ہے کہ چار طبقات میں ذکر دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ محدثین مقلدین تھے۔ پھر یہ کس چیز کا نتیجہ ہے؟ ہم اگر کچھ عرض کریں تو ممکن ہے تعصب ہماری معروضات ماننے کے آڑے آ جائے ، لہذا ہم اس کی ایک بڑی وجہ ” ا کا بر علماء دیوبند کی کتب سے پیش کر دیتے ہیں، شاید اس طرح اعتراف حقیقت کی کوئی راہ نکل آئے۔ ملاحظہ کیجئے:

ان کے ’’شیخ الحدیث المحدث الکبیر‘‘ زکریا کاندھلوی صاحب فرماتے ہیں: ”یہاں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اہل حدیث اور ائمہ محدثین مقلد تھے یا غیر مقلد ۔ پھر مقلد ہونے کی صورت میں کس کی تقلید کرتے تھے۔ اس کے اندر علماء کا اختلاف ہے۔ اور بات یہ ہے کہ جو آدمی بڑا ہوتا ہے اس کو ہر شخص چاہتا ہے کہ ہماری پارٹی میں شامل ہو جائے کیونکہ اس میں تجاذب اور کشش بہت ہوتی ہے اور ہر ایک اپنی طرف کھینچتا ہے .‘‘

🌿(تقریر بخاری ۵۲/۱، مطبوعہ دارالاشاعت کراچی، دوسرا نسخه ج ۱ص۴۱)
چار طبقات میں ذکر ملنا کس چیز کا نتیجہ ہے؟ اس کی اور بھی وجوہات ہیں، لیکن زکریا صاحب کی تقریر سے چند باتیں واضح ہوتی ہیں:
❀یہ نتیجہ ہے ان محد ثین کے عظیم شخصیات ہونے کا۔
❀ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ عظیم شخصیات ہماری پارٹی میں شامل ہوں۔
❀عظیم لوگوں کو اپنا ثابت کرنے میں ’’تجاذب اور کشش‘‘ بہت ہوتی ہے۔

اس تجاذب و کشش کی بنا پر ہر ایک اپنی طرف کھینچتے نظر آتے ہیں، مثلاً حنفی کہتے ہیں کہ جی حنفی تھے۔ شافعی کہتے ہیں کہ شافعی تھے ، مالکی اور حنبلی بھی اپنا اپنا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چار طبقات وجود میں آنے کی ایک بڑی وجہ یہ تجاذب اور کشش بھی ہے گو بہت سے محدثین کو تلمذ (شاگردی) کی وجہ سے بھی ان طبقات میں تقسیم کیا گیا اور ایسے محدثین کی بھی کوئی کمی نہیں جنھیں دودو، تین تین بلکہ بعض کو چاروں طبقات والوں نے اپنے اپنے طبقات میں ذکر کر دیا، اگر وجہ شاگردی و استفادہ ہو تو اس میں کوئی حرج والی بات نظر نہیں آتی کہ یہ نسبتیں شاگردی کی بنا پر دی گئی ہیں لیکن اس سے بڑھ کر محد ثین کو مقلد ثابت کرنے کی کوششیں تو قطعاً قابل برداشت نہیں۔

چونکہ مقلدین کے ’’امام اہلسنت‘‘ سرفراز خان صفدر صاحب نے لکھا ہے:

’’یعنی اگر جاہل ہیں تو علماء کی تقلید کریں اور تقلید جاہل ہی کے لئے ہے جو احکام دلائل سے ناواقف ہے۔‘‘الخ

🌿(الکلام المفید ص ۲۳۴)
غور کیجئے کیا لکھا ہے : ’’اور تقلید جاہل ہی کے لئے ہے؟‘‘ کیا ( نعوذ باللہ ) محدثین عظام جاہل تھے؟ اور کیا احکام دلائل سے ناواقف تھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر اپنی ساری زندگیاں قربان کر دینے والے عظیم حافظے رکھنے والے، ابواب و تراجم کی صورت میں ہر حدیث سے مسائل استنباط کرنے والے محدثین جاہل تھے ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر محد ثین کو مقلد کہنا بھی درست نہیں، ان سے متعلق یہ کہنا کہ وہ بھی تقلید کرتے تھے ، یقیناً غلط ہے اور یہ تو منکرین حدیث کو تقویت پہنچانے والی بات ہے، گوانجانے میں ہی سہی ، چونکہ وہ تو اس بنیاد پر جھٹ سے کہہ دیں گے کہ جی تقلید تو جاہل ہی کے لئے ہے اور محدثین بھی تقلید کرتے تھے، لہذا جاہل تھے! اب ان جاہلوں کی جمع کردہ احادیث کا کیا اعتبار ؟ اگر مقلدین حضرات اپنی ایسی باتوں کے عواقب و انجام پر غور کریں تو محدثین کو کبھی مقلد کہنے کی جسارت نہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ توفیق مرحمت فرمائے۔

ان کے ایک دوسرے ’’المحدث الکبیر، علامہ‘‘ عبدالرشید نعمانی صاحب ’’مذاہب مؤلفی الاصول السته‘‘ یعنی اصول سته ( المعروف کتب ستہ وعند العوام : صحاح ستہ) کے مؤلفین کے مذاہب کے عنوان سے مختلف اہل علم کی آراء نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
فانظر إلى هذا التجاذب الذي وقع بين هؤلاء الاعلام فتارة يعدون احدهم شافعيا وتارة حنبليا و اخرى مجتهدا و هذا كله عندي تخرص و تكلم من غیر برهان فلو كان احد من هؤلاء شافعيا او حنبليا لا طبق العلماء على نقله و لما اختلفوا هذا الاختلاف كما اطبقوا على كون الطحاوي حنفيا و البيهقى شافعیا و عیاض مالکيا و ابن الجوزی حنبلیا ، سوى الامام ابی داؤد فانه قد تفقه على الامام احمد و مسائله عن احمد بن حنبل معروف مطبوع .

دیکھئے اس کھینچا تانی کی طرف جوان بڑے بڑے علماء کے درمیان واقع ہوئی یہ لوگ ان میں سے کسی ایک کو شافعی شمار کرتے ہیں اور کبھی حنبلی اور کبھی پھر دوسری بار مجتہد ، میرے نزدیک یہ سب اٹکل پچو اور بے دلیل باتیں ہیں اور اگر ان میں سے کوئی شافعی یا حنبلی ہوتا تو علماء اس بات کے نقل کرنے پر متفق ہوتے اور اس اختلاف میں کبھی نہ پڑتے ۔ جیسے وہ طحاوی کے حنفی، بیہقی کے شافعی ، قاضی عیاض کے مالکی اور ابن الجوزی کے حنبلی ہونے پر متفق ہوئے۔ سوائے امام ابوداود کے کہ آپ نے امام احمد سے تفقہ حاصل کی اور ان سے امام احمد کے مسائل معروف و مطبوع ہیں۔

🌿(ما تمس الیہ الحاجة لمن يطالع سنن ابن ماجہ ص ۲۶ قدیمی کتب خانه مطبوع مع سنن ابن ماجہ)

یہ نعمانی صاحب کا بیان ہے جس سے درج ذیل باتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں:

❀ کتب ستہ کے مؤلفین کو حنبلی شافعی کہنا ’’تجاذب‘‘ کھینچا تانی ، اٹکل پچو اور ادھر ادھر کی باتیں ہیں، دلیل کوئی نہیں۔
❀ یہ ’’تخرص‘‘ بنائی ہوئی (خود ساختہ) باتیں اور انکل و اندازے سے کہی ہوئی بے دلیل و بلا برھان باتیں ہیں۔

❀ کوئی کسی محدث کو شافعی کہ دیتا ہے تو کوئی حنبلی اور کوئی مجتہد قرار دے دیتا ہے۔

❀ ان میں سے کوئی شافعی ، حنبلی وغیرہ نہیں، اگر ہوتا تو علماء اس بات کے نقل پر متفق ہوتے ۔

❀ ان محدثین کے حنبلی شافعی ہونے پر علماء کا اختلاف ہے اتفاق نہیں ہے۔
ان کے ’’مفتی اعظم پاکستان‘‘ رفیع عثمانی صاحب لکھتے ہیں:

’’ان چھ ائمہ حدیث کے مذاہب فقہیہ کے بارے میں علماء کے اقوال مختلف ہیں، کیونکہ ان میں سے کسی نے اپنے مذہب کی خود صراحت نہیں کی چنانچہ بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ سب کے سب علی الاطلاق ائمہ و مجتہدین ہیں، کسی کے مقلد نہیں اور بعض کا خیال ہے کہ ان میں سے کوئی مجہتد نہیں اور ان کا مذہب عامۃ المحدثین کا ہے، نہ مقلد ہیں نہ مجتہد اور بعض نے تفصیل کی ہے، پھر اس تفصیل میں بھی اختلاف ہے۔‘‘
🌿(درس مسلم ص ۷۱-۷۲، دوسر انسخہ ج ا ص ۶۰)

محدثین نے خود تو صراحت نہیں کی ، اور کرتے بھی کیسے کہ اس وقت تک یہ تقلیدی مذاہب وجود میں آئے ہی نہیں تھے۔ پس لوگوں نے اسے تختہ مشق بنا لیا ، جس نے جو سمجھا وہ بیان کر دیا۔ کسی نے چند احادیث کسی تقلیدی مذہب کی موافقت میں اور دوسرے تقلیدی مذہب کے خلاف دیکھ کر موافق مذہب کا شمار کر دیا، کسی نے چند دیگر ابواب و احادیث دیکھ کر کسی دوسرے مذہب کا بتلا دیا۔ اور مقلدین نے ان باتوں کو یوں ہاتھوں ہاتھ لیا کہ گویا یہی مقصود و مطلوب تھا۔ آیئے دیکھتے ہیں لوگوں نے بقول زکریا کاندھلوی صاحب کس طرح کھینچا تانی اور بقول نعمانی صاحب کس طرح ’’تخرص‘‘ اندازے لگائے ۔ بطور مثال ان میں سے چند ایک محد ثین سے متعلق ان کی باتیں نقل کریں گے:

سید المحد ثین امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ سب سے پہلے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ صحیح بخاری شریف کے عظیم مؤلف امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ کے متعلق مختلف لوگوں کی آراء ملاحظہ کیجئے:

🌸انور شاہ کشمیری صاحب کہتے ہیں:

واعلم أن البخارى مجتهد لاريب فيه و ما اشتهر أنه شافعى فلموا فقته اياه في المسائل المشهورة .

إلخ جان لیجئے کہ امام بخاری مجتہد تھے اس میں کوئی شک وشبہ نہیں اور یہ جو مشہور ہوا کہ وہ شافعی ہیں تو یہ مشہور مسائل میں امام شافعی کے ساتھ ان کی موافقت کی وجہ سے ہے۔

🌿(فیض الباری ۵۸/۱)

ابراہیم بن عبد اللطیف بن محمد ہاشم ٹھٹھوی صاحب لکھتے ہیں:

و اما الامام البخارى، فقد ذكر التاج السبكي في طبقاته انه ای البخاری شافعي المذهب و تعقبه العلامة نفيس الدين سليمان بن ابراهيم … فقال البخارى مجتهد براسه كأبي حنيفة والشافعي و مالك و احمد.

رہے امام بخاری تو تاج السبکی نے انھیں اپنے طبقات ( شافعیہ ) میں ذکر کیا کہ وہ شافعی تھے علامہ نفیس الدین سلیمان بن ابراہیم … نے سبکی کا تعقب کیا اور کہا : بخاری بذات خود بوحنیفہ، شافعی ، مالک اور احمد کی طرح کے مجتہد تھے۔

🌿(حق الاغبياء بحوالہ ماتمس الیہ الحاجه ص ۲۶)

زکریا کاندھلوی صاحب اپنی خاص اصطلاح میں کہتے ہیں:

’’چکی کا پاٹ یہ ہے کہ امام بخاری پختہ طور پر مجتہد تھے‘‘

🌿(تقریر بخاری ص ۵۲ ، دوسرانسخ ج ۱ص۴۱)

🌸عبدالرشید نعمانی صاحب لکھتے ہیں:
و عندى ان البخارى و ابا داؤد ايضا كبقية الائمة المذكورين ليسا مقلدين لواحد بعينه ولا من الائمة المجتهدين على الاطلاق.

میرے نزدیک امام بخاری اور امام ابو داود بھی بقیہ ائمہ مذکورین کی طرح ہیں نہ تو کسی ایک امام کے عین مقلد تھے نہ ہی علی الاطلاق ائمہ مجتہدین میں سے تھے۔

🌿(ماتمس الیہ الحاجہ ص ۲۷)

🌸مفتی رفیع عثمانی صاحب فرماتے ہیں:

’’حضرت مولانا الامام الحافظ محمد انور شاہ کشمیری  رحمتہ اللہ کی رائے بعض دلائل کی بناء پر یہ ہے کہ امام بخاری رحمتہ اللہ تو بلا شک و شبہ مجتہد مطلق ہیں اور ان کی کتاب اس پر شاہد عدل ہے‘‘

🌿(درس مسلم ص ۷۲ ، دوسر انسخه ج اص۶۰)
ان کے ’’امام اہلسنت‘‘ اور ’’محدث اعظم پاکستان‘‘ سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں:

’’اور اسی طرح امام محمد بن اسماعیل البخاری طبقات شافعیہ میں شمار ہوتے ہیں. حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ وہ بزرگ ہیں جن کے دور سالوں جزء رفع الیدین اور جزء القرآة پر فریق ثانی کی دو اختلافی مسائل میں گاڑی چلتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ حضرت امام بخاری بھی مقلد ثابت ہو گئے ۔ ‘‘

🌿(الکلام المفید ص ۱۳۸)

سرفراز خان صفدر صاحب نے سبکی کے طرز عمل کو دیکھ کر امام بخاری رحمہ اللہ کو امام شافعی کا مقلد قراردے دیا حالانکہ انور شاہ کشمیری صاحب فرماتے ہیں:
و ما اشتهر أنه شافعى فلموافقته إياه فى المسائل المشهورة وإلا فموافقته للامام الأعظم ليس أقل مما وافق فيه الشافعي فعده شافعيا باعتبار الطبقة ليس باولى من عده حنفيا .

امام بخاری کے متعلق جو مشہور ہوا کہ وہ شافعی ہیں تو یہ مشہور مسائل میں ان کی امام شافعی سے موافقت کی وجہ سے ہے وگر نہ امام اعظم (ابو حنیفہ) سے ان کی موافقت شافعی کی موافقت سے کچھ کم نہیں۔ طبقہ کے اعتبار سے انھیں شافعی شمار کرنا حنفی شمار کر دینے سے اولیٰ نہیں ہے۔

🌿(فیض الباری ۵۸)

ان کے ایک دوسرے ’’محدث کبیر‘‘ ذکریا صاحب فرماتے ہیں:

لیکن چونکہ امام بخاری احناف سے زیادہ ناراض ہیں اس لئے نمایاں طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ شافعی ہیں حالانکہ حضرت امام بخاری جتنے احناف سے ناراض ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے کچھ زیادہ شافعیہ کے خلاف ہیں۔

🌿(تقریر بخاری شریف ۵۲/۱، دوسرا نسخه ار۴۱)
سرفراز صاحب بس طبقات میں امام بخاری کا ذکر دیکھ کر خوش ہو گئے ، اہلحدیث کو ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دی پھر امام بخاری جیسے عظیم محدث کو شافعی مقلد قرار دے کر اسے’’اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ‘‘ بنا دیا۔ حالانکہ یہ محض سرفراز صاحب کی تقلید سے محبت کا کرشمہ ہے۔ کاش انھوں نے کچھ تو سوچا ہوتا کہ اپنی اس کتاب میں وہ یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ ’’یعنی اگر جاہل ہیں تو علماء کی تقلید کریں اور تقلید جاہل ہی کیلئے ہے”

🌿(الکلام المفید ص ۲۳۲)

پھر خود ہی امام بخاری کو ” مقلد” لکھ رہے ہیں عین اسی کتاب میں! کیا یہ ایک عظیم محدث کو جاہل قرار دینے کے مترادف نہیں؟ کیا یہ محدثین کی تنقیص و تو ہیں نہیں ؟
پھر کشمیری صاحب کے بقول شافعی سے زیادہ انھوں نے ابو حنیفہ کی موافقت کی ہے اور بقول ذکر یا صاحب امام بخاری جتنے احناف سے ناراض ہیں اس سے کچھ زیادہ شافعیہ کے خلاف جب معاملہ یہ ہے تو انھیں شافعی مقلد قرار دینا محض تقلید ہی کا کرشمہ ہوسکتا ہے، عدل وانصاف نہیں؟

امام بخاری رحمہ اللہ کا عظیم مقصد صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرنا ہے اور وہ انھوں نے کر دیں لیکن مقلدین میں سے کوئی اٹھ کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ احناف سے زیادہ ناراض ہیں، کوئی کہہ دیتے ہیں کہ احناف کی زیادہ موافقت کی اور شوافع سے زیادہ ناراض ہیں! سچ کہا نعمانی صاحب نے کہ یہ تخرص محض اندازے اور انکل ہیں اور تکلم من غیر برهان بے دلیل باتیں ہیں۔ اب دیکھئے کشمیری صاحب کی صراحت ہے: امام بخاری مجہتد ہیں اور نعمانی صاحب کی کہ امام بخاری مقلد نہیں ۔ لیکن اپنے اکابر کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئی تخرص و تجاذب میں مبتلا بول اٹھتا ہے:

’’امام بخاری تقلیدی حیاتی ساعی‘‘

🌿(دیکھئے ماہنامہ قافلہ ج۳ شماره ۳ ص۱۵،۱۴)

إنا لله و إنا إليه راجعون
امام ابوداود سلیمان بن الاشعث السجستانی رحمہ اللہ

ان سے متعلق بھی مختلف اقوال پائے جاتے ہیں، اُن سب کا ذکر کافی طوالت کا باعث ہوگا ، اختصار کے پیش نظر مقلدین میں سے دو شخصیات کے فرمودات بیان کرتے ہیں، اسی میں سمجھنے والوں کے لئے کافی مواد ہوگا۔ تو سنئے از کریا کاندھلوی صاحب فرماتے ہیں:

’’ابوداؤد کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ وہ پکے مضبلی ہیں ۔ چنانچہ حنابلہ نے ان کو طبقات حنابلہ میں شمار بھی کیا ہے اسی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ امام ابوداؤد نے اپنی کتاب میں البول قائما کا باب منعقد فرما کر اس کا جواز ثابت فرمایا ہے جو کہ حنابلہ کا مذہب ہے حالانکہ دوسرے ائمہ کے یہاں یہ مکروہ ہے. ایسے ہی وضو مامستہ النار سب کے نزدیک منسوخ ہے سوائے حنابلہ کے ، اسی وجہ سے امام ابو داؤد نے ترک وضو کے باب کو مقدم کر کے پھر اس باب کو ذکر کیا ہے اور آگے چل کر التشديد في ذلك کے عنوان سے مزید تا کید فرمائی ہے۔ اور وہ حدیث جس میں یہ ہے کہ حضور نے آخیر میں ممامتہ النار سے وضو کو ترک کر دیا تھا۔ اس کی تاویل امام ابوداؤد نے یہ فرمائی ہے کہ وہ ایک خاص واقعے کے متعلق ہے۔‘‘

🌿(تقریر بخاری شریف ۵۲۱، مقدمه لامع الدراری، دوسرا نسخه ج ۱ص۴۱)

مفتی سعید احمد پالنپوری استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں:

راقم کے ناقص خیال میں یہ آخری قول صحیح ہے کیونکہ سنن کے بعض تراجم جہاں امام احمد کی موافقت میں ہیں وہیں بعض انکے خلاف بھی ہیں۔ ذیل میں اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:

باکرہ بالغہ کے نکاح کے سلسلہ میں ولی کو ولایت اجبار حاصل ہے یا نہیں؟ احناف انکار کرتے ہیں، ان کے نزدیک نکاح صحیح ہونے کے لیے خود اس کی اجازت شرط ہے لیکن ائمہ ثلاثہ فرماتے ہیں کہ جب تک وہ باکرہ ہے .اگر چہ بالغہ ہو پھر بھی ولی کو ولایتِ احبار حاصل ہے۔ یعنی نکاح صحیح ہونے کے لئے اس کی اجازت شرط نہیں .امام ابو داود رحمتہ اللہ نے اپنی سنن میں اس مسئلہ کے متعلق باب رکھا ہے: باب فی البكريزوجها ابوها، ولا يستامرها اور ابن عباس رضی الله عنه کی حدیث لائے ہیں کہ ایک باکرہ لڑ کی خدمت نبوی میں حاضر ہوئی اور شکایت کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے والد نے باوجود میری ناراضگی کے میرا نکاح کر دیا، جس پر رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم لڑکی کو نکاح رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار مرحمت فرماتے ہیں۔

🌿(بذل الحجمو ص ۲۶ ج۳)

🌸علامہ کشمیری رحمتہ اللہ اس باب کے بارے میں فرماتے ہیں:

غرضه موافقة العراقيين ، و كذا يفهم من صنيع البخارى

’’امام صاحب کا مقصد اس باب سے احناف کی موافقت کرنا ہے۔ امام بخاری رحمتہ اللہ کے انداز سے بھی یہی آشکارا ہوتا ہے‘‘

◈ستر کو ہاتھ لگانے سے وضوٹوٹ جاتا ہے یانہیں؟ احناف کے نزدیک نہیں ٹونا، حنابلہ اور شوافع کے نزدیک ٹوٹ جاتا ہے۔

🌿(بدایۃ المجتھد ص ۳۹ ج ۱، انصل ص ۱۹۶ ج ۲)

امام صاحب اس سلسلہ میں پہلا باب رکھتے ہیں:
باب الوضوء من مس الذکر اور ثانیاً فرماتے ہیں: باب الرخصة في ذلك امام صاحب کی ترتیب ابواب غمازی کرتی ہے کہ وہ احناف کے موقف کی حمایت کر رہے ہیں۔

◈ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضوء جاتا رہتا ہے یا باقی رہتا ہے؟ ائمہ اربعہ کی رائے یہ ہے کہ وضو باقی رہتا ہے۔

🌿(النصل ص ۲۱۳ ج ۲)

امام صاحب نے اس مسئلہ سے متعلق پہلا باب رکھا ہے : باب في ترك الوضوء ممامست النار اور اس کے بعد فرماتے ہیں:

باب التشديد في ذلك جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امام صاحب کے نزدیک وضوء کا وجوب راجح ہے.حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہی مثال امام صاحب کے حنبلی ہونے کی تائید میں پیش فرمائی ہے لیکن آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ یہ باب تو امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کے خلاف ہے۔ پھر یہ باب امام صاحب کے حنبلی ہونے کی دلیل کیسے بن سکتا ہے؟ بلکہ یہ باب تو جمہور کے خلاف ہے!

’’مشتے نمونہ از خروارے یہ چند مثالیں پیش کی گئی ہیں اور نہ سنن میں بہت سے تراجم امام احمد رحمتہ اللہ کے مذہب کے خلاف مل جائیں گے۔ اس لئے امام صاحب کو حنبلی یا متشدد جلیلی قرار دینے کے بجائے مجتہد منتسب ماننا زیادہ صحیح ہے۔‘‘
🌿(حیات ابوداود بحوالہ مترجم سنن ابی داود ج اص ۳۰-۳۲ مطبوعہ مکتبة العلم لاہور)

دیکھئے زکریا کاندھلوی صاحب نے ایک آدھ باب دیکھ کر امام صاحب کو پکا یا متشدد خیلی قرار دے دیا۔ پھر بطور مثال سنن ابی داود سے جو باب پیش کیا وہی باب امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مؤقف کے خلاف و برعکس ہے، بقول پالنپوری صاحب: یہ اُن کے حنبلی بلکہ متشد حنبلی ہونے کی دلیل کیسے ہوسکتا ہے؟ بہر حال اس بات سے انداز لگایا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے چند ایک ابواب دیکھ کر لوگوں نے اندازے اور تخمینے لگائے ، جس کی سمجھ میں جو آیا وہ بنا بیٹھا، حالانکہ سنن ابی داود میں چند ابو اب ایسے بھی مل جائیں گے جن سے حنفی مذہب کو تقویت و تائید حاصل ہوتی ہے۔ اگر یہی معیار حنبلی ہونے کا ہے تو پھر لوگ اپنی طرف سے انھیں حنفی کیوں نہیں قرار دیتے ؟ اسی طرح مالکی مذہب کو بھی چند ابواب سے تائید مل سکتی ہے پھر انھیں ”مالکی کیوں قرار نہیں دے دیا جاتا ؟ تاج السکی تو طبقاتِ شافعیہ میں ان کا ذکر لا ہی چکے ہیں ۔

شد پریشان خواب از کثرت تعبیرها

امام مسلم بن الحجاج القشیر مکی رحمہ اللہ صحیح مسلم کے مؤلف ہیں۔ صحیح بخاری کے بعد صحیح مسلم شریف کا درجہ ہے اس کی تمام احادیث صحیح ہیں ۔ امام صاحب سے متعلق کچھ آراء ملاحظہ کیجئے:

دیو بندی مقلدین کے ’’شیخ الاسلام‘‘ شبیر احمد عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
و أما مسلم والترمذى والنسائى و ابن ماجة و ابن خزيمة و أبو يعلى والبزار و نحوهم ، فهم على مذهب أهل الحديث .

مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، ابو یعلی اور بزار اور ان جیسے دیگر ائمہ محدثین تو مذہب اہل الحدیث پر تھے، علماء میں سے کسی ایک کے متعین مقلد نہ تھے اور نہ علی الاطلاق ائمہ مجتہدین میں سے تھے۔

🌿(فتح الملهم ارا ۲۸ مطبوعہ دارالعلوم کراچی)

🌸مفتی رفیع عثمانی صاحب فرماتے ہیں:

’’اور امام مسلم اور ابن ماجہ کے بارے میں حضرت شاہ صاحب کا ارشاد یہ ہے کہ ان کا مذہب معلوم نہیں ہو سکا۔ اور ان کا شافعی ہونا مشہور ہے، اس کی بنیاد صحیح مسلم کے تراجم ہیں، جو بیشتر شافعی مذہب کے موافق ہیں، لیکن یہ بنیاد صحیح نہیں ، کیونکہ تراجم امام مسلم نے خود قائم نہیں کئے، بعد کے لوگوں نے قائم کئے ہیں۔

🌿(درس مسلم ص ۷۳۷۲، دوسرا نسخه ج ص ۶)

مفتی صاحب کی باتوں پر غور کیجئے! اندازے لگانے والوں نے کیسے کیسے اندازے لگا لئے ؟ ان کے مذہب کا اندازہ ان کی کتاب کے ابواب و تراجم سے لگا بیٹھے۔ حالانکہ وہ ابواب و تراجم خود امام مسلم نے قائم ہی نہیں کئے بلکہ بعد کے لوگوں کی محنت ہے لہذا یہ بنیاد کس قدر کمزور اور بودی ہے۔ محدثین کو مقلد ثابت کرنے کی کوششیں تقریباً انھی کمزور بنیادوں پر قائم ہیں۔ بھلا اس قدر کمزور بنیادوں پر لگائے ہوئے اندازوں کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے؟
🌸زکریا کاندھلوی صاحب لکھتے ہیں:

’’اب رہ گئے حضرت امام مسلم ان کو بعض نے شافعی اور اکثرین نے مالکی قرار دیا ہے۔‘‘

🌿(تقریر بخاری شریف ۵۲/۱، دوسرا نسخه ا۴۷)

🌸مفتی ارشاد قاسمی صاحب لکھتے ہیں:

’’امام مسلم مقدمہ فتح میں ہے کہ وہ مذہب اہلحدیث پر تھے۔ کسی کے مقلد نہیں تھے۔‘‘
🌿(ارشاد اصول الحدیث ص ۱۶۶)

🌸عبدالرشید نعمانی صاحب لکھتے ہیں:

و لعل الصواب فى هذا الباب ما نقله الشيخ طاهر الجزائري في توجيه النظر إلى اصول الاثر عن بعض الفضلاء و نصه :وقد سئل بعض البارعين في علم الاثر عن مذاهب المحدثين مرارا بذلك المعنى المشهور عند الجمهور فاجاب عماسئل عنه بجواب يوضح حقيقة الحال … اما البخاری و ابوداؤد فاما مان في الفقه و كانا من اهل الاجتهاد ، و اما مسلم والترمذى و النسائی و ابن ماجة و ابن خزيمة و ابو يعلى و البزار و نحوهم فهم على مذهب اهل الحديث ليسوا مقلدين لواحد من العلماء ولا هم من الائمة المجتهدين بل يميلون إلى قول ائمة الحديث کالشافعی و احمد و اسحاق و ابي عبيد. إلخ

امید کے کہ اس باب میں درست بات وہ ہے جو شیخ طاہر الجزائری نے توجیہ النظر الی اصول الاثر میں بعض فضلاء سے نقل کی ہے جس کی عبارت یہ ہے : علم الحدیث میں ماہر بعض لوگوں سے محدثین کے ( فقہی ) مذاہب کے متعلق کئی بار سوال کیا گیا، اس معنی میں کہ جو جمہور کے ہاں مشہور ہے تو انھوں نے اُن سے پوچھے گئے اس سوال کا ایسا جواب دیا کہ جو ’’حقیقت حال‘‘ کو واضح کرتا ہے. رہے بخاری و ابو داود تو یہ دونوں فقہ میں امام ہیں اور دونوں اہل اجتہاد میں سے ہیں، اور رہے مسلم ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، ابو یعلی اور ہزار اور ان جیسے دیگر محدثین کرام تو یہ اہل حدیث کے مذہب پر ہیں علماء میں سے کسی ایک کے متعین مقلد نہیں ہیں اور نہ یہ ائمہ مجتہدین میں سے ہیں ، بلکہ یہ لوگ ائمہ حدیث جیسے شافعی، احمد ، اسحاق، ابوعبید اور ان جیسے دیگر محدثین کے اقوال کی طرف مائل ہیں۔

🌿(ماتمس الیہ الحاجه ص ۲۶، نیز دیکھئے الکلام المفید ص ۱۲۷)

محدثین کا مذہب عدم تقلید

اس عبارت سے واضح ہے کہ صرف امام مسلم ہی نہیں بلکہ دیگر معروف محدثین جیسے امام ترمذی ، امام نسائی ، امام ابن ماجہ، امام ابن خزیمہ، امام ابو یعلی اور امام البز ار رحمہم اللہ بھی مذہب اہل حدیث پر تھے۔ ائمہ میں سے کسی ایک بھی امام کے مقلد نہ تھے، تقلید نہیں کرتے تھے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ احادیث کی معروف ترین کتب جیسے صحیح مسلم ہن ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، صحیح ابن خزیمہ، مسند ابی یعلی اور مسند البز ارمقلدین کی تالیف و جمع کردہ کتب نہیں بلکہ اہل حدیث کی جمع کردہ کتب ہیں۔ جن کا مقصد واضح نظر قرآن وسنت کی پیروی ہے کسی خاص امام سے منسوب مذہب کی حمایت ، نصرت اور وضاحت نہیں۔ اس لئے ان کتب کے مطالعہ کے دوران میں یہ بات قطعا محسوس نہیں ہوتی کہ یہ کسی خاص تقلیدی مذہب کے مطابق لکھی ہوئی ہے اور ان میں قرآن وحدیث و آثار میں سے صرف وہ چیزیں جمع کی گئی ہیں جو کسی مخصوص امام کے اجتہادات کا ماخذ ہیں۔ جبکہ کتب فقہ کے مطالعہ کے دوران میں قدم قدم پر یہ چیز محسوس ہوتی ہے خواہ وہ شوافع وحنابلہ کی کتب فقہ ہوں یا مالکیوں اور احناف کی۔

یہی وجہ ہے کہ تمام فقہی مذاہب کتب احادیث سے بلا امتیاز استفادہ کرتے ہیں اور سب کے ہاں معتبر اور مسلمہ حیثیت کی حامل ہیں۔ اگر یہ محدثین بھی تقلیدی ذہنیت کا شکار ہوتے اور تقلیدی سوچ اور فکر کو سامنے رکھتے تو یہ کتب بھی کتب فقہ کی طرح علیحدہ علیحدہ مخصوص مذاہب کی کتب بن کر رہ جاتیں اور ان میں بھی یہ بات بتکرار نظر آتی کہ یہ حدیث ہماری دلیل ہے اور یہ حدیث ہمارے خصم (دشمن ) کی دلیل ہے۔ جیسا کہ فقہ کی بعض کتاب میں اس طرح کے بٹواروں کی بھر مار ہے۔ المختصر کہ اوکاڑوی صاحب کا مطالبہ تھا کہ حدیث کی ایک بھی مستند کتاب کے مؤلف کے بارے میں صرف وہی مستند حوالہ پیش کیا جائے کہ’’کان لا يجتهد ولا يقلد‘‘ کہ نہ اس میں اجتہاد کی اہلیت تھی نہ تقلید کرتا تھا“ كما نقدم ، تو سطور بالا میں درج کسی ایک کتاب حدیث سے متعلق کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تو مستند کتاب ہے ہی نہیں۔ اور ان کے مؤلفین سے متعلق ہم شیخ طاہر الجزائری، پھر مقلدین کے شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی صاحب اور ان کے امام اہل سنت محدث اعظم پاکستان سرفراز خان صفدر صاحب، ان کے المحدث الكبير عبدالرشید نعمانی صاحب ، مفتی ارشاد قاسمی کی کتب کے حوالے پیش کر چکے ہیں جن میں اس بات کی صراحت ہے کہ ’’ليسوا مقلدين لواحد من العلماء ولا هم من ائمة المجتهدین‘‘ نہ کسی ایک امام کے مقلد تھے اور نہ مجتہدین میں سے تھے۔ گویا امین اوکاڑوی اور ان کے چاہنے والوں کی منہ مانگی مراد پوری ہو گئی۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی دیوبندی مکتبہ فکر سے وابستہ مقلد ان توالوں کو غیر مستند و غیر معتبر کہ دے۔ ’’لعل الله يحدث بعد ذلك امرا‘‘

طبقات المقلدین؟

اوکاڑوی صاحب اور ان کی نقل میں مفتی ممتاز صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ آج تک کسی نے ’’طبقات غیر المقلدین‘‘ نام کی کوئی کتاب نہیں لکھی ۔ ہم عرض کرتے ہیں کیا کسی مسلم محدث یا مورخ نے ’’طبقات المقلدین‘‘ نام کی بھی کوئی کتاب لکھی ہے؟

اوکاڑوی صاحب تو نہیں رہے ”مفتی احمد ممتاز اور دیگر محبین اوکاڑوی بتلائیں کہ کبھی آپ نے طبقات کے نام سے موجود کتب کا بغور مطالعہ بھی کیا ہے؟ ان کا تحقیقی جائزہ بھی لیا ہے؟ اگر آپ ان پر سرسری نظر بھی ڈالیں تو واضح ہوگا کہ ایسے کتنے ہی محدث ہیں کہ جن کا ذکر خیر مختلف طبقات میں پایا جاتا ہے، ایک ہی محدث کو طبقات شافعیہ میں بھی ذکر کیا گیا ہے تو طبقات حنابلہ یا مالکیہ میں بھی محض ان طبقات میں کسی کا ذکر آجانے سے اُس کا مقلد ہونا اور آپ مقلدین کی طے کردہ اصول و شرائط کے مطابق مقلد ہونا قطعا لازم نہیں آتا۔

چونکہ ان طبقات میں تو شاگردی کی نسبت سے بھی محدثین کا ذکر آ گیا ہے کہ کوئی امام مالک کے شاگرد ہیں یا شاگردی کا سلسلہ اُن تک پہنچتا ہے، اسی طرح امام احمد بن حنبل یا شافعی کے شاگرد ہیں یا شاگردی کا سلسلہ اُن تک جا پہنچتا ہے۔ محض تلمذ وشاگردی سے مقلد ہو جانا کیسے لازم آیا ؟ دور نہ جائیے آپ امام طحاوی کو لے لیجئے حنفی معروف ہیں اور ہیں بھی، لیکن تقلیدی و مقلد حفی؟! ہر گز نہیں ۔ چونکہ یہ امام طحاوی ہی ہیں کہ (کہا جاتا ہے :) جنھوں نے یہ فرمایا تھا: ’’لا يقلد الاعصبي أو غبي‘‘ کہ تقلید یا تو متعصب آدمی کرتا ہے یا غبی ! ۔ اور ان کی یہ بات مصر میں ضرب المثل بن چکی تھی ۔

🌿(لسان المیزان ار۲۸۰، دوسرا نسخه ار۴۲۰)

کیا امام طحاوی جیسے محدث مقلد ہیں؟ کیا اپنے ہی قول کے مطابق متعصب یا غجمی ہیں؟ ہم تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ آپ نبی یعنی احمق ہوں! لیکن انھیں مقلد کہنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ ان کے قول کے مطابق تو ایسا ہی ہے۔ حالانکہ عبد القادر الرافعی الکلی صاحب نے لکھا:

’’و قد نقل أبو بكر القفال و أبو علي والقاضي حسين من الشافعية أنهم قالوا لسنا مقلدين للشافعى بل وافق رأينا رأيه ، وهو الظاهر من حال الامام أبي جعفر الطحاوي في أخذه بمذهب أبي حنيفة و احتجاجه له و انتصاره لاقوالہ‘‘

اور اس نے نقل کیا کہ شوافع میں سے ابوبکر القفال ابو علی اور قاضی حسین نے کہا: ہم امام شافعی کے مقلد نہیں بلکہ ہماری رائے ان کی رائے کے موافق ہوگئی ہے۔ اور یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امام ابو جعفر الطحاوی کے حال سے کہ ان کا ابوحنیفہ کے مذہب کو اپنا نا ان کے لئے حجت لانا اور ان کی نصرت کرنا تقلید نہیں تھا (بلکہ ان کی رائے ابو حنیفہ کی رائے کے موافق تھی)

🌿(تقریرات الرافعی علی حاشیتہ ابن عابدین 11/1 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)
دیکھئے ابوبکر القفال ، ابو علی اور قاضی حسین شافعی تو ہیں مگر بنقل رافعی وہ فرماتے ہیں ہم شافعی کے مقلد نہیں، یعنی اُن کی رائے تحقیق پر مبنی تھی ۔ دلائل سے ماخوذ تھی تقلید نہیں تھی ، نہ وہ مقلد کہلایا جانا پسند کرتے تھے اور بقول رافعی یہی امام طحاوی کے حنفی ہونے کا حال تھا۔
🌸مفتی سعید احمد پالنپوری صاحب لکھتے ہیں:
’’اور علامہ قاسم نے ایک دوسرے رسالہ میں لکھا ہے کہ میں بفضلہ تعالیٰ وہی بات کہتا ہوں جو امام طحاوی رحمہ اللہ (۱۷) نے ابن حربویہ سے کی تھی کہ لا يقدد الأعصبي اوغبي (تقلید یا تو متعصب آدمی کرتا ہے یا نجی !)‘‘

🌿(آپ فتوی کیسے دیں؟ ص۸۲)
جی ہاں ابن قطلو بغا حنفی تھے لیکن مقلد نہیں تھے۔ معلوم ہوا کہ محض حنفی طبقہ سے ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ مقلد ہی ہوں؟ اسی طرح کسی بھی طبقہ میں ذکر ہونے سے کسی کا بھی مقلد ہونالازم نہیں آتا۔

علامہ زیلعی معروف حنفی تھے لیکن خود فرماتے ہیں:

’’فالمقلد ذهل والمقلد جهل‘‘

مقلد غافل ہوتا ہے مقلد جاہل ہوتا ہے۔

🌿(نصب الراین اص ۲۸۷ مطبوعہ پشاور ۱۸۱۷۱ مطبوعہ بیروت)

اس طرح علامہ عینی بھی حنفی تھے، انھوں نے کہا: پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کا ارتکاب کرتا ہے اور ہر چیز کی مصیبت تقلید کی وجہ سے ہے۔
🌿(دیکھئے البنا یہ فی شرح الہدایہ ج اص ۳۱۷)

اس کے باوجود بھی محض حنفی ہونے کی وجہ سے انھیں مقلد قرار دینا خود ان کے قول سے باطل ہے۔ یہ تو انھیں دور خا ثابت کرنے کے مترادف ہے۔
اسی طرح علامہ ابن عبدالبر جو اپنی معروف کتاب ’’جامع بیان العلم‘‘ میں فساد تقلید کا باب قائم فرما کر اس کا رد کرتے ہیں۔ لوگ انھیں بھی مالکی مقلد ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ ابن القیم رحمہ اللہ جیسے تقلید کے معروف مخالف جنھوں نے اعلام الموقعین میں کئی وجوہات سے تقلید کو باطل ثابت کیا ، تقلید کے نام نہاد دلائل کے بے ادھیڑ دیئے لیکن کتنے ہی لوگ انھیں جنیلی مقلد ثابت کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔

اب جن اہل علم سے واضح طور پر تقلید کار دو مذمت ثابت ہے لوگ انھیں بھی مقلد کہے بغیر چین نہیں لے پاتے تو دیگر اہل علم سے متعلق تو مقلدین کوگو یا کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے جو من میں آئے کرتے پھریں۔ لیکن ان کا طبقات کو دیکھ کر خوش ہونے اور ان میں مذکور محدثین و علماء کو مقلدین خیال کرنا محض خام خیالی ہے۔ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اگر کچھ کمال دکھلانا چاہتے ہیں تو انھیں چاہئے کہ ’’طبقات المقلدین‘‘ نامی کتابیں دریافت کر لائیں اوگر نہ ان کی کھینچا تانی ’’تخرص‘‘ اور ’’بے دلیل کلام‘‘ کو کون سنتا ہے!

🌿(۲۷ / ذوالحجبه ۱۴۵۱۴۳۰ / دسمبر ۲۰۰۹ء)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے