حنفی حضرات ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ جہاں صالحین کا ذکر ہوتا ہے وہاں رحمت نازل ہوتی ہے۔ اس روایت کو بنیاد بنا کر وہ یہ مؤقف اختیار کرتے ہیں کہ احادیث بیان کرنے کی بجائے اولیاء و صلحاء کے فضائل و مناقب بیان کرنا افضل ہے، کیونکہ ان کے ذکر کے وقت رحمت اترتی ہے۔ لیکن جب ہم اس روایت کے مصادر اور اس کی سند کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ یہ روایت سنداً ثابت نہیں ہے اور ائمہ محدثین نے اسے موضوع یا کم از کم غیر معتبر قرار دیا ہے۔
حنفی حضرات کی پیش کردہ دلیل
حنفی حضرات ابن المبارکؒ کے حوالے سے روایت پیش کرتے ہیں:
عربی متن:
قال الحسن بن الربيع: رأيت ابن المبارك جالساً مع أصحابه وهو يذكر فضل علي بن فضيل، فقال له بعض أصحاب الحديث: حديث كذا؟ فقال: دعنا منك، فإني سمعت محمد بن النضر الحارثي يقول: عند ذكر الصالحين تنزل الرحمة.
ترجمہ:
امام حسن بن ربیع کہتے ہیں: میں نے عبداللہ بن مبارک کو اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے دیکھا، وہ علی بن فضیل کے فضائل بیان کر رہے تھے۔ اس دوران ایک شخص نے ان سے کہا: ”حدیث سنائیے“، تو ابن مبارک نے جواب دیا: ”مجھے چھوڑو، میں نے محمد بن نضر حارثی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ صالحین کے ذکر کے وقت رحمت نازل ہوتی ہے۔“
حنفی حضرات دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ روایت سنداً صحیح ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ اولیاء و صلحاء کے ذکر پر رحمت اترتی ہے، لہٰذا احادیث سنانے کے بجائے ان کے مناقب کا بیان افضل ہے۔
روایت کا تحقیقی جائزہ
1️⃣ پہلا طریق (فضائل أبی حنیفہ وأخباره ومناقبه)
یہ روایت دراصل ابن ابی العوام کی کتاب فضائل أبی حنیفہ وأخباره ومناقبه سے لی گئی ہے۔
-
عبداللہ بن محمد بن احمد بن یحییٰ (ابن ابی العوام): مجہول الحال
-
اس کا بیٹا محمد بن عبداللہ: مجہول الحال
-
پوتا احمد بن محمد القاضی: مجہول
-
ابو بشر الدولابی: ضعیف
📍 نتیجہ: سند مجہولین اور ایک ضعیف راوی پر مشتمل ہے، اس لئے روایت مردود ہے۔
2️⃣ دوسرا طریق (كرامات الأولياء للالكائي)
اس سند میں بھی ایک راوی احمد بن محمد بن مسروق پایا جاتا ہے، جس کے بارے میں امام دارقطنی نے کہا:
ليس بالقوي، يأتي بالمعضلات
یعنی ”یہ مضبوط راوی نہیں، مشکل اور مشکوک روایات بیان کرتا ہے“۔
📕 (سؤالات حمزة بن يوسف السهمي)
📍 نتیجہ: اس سند میں بھی ضعف پایا جاتا ہے۔
3️⃣ ائمہ کی صریح رائے
-
ملا علی قاری حنفی نے اس روایت کو اپنی کتاب الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة میں موضوع کہا ہے اور حافظ ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے نقل کیا:
لا أصل له
یعنی ”اس روایت کی کوئی اصل نہیں“۔ -
پھر ملا علی قاری نے تاویل پیش کی کہ اگر اس روایت کو مان بھی لیا جائے تو اس سے مراد نیک صالحین میں سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کا ذکر اور آپ کی احادیث کا بیان ہے۔
4️⃣ محمد بن نضر حارثی کا ایک اور قول
اسی محمد بن نضر حارثی سے یہ قول بھی ثابت ہے:
من أصغى بسمعه إلى صاحب بدعة … وُكِل إلى نفسه وخرج من عصمة الله
📕 (الإبانة الكبرى لابن بطة)
ترجمہ: ”جو شخص کسی بدعتی کی بات کان لگا کر سنتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ بدعتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی حفاظت سے نکال کر اسی بدعتی کے حوالے کر دیتا ہے۔“
📍 نتیجہ: خود محمد بن نضر حارثی بدعتیوں سے دور رہنے کی تعلیم دیتے ہیں، تو انہی کے نام پر بدعتی روایت پیش کرنا دوہرا دھوکہ ہے۔
خلاصہ
-
صالحین کے ذکر سے رحمت اترنے والی روایت سنداً ثابت نہیں، اس میں مجہول و ضعیف راوی پائے جاتے ہیں۔
-
ائمہ محدثین (ابن حجر، ملا علی قاری) نے اسے بے اصل اور موضوع کہا ہے۔
-
اگر تاویل کی جائے تو اس کا اطلاق صرف اور صرف رسول اللہ ﷺ اور آپ کی حدیث کے بیان پر ہوگا، نہ کہ قبروں کے مجاوروں اور بعد کے خود ساختہ اولیاء کے فضائل پر۔
-
خود محمد بن نضر حارثی بدعتیوں کی مجلس سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں، لہٰذا بدعتی حضرات کا اس روایت کو دلیل بنانا ان کے قول کے سراسر خلاف ہے۔
🔴 حتمی بات:
اہلِ حدیث کے نزدیک دین صرف صحیح سند والی روایت سے ثابت ہوتا ہے۔ غیر ثابت قصوں اور موضوع روایات کو بنیاد بنا کر اولیاء کے ذکر کو احادیث کے مقابلے میں پیش کرنا اصولِ شریعت اور اصولِ حدیث دونوں کے خلاف ہے۔
اہم حوالوں کے سکین