وعن أنس رضى الله عنه ، قال: صليت مع النبى صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر وعثمان فلم أسمع أحدا منهم يقرأ بسم الله الرحمن الرحيم
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: ”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ نماز پڑھی میں نے ان میں سے کسی ایک کو بسم الله الرحمن الرحيم پڑھتے ہوئے نہیں سنا ۔
تحقيق و تخریج: مسلم 399
وفي رواية الأوزاعي عن قتادة ، أنه كتب إليه يخبره عن أنس (بن مالك)، أنه حدثه قال: صليت خلف النبى صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر وعثمان فكانوا يستفتحون بالحمد لله ربالعالمين ، لا يذكرون بسم الله الرحمن الرحيم فى أول قراءة ولا فى آخرها
اوزاعی کی روایت میں قتادہ کے حوالے سے مذکور ہے کہ انہوں نے اس کی طرف خط لکھا ، آپ اسے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے حوالے سے خبر دیتے ہیں کہ انہوں نے اسے بتایا فرمایا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی وہ قرآت کا آغاز الحمد لله رب العالمين سے کیا کرتے تھے قرآت کے شروع یا آخر میں بسم الله الرحمن الرحيم نہیں کہا کرتے تھے ۔
تحقیق و تخریج: مسلم: 399 ، بحواله اوزاعی
وعن نعيم المجمر، قال: صليت وراء أبى هريرة رضى الله عنه فقرأ بسم الله الرحمن الرحيم، ثم قرأبأم القرآن حتى بلغ ولا الضالين؛ فقال: آمين؛ فقال الناس: آمين. [وكان] يقول كلما سجد: الله أكبر، فإذا قام من الجلوس (قال): الله أكبر، ويقول إذا سلم: والذي نفسي بيده إني لا شبهكم صلاة برسول الله صلى الله عليه وسلم
نعیم مجمر سے روایت ہے فرمایا: ”میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی آپ نے بسم الرحمن الرحيم پڑھی اور پھر سورۃ فاتحہ پڑھی یہاں تک کہ آپ ولا الضالين تک پہنچے تو آپ نے آمین کہا لوگوں نے بھی آمین کہا ، جب بھی آپ سجدہ کرتے تو اللہ اکبر کہتے جب آپ بیٹھنے سے اٹھتے تواللہ اکبر کہتے ، جب آپ سلام پھیرتے تو فرماتے: ”مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ۔ میں تم میں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے مشابہت رکھتا ہوں ۔“ اس کو حافظ ابومحمد بن جارود نے نکالا ہے اور دارقطنی اور بیہقی نے نکالا ہے اور انہوں نے ذکر کیا کہ اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں ۔
تحقیق و تخریج: یہ حدیث صحیح ہے ۔
النسائی: 2/ 134 ، ابن خزیمه: 499 ، الدارقطنی: 1/ 306، 305 کہتے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے سارے راوی ثقہ ہیں ۔ البیهقی: 58/2 ، مستدرک حاکم: 1/ 232 ، حاکم نے اس حدیث کو شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے علامہ ذہبی نے اس سے اتفاق کیا ہے ۔
فوائد:
➊ بسم الله الرحمن الرحيم بالاتفاق ہر سورت کا حصہ ہے ۔
➋ نماز میں قراءت کے وقت بسم الله الرحمن الرحيم سے ابتداء کی جائے گی یعنی سورۃ الفاتحہ سے قبل اور ہر سورت سے قبل بسم الله پڑھی جائے گی ۔
➌ نماز میں بسم الله بلند آواز سے پڑھنے یا آہستہ آواز سے پڑھنے میں اختلاف ہے ۔ محدثین کے نزدیک آہستہ آواز سے پڑھنا بہتر ہے جبکہ بلند آواز سے پڑھ لینا بھی جائز ہے ۔ راجح بات بھی یہی ہے کہ بسم الله بلند آواز میں پڑھی جائے ۔ احناف بلند آواز سے پڑھنے کے قائل نہیں ہیں ۔
➍ یہ جو مختلف روایات ہیں ان میں تعارض نہیں ہے ۔ کوئی بسم اللہ بلند آواز سے پڑھنے پر دال ہے تو کوئی آہستہ آواز سے پڑھنے پر ۔
➎ ام الکتاب یا فاتحه الکتاب یہ سورۃ الفاتحہ کے نام ہیں آمين امام و ماموم دونوں کے لیے جائز ہے کہ وہ اونچی آواز سے کہیں ۔
➏ ہر خفض ، رفع پر تکبیر ہے ۔ تکبیر ایک سے دوسرے رکن میں داخل ہونے کی اطلاع دیتی ہے ۔ امام کے لیے ضروری ہے کہ تکبیر کو واضح کر کے کہے تاکہ مقتدی وقت پر اس کی اقتداء کر سکیں ۔
➐ کسی قول و فعل کو مزید پختہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھانا درست ہے ۔
➑ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ صلوۃ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ماہر تھے اور ان کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے اقرب تھی ۔
➒ تمام نفوس اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: ”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ نماز پڑھی میں نے ان میں سے کسی ایک کو بسم الله الرحمن الرحيم پڑھتے ہوئے نہیں سنا ۔
تحقيق و تخریج: مسلم 399
وفي رواية الأوزاعي عن قتادة ، أنه كتب إليه يخبره عن أنس (بن مالك)، أنه حدثه قال: صليت خلف النبى صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر وعثمان فكانوا يستفتحون بالحمد لله ربالعالمين ، لا يذكرون بسم الله الرحمن الرحيم فى أول قراءة ولا فى آخرها
اوزاعی کی روایت میں قتادہ کے حوالے سے مذکور ہے کہ انہوں نے اس کی طرف خط لکھا ، آپ اسے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے حوالے سے خبر دیتے ہیں کہ انہوں نے اسے بتایا فرمایا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی وہ قرآت کا آغاز الحمد لله رب العالمين سے کیا کرتے تھے قرآت کے شروع یا آخر میں بسم الله الرحمن الرحيم نہیں کہا کرتے تھے ۔
تحقیق و تخریج: مسلم: 399 ، بحواله اوزاعی
وعن نعيم المجمر، قال: صليت وراء أبى هريرة رضى الله عنه فقرأ بسم الله الرحمن الرحيم، ثم قرأبأم القرآن حتى بلغ ولا الضالين؛ فقال: آمين؛ فقال الناس: آمين. [وكان] يقول كلما سجد: الله أكبر، فإذا قام من الجلوس (قال): الله أكبر، ويقول إذا سلم: والذي نفسي بيده إني لا شبهكم صلاة برسول الله صلى الله عليه وسلم
نعیم مجمر سے روایت ہے فرمایا: ”میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی آپ نے بسم الرحمن الرحيم پڑھی اور پھر سورۃ فاتحہ پڑھی یہاں تک کہ آپ ولا الضالين تک پہنچے تو آپ نے آمین کہا لوگوں نے بھی آمین کہا ، جب بھی آپ سجدہ کرتے تو اللہ اکبر کہتے جب آپ بیٹھنے سے اٹھتے تواللہ اکبر کہتے ، جب آپ سلام پھیرتے تو فرماتے: ”مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ۔ میں تم میں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے مشابہت رکھتا ہوں ۔“ اس کو حافظ ابومحمد بن جارود نے نکالا ہے اور دارقطنی اور بیہقی نے نکالا ہے اور انہوں نے ذکر کیا کہ اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں ۔
تحقیق و تخریج: یہ حدیث صحیح ہے ۔
النسائی: 2/ 134 ، ابن خزیمه: 499 ، الدارقطنی: 1/ 306، 305 کہتے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے سارے راوی ثقہ ہیں ۔ البیهقی: 58/2 ، مستدرک حاکم: 1/ 232 ، حاکم نے اس حدیث کو شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے علامہ ذہبی نے اس سے اتفاق کیا ہے ۔
فوائد:
➊ بسم الله الرحمن الرحيم بالاتفاق ہر سورت کا حصہ ہے ۔
➋ نماز میں قراءت کے وقت بسم الله الرحمن الرحيم سے ابتداء کی جائے گی یعنی سورۃ الفاتحہ سے قبل اور ہر سورت سے قبل بسم الله پڑھی جائے گی ۔
➌ نماز میں بسم الله بلند آواز سے پڑھنے یا آہستہ آواز سے پڑھنے میں اختلاف ہے ۔ محدثین کے نزدیک آہستہ آواز سے پڑھنا بہتر ہے جبکہ بلند آواز سے پڑھ لینا بھی جائز ہے ۔ راجح بات بھی یہی ہے کہ بسم الله بلند آواز میں پڑھی جائے ۔ احناف بلند آواز سے پڑھنے کے قائل نہیں ہیں ۔
➍ یہ جو مختلف روایات ہیں ان میں تعارض نہیں ہے ۔ کوئی بسم اللہ بلند آواز سے پڑھنے پر دال ہے تو کوئی آہستہ آواز سے پڑھنے پر ۔
➎ ام الکتاب یا فاتحه الکتاب یہ سورۃ الفاتحہ کے نام ہیں آمين امام و ماموم دونوں کے لیے جائز ہے کہ وہ اونچی آواز سے کہیں ۔
➏ ہر خفض ، رفع پر تکبیر ہے ۔ تکبیر ایک سے دوسرے رکن میں داخل ہونے کی اطلاع دیتی ہے ۔ امام کے لیے ضروری ہے کہ تکبیر کو واضح کر کے کہے تاکہ مقتدی وقت پر اس کی اقتداء کر سکیں ۔
➐ کسی قول و فعل کو مزید پختہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھانا درست ہے ۔
➑ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ صلوۃ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ماہر تھے اور ان کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے اقرب تھی ۔
➒ تمام نفوس اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]