سوال
خضاب لگانے کا کیا حکم ہے؟ خصوصاً کالے خضاب کا؟
الجواب
سفید بالوں میں خضاب لگانے کے حوالے سے مختلف احادیث ہیں، جن میں بعض میں اس کا حکم دیا گیا ہے اور بعض میں ممانعت آئی ہے۔
خضاب کے استعمال کا حکم:
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’غَيِّرُوا الشَّيْبَ وَلَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ.‘‘
(جامع ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء فی الخضاب)
"بڑھاپے کی سفیدی کو بدل دو، یہود جیسے نہ بنو۔”
اسی مضمون کی احادیث بخاری، مسلم، ابوداؤد، اور نسائی میں بھی ملتی ہیں۔ علماء نے ان احادیث کو مختلف حالات پر محمول کیا ہے۔
احادیث میں تطبیق:
علامہ طبریؒ فرماتے ہیں کہ جن احادیث میں سفیدی کو بدلنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ ان لوگوں کے لیے ہیں جن کے سارے بال سفید ہو چکے ہوں۔ جبکہ ممانعت ان لوگوں کے لیے ہے جن کے ابھی چند بال ہی سفید ہوئے ہوں۔
اس سلسلے میں دونوں نقطہ ہائے نظر وجوب کے لیے نہیں ہیں، یعنی یہ احادیث لازمی حکم نہیں دیتیں بلکہ ترغیب اور بہتر عمل کی نشاندہی کرتی ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل:
کچھ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب استعمال کیا، جبکہ بعض احادیث میں آتا ہے کہ آپؐ نے خضاب استعمال نہیں کیا۔ علماء کے مطابق، آپؐ اکثر خضاب استعمال نہیں کرتے تھے، مگر بسا اوقات استعمال کرتے تھے۔
خضاب کے مواد:
صدرِ اول میں حنا (مہندی)، زعفران، ورس (زرد رنگ کا پودا)، اور کتم (سرخی مائل سیاہ رنگ کا پودا) خضاب کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ مختلف صحابہ کرام جیسے حضرت عمر بن الخطابؓ، حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت علیؓ، اور دیگر صحابہ سے مختلف رنگوں کے خضاب کا استعمال منقول ہے۔
کالے خضاب کا حکم:
کالے خضاب کے بارے میں فقہاء میں اختلاف ہے:
◄ شوافع عام حالات میں کالے خضاب کو حرام کہتے ہیں۔
◄ مالکیہ، حنابلہ، اور احناف کالے خضاب کو مکروہ سمجھتے ہیں، لیکن اسے مکمل طور پر حرام نہیں کہتے۔
◄ قاضی ابو یوسفؒ کالے خضاب کے جواز کے قائل ہیں، جبکہ بعض علماء جیسے حافظ ابن حجرؒ نے سیاہ خضاب کے استعمال کو بعض حالات میں جائز قرار دیا ہے۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ کے والد کا واقعہ:
ایک مشہور واقعہ فتح مکہ کے موقع پر پیش آیا، جب حضرت ابو بکرؓ کے والد حضرت ابو قحافہؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا۔ ان کے بال مکمل سفید ہو چکے تھے، تو آپؐ نے فرمایا:
"غَيِّرُوا هَذَا بِشَيْءٍ وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ”
(صحیح مسلم)
"اس کی سفیدی کو کسی چیز سے بدل دو، البتہ سیاہ رنگ سے بچو۔”
علماء کے نزدیک اس ممانعت کو حرمت اور بعض نے کراہت پر محمول کیا ہے، اور یہ خاص اس صورت کے لیے تھا جب زیادہ سفید بال بُرے لگنے لگیں۔
صحابہ کرام اور تابعین کا عمل:
کالے خضاب کا استعمال کئی صحابہ کرام جیسے حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، اور بعض تابعین جیسے ابن سیرینؒ اور محمد بن اسحاقؒ سے ثابت ہے۔ البتہ ان کا استعمال زیادہ تر جوانی میں ہوتا تھا اور بڑھاپے میں اسے ترک کر دیتے تھے۔
خلاصۂ حکم:
سفید بالوں میں خضاب کا استعمال مستحب ہے، خاص طور پر حنا اور زرد رنگ کا۔
کالے خضاب کے استعمال میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ عام حالات میں کالے خضاب سے بچنا بہتر ہے، مگر بعض علماء نے اسے مکروہ قرار دیتے ہوئے اجازت دی ہے، خاص حالات میں جیسے جنگ یا خوف کی حالت میں۔
وضو اور طہارت کا مسئلہ:
خضاب کے مادہ کو دھونے کے بعد اس کا رنگ بالوں پر باقی رہ جائے تو وہ طہارت کے لیے مانع نہیں سمجھا جاتا۔ اس لیے خضاب لگانے والے کا وضو اور غسل درست ہے۔
نتیجہ:
خضاب کے استعمال میں سنت کے مطابق عمل کرنا بہتر ہے۔ رنگ کا انتخاب کرتے وقت احادیث اور علماء کے اقوال کو مد نظر رکھتے ہوئے اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، خاص طور پر کالے خضاب سے متعلق، تاکہ کسی بھی قسم کے شرعی اختلاف سے بچا جا سکے۔