سوال:
کیا نماز استسقاء مسنون ہے؟
جواب:
بارش مولائے کریم کی بہت بڑی نعمت ہے، اسے بارانِ رحمت کہتے ہیں، انسانی وجود کی بقا اسی پر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے مؤخر کر دیں تو خشک سالی ڈیرے ڈال لیتی ہے، جاندار کئی ایک بیماریوں کی زد میں آجاتے ہیں، خوراک کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اسلام نے اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کا درس دیا ہے اور وہ نماز استسقاء کی صورت میں ہے۔ استسقاء پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش نہ ہونے کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدگاہ میں منبر رکھنے کا حکم فرمایا، وہ رکھ دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن مقرر کیا، اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورج طلوع ہوتے ہی نکلے اور منبر پر جلوہ افروز ہو گئے۔ اللہ کی بڑائی اور حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: آپ نے خشک سالی اور قحط کی شکایت کی ہے، اللہ کا وعدہ ہے کہ اسے پکاریں گے، تو وہ قبول کرے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا شروع کی: تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے خاص ہیں، وہ رحمان و رحیم ہے، روز جزا کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی اللہ نہیں، جو چاہے کرتا ہے۔ اللہ! تو ہی معبود برحق ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تو غنی اور ہم محتاج۔ ہم پر بارش نازل فرما، اسے ہمارے لیے تا دیر طاقت و نفع کا سبب بنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ بلند کیے اور اتنے بلند کیے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمر مبارک لوگوں کی طرف کی اور ہاتھ اٹھائے ہوئے اپنی چادر پلٹی، لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور نیچے اتر کر دو رکعتیں پڑھیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک بدلی پیدا کی، وہ کڑکی، گرجی اور برسی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں واپس نہ آئے تھے کہ نالیاں بہہ پڑیں۔ لوگوں کو پناہ گاہوں کی طرف دوڑتے دیکھا تو ہنس دیے، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔ فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں۔
(سنن أبی داود: 1173، وسندہ حسن)
❀ امام ابوداؤد رحمہ اللہ (275ھ) فرماتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے، لیکن اس کی سند بہترین ہے۔
اس حدیث کو امام ابوعوانہ رحمہ اللہ (316ھ)(2519)، امام ابن حبان رحمہ اللہ (354ھ) (2860) نے صحیح، اور امام حاکم رحمہ اللہ (405ھ) نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) نے ان کی شرط برقرار رکھی ہے۔
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
(الأذكار: ص 160)
❀ علامہ امیر صنعانی رحمہ اللہ (1182ھ) فرماتے ہیں:
الحديث دليل على مشروعية الصلاة للإستسقاء، وعليه اتفق العلماء إلا أبا حنيفة.
یہ حدیث نماز استسقاء کی مشروعیت پر دلیل ہے، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ تمام اہل علم کا اس پر اتفاق و اجماع ہے۔
(التحبير لإيضاح معاني التيسير: 6/99)
سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إن النبي صلى الله عليه وسلم استسقى، فصلى ركعتين وقلب رداءه.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش طلب کرنے کے لیے دو رکعت ادا کیں اور اپنی چادر کو پلٹا۔
(صحیح البخاری: 1026، صحیح مسلم: 2/894)
ایک روایت میں ہے:
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن دیکھا جب نماز استسقاء کے لیے نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف کمر مبارک کی اور دعا کرتے ہوئے قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے، اپنی چادر پلٹی اور اونچی قرأت کے ساتھ دو رکعتیں پڑھائیں۔
(صحیح البخاری: 1025، صحیح مسلم: 4/894)